شیطان کی شرکت
شیطان جو انسان کو دشمن ہے جب دیکھتا ہے کہ انسان کی خودی کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اس کے جسم کی صورت میں ایک قوت کا م کر رہی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ مل جاتا ہے اور جس خوف ناداری اور حرص لذت کو جسم نے پیش کیا تھا اسی کو وہ بھی اپنے وسوسوں سے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے کہ دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم نادار ہو جائو جسم کی ضرورتوں کا پورا خیال رکھو اور یہ نہ بھولو کہ جسم کی خواہشات کی تسکین میں بڑی لذت ہے۔ اس لذت کے موقعوں کو ہاتھ سے نہ جانے دو۔ وغیرہ۔ چنانچہ قرآن حکیم میں ہے کہ شیطان تمہیں افلاس کا خوف دلاتا ہے اور تمہیں بے حیائی کی لذت کی طرف بلاتا ہے لیکن اگر تم خدا کے کہنے سے اور شیطان کی مخالفت کرتے ہوئے جسم کے حدسے متجاوز مطالبات کو پورا کرنے کے بجائے خودی کی ضرورتوں کو پورا کرو گے تو تم نہ صرف اپنی سابزہ فروگزاشتوں کے نقصان کی تلافی کر لو گے (مغفرۃ منہ) بلکہ اور بھی گراں قدر انعامات (فضلا) حاصل کرو گے۔
الشیطان بعد کم الفقر و یامر کم بالفحشاء واللہ یعد کم مغفرۃ منہ و فضلا (۲۶۸:۲)
اس لیے مومن کو سکھایا گیا ہے کہ وہ دعا کرے کہ اس کو اس کے نفس سے اور شیطان سے اور نفس کے ساتھ شیطان کی شرکت سے پناہ دی جائے۔
اللھم انی اعوذبک من شر نفسی و شر الشیطان و شرکہ۔
جسم سے خودی کی حفاظت کا اہتمام
ظاہر ہے کہ اگر خودی کو جسم کی اس تربیت اور ترغیب اور شیطان کی تائید اور توثیق کے خطرناک نتائج اور عواقب کے بارہ میں پہلے سے خبردار نہ کر دیا گیا ہو تو خودی اپنی سواری یعنی جسم کی ضرورتوں کی طرف بقدر ضرورت اور کفایت نہیں بلکہ حد سے زیادہ متوجہ ہوتی رہے گی۔ یہ صور ت حال خودی کی زندگی اور ترتبیت اور ترقی کے لیے ایک بہت بڑے خطرہ کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ لہٰذا خدا کی رحمت مظہر نبوت کے ذریعہ سے اس کا مداوا کرتی ہے۔ نبوت نہ صرف اس بات کا اہتمام کرتی ہے کہ انسان کو بتائے اور خوب سمجھائے کہ اس کا صحیح نصب العین حیات خدا ہے تاکہ وہ دربدر اور کوبکو بھٹکتا نہ پھرے بلکہ اس بات پر بھی کوشش کرتی ہے کہ اس کو جسم کے غیر ضروری مطالبات کی طرف سے جو خطرہ پیش آنے والا ہے اس سے بھی پوری طرح خبردار کر دے تاکہ اپنے اصلی اور حقیقی محبوب کو جان لینے کے بعد بھی وہ عمر عزیز کو جسم کی خاطر مدارات میں صرف کر کے اپنی خودی کے تقاضوں کو پورا کرنے سے محروم نہ رہ جائے اور ا س کا حال پھر اس شخص کی طرح نہ ہو جائے کہ جو جانتا ہی نہیں کہ اس کا اصلی محبوب کون ہے لہٰذا نبوت جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے سب سے پہلے تو انسان کو یہ بتاتی ہے کہ جسم یانفس کے ناجائز مطالبات کو پورا کرنا اپنی جان کے ساتھ ظلم کرنا اور ایک گناہ یا برائی کا ارتکاب کرنا ہے جس کی سزا اس کے اندر موجود ہے اور جس کا ریکارڈ ضائع نہیں ہوگابلکہ خودی کے اندر موجو د رہے گا ۔ اور خودی اس کو ساتھ لے کر اگلی دنیا میں جائے گی۔ جو شخص خودی کو اس گناہ یا عظیم ظلم سے پاک اور محفوظ رکھے گا وہ کامیاب ہو گا اور جو اس کو جسم خاکی پر قربان کر کے خاک میں ملا دے گا وہ ناکام اور نامراد رہے گا۔
قد افلح من رکھا و قد خاب من دسھا (۹:۹۱)
اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے
پھر نبوت انسان کو بتاتی ہے کہ جسم جس کی پرورش کی خاطر مدارات میں تم اپنی زندگی کے قیمتی اوقات غیر ضروری طور پر صرف کرتے رہتے ہو‘ ناپائیدار ارو فانی ہے اور ا کے برعکس تم خودی کی زندگی پائیدا ر اور دائمی ہے۔ لہٰذا عقل مندی نہیں کہ ناپائیدار زندگی کی خابر پائیدار زندگی کو قربان کرو۔ تم جسم کی زندگی(حیات دنیا) کو خود ی کی زندگی(آخرت) پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ خودی کی اپنی زندگی اپنی لازوال مسرتوں کی وجہ سے بہتر اور باقی رہنے والی ہے
