صبغۃ اللہ
جب خدا کا عاشق خودی میں ڈوب کر ابھرتا ہے تو اس کی خودی خدا کی صفات حسن کے رنگ میں رنگی جاتی ہے۔ جس طرح سے ایک سفید کپڑا جب کسی رنگ میں ڈبویا جائے تو اسی رنگ کو اختیار کر لیتا ہے ۔ پھر وہ خدا کے حسن سے ایک نیا حسن‘ خدا کے نور سے ایک نیا نور‘ خدا کے علم سے ایک نیا علم‘ خدا کی زندگی سے ایک نئی زندگی‘ اس کی قوت سے ایک نئی قوت اور اس کی محبت سے ایک نئی محبت لے کر آتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کی خودی خدا کی صفات کو جذب کر کے خدا کے اخلاق سے مستخلق ہو جاتی ہے۔ اور وہ خدا کے جمال کاایک عکس بن جاتا ہے ۔ اس کے نیک و بد‘ زت و زیبا‘ خوب و ناخوب اور محمود و نامحمود کے امتیاز کا معیار وہی ہوتا ہے جو خدا کا ہے۔ اس کا عدل وہ معمولی عام آدمیوں کا عدل نہیں رہتا۔ جو ہمیشہ ان کی اپنی سفلی اغراض سے ملوث اور ناقص تصورات کی ناپاک محبت سے آلودہ ہوتا ہے۔ بلکہ اس کا عدل وہ اعلیٰ درجہ کا خالص اور صحیح عدل ہوتا ہے جو صرف خد اکی محبت کے منبع سے صادر ہوتا ہے اسی طرح سے اس کا صدق‘ اس کا کرم‘ اس کا حیا‘ اس کی عفت اور پاکیزگی اس کا رحم اور اس کی تمام اخلاقی صفات چونکہ خدا کی کامل اور خالص محبت سے سرزد ہوتی ہیں بلند ترین درجہ کی ہوتی ہے۔
رنگ او برکن مثال او شوی
در جہان عکس جمال او شوی
یہی خدا کا وہ رنگ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں ہے کہ خدا کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہے اور یہ رنگ خدا کی عبادت سے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔
(صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغتہ و نحن لہ عابدون)
ہر اخلاقی قدر اتنی ہی قسموں یا درجوںکی ہوتی ہے ۔ جتنے انسانوں کے تصورات حسن یا نظریات زندگی ہوتے ہیں اگر کسی شخص کا تصور ح سن پست ہو گا تو اس کا عدل یا صدق بھی اسی نسبت سے پست ہو گا ۔ سچا عدل یا سچا صدق صرف خدا کی محبت سے پیدا ہوتا ہے۔ اور ایک خدا شناس مومن ہی کا حصہ ہوتا ہے۔ خودی پر خدا کا رنگ خدا کی گہری اور مخلصانہ عبادت اور محبت سے چڑھتا ہے۔ اس محبت کی وجہ سے خودی خدا کی صفات کے حسن کو جذب کرتی ہے اور ہوس کے بتوں کو توڑ کر تمام رزائل سے پاک اور تمام فضائل سے آراستہ ہو جاتی ہے۔
محکم از حق سوئے خود گام زن
لات و عزائے ہوس را سر شکن
خدا کی عبادت اورمحبت سے انسان کی خودی خدا کی صفات کو کس طرح سے جذب کر لیتی ہے؟ ارو کس طرح سے مستخلق باخلاق اللہ ہو جاتی ہے؟ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ جذب کرنا زندگی کا خاصہ ہے اگر زندگی حیاتیاتی سطح پر غذا سے اپنی ضروریات کے مادی ذرات کو جذب کر کے نشوو نما پاتی ہے تو نفسیاتی یا نظریاتی سطح پر صفات حسن کو جذب کر کے نشونما پاتی ہے۔ حسن خودی سے وہی نسبت رکھتا ہے جو غذا جسم سے رکھتی ہے۔ جاوید نامہ میں جہاں دوست نے جو کام نو باتیں کہیںہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے گلاب کے پھول سے پوچھا کہ تم بادوخاک سے یہ خوشنما رنگ اور یہ دل نواز خوشبو کیسے حاصل کرتے ہو تو گلاب کے پھول نے جواب دیا کہ تم بجی کی رو سے و خاموش ہوتی ہے کسیکا پیغام کیسے سن لیتے ہو۔ جس طرح تم برق سے پیغام حاصل کر لیتے ہو جس میں بظاہر کلام کااوصف نہیں ہوتا میں باد و خاک سے جن میں رنگ و بو نہیں رنگ و بو حاصل کر لیتا ہوںَ دونوں کا انحصار زندگی کی اس خاصیت پر ہے کہ اپنی فطرت سے مناسبت رکھنے والی چیزوں کو جہاں سے مل جائیں جذب کر لیتی ہے اگر زندگی کے اندر یہ خاصیت نہ ہوتی تو وہ اپنے آپ کو قائم نہ رکھ سکتی۔ انسان کا جذبت ظاہر ہے کیونکہ وہ حسن سے حسن کو جذب کرتاہے لیکن میرا جذب ظاہر نہیں کیونکہ میں بظاہر غیر حسن سے حسن کو جذبت کر تا ہوں۔
من بگل گفتم بگو اے سینہ فچاک
چوں بگیری رنگ و بو از باد و خاک
گفت گل اے ہوشمند رفتہ ہوش
چوں پیامے گیری از برق خموش
