اسلام کے عالمگیر غلبہ کا راستہ، ڈاکٹر محمد رفیع الدین

اسلام کے عالمگیر غلبہ کا راستہ
جس طرح سے اقبال اس بات پر خوش ہے کہ خدا نے دہریت پرست روسی سوشلسٹوں پر یہ وحی نازل فرمائی ہے یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں کیونکہ اس طرح سے کائنات کی ارتقائی حرکت جلد اپنی منزل مقصود یعنی اسلام کے عالمگیر ظہور تک پہنچے گی اسی طرح سے اقبال اس بات پر بھی خوش ہے کہ روسی دہریت کے ہاتھوں سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوب رہا ہے اور اب نوع انسانی رفتہ رفتہ مداری کے اس تماشا کو ترک کر دے گی جسے سرمایہ داری کہتے ہیں اور پھر اس کی طرف واپس نہیں آئے گی بلکہ اسلام کی طرف آگے بڑھے گی۔
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
وہ یہ سمجھتا ہے کہ صلیب کی شکست کی طرح سرمایہ داری کا زوال بھی خدا کے اپنے اہتمام سے ہو رہا ہے جس نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا ہے کہ میرے مفلس اور نادار بندوں کو سرمایہ داری کے خلاف بغاوت اور تشدد پر آمادہ کرو۔ دولت مندوں کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دو۔ غلاموں کے دلوں میں اپنے مستقبل کا پختہ یقین پیدا کرو تاکہ وہ کمزور ہونے کے باوجود طاقتوروں سے ٹکر لیں۔ اب اقتدار عوام کے ہاتھوں میں آئے گا۔ اس لئے پرانے طور طریقوں کو بدل دو۔ سرمایہ دار کسان کو اس کی محنت کا پھل نہیں دیتا۔ لہٰذا کھیت کی پیداوار کو جلا دو تاکہ سرمایہ دار بھی اس ظلم کی سزا پائے۔ پاپائے کلیسا نے خود خدا کا مقام لے کر مخلوق کو خالق سے جدا کر دیا ہے لہٰذا اس کے اقتدار کو ختم کر دو۔ لوگوں کو خدا کے سامنے ریا کاری کا ایک آخری سجدہ اور بتوں کے گرد ایک آخری طواف کر لینے دو اور پھر اس کے بعد سارے مذہب کا خاتمہ کر دو تاکہ سچے مذہب کے لئے راستہ ہموار ہو جائے۔ مسلمان نمائش اور نمود کے لئے خدا کے حرم کو مر مر کی سلوں سے آراستہ کرتا ہے لیکن خدا سے مخلصانہ محبت نہیں کرتا۔ اس سے بہتر تھا کہ وہ حرم مٹی کا ہی رہنے دیتا۔ لیکن اپنے دل میں خدا کی مخلصانہ محبت کو پیدا کرتا۔ میرے لئے ایک اور حرم مٹی کا تعمیر کرو جہاں نمائش پرست لوگ نہیں بلکہ میرے ساتھ مخلصانہ محبت رکھنے والے لوگ جمع ہوں۔ کیونکہ اس ساری کارروائی سے کائنات کی ارتقائی حرکت تیز تر ہو گی اور مستقبل کا نظریہ حیات یعنی سچے اور مخلص خدا پرستوں کا اسلام جو سرمایہ داری اور ریا کاری اور نمائش کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا جلد تر دنیا پر چھائے گا۔ اقبال کی نظم ’’فرشتوں کے لئے خدا کا فرمان‘‘ اقبال کی بلیغ شاعری کا ایک نمونہ ہے جس سے وہ بتانا چاہتا ہے کہ سرمایہ داری کے خلاف مزدوروں کی بغاوت جس کے نتیجہ کے طور پر روس میں انقلاب آیا ہے بے معنی اور بے سود نہیں بلکہ خدا کی ان پر اسرار تدبیروں میں سے ایک ہے جس سے وہ کائنات کے اندر اپنے مخفی مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ اس تدبیر سے خدا نے مستقبل کے مخلص ایماندار اور خدا پرست انسان کے ظہور کے راستہ میں جو رکاوٹیں تھیں وہ بہت حد تک دور کر دی ہیں۔ ان رکاوٹوں میں ایک سرمایہ پرستی اور سرمایہ داری تھی اور دوسری کلیسا کی روحانی اجارہ داری تھی جس نے خدا اور اس کے بندوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر رکھا تھا اور تیسری مذہب کے نام لیواؤں کی ریاکاری اور ظاہر داری کے ساتھ اخلاق اور یقین سے تہی دستی اور عمل سے محرومی۔ لیکن اب ان کو بھی یہ معلوم ہو گیا ہے کہ روس کی کھلی ہوئی دہریت اور رسم لادینی کے چیلنج کا جواب مذہب اور روحانیت کی حمایت میں زور دار مخلصانہ کردار کے بغیر ممکن نہیں اور چوتھی تہذیب نوی کی ظاہری سج دھج میں چھپی ہوئی مکاری، بد اخلاقی، بے ایمانی اور سفاکی جس کا پردہ چاک کرنے کے لئے شاعر مشرق کو خدا کی سچی محبت کے آداب اور اطوار سے باخبر کیا گیا ہے۔ خدا فرشتوں سے خطاب کر کے کہتا ہے:
