غیر اللہ سے مکمل کنارہ کشی خودی کی قوت کا راز
چونکہ خودی میں خداکے سوائے اور کسی چیز کی خواہش باقی نہیں رہتی خودی کا عمل غلط خواہشات اور تصورات کے اثرسے پوری طرح آزاد ہو جاتا ہے اور خودی خدا کی محبت کے لیے نہایت آسانی کے ساتھ ہر قسم کی تکلیفیں اٹھا سکتی ہے۔ بلکہ اس قسم کی تکلیفوں کا کوئی احساس اس میں باقی نہیںرہتا۔ اقبال کی اصطلاح میں فقر خودی کی اس حالت کا نام ہے جب وہ غیر اللہ سے پوری طرح بے تعلق ہو کر خڈا سے اپنا تعلق جوڑ لیتی ہے۔ جب تک خودی فقر کے اس مقام کو نہیں پاتی یعنی جب تک اس کی ساری محبت باطل تصورات سے (جن میں انسان کی اپنی سفلی خواہشیں اور الفتیں بھی شامل ہوتی ہیں) کٹ کر خدا کے لیے نہیں ہو جاتی۔ خودی خدا سے پورا قرب حاصل نہیں کر سکتی اوراس پر خود فراموشی اور مستی اور سرور کی وہ کیفیت وارد نہیں ہو جاتی جسے اقبال خودی میں ڈوبنے سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کیفیت کا وارد ہونا ہی اس با ت کی دلیل ہے کہ اب خودی کی ساری محبت غیر اللہ سے کٹ کر اللہ کے لیے ہو گئی ہے۔ لہٰذا خودی جب اس حالت سے عود کرتی ہے تو اپنی محبت کا سارا خلوص اور اپنی ساری یک بینی‘ یک اندیشی اور یک باشی جن کی وجہ سے وہ اس حالت تک پہنچتی ہے۔ اپنے ساتھ لاتی ہے۔ پھر ہو کوئی ایسا کام نہیں کر سکتی کہ جو خدا نہ چاہتا ہو اور بڑے سے بڑا خطرہ کے باوجود کسی ایسے کام سے رک نہیں سکتی جو خدا چاہتا ہو۔ وہ چاہتی ہے کہ دنیا کی تمام قوتوں کو مسخر کر کے باطل کو فنا کرنے اور حکم حق کو جاری کرنے کے لیے کام میں لائے اور وہ اس غرض کے لے ہر خطرہ کو مول لینے پر آمادہ ہو جاتی ہے شک اور خوف کی تمام قسمیں اس سے رخصت ہو جاتی ہیں اور وہ ایک بے پناہ قوت عمل کی مالک بن جاتی ہے یوں سمجھیے کہ وہ ایک تیز تلوار بن جاتی ہے جو باطل کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ اس تلوار کو تیز کرنے کے لیے لا الہ الااللہ کا پختہ یقین یا فقر یا عشق اسے پہلے فسان کا کام دے چکا ہوتاہے۔ خودی کا سر نہاں یہ ہے کہ وہ خدا سے محبت کرتی ہے اور خدا کے سوائے کسی اور محبوب کو قبول نہیںکرتی۔ خودی کی اصل حقیقت کیا ہے لا الہ الا اللہ یعنی خدا اور صرف خدا کی محبت کا ایک جذبہ۔ خودی ایک تلوار ہے جو لا الہ الا اللہ کی فساں پر تیز کی جاتی ہے۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
تیغ خودی کا کردار
جب خودی کی تلوار فقر کی سان پر تیز کی جاتی ہے تو اس میں ایک زبردست قوت پیدا ہو جاتی ہے پھر ایک سپاہی کی ضر ب بھی وہ کام کرتی ہے جو پوری فوج سے بن آتا ہے۔
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغ خودی
اک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کار سپاہ
بعض لوگ لا الہ الا اللہ کو چند الفاظ سمجھتے ہیں لیکن خودی کے لیے اس کلمہ کی حیرت انگیز تاثیر کو دیکھا جائے تو پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کلمہ الفاظ کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ ایک شمشیر برہنہ ہے جو باطل کا قلع قمع کر دیتی ہے۔
ایں دو حرف لا الہ گفتار نیست
لا الہ جز تیغ بے زنہار نیست
جب خودی کے اندر ایسا انقلاب پیدا ہوجائے توپھر یہ بات کوئی تعجب انگیز نہیںہوتی بلکہ معمولی نظر آتی ہے کہ خود ی اپنی قوت عمل سے باطل کو نیست و نابود کر کے حق پرستوں کی ایک نئی دنیا وجود میں لے آئے۔
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
