خودی کے جذبہ محبت کی ایک خصوصیت، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

خودی کے جذبہ محبت کی ایک خصوصیت
خودی براہ راست اور شعوری طور پر خدا سے محبت کرنا چاہتی ہے لیکن خدا کی ایسی محبت فقط کسی شخص سے یہ بات سن لینے اور یاد رکھ لینے سے پیدا نہیں ہوتی کہ خدا تمام صفات حسن کا مالک ہے اور صحبت کے قابل ہے۔ بلکہ خدا کے حسن کا ذاتی احساس کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ خدا کی محبت خدا کے ذاتی حسن کے احساس کا ہی نام ہے اور احساس کے بغیر خدا کی محبت کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اقبال کے الفاظ میں خدا کی محبت شنید نہیں بلکہ دید ہے۔ یعنی وہی شخص خدا سے محبت کر سکتا ہے جو خدا کے حسن کا ذاتی احساس رکھتا ہو۔ اقبال شنید کے لئے خبر اور دید کے لئے نظر کی اصطلاحات کام میں لاتا ہے۔ عقل فقط خبر مہیا کرتی ہے لیکن باخدا لوگوں کی محبت سے اور صحیح قسم کے نظریاتی ماحول سے نظر حاصل ہوتی ہے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
اگربدقسمتی سے خودی کا نظریاتی یا تعلیمی ماحول ایسا ہو کہ وہ خدا کی صفات حسن کے مشاہدہ میں رکاوٹ پیدا کرے اور خدا کے حسن کے احساس کی نشوونما نہ کر سکے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خودی کا جذبہ محبت رک جائے گا اور پھر خودی کسی نصب العین کی محبت کے بغیر ہی رہے گی۔
لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ خودی کا جذبہ محبت رک نہیں سکتا بلکہ کسی اور ناقص نصب العین کو جو فرد کے علم اور احساس کی پستیوں سے مناسبت رکھتا ہو خدا سمجھ کر اپنا لیتا ہے۔ خودی کا جذبہ محبت ایک تیز رفتار دریا کی طرح ہے کہ جب وہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے اپنی اصلی گزر گاہ پر نہ چل سکے تو پھر رکتا نہیں۔ بلکہ اپنی راہ سے ہٹ کر اس راستہ پر بہنے لگتا ہے جو آسان یا پست ہونے کی وجہ سے اسے بہنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح سے ایک غلط سمت کی طرف چل نکلتا ہے اور راستہ میں آبادیوں کو تباہ کرتا چلا جاتا ہے۔ خودی کی محبت کا سیل رواں بھی جب کسی نظریاتی یا جذباتی رکاوٹ کی وجہ سے اپنے صحیح نصب العین یعنی خدا کی طرف جو منتہائے حسن و کمال ہے راہ نہیں پاتا تو کسی دوسرے نصب العین کی طرف بہ نکلتا ہے جس کی طرف وہ راہ پا سکتا ہے جب کوئی انسان خدا کے حسن کا احساس نہ کر سکے تو پھر جس قدر تصورات اس کے دائرہ علم میں ہوتے ہیں ان میں سے جس تصور کو بھی وہ اپنی سمجھ کے مطابق سب سے زیادہ حسین سمجھتا ہے اسی کو اپنے جذبہ محبت کو مطمئن کرنے کی ضرورت سے مجبور ہو کر اپنا نصب العین بنا لیتا ہے۔ اگرچہ ضروری ہے کہ خدا کا تصور نہ ہونے کی وجہ سے وہ نصب العین حسن و کمال کی صفات سے عاری ہو۔ تاہم اس طرح سے وہ اپنی محبت کے بہاؤ کو راستہ دیتا ہے اس حقیقت سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال نے جو خودی یا زندگی کو ایک تیز رفتار ندی سے تشبیہہ دی ہے وہ کس قدر موزوں ہے۔
وہ جوئے کہستان اچکتی ہوئی
لرزتی سرکتی چھلکتی ہوئی
ذرا دیکھ اسے ساقی لالہ فام
سناتی ہے یہ زندگی کا پیام
اعصابی امراض کی جڑ
اگر کوئی شخص خدا کے حسن کے احساس سے محروم ہو اور اس کا جذبہ محبت کسی اور غلط نصب العین کی محبت میں بھی اظہار نہ پا سکے یعنی اس کے دائرہ علم میں کوئی ایسا تصور موجود نہ ہو جو اس کے لئے اتنی کشش یا جاذبیت رکھتا ہو کہ وہ اس کی طرف تمام صفات حسن کو شعوری یا غیر شعوری طور پر منسوب کر سکے تو وہ ہسٹریا، جنون، ذہنی مجادلہ اور ایسے ہی دوسرے ذہنی امراض کا شکار ہو جاتا ہے اور جب تک وہ کوئی ایسا تصور نہ پائے جس سے وہ صحیح طور پر یا غلط طور پر مطمئن ہو اور جو اس بنا پر اس کے جذبہ محبت کو راستہ دے سکے۔ وہ بدستور ان تکالیف میں مبتلا رہتا ہے اس لحاظ سے انسان میں خدا کی محبت کا جذبہ اس کی بھوک یا غذا کی خواہش سے مشابہت رکھتا ہے اگر کسی شخص کو شدت کی بھوک لگی ہو اور اس کو عمدہ، صحت بخش اور خوش ذائقہ غذا میسر نہ آ سکے تو وہ مجبور ہوتا ہے کہ اسے جو غذا بھی مل سکے اسی سے اپنا پیٹ بھرے۔ سخت قحط کے زمانہ میں اچھے بھلے باذوق انسان درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جب کوئی انسان خدا کی معرفت سے محروم ہو تو وہ کسی ایسے نصب العین کو اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے جو غلط اور ناقص ہونے کے باوجود اس کی کم علمی اور نادانی کی وجہ سے اس کے لئے کشش کا باعث ہوتا ہے کیونکہ ا س حالت میں اسے اپنی ایک شدید نفسیاتی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی نہ کسی تصور کی طرف حسن منسوب کرنا پڑتا ہے خواہ اس میں حسن کی کوئی صفت موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر انسان کو اچھی خوراک کبھی نصیب نہ ہوئی تو وہ گھٹیا خوراک ہی میں لذت محسوس کرتا ہے۔