بل توثرون الحیوۃ الدنیا والاخرۃ خیر وا بقی (۱۷۔۱۶:۷۶)
پھر نبوت جسم کی زندگی یا اس دنیا کی زندگی کا تجزیہ کر کے بتاتی ہے کہ وہ کیا ہے۔ اگر اس میں خودی کی ضرورتوں کا پورا پورا اہتمام نہ کیا جائے تو اس میں انسان کے مشاغل یہ رہ جاتے ہیں۔ کسی کھیل اور تماشا میں لگ جانا اپنی غذا کو اپنے لباس کو اپنے مکان کو اور زندگی کے دوسرے سازوسامان کو زیادہ سے زیادی حسین بنانے کی کوشش کرنا ایک دوسرے کے بالمقابل فخر کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں۔ زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کی کوشش کرتے رہنا‘ اولادکو زیادہ سے زیادہ خوشحال بنانے کی جدوجہد کرنا ان تمام مشاغل کی مثال ایسی ہے ک جیسے آسمان سے مینہ برسے اور اس سے کھیتی لہلہانے لگے اور پھر پورے جوبن پر آئے اور پک کر زرد ہو جائے اور کسان اس کو دیکھ کر خوش ہو جائے لیکن آخر کار یہی کھیتی چورا چورا ہو جائے اس طرح سے اگر دنیا کمانے والا اپنی تمام خواہشات کے مطابق سب کچھ حاصل کر لے تو پھر بھی موت اس کی کامیابی کو کالعدم قرار دیتی ہے۔ اور اس کے پاس کچھ نہیںرہتا۔ بلکہ اسے آخرت میںخودی کی ضروریات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے دسخت عذاب ہوتاہے۔ لیکن اگر وہ ان مشاغل کو ضرورت اور کفایت کے دائرہ کے اندر محدود کر دے اور ان کی بجائے خودی کی زندگی یا آخرت کی زندگی ضرورتوں کی تکمیل کرے تو اسے خدا کی بخشش اور رضامندی حاصل ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ جسم کی زندگی ضرورتوں کی تکمیل کرے تو اسے خدا کی بخشش اور رضامندی حاصل ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ جسم کی زندگی دھوکے کا مال ہے جو دیکھنے میں تو اچھا ہے لیکن دراصل خراب اور نکما ہے۔
اعملوا انما الحیوۃ الدنیا لعب ولھو و زینۃ و تفاخر بینکم و تکاثر فی الاموال والاولاد کمثل غیث اعجب الکفار رنباتہ ثم یھیج مصفرا ثم یکون حطاماً و فی الاخرۃ عذاب شدید و مغفرۃ من اللہ و رضوان وما الحیوۃ الدنیا الا المتاع الغرور (۲۰:۵۷)
نبوت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ زندگی اگر کوئی ہے تو وہ فقط خودی کی زندگی ہے۔ جسم کی زندگی سے اس قدر مختصڑ اور بے ثبات ہے کہ اسے زندگی سمجھنا ہی غلط ہے ۔ انسان اگر سوسال تک بھی زندہ رہے تو موت کے وقت اسے ایسا معلمو ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کی مدت ایک دن یا ایک دن کے حصہ سے زیادہ نہیں ہوئی۔ قرآن حکیم میں ایک شخص کا قصہ بیان کیا گیا ہے جسے خدا نے ایک سو سال تک حالت موت میں رکھا اور پھر زندہ کیا۔ اور جب اسے پوچھا گیا کہ تم کتنا عرصہ پڑے رہے ہو تو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا دن کا ایک حصہ۔
ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان لو کانو ا یعلمون (۶۴:۲۹)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے یعنی یعنی دنیا یا جسم کی زندگی کو آخر ت یا خودی کی زندگی کے لیے رکاوٹ نہ بنائو بلکہ معاون بنائو جن لوگوں کے اعمال سب سے زیادہ لغو اور بیکار اور نقصان رساں ہیں وہی ہیں جن کی ساری کوششیں جسم کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں ضائع ہو گئیں اور اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نہایت ہی اچھا کام کر رہے ۔
قل ھل ننبکم بالا خسرین اعمالا الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا (۵۔۱:۱۸)
مومن اپنی جان اوراپنا مال خدا کو دے چکاہے
پھر نبوت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم جنت چاہتے ہو تو خدا پر ایمان لائو یعنی جو بات خدا نبوت کی معرفت تمہاری بھلائی کے لیے کہتا ہے اسے برحق جانو اور خدا پر ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ اپنی جان اور اپنا مال دونوں کو خدا کے حوالے کردو کہ وہ جب چاہے اور جس طرح سے چاہے ان کو خرچ اور تم خود اس بات کی ہرگز کوئی فکر نہ کرو کہ ان دونوں میں سے کوئی تمہارے پاس رہتی ہے یا نہیں۔ ان کے عوض میں تمہیں جنت حاصل ہو گی جو خودی کی کامیاب زندگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