جان بتن مار از جذب ایں و آن
جذت تو پیدا و جذب ما نہاں
خودی غیر محدود اور غیر فانی ہے
چونکہ انسان کی خودی خدا کے ساتھ پیوست ہو کر خدا کی صفات سے حصہ لیتی ہے۔ وہ اپنی بالقوہ صلاحیتوں کے اعتبار سے خدا کی طرح غیر محدود ہے اگرچہ وہ ایک چھوٹی سی آب جو نظر آتی ہے۔ لیکن حقیقت میں ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا تو کوئی چارہ نہیں
خودی اپنی ممکنات کے اعتبار سے محیط بیکراں اس لیے ہے کہ وہ ہمہ تن خدا کی آرزو ہے اور خدا غیر محدود اور بیکراں ہے۔ چونکہ خدا غیر محدود اور ضروری ہے کہ غیر محدود ہونے کی آرزو خدا کی آرزو کے اندر موجود ہو۔ غیر محدود خدا کے لیے خودی کی آرزو اس بات کا ثبوت ہے کہ خودی کو غیر محدود ہونے کی آرزو بھی ہے اقبال اس آرزو کی ترجمانی کرتاہے۔
تو ہے محیط بے کراں میں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
اور پھر یہ آرزو ایسی ہے جو تشفی پانے کے لیے پیدا کی گئی ہے کیونک اس کی تشفی پانے سے ہی کائنات اپنی تکمیل کے مرحلے طے کر سکتی ہے۔ یہ حقیقت اس بات کی ضمانت ہے کہ خودی بے کنار ہو کر رہتی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ خودی اپنی فطرت اپنی ممکنات اور اپنی بالقوہ صلاحیتوں کی وجہ سے بے کنار ہے۔ ظاہر ہے کہ اوپر کے شعر میں ہم کنار ہونے کی آرز و بھی درحقیقت بے کنار ہونے کی آرزو ہی ہے پھر چونکہ خودی خدا کی صفات سے حصہ لیتی ہے اوروہ اپنی ممکنات کے اعتبار سے غیر محدود ہی نہیں بلکہ غیر فانی بھی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابدیت میں بھی خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ زاہد کا یہ مقولہ کہ خودی فانی ہے اس بات کو نظر انداز کر جاتا ہے کہ خودی غیر محدود ہے ۔اگرچہ وہ بظاہر ایک حباب کی طرح محدود نظر آتی ہے۔ لیکن اس حباب میں ایک دریائے ناپیداکنار چھپاہوا ہے۔ اگر خودی اس بنا پر غیر محدود ہے کہ وہ خدا کی صفات میں حصہ لیتی ہے تو اس بنا پر غیر فانی کیوںنہیںہو سکتی۔ اگر زاہد ظاہر بین کو خودی کا غیر محدود ہونا سامنے نظر آ رہا ہے تو وہ اس سے یہ نتیجہ کیوںنہیں نکالتا کہ وہ غیر فانی بھی ہے۔
اے زاہد ظاہر بین گیرم کہ خودی فانی است
آیا تو نمے بینی دریا بحباب اندر
دل کی شہادت
چونکہ اس مقام پر مومن خداکی ذات کو بے پردہ دیکھ لیتاہے۔ اور اس کی آرزوئے حسن جو اس کو بے قرار رکھتی تھی پوری طرح سے تشفی حاصل کر لیتی ہے۔ یعنی اتنی تشفی جتنی کہ ا س کی خودی کی استعداد کے پیش نظر اس دنیا میں ممکن ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ خدا کی ہستی کا جسے وہ پہلے اعتقادی طورپر اور بعد میں عملی طور پر مانتا تھا۔ اب ذاتی گواہ بن جاتا ہے اور اس کا دل کو ایک مکمل اور مستقل اطمینان نصیب ہوتا ہ ۔ کیونکہ اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس نے کائنات کے راز اورانسانی زندگی کا مدعا معلوم کرلیا ہے۔ اب خبر نہیں بلکہ نظر (یعنی مشاہدہ ) اس کے یقین و ایمان کا سامان بنتی ہے۔ اس حالت سے پہلے کہ وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو عربی زبان کو جاننے کے باوجود اس طرح سے جیسے کوئی شخص کسی اجنبی زبان کے الفاظ کو مطلب سمجھے بغیر دہرا رہا ہو۔ لیکن قلب کی اس شہادت اور دل کی اس تصدیق کے بعد وہ لا الہ الا اللہ کے معنی کی تہہ تک پہنچ جاتاہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ جب تک دل گواہی نہ دے کلمہ توحید کا مطلب پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا الہ الا اللہ
لغت غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی
لیکن دل کی گواہی یا تصدیق کی نعمت انسا ن کو خدا کی محبت کی انتہائی منزل پر ہی نصیب ہو سکتی ہے۔ یہی دل کی گواہی یا تصدیق خودی کے زندہ ہو نے کی شرط ہے۔
لا الہ کوئی بگو از روئے جان
تاز اندام تو آید بوئے جان‘