مومن کو اسلامی نظام حیات برپا کرنے کی دعوت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

مومن کو اسلامی نظام حیات برپا کرنے کی دعوت
موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی نوعیت ایسی ہے کہ سرمایہ دار مزدور کی کمائی کا بہت سا حصہ خود کھا جاتا ہے اور اسے اس کی محنت کے مقابلہ میں بہت کم معاوضہ دیتا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جسے اب تک سرمایہ داروں کی ہوس نے چھپا کر رکھا تھا۔ اقبال کا خیال ہے کہ قوموں کی موجودہ روش جس میں سرمایہ دار کو اجازت ہے کہ وہ مزدور کو جس طرح چاہے لوٹتا رہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ روس کا انقلاب بے سود نہیں خدا چاہتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے لوگ اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوں کہ سرمایہ دار کس طرح سے مزدور پر ظلم کر رہا ہے۔ اس لئے اس نے اپنے بعض بندوں کو مقرر کر دیا ہے کہ وہ اپنے شوخی افکار سے اس مخفی حقیقت کو آشکار کریں اور اپنی جدت کردار سے پرانے نظام زندگی کو بدل کر ایک نیا نظام زندگی برپا کریں جس میں سرمایہ دار مزدور پر ظلم نہ کر سکے۔ ان قوموں کی روش کے خلاف روسی انقلاب ایسے ایک واقعہ کی صورت میں ایک رد عمل ہونا ضروری تھا۔ لیکن روسی انقلاب سے بہت پہلے اسلام نے دنیا کو جو نظام زندگی دیا تھا اس میں سرمایہ داری کا کوئی امکان موجود نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو نہ روسی انقلاب ایسے کسی رد عمل کی ضرورت ہے اور نہ سوشلزم کے نظام زندگی کی۔ تاہم شاید روسی انقلاب کا فائدہ یہ ہو کہ امت مسلمہ جو اقوام عالم کی قیادت پر مامور کی گئی ہے۔ اس بات کی طرف متوجہ ہو جائے کہ اس وقت دنیا کو اسلامی نظام زندگی کی ضرورت ہے جس کے مطابق نہ صرف یہ ضروری ہے کہ مسلمان محنت سے کام کرے اور کفایت سے خرچ کرے بلکہ حتی الوسع اپنے پاس کوئی اندوختہ نہ رکھے اور جو کچھ اس کی ضرورتوں سے بچ رہے اسے خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔ جس طرح سے روسیوں نے اپنی جدت کردار سے دہریت اور معاشی عدل کے دو انمل بے جوڑ تصورات کو جوڑ کر ایک نئے مادی نظام حیات کی تشکیل کی ہے امت مسلمہ کو بھی چاہئے کہ اپنی جدت کردار سے اس قرآنی ارشاد کو جامہ عمل پہنائیں جو ’’قل العفو‘‘ کی آیت کریمہ میں پوشیدہ ہے اور ایک اسلامی نظام حیات برپا کریں جس کے مطابق مومن اپنے خالق کو راضی کرنے کے لئے اس بات پر مجبور ہے کہ اپنے پاس فالتو مال جمع نہ رکھے بلکہ اسے خدا کی راہ میں خیرات کر دے۔
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم
بے سود نہیں روس کی یہ گرمی گفتار
اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور،
فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار
انسان کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر
کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید یہ حقیقت ہو نمودار
اقبال کے پورے فکر کو مد نظر رکھنے کی ضرورت
