حیات بعد الممات کا ثبوت، ڈاکٹر رفیع محمد الدینؒ

حیات بعد الممات کا ثبوت
کافر کی بعد از مرگ زندگی موت سے بدترہوتی ہے۔ وہ ہر لحاظ سے موت ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی موت نہیںہوتی۔ قرآن حکیم کا ارشادہے کہ اسے موت ہر طرف سے گھیرتی ہے۔ پھر بھی وہ مر کر عذاب سے نجات نہیں پاتا
(ویاتیہ الموت من کل مکان وما ہو بمیت)
اقبال اسی زندگی کو ہی موت کہتا ہے ورنہ موت نما زندگی تو بعد از مرگ کافر کی بھی بنتی ہے اور اسی موت نما زندگی کی وجہ سے اس کا بعد از مرگ عذاب دوزخ ممکن ہوتاہے۔ شعور جب خود شعور یا خود شناس ہو جائے جیسا کہ انسان کا شعور ہوتا ہے دوسرے لفظوں میں جب شعور انسانی سطح پر آ جائے تو وہ خواہ کافر کا شعور ہو حیوان کے غیر خود شعور غیر خود شناس شعور کی طرح موت کے  معمولی معنوں سے مر نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کی زندگی میں بھی ایسے خود شناس شعور کاوجود کا انحصار جس پر نہیںہوتا۔ بلکہ اس کی زندگی جسم سے الگ تھلگ اور بے نیاز ہوتی ہے۔ اسی خود شعور یا خود شناس شعور کو ہم انسانی شخصیت یا خودی یا روح کا نام دیتے ہیں اور یہ صرف انسا ن کا خاصہ ہے۔ حیوان خود شناسی یا خود شعوری کے وصف سے محروم ہے۔ کیونکہ حیوان فقط جانتا محسو س کرتا اور سوچتا ہے ۔ لیکن انسان جب جانتا محسوس کرتااور سوچتا ہے تو وہ جانتا بھی ہے کہ وہ جانتا محسوس کرتااور سوچتا ہے۔ اسی حقیقت کو ہم مختصر الفاظ میں یوں ظاہر کرتے ہیں کہ حیوا ن فقط باشعور ہے اور انسان خود شعور بھی ہے  اسی خود شعوری کی وجہ سے انسان اپنے وجود کا اپنی انا کا اس کی وحدت کا اور اس کے تسلسل کا احساس کرتا ہے۔ اگر ایک انسان زید سو سال تک بھی زندہ رہے تو اسے معلو م ہوتا ہے کہ وہ وہی زید ہے جو چار سال کی عمر میں تھا۔ اس کے حافظہ میں اس کی زندگی کے تمام چھوٹے بڑے  واقعات جن سے پورا ایک دفتر بن سکتا ہے محفوظ ہوتے ہیں اگر وہ کچھ واقعات کو بھول کر بھی جائے تو پھر بھی وہ اس کے لاشعور میں محفوظ رہتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک تحلیل ذہنی کا ماہر اس پر ہپناٹک نیند طاری کر کے ان کی پوری تفصیلات اس کے منہ سے کہلوا سکتاہے اور بیداری کے وقت اس سے اقرار کر وا سکتا ہے کہ وہ فی الواقع ظہور پذیر ہوئے تھے۔
اعمال کا نہ ملنے والا ریکارڈ
آج ماہرین تحلیل نفسی کے تجربات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ انسان کا کوئی چھوٹا یا بڑا عمل ایسا نہیںہوتا کہ جو مٹ جائے بلکہ ہر عمل کا ریکارڈ اس کے لاشعور کے اندر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ واقعات کایہ حیر ت انگیز نہ مٹنے والا ریکارڈ انسان کے جسم کے اندر کہاں رہتاہے کہیںبھی نہیں۔ اس کا جسم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق انسان کی خود شعوری یا خودی سے ہے ۔ جو جسم سے الگ تھلگ اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔ اگرچہ جسم پر حکمرانی کرتی ہے اور اپنے مقاصد کے لیے اسے بطور ایک آلہ کے استعمال کرتی ہے۔ اگر اس کا تعلق جسم سے ہوتا تو ہر تین سال کے بعد یہ فنا ہو جاتا اور انسان کی زندگی کاتسلسل ٹوٹ جاتا کیونکہ یہ امر مسلم ہے کہ کم و بیش ہر تین سال کے بعد دماغ کے تما م مادی ذرات مٹ کر نئے مادی ذرات کے لیے جگہ خالی کر دیتے ہیں۔ چار سار کی عمر سے لے کر سو سال کی عمر تک یہ عمل بتیس دفعہ ہو چکتا ہے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ شخصیت یا خودی یا خود شعوری جسم سے بے نیا ز ہو کر اپنے وظائف ادا کرتی ہے اور اپنی زندگی قائم رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خودی جسم کی موت سے نہیں مرتی۔ دماغ اور جسم خودی کے آلات ہیں جن کی مدد سے وہ اس دنیامیں اپنا کام کرتی ہے اور اپنے اعمال افعال او ر اپنے تجربات کو ترتیب دیتی ہے۔ اسمیں شک نہیںکہ اگر دماغ کو کوئی نقصان پہنچ جائے تو خودی اپنے وضائف ٹھیک طرح سے یا پوری طرح سے ادا نہیںکر سکتی۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ خودی اور دماغ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا ایک دوسرے کے متوازی ہیںکیونکہ جیسا کہ نفسیات دیوانگی کی تازہ تحقیقات سے ظاہرہے دماغ کے مختل ہونے کے بعد بھی شخصیت لا شعور کی دنیا میں کام نہیں لے رہا مطلب فقط یہ ہے کہ خودی کا آلہ کار شکستہ ہو جانے کی وجہ سے خودی کو شعور کی دنیا میں کام نہیںدے رہا لیکن جب دماغ اور جسم خودی کے آلات کے طور پر صحت مند ہوں تو ان آلات کی مدد سے ہر تجربہ جو خودی کو حاصل ہوتا ہے اور ہر فعل جو ا س سے سرزد ہوتا ہے ۔ دماغ اور جسم کی وساطت کے بغیر خودی کا جز وبن جاتا ہے اور پھر ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ اور جسم کے مرجانے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ کیونکہ جسم کی زندگی میں بھییہ تجربہ یافعل جسم کا نہیں بلکہ خود ی کا حصہ تھا۔ اور خودی جسم کی زندگی میں اگرچہ جسم کو کام میں لاتی تھی تاہم جسم سے بے نیاز ہو کراپنی زندگی کو قائم کیے ہوئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ہے کہ انسان کے اعمال لکھے جاتے ہیں اورموت کے بعد اس کا اعمال نامہ اس کے سامنے کھل جاتا ہے  (کتاباً یلقہ منشورا) اس سے ظاہرہے کہ شخصیت وہی کچھ ہوتی ہے جو اس کے اعمال کواس بنا دیتے ہیں اور جسم کی موت کے بعد اس کی خوشی یا ناخوشی‘ صحت یا بیماری اور قوت یا کمزوری اور اس  کی زندگی کے کمال یا نقص کا دارومدار اس بات پر ہوتاہے۔ کہ اس کے اعمال کہاں تک خودی کی فطرت کے مطابق ہے۔ یعنی ان میں خدا کی مخلصانہ محبت کا حصہ کیا تھا جب خدا کی محبت کمال پر ہو تو خودی کی خود شناسی اور لہٰذا زندگی بھی کمال پر ہوتی ہے۔ کیونکہ خودی کی خود شناسی یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کو اپنی فطری استعداد کے مطابق پوری طرح سے جان لے۔اسی لیے اقبال کہتا ہے:
ہر اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
انسان اور حیوان کی زندگی
بعض وقت یہ سوال کیاجاتا ہے کہ آیا حیوانات بھی مرنے کے بعد زندہ رہیں گے اور ان کے اعمال کا بھی محاسبہ ہو گا۔ یہ سوال درحقیقت زندگی اورمحاسبہ اعمال کے متعلق ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ بعد از مرگ زندگی فقط خود شعوری کیلیے ممکن ہے کیونکہ یہی خود شعوری ہے جو جسم کی زندگی میں بھی جسم سے الگ رہ کر اپنی زندگی بسر کرتی ہے اوریہی خود شعوری ہے جو آزاد اور بااختیار فیصلوں کی قوت رکھتی ہے یا جس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ان فیصلوں سے ظہور پذیر ہونے والے اعمال کو لاشعور کا جزو بنا کر یہاں تک محفوظ رکھے کہ وہ بعد از مرگ بھی اسی حالت میں رہیں حیوانات چونکہ خود شعور نہیں وہ اپنے فیصلوں اور کاموں میں آزاد نہیں بلکہ اپنی جبلتوں کے شکنجہ میں جکڑے ہوئے ہیں اورچونکہ وہ خود شعور نہیںان کے بعد از مرگ زندہ رہنے اور اپنے اعمال کو محفوظ رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا اور محاسبہ اعمال تو بعد کی چیز ہے۔

٭٭٭