جس انسان کے اندر خودی کا یہ انقلاب پیدا ہو جاتاہے وہ خدا کا عبد (یعنی بندہ) بن جاتا ہے۔ عبدہ کائنات کی تخلیق کا مخفی راز ہے۔ کیونکہ کائنات اسی کو وجود میں لانے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لاالہ اگر تیغ زنہار ہے تو عبدہ اس تلوار کی دھار ہے۔ عبدہ حاصل کائنات اور حاصل تخلیق ہے۔ مارمیت اذرمیت ولا کن اللہ رمی(جب تم نے اپنے ہاتھ سے ریت پھینکی تھی تو تم نے نہیںپھینکی تھی بلکہ خدا نے پھینکی تھی) کی آیت کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبدہ خدا کا ہاتھ بلکہ خود خدا بن جاتا ہے۔
لا الہ تیغ و دم او عبدہ
فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ
عدہ چند و چگون کائنات
عبدہ راز درون کائنات
مدعا پیدا نہ گردد زیں و زیست
تانہ بینی از مقام مارمیت
خودی کا یہ انقلاب مومن کی اپنی ترقی کے نقطہ کمال پر اسلیے حاصل ہوتا ہے کہ وہ ماسویٰ اللہ کی محبت سے مکمل طورپر کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ خود ی کا کمال خدا کی مخلصانہ محبت سے حاصل ہوتا ہے اور خدا کی مخلصانہ محبت خودی کے کمال سے ۔ مومن کے یہ دونوں اوصاف درحقیقت ایک ہی وصف کے دو پہلو ہیں۔
از ہمہ کس کنارہ گیر صحبت آشنا طلب
ہم ز خدا خودی طلب ہم ز خودی خدا طلب
دنیا کی ہر چیز سے کٹ جانا خدا کو پانے کی اور اپنے آ پ کو پانے کی ابتدائی شرط ہے۔
تو ہم بدذوق خودی رس کہ صاحبان طریق
بریدہ از ہمہ عالم بخویش پیوستند
مقام فقر
توحید کامل کے اسی مقام کو اقبال فقر کا نام دیتا ہے کیونکہ اس مقام پر مومن فقط خدا کی رضاکا طالب ہوتا ہے اور دنیا سے بالکل بے نیاز ہو جاتا ہے۔ لیکن مومن کا فقر کافر کے فقر سے مختلف ہوتاہے۔ کافر دنیا کو چھوڑ کر دشت و در میں خلوت گزین ہو جاتا ہے اور پھر دنیا سے کوئی سروکارنہیں رکھتا۔ لیکن مومن دنیا کو صرف ایک مقصود اور محبوب کی حیثیت سے ترک کرتاہے لیکن خدا کی محبت کی تکمیل یعنی اپنے اصل محبوب اور مقصود کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر کام میں لاتا ہے۔ پھر دنیا اس کی حاکم یا آقانہیں رہتی بلکہ محکوم یا غلام بن جاتی ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز قسم کی مادی‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ اخلاقی اور روحانی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے قبضہ قدرت میں لائے تاکہ ان کی مدد سے محبوب کے مقاصد کو زیادہ آسانی سے پورا کر سکے۔ اس طرح سے مومن کے ترک کانتیجہ تسخیر اور تعمیر کائنات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر خاکی و نوری
مومن کے فقر کا اصل مقصد دنیا کو ترک کرنا نہیں بلکہ دنیا کو بزور بازو بدل کر درست کرنا ہوتاہے اسی لیے اقبال کو مومن کے فقر کو فقر غیور بھی کہتا ہے۔ یعنی ایسا فقر جو باطل کو برداشت نہیں کرتا۔
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور
ترک جہاں کا ذکر کرنے والوں کو معلوم نہیں کہ اسلام میں ترک جہاں کا مطلب تسخیر جہاں ہے۔
اے کہ از ترک جہاں گوئی مگو
ترک ایں دیر کہن تسخیر او
بعض غیر مسلموں کا یہ کہنا قرآن پر اتہام ہے کہ وہ ترک جہاں کی تعلیم دیتا ہے۔ کیا قرآن کی اسی تعلیم نے مومن کو دنیا کا حکمران اور مہ و پروین کا غلام نہیں بنا دیا تھا۔
اسی قران میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم
جس نے مومن کو بنایا مہ و پروین کو غلام
قرآن کا فقر