ان تصریحات سے یہ بات آشکار ہو جاتی ہے کہ سوشلزم کے متعلق اقبال کے جن اشاروں کو بعض لوگ غلطی سے سوشلزم کی حمایت پر محمول کرتے ہیں ان کی حقیقت دراصل ایک اسلوب بیان سے زیادہ نہیں۔ ان کا مقصد فقط یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس بات پر ابھارا جائے کہ وہ اپنے سینوں میں خدا کی مخلصانہ محبت پیدا کریں اور اسلام کو پیدا زور عمل سے عالم انسانی میں موثر بنائیں۔ کیونکہ اب سوشلزم نے اس کے لئے راستہ صاف کر دیا ہے۔ اگر ہم اقبال کے پورے فکر کو مد نظر رکھیں تو اقبال کے اس قسم کے اشاروں سے ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ اقبال سوشلزم کا حامی تھا۔ بیشک اقبال سوشلزم کی ’’ گرمی گفتار‘‘ اور’’ شوخی افکار‘‘ کو بے سود نہیں سمجھتا لیکن اس لئے نہیں کہ سوشلزم کی اپنی کوئی قدر و قیمت ہے بلکہ اس بنا پر کہ روس کے سوشلسٹ انقلاب نے بڑے زور سے پوری دنیا کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کی ہے کہ موجودہ معاشی نظام میں سرمایہ دار مزدور سے بے انصافی کرتا ہے۔ لیکن اس بے انصافی کا علاج سوشلزم نہیں بلکہ وہ خدا پرستی کے نتیجہ کے طور پر ظاہر ہونے والی گہری اور سچی اخلاقیت، عدل پسندی اور حرص و ہوا سے بیزاری ہے جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے اور اس بنا پر بھی کہ سوشلزم عارضی طور پر نمودار ہونے والی ایک تخریبی قوت ہے جو غلط سیاسی، اقتصادی اور مذہبی نظریات کو جڑ سے اکھاڑ کر اور آخر کار خود فنا ہو کر اسلام کے اس غلبہ اور ظہور کے لئے راستہ ہموار کرے گی جو اسلام کی فطرت میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک کفر بہت سے کفروں کو ملیا میٹ کر دے تو اس سے آئندہ کے مرد مومن کا کام جسے اقبال ’’ سوار اشہب دوران‘‘ اور’’ فروغ دیدہ امکان‘‘ کہتا ہے بہت آسان ہو جاتا ہے۔ اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال کی نگاہ میں کل کا نظریہ حیات جو فی الواقع پوری دنیا کے اندر شیطان کے کاروبار کو تباہ کرے گا اسلام ہے، سوشلزم نہیں۔ اس سے بڑھ کر سوشلزم کی ناپائیداری کی علامت اور کیا ہو گی کہ وہ سچی اخوت اور سچی اقتصادی مساوات ایسی اخلاقی اقدار جو خدا کی سچی محبت کے اجزاء کی حیثیت رکھتی ہیں اور صرف ایک ’’ جان پاک‘‘ سے سر زد ہو سکتی ہیں ’’ شکم‘‘ کے واسطہ سے بروئے کار لانا چاہتا ہے۔ حالانکہ شکم کے مطالبات ہی اخوت اور عدل اور مساوات کے روحانی تقاضوں کو پورا ہونے نہیں دیتے۔ اس کتاب کے آغاز میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ اقبال کا فکر ایک وحدت ہے جس کا ہر خیال اس کے دوسرے تمام خیالات سے عقلی اور علمی تائید حاصل کرتا ہے اور ان سب کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اقبال کی کسی بات کو اس کے پورے فکر سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہم اس کو غلط طور پر سمجھیں گے۔ اقبال کے اشعار کا جو مطلب بھی ہم نکالیں اس کی درستی یا نادرستی کا ایک اہم معیار یہ ہو گا کہ آیا وہ اقبال کے پور ے فکر کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ سوشلزم کے متعلق اقبال کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں جو غلطیاں بعض لوگ کرتے ہیں ان کا سبب یہ ہے کہ وہ اقبال کے پورے فکر کو مد نظر نہیں رکھتے۔
غلط فہمی کا قدرتی سد باب
ایک بڑے مفکر شاعر کی وفات کے بعد بعض وقت ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی فکریا ور نظریاتی اغراض کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے بعض الفاظ کو اس کے سارے فکر سے الگ کر کے اور اس کے اسلوب بیان کر کے اشاروں کو نظر انداز کر کے دیکھنے لگیں اور اس طرح ان الفاظ میں جو ظاہری اور غیر حقیقی تضاد سا نظر آتا ہو سے بہانہ بنا کر اس کی واضح تعلیمات کو اپنے خیالات کی حمایت میں پیش کرنے لگ جائیں اور پھر یہ بحث چل نکلے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق اس نے کیا کہا تھا یا جو کچھ کہا تھا اس کا مطلب کیا تھا۔ قدرتی بات ہے کہ ایسے وقت میں اس کے چاہنے والے تمنا کریں گے کہ کاش وہ زندہ ہوتا تو صاف اور قطعی الفاظ میں بتاتا کہ اس کا مطلب کیا تھا لیکن اس دنیا سے جانے کے بعد کون ہے جو پلٹ کر آتا ہے۔ تاہم اقبال اور اس کے چاہنے والوں کی خوش قسمتی ہے کہ بعض لوگ اقبال کی زندگی میں ہی اشتراکیت کے متعلق اقبال کے اشعار کو اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کرنے لگ گئے کہ اقبال سوشلسٹ خیالات کی طرف مائل ہے یا سوشلزم کو پسند کرتاہے اور اقبال کو موقعہ مل گیا کہ وہ خود (ایک دفعہ نہیں بلکہ دو دفعہ اور ایک دفعہ وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے) اخباری بیانات کے ذریعہ سے ایسے لوگوں کی پر زور تردید کر کے اس بحث کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے۔ ان بیانات کے بعد اس بحث کو گولڈ سمتھ (Goldsmith) کے دیہاتی اسکول ماسٹر کی طرح جاری رکھنا اقبال کے ساتھ حد درجہ کی بے انصافی ہے۔
کفر کے مترادف
اقبال نے ایڈیٹر زمیندار کے نام ایک خط بغرض اشاعت بھیجا تھا جو اس اخبار کے 24 جون 1923ء کے ایشو میں شامل ہوا تھا۔ وہ خط حسب ذیل ہے:
’’ مکرم بندہ جناب ایڈیٹر صاحب زمیندار۔ السلام علیکم۔ میں نے ابھی ایک اور دوست سے سنا ہے کہ کسی صاحب نے آپ کے اخبار میں یا کسی اور اخبار میں ( میں نے اخبار ابھی تک نہیں دیکھا) میری طرف سے بالشویک خیالات منسوب کئے ہیں۔ چونکہ بالشویک خیالات رکھنا میرے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہو جانے کے مترادف ہے اس واسطے اس تحریر کی تردید میرا فرض ہے۔‘‘
میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ ہے اور یہ عقیدہ دلائل و براہین پر مبنی ہے کہ انسانی جماعتوں کے اقتصادی امراض کا بہترین علاج قرآن نے تجویز کیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سرمایہ داری کی قوت جب حد اعتدال سے تجاوز کر جائے تو دنیا کے لئے ایک قسم کی لعنت ہے لیکن دنیا کو اس کے مضر اثرات سے نجات دلانے کا طریق یہ نہیں کہ معاشی نظام سے اس قوت کو خارج کر دیا جائے جیسا کہ بالشویک تجویز کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے اس قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھنے کے لئے قانون میراث اور زکوۃ وغیرہ کا نظام تجویز کیا ہے اور فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہی طریق قابل عمل بھی ہے۔ روسی بالشوزم یورپ کی نا عاقبت اندیش اور خود غرض سرمایہ داری کے خلاف ایک زبردست رد عمل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی سرمایہ داری اور روسی بالشوزم دونوں افراط اور تفریط کا نتیجہ ہیں۔ اعتدال کی راہ وہی ہے جو قرآن نے ہم کو بتائی ہے اور جس کا میں نے اوپر اشارتاً ذکر کیا ہے۔ شریعت حقہ اسلامیہ کا مقصود یہ ہے کہ سرمایہ داری کی بناء پر ایک جماعت دوسری جماعت کو مغلوب نہ کر سکے۔
اقبال کا یہ شعر اسی کا مفہوم کو ادا کرتا ہے
کس نگر دو در جہاں محتاج کس
نکتہ شرع مبین این است و بس
