غلط نصب العین کی ناپائیداری کا سبب، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

غلط نصب العین کی ناپائیداری کا سبب
جب ایک انسان خدا کے علاوہ کسی اور تصور کو اپنا نصب العین بناتا ہے تو وقتی طور پر اسے حسن و کمال کی انتہا سمجھتا ہے لیکن اس کی خدمت اور اطاعت کے دوران جب وہ اسے قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ پاتا ہے یا جب اس کا دائرہ علم وسیع تر ہو جاتا ہے اور اس سے بہتر اور خوب تر تصورات اس میں داخل ہو جاتے ہیں تو وہ اس کے نقائص سے باخبر ہو کر اسے ترک کر دیتاہے اور پھر کسی نئے غلط تصور کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب اسے بھی ناقص پاتا ہے تو اسے بھی ترک کر دیتا ہے وہ کسی ناقص محبوب سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی فطرت کا جذبہ محبت ایک ایسے محبوب کے لئے بنایا گیا ہے جس کا حسن کامل بے عیب اور لازوال ہے اقبال انسانی خودی کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے۔
ہر نگارے کہ مرا پیش نظر مے آید
خوش نگاریست دے خوشتر ازاں مے بایست
 ٭٭٭
چو نظر قرار گیرو بنگار خوبروئے
تپیداں زمان دل من پے خوبتر نگارے
طلم نہایت آں کہ نہایتے ندارد
بنگاہ نا شکیے بدل امیدوارے
قرآن کی روشنی
قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک قصہ میں فطرت انسانی کے اس پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق قرآن حکیم نے ہمیں بتایا ہے کہ خدا نے انہیں شروع سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور وہ شروع سے ہی موحد تھے۔
"ولقد اتینا ابراہیم رشدہ من قبل و کنا بہ عالمین "
(ہم نے ابراہیم کو پہلے سے ہی ہدایت دے رکھی تھی اور ہم اس بات کو خوب جانتے تھے)
وہ چاہتے تھے کہ اپنی ستارہ پرست مشرک قوم پر یہ بات واضح کریں کہ ان کے معبود سب ناقص ہیں اور انسان کی محبت کے لائق نہیں۔ انسان کی محبت کے لائق صرف ایک ایسی ہستی ہی ہو سکتی ہے جس کے حسن کی کوئی حد نہ ہو۔ جو ہر نقص سے مبرا اور ہر عیب سے پاک ہو ایسا معبود سوائے خالق ارض و سما کے اور کوئی نہیں ہو سکتا لہٰذا انہوں نے اپنی قوم کو موثر طریق سے وعظ و نصیحت کرنے کے لئے یہ ڈھنگ اختیار کیا کہ جب ایک ستارہ کو افق پر چمکتے ہوئے دیکھا تو لوگوں کو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ یہ روشن اور بلند ہے اور اس میں حسن ہے لیکن جب وہ ڈوب گیا اور اس کے حسن کی ناپائیداری آشکار ہو گئی تو کہا میں کسی ڈوبنے والے سے محبت نہیں کر سکتا۔ نقص اور محبت جمع نہیں ہو سکتے (لااحب افلین میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا) پھر جب چاند نکلا تو اسے اپنا خدا بتایا کہ اس کا حسن ہر ستارے سے بڑھ چڑھ کر ہے لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو اسے بھی ناقص قرار دے کر ترک کر دیا اس کے بعد جب سورج طلوع ہوا تو کہا کہ یہ میرا رب ہے کیونکہ وہ بڑا ہے اور اس کا حسن ستارے چاند دونوں سے بڑھ کر رہے۔ لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ میں ایسی ہستی کو اپنا محبوب اور معبود بناتا ہوں جو سورج، چاند اور ستاروں کا خالق ہے۔ ضروری ہے کہ اس کا حسن ان سب سے فائق ہو کہ خالق ہے اور یہ سب اس کی مخلوق ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ایک انسانی فرد کے لئے کامل سے کامل تر نصب العین کے اختیار کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ۔۔ یہاں تک کہ وہ اس سوسائٹی کے نصب العین تک پہنچ جاتا ہے جس میں وہ پیدا ہوا ہے اور جس کا وہ ایک فرد ہوتا ہے یہ سوسائٹی اس کے لئے ایک ایسا تعلیمی ماحول پیدا کر چکی ہوتی ہے کہ اس کا نصب العین اس سوسائٹی کے نصب العین سے آگے نہیں جا سکتااور بہتر اور بلند تر نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کا نصب العین اسی صورت میں بدلتا ہے جب پوری سوسائٹی کا نصب العین بدل جائے یا جب وہ سوسائٹی سے بغاوت کر کے خود ایک نیا نصب العین پیش کرے اور لوگوں کو انقلاب کی دعوت دے۔
حقیقت کفر کا تجزیہ
ظاہر ہے کہ چونکہ خودی صرف ایک ایسے محبوب سے محبت کر سکتی ہے جو خدا کی صفات رکھتا ہو لہٰذا اس انسان کے ساتھ جو خدا کی بجائے کسی اور کو اپنا محبوب بنانے پر مجبور ہوتا ہے جو ماجرا پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے غلط اور ناقص محبوب کے اندر اسے غلطی سے خدا کی بعض صفات کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے اور وہ ان صفات کو شعوری طور پر اور سوچ سمجھ کر اس کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور ایسا کرنے کے بعد وہ فرض کر لیتا ہے کہ اس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جن کا وہ متمنی ہے اور وہ جو خداکی صفات ہیں تاکہ اپنی غلطی کو مکمل کر کے اپنے ناقابل التواء اور نا قابل انسداد جذبہ محبت کو مطمئن کرے۔ گویا وہ خدا کی باقی ماندہ صفات کو جن کو وہ اس محبوب کی طرف شعوری طور پر منسوب نہیں کر سکتا۔ غیر شعوری طور پر منسوب کر دیتا ہے لہٰذا وہ اسے ایک خدا بنا لیتا ہے جس کے ساتھ وہ اسی طرح سے محبت کرتا ہے جس طرح سچے خدا کے ساتھ محبت کی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے انسان کی فطرت کے اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے۔
واتخذا من دین اللہ نداد یحبونھم کحب اللہ والذین امنو اشد جاللہ
(اور انہوں نے خدا کو چھوڑ کر مقابل کے معبود بنا لئے ہیں جن سے وہ ایسی ہی محبت کرتے ہیں جو انسان کی فطرت کی رو سے خدا کے لئے ہونی چاہئے اور وہ لوگ جو دولت ایمان سے بانصب ہیں۔ خدا سے شدید محبت کرتے ہیں) خدا کو چھوڑ کر کسی غلط اور ناقص محبوب کو اختیار کرنا ایسی غلطی نہیں ہوتی جس سے بآسانی نجات مل جائے بلکہ انسان اس غلطی پر جما رہتا ہے اس کی خودی اپنے نصب العین کے ساتھ اس طرح سے پیوست ہو جاتی ہے کہ گویا وہ اور اس کا نصب العین ایک ہی ہیں لہٰذا وہ اپنے نصب العین کے خلاف آسانی سے کوئی دلیل نہ سن سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے۔
غلط نظریاتی جماعت کی توسیع، تنظیم اور موت
