خودی کی تکمیل اور انسان کا شاندار مستقبل، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کی تکمیل اور انسان کا شاندار مستقبل
کیا انسان فی الواقع اپنے حسن و کمال کی انتہا کو پہنچے گا؟ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ اقبال کہتا ہے کہ یہ سوال ہم سے نہ پوچھو بلکہ معنی آدم یعنی انسان کی فطرت پر نگاہ ڈالو۔ جس میں حسن و کمال خداوندی کے محبت کا ایک بے پناہ ناقابل التوا اور نا قابل مزاحمت جذبہ رکھ دیا گیا۔ یہ جذبہ ہر حالت میں اپنی تشفی پا کر رہے گا اور جب تشفی پائے گا تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہو گا کہ انسان خد اکی محبت یعنی تفکر فی الصفات (عبادت) اور حسن عمل کے ذریعہ سے صفات خداوندی کے حسن کو جذب کر کے اپنے حسن کی انتہا تک پہنچے گا۔ اس وقت انسان جو اب اپنے گوناگوں نقائص کی وجہ سے مصرع ناموزوں کی طرح دلوں میں کھٹک رہا ہے۔ ان نقائص سے پاک ہو کر مصرعہ موزوں کی طرح حسین اور دل کش ہو جائے گا۔ اس وقت اس کی مشت خاکہ فرشتوں سے بھی زیادہ مقدس اور منور ہو جائے گی اور اس کی تقدیر کا کوکب سعادت زمین کو اخلاقی، علمی جمالیاتی اور روحانی طور پر بلند اور روشن کر کے گویا آسمان کا مقام دے گا۔
فروغ مشت خاک نوریاں از افزوں شود روزے
زمین از کوکب تقدیر او گردوں شود روزے
یکے در معنی آدم نگر از ماچہ مے پرسی
ہنوز اندر طبیعت مے خلد موزوں شود روزے
غلط نظریا کا منبع بھی خودی ہے
اوپر ہم دیکھ چکے ہیں کہ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ کسی فرد انسانی یا گروہ کا نصب العین حیات یا تصور حسن اس کے تمام اعمال و افعال کو پیدا کر کے ان کو اپنے گرد منظم کرتا ہے۔
آرزو صید مقاصد را کمند
دفتر اعمال را شیرازہ بند
جب کوئی فرد یا گروہ اپنے نصب العین کواپنی قدرتی عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر چسپاں کرتا ہے اور ان کو اپنے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بناتا ہے تو ایک خاص نظریہ زندگی وجود میں آتا ہے جو اس نصب العین پر مبنی ہوتا ہے اس وقت نوع انسانی کی حالت یہ ہے کہ ان کے نصب العین یا تصورات حقیقت یا تصورات حسن بہت سے ہیں اور ان کی کثرت کی وجہ سے وہ بہت سی نظریاتی جماعتوں میں بٹی ہوئی ہے جن میں صرف امت مسلمہ ایسی ہے جس کا نظریہ خدا کے عقیدہ پر مبنی ہے لیکن بظاہر اس کی حالت ایسی نہیں جس سے ایک عام انسان یہ نتیجہ اخذ کر سکے کہ وہ نظریاتی ارتقاء کا مقصود ہو گی باقی نظریاتی جماعتیں جو نہایت طاقتور ہیں خدا کے عقیدہ سے محض بے تعلق ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہی انسان کی منزل مقصود ہے اور تمام نظریاتی جماعتوں پر غالب آ کر دنیا میں پھیل جانے والی نظریاتی جماعت خدا پرستوں کی ہی جماعت ہو گی تو یہ بے خدا نظریاتی جماعتیں کہاں سے وجود میں آ گئی ہیں اور نظریاتی ارتقاء یا عمل تاریخ میں ان کا کردار کیا ہے۔ نظریاتی ارتقاء یا عمل تاریخ جو انسان کو اس کے حسن و کمال کی انتہا تک پہنچائے گا۔ ان جماعتوں کی موجودگی میں فی الواقع کیا صورت اختیار کرے گا اور کس طرح سے انجام پائے گا۔ اقبال کے نزدیک ان سوالات کا جواب بھی معنی آدم یا انسان کی فطرت یا (اقبال کی زیادہ پسندیدہ اصطلاح کو کام میں لاتے ہوئے) انسانی خودی کی فطرت سے پیدا ہوتاہے۔ تاریخ انسان کے اعمال و افعال سے بنتی ہے اور تمام انسانی اعمال و افعال انسان کی فطرت یا اس کی خودی کے منبع سے سرزد ہوتے ہیں لیکن انسانی خودی کے اندر خدا کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں اور انسان کے اعمال و افعال کی صور ت میں جو کچھ اس سے باہر آتا ہے بمصداق از کوزہ ہماں ترادد کہ در اوست وہ خدا ہی کی محبت کا شعوری یا غیر شعوری اظہار ہوتاہے اور خدا ہی کی بالواسطہ یا بلا واسطہ محبت کی ایک صحیح یا غلط عملی شکل ہوتی ہے۔
مر از خود برون رفتن محال است
بہر رنگے کہ ہستم خود پرستم
خودی کی فطرت کے تقاضے کبھی بہک جاتے ہیں او رکبھی اپنی سیدھی راہ پر ہوتے ہیں لیکن انسان کی عملی زندگی میں جو کچھ ہمارے سامنے آتا ہے وہ بے خدا نظریات ہوں یا با خدا نظریات وہ سب خودی کی فطرت سے پیدا ہوتے ہیں اور خودی کے مدارج اور مقامات ہوتے ہیں۔ زندگی خودی کے اشاروں پر چلتی ہے اور اس کی فطرت کی ترجمانی اور تشریح کرتی ہے۔ نصب العین صحیح ہو یا غلط وہ ہر حالت میں خودی کا ہی نصب العین ہوتا ہے اور خودی کے ہی کسی مقام کا پتہ دیتا ہے جو شخص خدا کا منکر ہے اور کسی غلط نصب العین سے اپنا دل لگائے ہوئے ہے وہ خودی کے ایک مقام پر ہے اگرچہ اس کا یہ مقام نہایت ہی پست ہے اور جو شخص خدا کو مانتا ہے اور خدا کو اپنا نصب العین قرار دئیے ہوئے ہے۔ وہ خودی کے دوسرے مقام پر ہے اگرچہ اس کا یہ مقام نہایت بلند اور بالا ہے۔ لہٰذا انسانی خودی کے اشارات بامطالبات کی عملی تشریح یا تصنیف کے سوائے اور کچھ نہیں۔
زندگی شرح اشارات خودی است
لا و الا از مقامات خودی است

یہاں لا سے مراد خدا کا انکار اور غیر اللہ کا اثبات یعنی غلط نظریات اور الا سے مراد ہے خدا کا اثبات اور غیر اللہ کا انکار (یعنی صحیح نظریہ حیات)