(مصنف)اور اس مدعا کے حصول کے لئے میرے عقیدے کی رو سے وہی راہ آسان اور قابل عمل ہے جس کا انکشاف شارع علیہ السلام نے کیا ہے۔ اسلام سرمایہ کی قوت کو معاشی نظام سے خارج نہیں کرتا بلکہ فطرت انسانی پر ایک عمیق نظر ڈالتے ہوئے اسے قائم رکھتا ہے۔ اور ہمارے لئے ایک ایسا نظام تجویز کرتا ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ قوت کبھی اپنے مناسب حدود سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ مجھے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اقتصادی پہلو کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ ان کو معلوم ہوتا کہ اس خاص اعتبار سے اسلام کتنی بڑی نعمت ہے۔ میرا عقیدہ ہے فاصبحتم بنعمتہ اخوانا۔ میرا اسی نعمت کی طرف اشارہ ہے۔ کیونکہ کسی قوم کے افراد صحیح معنوں میں ایک دوسرے کے بھائی نہیں بن سکتے جب تک کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مساوات نہ رکھتے ہوں اور اس مساوات کا حصول بغیر ایک ایسے سوشل نظام کے ممکن نہیں جس کا مقصود سرمایہ کی قوت کو مناسب حدود کے اندر رکھ کر مذکورہ بالا مساوات کی تخلیق و تولید ہو۔ اور مجھے یقین ہے کہ خود روسی قوم بھی اپنے موجودہ نظام کے نقائص تجربے سے معلوم کر کے کسی ایسے نظام کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گی جس کے اصول اساسی یا تو خالص اسلامی ہوں گے یا ان سے ملتے جلتے ہوں گے۔ موجودہ صورت میں روسیوں کا اقتصادی نصب العین خواہ کیسا ہی محمود کیوں نہ ہو ان کے طریق عمل سے کسی مسلمان کو ہمدردی نہیں ہو سکتی۔ ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان جو یورپ کی پولیٹیکل اکانومی پڑھ کر مغربی خیالات سے فوراً متاثر ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے لازم ہے کہ اس زمانے میں قرآن کریم کی اقتصادی تعلیم پر بنظر غائر نظر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی تمام مشکلات کا حل اس کتاب میں پائیں گے۔ لاہور کی لیبر یونین کے مسلمان ممبر بالخصوص اس طرف توجہ کریں۔ مجھے ان کے اغراض و مقاصد سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر مجھے امید ہے کہ وہ کوئی ایسا طریق عمل یا نصب العین اختیار نہ کریں گے جو قرآنی تعلیم کے منافی ہو۔
محمد اقبال بیرسٹر ایٹ لائ۔ لاہور

یہ بات ظاہر ہے کہ اس خط میں بالشویک خیالات سے اقبال کی مراد وہی خیالات ہیں جو اقبال کے زمانہ سے لے کر اب تک روس کی سوویٹ سوشلسٹ ری پبلک میں ایک سیاسی قوت کے طور پر موجود ہیں اور جن کو سائنٹفک سوشلزم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اب دنیا بھر میں سوشلزم سے مراد کارل مارکس کا ہی سائنٹفک سوشلزم ہوتا ہے اور کارل مارکس سے پہلے کا سوشلزم یا کسی اور قسم کا سوشلزم مراد نہیں ہوتا اور یہی سبب ہے کہ اب دنیا کے جس مملک میں بھی سوشلزم موجود ہوتا ہے وہاں اس کے پیچھے یا اس کے ساتھ کارل مارکس کا فلسفہ بھی زود یا بدیر کسی نہ کسی رنگ میں ضرور موجود ہو جاتا ہے اور اگر وہ ملک اسلامی ہو تو سوشلزم اسلام اور اس کے اقتصادی نظام کا حریف بن جاتا ہے اور اسلام کو دبانے اور مٹانے اور مارکس کے فلسفہ کو رواج دینے کی کوشش کرتا ہے۔
سوشلزم اور تمام مغربی ازموں سے اقبال کی نفرت
اس خط کے چودہ سال بعد اور اقبال کی وفات سے ایک سال پہلے آل احمد سرور نے اقبال سے کچھ استفسارات کئے تھے جن کے جواب میں اقبال نے ان کے نام ایک خط لکھا تھا۔ اس خط پر 14مارچ 1937ء کی تاریخ درج ہے اور یہ خط اگست1949ء کے رسالہ ’’ ماہ نو‘‘ میں چھپا تھا۔ اقبال اس خط میں لکھتا ہے:
’’ آپ کے دل میں جو باتیں پیدا ہوئی ہیں ان کا جواب بہت طویل ہے اور میں بحالت موجودہ طویل خط لکھنے سے قاصر ہوں۔ اگر میں کبھی علی گڑھ حاضر ہوا یا آپ کبھی لاہور تشریف لائے تو انشاء اللہ زبانی گفتگو ہو گی۔ سر دست میں دو چار باتیں عرض کرتا ہوں۔‘‘