پھر غلط نصب العین کا ماننے والا اپنے غلط نصب العین کی محبت کو اپنی اولاد میں ایک قسم کے نظریاتی توالد کے ذریعہ سے براہ راست منتقل کرتا ہے اور پھر اس کی اولاد اپنی اولاد اور اس طرح سے ایک نوع حیوانی کی طرح جو حیاتیاتی اور جسمانی توالد کے ذریعہ سے بڑھتی اور پھیلتی ہے ایک ہی نصب العین کو ماننے والے افراد نفسیاتی یا نظریاتی توالد کے ذریعہ سے ایک عرصہ تک بڑھتے اور پھیلتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک بہت بڑی جماعت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر اس جماعت کے اندر ایک تنظیم پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ایک ریاست کی شکل میں آ جاتی ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنی ریاستیں ہیں ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی نصب العین حیات کو ماننے اور چاہنے والوں کی ایک جماعت ہے جو سیاسی طور پر منظم ہو گئی ہے۔ جب کسی ریاست کا نصب العین حیات غلط ہو تو اس کا وجود اس نصب العین کی پرستار ریاست کی حیثیت سے پائیدار نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کہ وہ ایک ہزار سال تک اسی نصب العین پر قائم رہے لیکن آخر کار ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب اسے اس نصب العین کو ترک کرنا پڑتا ہے جب یہ وقت آتا ہے تو وہ ریاست مٹ جاتی ہے اور اس کی جگہ دوسری ریاست وجود میں آجاتی ہے۔
غلط نظریاتی جماعت کی موت کے اسباب
اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی ریاست کا نصب العین غلط ہو تو وہ غلط قسم کے اخلاقی، اقتصادی، قانونی، تعلیمی، علمی، فوجی، مذہبی، جمالیاتی اور اطلاعاتی حالات پیدا کرتا ہے جو ہماری آرزوئے حسن کے مطابق نہیں ہوتے اور جن کو ہم آخر کار ناپسند رکتے ہیں وہ ہمیں نصب العین کے ناقص ہونے کا پتہ دیتے ہیں اور اس طرح سے ہمیں نصب العین سے نفرت کرنے اور بالآخر اسے ترک کرنے پر مجبور کرتے ہیں ایک ریاست کے تمام اعمال و افعال اس کے نصب العین سے سرزد ہوتے ہیں۔ ایک نصب العین کی محبت فقط ایک قلبی یا ذہنی کیفیت نہیں ہوتی بلکہ ایک بے پناہ قوت عمل ہوتی ہے جو فرد اور جماعت کے تمام افعال کو معین کرتی ہے اور اس کی زندگی کے تمام حالات کو پیدا کرتی ہے یا ان کو بدل کر نصب العین کے مطابق کرتی ہے۔
آرزو صید مقاصد را کمند
دفتر اعمال را شیرازہ بند
لہٰذا ایک منظم جماعت یا ریاست کا نصب العین اس کی زندگی کے حالات کے اندر اس طرح سے منعکس ہو جاتاہے۔ جس طرح سے ایک آئینہ کے اندر اس کے سامنے کی دنیا، اس کی عملی زندگی جو اس کی سیاسی، تعلیمی، فوجی، اخلاقی، مذہبی، علمی، جمالیاتی، قانونی، اقتصادی اور اطلاعاتی سرگرمیوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کے نصب العین کی ہو بہو تصویر ہوتی ہے جو اتنی ہی زیبا یا زشت ہوتی ہے جتنا کہ وہ نصب العین جس سے وہ پیدا ہوتی ہے۔ لہٰذا جب ایک قوم کا غلط نصب العین اس کی عملی زندگی کی بدنما تصویر کی صورت میں اس کے سامنے آتا ہے تو وہ اس کے نقائص سے واقف ہو جاتی ہے اور اس سے نفرت کرنے لگتی ہے۔
ایک فرد کی طرح غلط نصب العین پر قائم ہونے والی ایک نظریاتی جماعت بھی اپنے نصب العین کی طرف حسن کی چند صفات شعوری طور پر اور باقی صفات غیر شعوری طور پر منسوب کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فرد ہی کی طرح اپنی تمام جدوجہد کو حسن کی ان صفات کے عملی اور خارجی اظہار پر صرف کرتی ہے جن کو وہ اپنے نصب العین کی طرف شعوری طور پر منسوب کرتی ہے اور باقی تمام صفات حسن کو نظر انداز کرتی ہے لیکن یہی بات کہ وہ حسن صداقت اور نیکی کی بعض صفات کو نظر انداز کرتی ہے اس کے لئے نا ممکن بنا دیتی ہے کہ وہ ان صفات حسن کو اپنی عملی اور خارجی زندگی میں کامیابی کے ساتھ اجاگر کر سکے جن کی موجودگی وہ اپنے نصب العین میں شعوری طور پر محسوس کرتی ہے اور جن کو وہ عملی طور پر نظر اندا زکرنا نہیں چاہتی چونکہ وہ حسن کے بہت سے تقاضوں کی طرف سے عملاً بے پرواہ رہتی ہے وہ حسن کے ان چند تقاضوں کو بھی جن کی وہ پرواہ کرتی ہے آزادی اور عمدگی اور کامیابی کے ساتھ پور نہیں کر سکتی۔