غلط نصب العین کی ناپائیداری کا سبب
جب ایک انسان خدا کے علاوہ کسی اور تصور کو اپنا نصب العین بناتا ہے تو وقتی طور پر اسے حسن و کمال کی انتہا سمجھتا ہے لیکن اس کی خدمت اور اطاعت کے دوران جب وہ اسے قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ پاتا ہے یا جب اس کا دائرہ علم وسیع تر ہو جاتا ہے اور اس سے بہتر اور خوب تر تصورات اس میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ اس کے نقائص سے باخبر ہو کر اسے ترک کر دیتاہے اور پھر کسی نئے غلط تصور کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب اسے بھی ناقص پاتا ہے تو اسے بھی ترک کر دیتا ہے وہ کسی ناقص محبوب سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی فطرت کا جذبہ محبت ایک ایسے محبوب کے لئے بنایا گیا ہے جس کا حسن کامل بے عیب اور لازوال ہے اقبال انسانی خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ہر نگارے کہ مرا پیش نظر مے آید
خوش نگاریست دے خوشتر ازاں مے بایست
 ٭٭٭
چو نظر قرار گیرو بنگار خوبروئے
تپیداں زمان دل من پے خوبتر نگارے
طلم نہایت آں کہ نہایتے ندارد
بنگاہ نا شکیے بدل امیدوارے
قرآن کی روشنی
قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک قصہ میں فطرت انسانی کے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق قرآن حکیم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے انہیں شروع سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور وہ شروع سے ہی موحد تھے۔
"ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل و کنا بہ عالمین "
(ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اس بات کو خوب جانتے تھے)
وہ چاہتے تھے کہ اپنی ستارہ پرست مشرک قوم پر یہ بات واضح کریں کہ ان کے معبود سب ناقص ہیں اور انسان کی محبت کے لائق نہیں۔ انسان کی محبت کے لائق صرف ایک ایسی ہستی ہی ہو سکتی ہے جس کے حسن کی کوئی حد نہ ہو۔ جو ہر نقص سے مبرا اور ہر عیب سے پاک ہو ایسا معبود سوائے خالق ارض و سما کے اور کوئی نہیں ہو سکتا لہٰذا انہوں نے اپنی قوم کو موثر طریق سے وعظ و نصیحت کرنے کے لئے یہ ڈھنگ اختیار کیا کہ جب ایک ستارہ کو افق پر چمکتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ روشن اور بلند ہے اور اس میں حسن ہے لیکن جب وہ ڈوب گیا اور اس کے حسن کی ناپائیداری آشکار ہو گئی تو کہا میں کسی ڈوبنے والے سے محبت نہیں کر سکتا۔ نقص اور محبت جمع نہیں ہو سکتے (لااحب افلین میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا) پھر جب چاند نکلا تو اسے اپنا خدا بتایا کہ اس کا حسن ہر ستارے سے بڑھ چڑھ کر ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اسے بھی ناقص قرار دے کر ترک کر دیا اس کے بعد جب سورج طلوع ہوا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ وہ بڑا ہے اور اس کا حسن ستارے چاند دونوں سے بڑھ کر رہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ میں ایسی ہستی کو اپنا محبوب اور معبود بناتا ہوں جو سورج، چاند اور ستاروں کا خالق ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا حسن ان سب سے فائق ہو کہ خالق ہے اور یہ سب اس کی مخلوق ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ ایک انسانی فرد کے لئے کامل سے کامل تر نصب العین کے اختیار کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ۔۔ یہاں تک کہ وہ اس سوسائٹی کے نصب العین تک پہنچ جاتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے اور جس کا وہ ایک فرد ہوتا ہے یہ سوسائٹی اس کے لئے ایک ایسا تعلیمی ماحول پیدا کر چکی ہوتی ہے کہ اس کا نصب العین اس سوسائٹی کے نصب العین سے آگے نہیں جا سکتااور بہتر اور بلند تر نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کا نصب العین اسی صورت میں بدلتا ہے جب پوری سوسائٹی کا نصب العین بدل جائے یا جب وہ سوسائٹی سے بغاوت کر کے خود ایک نیا نصب العین پیش کرے اور لوگوں کو انقلاب کی دعوت دے۔