علم بے عشق کے خطرناک نتائج، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

علم بے عشق کے خطرناک نتائج
بے خدا سائنس خدا کا انکار کرنے کے بغیر خدا کو نظر انداز کرتی ہے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اس طرح سے سوچنے اور کام کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ گویا خدا موجود نہیں اور یہ نقطہ نظر خدا کے انکار سے بدتر ہے۔ بے خدا سائنس نے ہی اس نامعقول اور بے بنیاد عقیدہ کو رواج دیا ہے کہ معیاری فلسفہ وہی ہے جس میں خدا ایک حقیقت کے طور پر مذکور نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بے خدا سائنس کے اس زمانہ میں کائنات کے جس قدر فلسفے پیدا ہوئے ہیں مثلاً ڈارونزم، مارکسزم، میکڈوگلزم، فرائڈزم، ایڈلرازم، بی ہیویرازم، لاجیکل پازیٹوزم، ہیومنزم وغیرہ۔ وہ سب بے خدا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بے خدا سائنس کے اس زمانہ میں انسانی فطرت اور انسانی افعال و اعمال کے جس قدر نظریات وجود میں آئے ہیں۔ وہ بھی سب کے سب بے خدا ہیں۔ مثلاً بے خدا فلسفہ سیاست، بے خدا فلسفہ اخلاق، بے اخدا اقتصادیات، بے خدا قانون، بے خدا فلسفہ تعلیم، بے خدا فلسفہ تاریخ، بے خدا نفسیات فرد، اور بے خدا نفسیات جماعت، لہٰذا سائنس کا بے خدا ہونا کوئی معمولی سا، معصوم سا اور بے ضرر سا حادثہ نہیں۔ جو صرف کتابوں میں ہی رونما ہوا ہو۔ اس نے انسان کی کتابوں کو ہی نہیں بدلا۔ بلکہ اس کے مقصدوں، قدروں، منصوبوں، امیدوں، آرزوؤں اور حق و باطل خوب و زشت اور نیک و بد کے پیمانوں اور معیاروں کو بدل کر اس کے اعمال و افعال کو بھی بدل ڈالا ہے۔ انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے وہی کرتا ہے۔ اگر اس کے افکار و آراء اور تصورات اور نظریات بے خدا ہوں تو پھر اس کے اعمال و افعال کا بے خدا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا سائنس کا بے خدا ہو جانا عالم انسان کا بہت بڑا حادثہ ہے جس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے۔ اسی کی وجہ سے اب دنیا میں کوئی ایسی ہمہ گیر اخلاقی اور روحانی قوت باقی نہیں رہی جو اندر سے انسانی اعمال کو ضبط میں لا کر صحیح راستہ پر ڈال سکے۔ یہی حقیقت ہے جو دور حاضر کے انسان کی تمام بد قسمتیوں اور پریشانیوں کا موجب ہے۔ مثلاً آزاد جنسیت کی وجہ سے اہلی زندگی کا بگاڑ، طفولیتی بے راہ روی، علم اور استاد کے احترام کا زوال اور علمی درسگاہوں کے ضبط و نظم کا فقدان، اقتصادی خوشحالی کے باوجود اطمینان قلب سے محرومی، ذہنی بیماریوں، خود کشیوں اور جرموں کی روز افزوں تعداد، سیاست دانوں کے جھوٹ اور فریب، سیاسی سازشیں اور ان سے پیدا ہونے والے سیاسی قتل اور سیاسی انقلابات، قومی اور بین الاقوامی معیار اخلاق کی پستی، میزائلوں اور ایٹم بموں کے چڑھتے ہوئے انبار، عالمگیر جنگوں کا ایک سلسلہ جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اگر سائنس باخدا ہو جائے تو یہ سب مقاصد اور مصائب ختم ہو جائیں اور آسمان کے نیچے ایک ارضی جنت وجود میں آ جائے۔
سائنس اور عشق کی گفتگو
اقبال نے اس مضمون کو سائنس اور عشق کی ایک گفتگو کی صورت میں بیان کیا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ میری نگاہ پوری کائنات کی راز دار ہے اور زمانہ میری کمند میں گرفتار ہے۔ میری آنکھیں اس مادی کائنات کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں۔ مجھے آسمان سے اس طرف کی دنیا یعنی عالم مابعد الطبیعیات سے کوئی سروکار نہیں ۔ میرے ساز سے سینکڑوں نغمے بلند ہوتے ہیں اور میں اپنے دریافت کئے ہوئے راز ہائے سربستہ کو سر بازار لے آتی ہوں تاکہ ہر شخص ان کو پرکھ سکے اور ان سے مستفید ہو سکے۔
نگاہم راز دار ہفت و چار است
گرفتار کمندم روزگار است
جہاں بینم بایں سز باز کردند
مرابا آنسوئے گردوں چہ کار است
چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم
ببا زار افگنم رازے کہ دارم
عشق جواب دیتا ہے کہ تمہاری افسوں گری سے سمندر شعلہ زار بنے ہوئے ہیں (مراد بحری جہازوں کی گولہ باری سے ہے) ہوا آگ برساتی ہے (مراد ہوئی جہازوں کی بم باری سے ہے) اور زہر آلود ہے (زہریلی گیس کی طرف اشارہ ہے) جب تک میرے ساتھ تیری دوستی تھی تو ایک ونر تھی۔ مجھ سے الگ ہونے کی دیر تھی کہ تیرا نور آگ بن گیا تو روحانیت کے خلوت خانہ میں پیدا ہوئی تھی (مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے تجھے خدا کی معرفت کی جستجو میں ایجاد کیا تھا) لیکن تو شیطان کے جال میں پھنس گئی (یعنی خداکے تصور کو ترک کرنے اور باطل تصورات حقیقت کو اپنانے کی وجہ سے) آ ہم دونوں مل کر اس خاکی کائنات کو گلستان بنائیں آسمان کے نیچے ایک ایسا بہشت بنائیں جو ہمیشہ قائم رہے۔ آ میرے درد دل سے ایک ذرہ لے لے (یعنی خدا کے عقیدہ کو قبول کر لے) اور اس جہان پیر کو پھر جوان بنا دے۔ ہم روز ازل سے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اور ایک ہی نغمہ (یعنی خدا کی محبت کے نغمہ) کے زیرو بم ہیں۔
زا فسوں تو دریا شعلہ زار است
ہوا آتش گذار و زہر دارست
جو با من یار بودی نور بودی،
بریدی از من و نور تو ناراست
خلوت خانہ لاہوت زادی
و لیکن درنخ شیطان فتادی
بیا ایں خاکدان را گلستان ساز،
تہ گردوں بہشت جادواں ساز
زروز آفریش ہمدم استیم
ہماں یک نغمہ را زیرو بم استیم
جب انسان کے تمام اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا جو کام بھی خدا کی محبت کی تسکین اور تشفی کے لئے نہ ہو گا محض بے سود ہو گا۔ سائنس اگر خدا سے بے تعلق ہو گی تو وہ بیکار خیالات کا تماشہ خانہ ہو گی۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
علم کو از عشق برخوردار نیست
جز تماشہ خانہ افکار نیست
بلکہ ایسی سائنس چونکہ سچے تصور حقیقت سے کٹ جاتی ہے وہ لازماً کسی جھوٹے تصور حقیقت پر مبنی ہو جاتی ہے۔ اس سے شیطانی قوتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور انسان کے اصلی مقاصد کو نقصان پہنچتا ہے۔
علم بے عشق از طاغوتیاں

علم با عشق از لاہوتیاں