1میرے نزدیک فاشزم، کمیونزم یا زمانہ حال کے اور ازم کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ میرے عقیدہ کی رو سے صرف اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کے لئے ہر نقطہ نگاہ سے موجب نجات ہو سکتی ہے۔ میرے کلام پر ناقدانہ نظر ڈالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگر آپ پورے غور اور توجہ سے یہ مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ ان ہی نتائج تک پہنچیں جن تک میں پہنچا ہوں اور اس صورت میں آپ کے شکوک تمام کے تمام رفع ہو جائیں۔ یہ ممکن ہے کہ آپ کاView مجھ سے مختلف ہو یا آپ خود دین اسلام کے حقائق کو ہی ناقص تصور کریں۔
اس دوسری صورت میں دوستانہ بحث ہو سکتی ہے جس کا نتیجہ معلوم نہیں کیا ہے۔
2آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے میرے کلام کا بھی بالا ستیعاب مطالعہ نہیں کیا۔ اگر میرا یہ کہنا صحیح ہے تو میں آپ کو یہ دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس طرف توجہ کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی باتیں خود بخود آپ کی سمجھ میں آ جائیں گی۔
3 آپ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے لیکچرار ہیں۔ اس واسطے مجھے یقین ہے کہ لٹریچر کے اسالیب بیان سے مجھ سے زیادہ واقف ہیں۔ تیمور کی روح کو اپیل کرنے سے تیموریت کا زندہ کرنا مقصود نہیں بلکہ وسط ایشیا کے ترکوں کو بیدار کرنا مقصود ہے۔ تیمور کی طرف اشارہ محض اسلوب بیان ہے۔ اسلوب بیان کو شاعری کا حقیقی View تصور کرنا کسی طرح درست نہیں۔ ایسے اسالیب بیان کی مثالیں دنیا کے ہر لٹریچر میں موجود ہیں۔ والسلام
آپ کا مخلص۔ محمد اقبال
اسلام کا قانون رزق کا ضامن ہے
پھر قائد اعظم کے نام اپنے 28مئی 1937ء کے خط میں اقبال لکھتا ہے:
’’ قانون اسلام کے طویلا ور پر توجہ مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو مناسب طور پر سمجھا اور برتا جائے تو کم از کم ہر شخص کے لئے رزق اور روزی کا حق حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ان تینوں خطوں سے ظاہر ہے کہ ’’ اسلامی سوشلزم‘‘ سے اقبال کی مراد وہی اسلامی اقتصادی مساوات ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کئے ہوئے ٹھیٹھ اسلام کو اور اس کے قوانین زکوۃ اور وراثت اور ممانعت سود و اکتناز اور احکام خیرات و مواسات و مساوات کو جاری کرنے سے وجود میں آتی ہے اور کسی بیرونی ازم کی نقل یا خوشہ چینی یا پیوند کاری سے اس کو دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ اس اسلامی مساوات کو وہ استعارتاً اسلامی سوشلزم کہتا ہے جیسے کہ کوئی شخص کسی بہادر آدمی کو اس کی بہادری کی وجہ سے شیر کہہ دے بغیر اس کے وہ آدمی شیر کی طرح کی کھال یا دم یا شیر کی طرح کے دانت یا پنجے رکھتا ہو یا آدھا شیر اور آدھا انسان ہو۔ اقبال کو معلوم نہیں تھا کہ بعض لوگ اس کے استعارہ کو حقیقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ کسی انسان کو شیر کہے گا تو اسے نادانی سے سچ مچ شیر کی کھال اور دم اور شیر کے پنجے اور دانت پہنا کر پایہ انسانیت سے گرانے کی کوشش کریں گے۔ اگر اقبال کی زندگی میں کوئی مسلمان اسے پوچھتا کہ کیا ہم اپنے نظریہ حیات کا نام اسلام کی بجائے اسلامی سوشلزم رکھ لیں تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اقبال کے غیظ و غضب کی کیفیت اور سوال پوچھنے والے کی ایمانی حالت کے متعلق اس کی رائے کیا ہوتی ہے۔