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقیں سے
کنجشک فرد مایہ کو شاہیں سے لڑا دو
سلطانئے جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
حق را بسجودے ضمان رابطوامے
بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مر مر کی سلوں سے
میرے لئے مٹی کا حرم اور بنا دو
تہذیب نوی کارگہ شیشہ گراں ہے
آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو
خدا کی عالمی اسکیم اور خضرؑ
اسی طرح سے اقبال نے ’’ خضر راہ‘‘ میں خضر کی زبان سے مزدور کو ابھارا ہے کہ وہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرے۔ عیار سرمایہ دار اس کی کمائی ہوئی دولت کو ناجائز طریقوں سے کھا رہا ہے لیکن اب بزم جہاں کا انداز بدلا ہوا ہے۔ انقلاب روس کی صورت میں ایک نیا آفتاب افق پر نمودار ہوا ہے جس نے بظاہر مغرب کی سرمایہ داری کا خاتمہ کر کے دنیا کے ایک حصہ میں گویا ایک ارضی جنت پیدا کر دی ہے مزدور کو چاہئے کہ ان حالات سے حوصلہ پا کر اپنے فطری حقوق کو پہچانے اور کرمک نادان کی طرح سرمایہ دار کی شمع کا طواف کر کے جل مرنے کی بجائے اس سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرے۔ اقبال کے ان اشعار کا مطلب بھی یہی ہے کہ اس کے خیال میں کائنات کے اندر خدا کی یہ مخفی اسکیم کام کر رہی ہے کہ مزدور کو بیدار کر کے نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب اور رنگ کے بت توڑ دئیے جائیں تاکہ اسلام کے لیے راستہ ہموار ہو اور خضر اس اسکیم کی مدد کرتا ہے۔ اگرچہ بلا وجہ تشدد روا نہیں۔ یاد رہے کہ قرآن میں یہ قصہ ہے کہ خضرؑ نے تین ایسے کام کئے تھے جو عالم تکوینی کے نقطہ نظر سے جائز تھے اور کائنات کے اندر خدا کی مخفی اسکیم کے مطابق تھے ۔ لیکن شریعت میں جائز نہیں تھے جس کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کو سمجھنے سے قاصر تھے اور ہر بار خضر پر معترض ہوتے تھے۔
بندہ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو فردیوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
آنے والے دور کی تصویر
ظاہر ہے کہ اقبال کے یہ اشعار ایک اسلوب بیان کی صورت میں ہیں اور ان سے یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ اقبال روسی انقلاب کو اس کی اپنی قدر و قیمت کی وجہ سے قابل ستائش سمجھتا تھا۔ یا اس کو اسلام کے مقابلے میں کوئی وقعت دیتا تھا یا اس کے مستقبل پر یقین رکھتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال کا پورا کلام اس نتیجہ کی تردید کرتا ہے ظاہر ہے کہ جس معاشرہ میں خدا کا نام تک نہ ہو جو خدا کی شدید مخالفت پر ادھار کھائے ہوئے ہو وہ اقبال کی نگاہ میں ایک ارضی جنت کیسے ہو سکتے ہیں۔ اقبال نے اپنے بعض اشعار کی تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ خود کہا ہے کہ ’’ اسلوب بیان کو شاعر کا حقیقی View تصور کرنا کسی طرح درست نہیں۔ ایسے اسالیب بیان کی مثالیں دنیا کے ہر لٹریچر میں موجود ہیں۔ بلکہ اگر ہم خود ’’ خضر راہ‘‘ کی پوری نظم کو بھی ایک وحدت کے طور پر زیر غور لائیں تو ان اشعار سے یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس نظم کے اگلے بند میں اقبال دنیائے اسلام کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر مسلمان کو ملک و دولت کی نعمت نصیب ہو گی تو کسی اشتراکی انقلاب سے نہیں بلکہ فقط حفظ حرم کی طفیل۔ اسے چاہئے کہ جس طرح سے ہو سکے اسلاف کا قلب و جگر پیدا کر کے دنیا میں اسلامی خلافت کی بنیاد قائم کرے کہ اسی میں اس کے سارے عوارض کا علاج ہے اس کے بعد وہ مسلمانوں کے مخصوص وقتی اور مقامی حالات سے گذر کر ان کے عالمی رول پر پہنچتا ہے اور اسلام کے اس شاندار مستقبل کی پیش گوئی کرتا ہے جو اسلام کی فطرت میں مضمر ہے وہ مسلمانوں سے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ جب تک تم فرقہ وارانہ اختلافات سے (مثلاً یہ کہ خلیفہ حضرت علیؓ کو ہونا چاہئے تھا کہ یا حضرت ابوبکرؓ کو) بالا ہو کر اپنے آپ کو نہ دیکھو گے۔ تم من حیث القوم اپنے شاندار مستقبل کو نگاہ میں نہ رکھ سکو گے اور خفی کو جلی سے ممیز نہ کر سکو گے یعنی یہ سمجھتے رہو گے کہ حقیقت وہی ہے جو تمہیں نظر آ رہی ہے حالانکہ خدا کے کچھ قوانین ایسے ہیں جو مسلمان قوم کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے اپنا کام مخفی طور پر کر رہے ہیں ان قوانین کے عمل سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ کوئی اور قوم دنیا میں غالب ہو رہی ہے لیکن در حقیقت ان قوانین کے عمل سے بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ کوئی اور قوم دنیا میں غالب ہو رہی ہے لیکن در حقیقت ان قوانین کے عمل سے خدا باطل کو باطل کے ہاتھوں برباد کر کے حق کے غلبہ کے لئے راستہ تیار کر رہا ہے یہی سبب ہے کہ اس نے نسل قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ ایسے بتوں کو توڑنے کے لئے اشتراکیت کے باطل سے کام لیا ہے لیکن اشتراکیت دنیا کا آخری انقلاب نہیں اس کے بعد اسلام کا انقلاب آنے والا ہے فریاد تو اس لئے کی گئی ہے کہ وہ عشق کا ایک تقاضا تھی ورنہ خدا کی تقدیر کے اٹل فیصلہ کی وجہ سے اسلام کا مستقبل محفوظ ہے۔ دنیا اسلام کے حق میں ضرور بدلے گی اور اس فریاد کی تاثیر حیرت انگیز طور پر ظاہر ہو گی ہم نے دشمنوں کی سطوت کے طوفان کو دیکھا ہے لیکن کچھ بے قرار لہریں ایسی بھی ہیں جو زنجیر بن کر اس طوفان کو روک لیں گی عام حریت کا خواب جو اسلام نے دیکھا تھا اور جس میں مسلمانوں کو فتح کی بشارت دی گئی تھی اس کی ایک اور تعبیر بھی ہے جو عنقریب سامنے آئے گی جس طرح آگ میں دہکنے والے جانور سمندر کے متعلق مشہور ہے کہ وہ مر کر اپنی خاکستر سے پھر زندہ ہو جاتا ہے اسی طرح سے یہ دنیا بھی کفر کی آگ میں جل کر مرنے کے بعد پھر اسلام کے ذریعہ سے زندہ ہو گی یعنی اشتراکیت ایسے باطل نظام سے اس کا مرنا اس کی عارضی موت ہے۔ عالم انسانی کا وہ دور آنے والا ہے جو اسلام کے شاندار مستقبل کا آئینہ دار ہو گا۔ میں اس دور کی حیرت انگیز تفصیلات کیا بتا سکتا ہوں صرف اپنے اشعار میں اس کی ایک دھندلی سی تصور پیش کر رہا ہوں۔ آسمان کے پاس یہ مزدکیت کا روسی انقلاب (فتنہ) ہی نہیں تھا بلکہ اس کے پاس ایک اور انقلاب بھی ہے جو پہلے آزمایا جا چکا ہے اور جو پورے عالم انسانی پر چھا جائے گا اور وہ اسلام کا انقلاب ہے تم دیکھ لو گے کہ خدا کی اٹل تقدیر کے سامنے اسلام کے کسی بڑے سے بڑے دشمن کی تدبیر بھی کام نہیں کر سکے گی۔ اگر تم مسلمان ہو تو یقین رکھو کہ تم ہی دنیا میں غالب رہو گے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے انتم الا علون ان کنتم مومنین اور خدا وعدہ خلافی نہیں کرتا ان اللہ لا یخلف المیعاد‘‘
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصار دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
اے کہ نشاسی خفی از جلی ہشیار باش
اے گرفتار ابوبکر و علی ہشیار باش
عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ
تو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج
موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلمان آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامان وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہاں پیر دیکھ
کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رسوائیے تدبیر دیکھ!
مسلم استی سینہ را از آرزد آباد دار

ہر زمان پیش نظر لا یخلف المیعاد دار