خودی اور نشر توحید
مومن کا میدان کار
جب مومن کی خودی میں انقلاب آتا ہے ۔ تو وہ نہ صرف بے پناہ قوت عمل کا مالک بن جاتا ہے بلکہ اس قوت کے اظہار کے لیے میدان کار بھی تلاش کرتا ہے اور اس کا میدان کار باطل کا استیصال اور حکم حق کا اجرا ہوتا ہے۔ جس کی ابتدا کلمہ توحید کی اشاعت اور خدا کی محبت کی دعوت سے ہوتی ہے۔ کیونکہ اپنے محبوب کی طرح وہ بھی چاہتا ہے کہ نوع انسانی اپنی ہر منزل کمال کو پہنچے۔ ا س کا مقصد حیات وہی ہوتا ہے جو اس کے محبوب کا مقصد ہے۔ لہٰذا جب تک اس کائنات میں خدا کا مقصد پورا ہو جاتا ہے تو اس وقت تک اس کے عاشق کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا اور خدا کا مقصد نوع بشر کی تکمیل ہے جو خدا کے قول کن سے ہو رہی ہے۔ خدا کی محبت میں خدا کے مقصد کی محبت بھی شامل نہیں ہے لہٰذا مومن خدا کے قول کن کا ممد و معاون بنتا ہے اور خدا کے بندوں کو خدا کی محبت کی طرف لاتا ہے اوراپنی دعوت کو موثر اور کامیاب کرنے کے لیے اپنے عمل قوتوں کو جو خدا کی محبت سے مزید قوت پا کر درجہ کمال کو پہنچ چکی ہوتی ہیں ۔ ہر ممکن طریق سے کام میںلاتا ہے اور ایسا کرنا اس کی اپنی آرزوئے حسن کی تشفی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ چونکہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق پہلے خود بدل جاتا ہے اس لیے وہ دنیا کو بھی بدل سکتا ہے اور بدلتا ہے پہلے وہ خدا کے جمال کا نقش اپنی جان میں پیدا کرتا ہے اور اس کے بعد اس نقش جمال کو دنیا میں عام کر دیتا ہے۔
خدا کے دو مختلف قسم کے عاشق
ایک خدا کا عاشق وہ ہے جو خدا کی محبت سے سرشارہو کر اللہ ہو کا ایک نعرہ لگاتا ہے۔ لیکن پھر خاموش ہو کر دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اپنی خاموش گوشہ نشین محبت کو اپنی نجات کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ وہ عبادت اور ریاضت تو کرتا ہے لیکن خدا کی محبت سے قوت پا کر باطل سے ٹکر نہیںلیتا اور خدا کا حکم دنیا میں جاری نہیںکرتا۔ حیدر کرارؓ کی طرح جو کی روٹی تو کھاتا ہ لیکن آپ کی طرح خیبر فتح کرنے کے لیے نہیں نکلتا۔ بلکہ ایک راہب کی طرح کسی خانقاہ کے گوشہ عزلت میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور بادشاہت سے گریز کرتا ہے۔ دوسرا عاشق خدا وہ ہے جس کے نعرہ سے کائنات ہل جاتی ہے اور اس کی قیادت کی تمنا میں اس کے کوچہ کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ وہ باطل سے ٹکراتا ہے تاکہ اسے ملیامیٹ کر کے دنیا میں خدا کا حکم جاری کرے۔ وہ باطل کی دنیا کو اپنا شکار سمجھتا ہے اور اسے فنا کے گھات اتار دینا چاہتا ہے ۔ چونکہ وہ خدا کا وہ کام کرتا ہے جس کا انجام پانا بالقوہ کائنات کی فطرت میں ہے اور جو ہر حالت میں انجام پا کر رہے گا اور وہ کائنات کے ارتقا کی قوتوں کو جو کائنات کے اندر مخفی ہیں اپنے ساتھ شریک کار بنا لیتا ہے۔ لہٰذا اس کی تدبیر خدا کی تقدیر سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے اور جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی ہو جاتا ہے۔ عصر جدید کی دنیا میں جس میں دہریت‘ مادیت اور کفر اور الحاد کا دور دورہ ہے۔ ایسے عاشق کے لیے ایک زبردست چیلنج کا حکم رکھتی ہے۔ اسے چاہیے کہ اس چیلنج کو قبول کرکے اور عصر جدید کو مشرف بتوحید کر کے دنیا کو خدا کی مرضی کے مطابق بدل دے۔ اقبال حلاج کی زبان سے جس نے انا الحق کہا تھا ان حقائق کی تلقین کرتاہے کیونکہ انا الحق (میںخدا ہوں) کہنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان دنیامیں وہ کام کرے جو خدا کر رہا ہے ۔ اور اس طرح سے خدا کا معاون و شریک کار بن جائے۔ لہٰذا ان حقائق کی تلقین حلاج ہی کر سکتا ہے۔ اس طریق سے اقبال نے حلاج کے قول انا الحق کو جسے لوگوں نے کفر قرار دیا تھا ایک نئے معنی پہنائے ہیں جو اسلام کے مطابق ہیں۔
نقش حق اول بجان انداختن
باز اورا در جہاں انداختن
نقش جان تا در جہاں گردو تمام
می شود دیدار حق دیدار عام
اے خنک مردے کہ ازیک ہوئے او
نہ فلک دارد طواف کوئے او‘
وائے درویشے کہ ہوئے آفرید‘
باز لب بر بست و دم درخود کشید
حکم حق را جہاں جاری نہ کرو
نانے از جو خورد و کراری نہ کرد‘
خانقاہے جست و از خیبر رمید
راہبی و زید و سلطانی ندید
نقش حق داری؟ جہاں نخچیر تست
ہم عنان تقدیر با تدبیر تست
عصر حاضڑ با تومے جوید ستیز
نقش حق بر لوح ایں کافر بریز‘