اس سے ظاہر ہے کہ ایک غلط نصب العین کی فطرت اس قسم کی ہوتی ہے کہ یہ ضروری ہوتا ہے کہ جو قوم بھی اسے اپنائے اس کے حالات ایک خاص مدت کے بعد قوم کی ساری کوششوں کے باوجود دن بدن بگڑتے چلے جائیں یہاں تک کہ وہ بالکل تباہ و برباد ہو جائے۔ غلط نصب العین کی پرستار ریاست کی بربادی کا سامان اس کے نصب العین کی فطرت کے اندر ہی موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی ریاست کا آشیانہ شاخ نازک پر ہوتا ہے اور وہ اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرتی ہے۔ اسی بنا پر اقبال عصر جدید کی لادینی تہذیب کے علمبرداروں کو خطاب کر کے کہتا ہے۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
ایسی ریاست کی ناپائیداری کی وجہ یہ ہے کہ ہر غلط نصب العین یہ چاہتا ہے کہ حسن نیکی اور صداقت کے صرف چند تقاضوں کو پورا کر کے باقی تقاضوں کو نظر انداز کر دے۔ حالانکہ حسن نیکی اور صداقت کا کوئی تقاضا ان کے دوسرے تقاضوں کی مدد اور اعانت کے بغیر پور انہیں کی اجا سکتا۔ سارا حسن خدا کی ذات ہے اور حسن میں نیکی اور صداقت اور خداوند تعالیٰ کی تمام صفات جلال و جمال شامل ہیں۔ چونکہ حسن ایک وحدت ہے اور اس کا اکتساب یا تتبع ایک وحدت ہی کے طور پر کیا جا سکتا ہے ورنہ بالکل نہیں کیا جا سکتا مثلاً سیاسی مساوات جسے جمہوریت کہتے ہیں یا اقتصادی مساوات جسے اشتراکیت کہتے ہیں دونوں خدا کی صفت عدل کے مظاہر ہیں۔ لہٰذا دونوں میں سے کوئی مساوات بھی ایسی نہیں جسے کوئی انسانی جماعت خدا کی محبت کی تربیت اور ترقی کے بغیر یا خدا کی محبت سے بے نیاز ہو کر عمل اور مستقل طور پر حاصل کر سکے۔
غلط نظریاتی جماعتی کے عروج و زوال کا عمل
تاہم قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ کے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ غلط نصب العین کی پیروی کا وہ عمل جس کے نتیجہ کے طور پر بالاخر ایک قوم جس کا کاروبار زندگی اس غلط نصب العین پر قائم ہو چکا ہو۔ اپنے نصب العین کی خامیوں او ربرائیوں سے آگاہ ہو کر اسے چھوڑ دیتی ہے اتنا طویل ہوتا ہے کہ آٹھ دس صدیوں کے عرصۃ میں پھیل جاتا ہے۔ شروع شروع میں اس کے چاہنے والوں کی امیدیں بلند ہوتی ہیں ان کی محبت تازہ اور شگفتہ اور پر خلوص اور دلیر ہوتی ہے اور وہ ہر ممکن جدوجہد کرتے ہیں کہ جو حسن وہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اسے جہان رنگ و بو میں آشکار کر کے دکھائیں اس سے ان کی محبت اور بھی ترقی پاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نصب العین کی ہر قسم کی فتوحات بڑھتی چلی جاتی ہیں اور اس کا دائرہا ثر و نفوذ پھیلتا چلا جاتا ہے اور نصب العین کی قوت اور شوکت ترقی کرتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے عروج کے اس انتہائی نکتہ پر پہنچ جاتاہے جہاں وہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کی وجہ سے پہنچ سکتا ہے۔ قدرت کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ ہر قوم کو خواہ اس کا نصب العین صحیح ہو یا غلط اپنی صلاحیتوں کی حد تک بڑھنے اور پھولنے کے تمام مواقع بہم پہنچاتی ہے اور ہر قوم زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سمت میں جس قدر اس کے نصب العین کی فطرت اسے ترقی کا موقعہ دے سکتی ہے ترقی کرتی ہے۔ غلط نصب العینوں کی عارضی ترقی کا سبب یہی ہے۔ قرآن حکیم نے اس قانون قدرت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
"کلا نمدھولاء وھولاء من عطاء ربک وما کان عطاء ربک محظورا"
(ہم سب کی مدد کرتے ہیں ان کی بھی یہ آپ کے پروردگار کی مہربانی ہے اور آپ کے پروردگار کی مہربانی محدود نہیں)
لیکن رفتہ رفتہ جب ان کے غلط نصب العینوں کے نقائص آشکار ہونے لگتے ہیں تو ان کی محبت میں بھی زوال آنے لگتا ہے۔ وہ اب بھی اس کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں لیکن اب اس کے لئے ان کی ستائش کا جذبہ کمزور اور ان کے عمل کا جوش سرد ہونے لگتا ہے لہٰذا نصب العین کی قوت اور شوکت روز بروز کم ہوتی جاتی ہے اور اس کے مداحوں اور عاشقوں کی محبت بھی اسی نسبت سے گھٹتی جاتی ہے زاور پھر وہ اپنی زندگی میں نصب العین کی محبت کے خلاء کو پر کرنے کے لئے عیش و عشرت اور تماشہ اور تفریح کی طرف رجوع کرتے ہیں جس نسبت سے نصب العین کے ساتھ ان کی محبت کم ہوتی جاتی ہے اسی نسبت سے عیش و عشرت کی طرف ان کی رغبت بڑھتی جاتی ہے اور یہ رغبت ان کی محبت کو اور کمزور کرتی جاتی ہے۔ عیش و عشرت سے قوم کی رغبت اس کے زوال کا سبب نہیں بلکہ اس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہٰذا جب یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب قوم کا زوال اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور اس کی اجل قریب ہے۔ غلط نصب العینوں پر قائم ہونے والی نظریاتی جماعتوں کی تقدیر یہی ہوتی ہے۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
قرآن حکیم نے ایسی ہر جماعت کے لئے ارشاد فرمایا ہے۔
لکل امۃ اجل فاذا جاء اجلھم لا یستئخرون ساعۃ ولا یستقدمون ۔
(خدا نے ہر کافر قوم کے لئے زندگی کی ایک مدت مقرر کر رکھی ہے جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ان کی موت ایک لمحہ کے لئے بھی آگے یا پیچھے نہیں ہوتی)

ایسے موقعہ پر کسی بیرونی دشمن کا کچل دینے والا حملہ یا کسی اندرونی دشمن کی کامیاب بغاوت اس کے ختم ہونے کا ظاہری سبب بن جاتی ہے اور جب وہ ختم ہو جاتی ہے تو ایک نئے نصب العین کو چاہنے والی ایک نئی قوم اس کی جگہ لے لیتی ہے اگر اس نئی قوم کا نصب العین بھی غلط ہو تو آخر کار اس کا حشر بھی وہی ہوتا ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے قومیں اور تہذیبیں جن میں سے ہر ایک کسی نصب العین پر مبنی ہوتی ہے انسانی تاریخ کے اسٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔ ترقی کرتی ہیں اپنی شان و شوکت کی انتہا تک پہنچتی ہیں اور پھر روبہ زوال ہو کر آخر کار مٹ جاتی ہیں اور نئی قومیں اور تہذیبیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں جو اپنی باری پر پھر تاریخ کے اسی عمل کو دہراتی ہیں۔