بعض لوگ چنگ ورباب کی موسیقی یا بھنگ اور شراب کی مستی یا رقص اور سرود کی لذت کو فقر سمجھتے ہیں ۔ لیکن قرآن کا فقریہ نہیں۔ قرآن جس فقر کی تعلیم دیتاہے وہ ہر چیز کامحاسبہ کرتا ہے تاکہ یہ دیکھے کہ نیک کیا ہے اور بد کیا۔ زیبا کیاہے اور زشت کیا ہے۔ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ کونسی چیز رکھنے کے قابل ہے اور کونسی فنا کر نے کے لائق مومن کے فقر کا نتیجہ کائنات کی قوتوں کی تسخیر ہے۔ اس کے ذریعہ سے مومن خدا کی صفات کے رنگ میں رنگا جاتاہے۔ کافر کا فقر یہ ہے کہ بدنی خواہشات کو ترک کر کے خدا کی جستجو میں لگ جائے۔ مومن کا فقر یہ ہے کہ خودی کی تلوا رکو لا الہ الا اللہ کی فسان پر تیز کیاجائے۔ وہ خودی کو مارنا اور سوختہ کرنا ہے اور یہ خودی کو چراغ کی طرح روشن کرنا ہے۔ جب فقر آشکار ہوتا ہے تو چاند او ر سورج بھی اس کے خوف سے لرزہ براندام ہوتے ہیں۔ بدروحنین کے معرکے اور میدان کربلا میں حسین کی تکبیر فقر آشکارکے مظاہر ہیں۔ جب سے فقر آشکارائی کے ذوق سے عاری ہوا ہے مسلمان قوم کا وہ جلال باقی نہیں رہا۔
فقر قرآن احتساب ہست بود
بے رباب و مستی و رقص و سرود
فقر مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مالا صفات
آن خدا را جستن از ترک بدن
ایں خودی را بر فسان حق زدن
آن خودی را کشتن دوا سوختن
ایں خودی را چون چراغ افروختن
فقر چوں عریاں شود زیر سپہر
از نیست اوبلر زد ماہ و مہر
فقر عریاں گرمی بدر و حنین
فقر عریاں بانگ تکبیر حسین
فقر را تا ذوق عریانی نماند‘
آں جلال اندر مسلمانی نہ نماند
فقر کے معجزات
جب صاحب فقر مومن اپنے محبوب کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے میدان میں آنے کا عزم کرتاہے تو چونکہ وہ خدا کی مرضی کے عین مطابق اور کائنات کے ارتقا کی سمت میں اور قول کن کی مخفی قوتوں کو آشکار کرنے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس کو خدا کے ایک مخفی انتظام سے اس کی پراسرار حکمت سے اور اس کے کام کو آسان بنانے کے لیے اس کے مناسب حال کچھ غیر معمولی قوتیں دی جاتی ہیں جن کے اصل سبب کو عا م لوگ نہیں جانتے کیونکہ وہ دراصل فقر کی کرامات یا فقر کے معجزات کے طور پرہوتی ہیں مثلاً کسی صاحب فقر مومن کو غیر معمولی علم دے دیا جاتاہے۔ کسی کو دین کی حکمت سمجھا دی جاتی ہے ۔ کسی کو غیر معمولی دانائی اور بصیرت عطا ہو جاتی ہے۔ کسی کو دلکش تقریر یا تحریر کا جوہر دے دیا جاتاہے۔ کسی کو جاذب قلوب شعر کا ملکہ حاصل ہو جاتا ہے۔ کسی کو قیادت اور لیڈر شپ کی غیر معمولی اہلیت دے دی جاتی ہے۔ کسی کے لیے لوگوںکے دلوں میں کشش پیدا کر کے مرجع خلائق بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کو سپہ سالار بنا دیا جاتا ہے۔ کسی کوسلطنت‘ کسی کو اختیار اور اقتدار اور کسی کو بادشاہت اور تخت و تاج کے انعامات دے دیے جاتے ہیں ۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سر پر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کاشاہ
٭٭٭
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے جس کو سلطانی
٭٭٭
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
چونکہ فقر کے مقامات اور درجات ہزاروں ہیں۔ اس کے انعامات بھی ہزاروں ہیں۔
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے پردہ روح قرآنی
تاہم اس کامطلب یہ نہیں کہ جس شخص کو ان نعمتوںمیں سے کوئی مل جائے تو وہ اس کے مقام فقر کی دلیل یا علامت ہو گی۔ کیونکہ بعض وقت یہ نعمتیں ایسے انسانوں کو جو فقر کے مقام پر نہ ہوں۔ ان کی آزمائش کے لیے بھی دی جاتی ہیں تاکہ دیکھا جائے کہ نعمت پانے والا خدا کا شکر بجا لاتا ہے یا نہیں۔