ان اللہ اشتری من المومنین انفسھیم و اموالھم بان لھم الجنہ (۱۲۲: ۹)
افلاس کے خوف سے بچنے کی ضرورت
پھر نبوت انسان کو بھوک اور افلاس کے خوف سے نجات دلانے کی کوشش کرتی ہے تاکہ انسان ان کے خوف کو چھوڑ کر جسم کے مطالبات کی پیروی میں نہ لگ جائے۔ وہ اسے کہتی ہے کہ تمہیں حد سے زیادہ روٹی کی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ کیونکہ خدا نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور وہ اسے ضروی مل کر رہے گا۔
ما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (۶:۱۱)
خدا رازق ہے اور رازق بھی ایسا جو کمزور نہیںہے کہ کبھی رزق پہنچا سکے اور کبھی نہ پہنچا سکے بلکہ وہ رزق بہم پہنچانے کی زبردست قوت کا مالک ہے۔
ھو الرزق ذوالقرۃ المتین (۵۸:۵۱)
جسمانی ضرورتوں کا حیاتیاتی دبائو اور ان سے پیدا ہونے والا طلب معاش کا جذبہ جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے اور ان میں ذرائع سے ایکہے جو خد ا انسان کو رزق بہم پہنچانے کے لیے کام میں لاتا ہے لہٰذا معاش کی جستجو کرنا بھی ایک فرض قرار دے دیا گیا ہے۔ لیکن معاش کی جستجو مقصود بالذات نہیںبلکہ خدا کی عبادت اور اطاعت کے لیے جسم کو زندہ رکھنے کا ایک ذریعہ سمجھا گیا ہے ۔ مقصود بالذات کے طور پر معاش کی جستجو انسان کو کسب معاش کے غلط طریقوں کواختیار کرنے اور خودی کی ضرورتوں کو نظر اندا زکرنے پر مجبور کرتی ہے اور خودی کی ان ضرورتوں میں سے ایک توکل یہ بھی ہے۔
پھر نبوت انسان کو براہ راست بھی اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ مفلسی کے خوف سے بے پرواہ ہو کر اپنی خودی کی ضرورتوں کو پورا کرو اور یقین رکھو کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ چاہے تو تمہیںدولت مند بنا دے۔
وان خفتم عیلہ فسوف یغنیکم اللہ من فضلہ ان شاء (۲۹:۹)
مفلسی ایک امتحان ہے
مفلسی اس لیے آتی ہے کہ انسان کو آزمایاجائے کہ آیا وہ مفلسی کی حالت میں صبر سے کام لے کر حق کے راستہ پر ثابت قدم رہتا ہے ۔ یا مفلسی کے خوف سے اس راستہ کے چھوڑ کر اپنی مفلسی کو ہر جائز یا ناجائز طریق سے دور رکھنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ افلاس انسان کو کفر کے قریب لے آتا ہے ۔
(کاد الفقران یکون کفراً…
یہی سبب ہے کہ خدا افلاس کو ایمان کی آزمائش کے لیے کام میں لاتاہے اور سچا اور پکا ایمان وہی ہے جو افلاس کی حالت میں سے بھی متزلزل نہ ہو اور جس کے ہوتے ہوئے افلاس صبر کا رد عمل پیدا کر دے اور کفر اور معصیت کا رد عمل پیدا نہ کر سکے جومومن آزمائش میں صبر سے کام لیتا ہے وہ اور خودی کی ضروریات کی تشفی کرنے میں پریشان ہونے کے بغیر مصروف رہتا ہے اس کی خودی اپنی منزل کے ایک بلند مقام پر قدم رکھتی ہے جس طرح سے ایک طالب علم جو امتحان میں کامیاب ہوتا ہے ترقی پا کر اوپر کی جماعت میں پہنچ جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ ہم ضرور ہی تم کو موت کے خوف سے بھوک سے مالوں اور جانوں کے نقصان سے اور زرعی پیداوار کی کمی سے آزمائیں گے اور جو لوگ ان مصیبتوں پر صبر کریںگے ان کو خوشخبری سنائیں گے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے کی وجہ سے ان کی خودی کے درجات ارتقا بلند ہو ں گے۔
نرفع درجات من نشائ۔ ۸۳:۶)
جن بدبخت لوگوں پر افلاس کا خوف یہاں تک سوار ہوجاتاہے کہ وہ اپنی اولادکو قتل کر دیتے ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ ان کے لیے رزق پہنچانا مشکل ہو جائے۔ نبوت ان کو اس حرکت سے باز رکھنے کا حکم دیتی ہے اور ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے ان کو یقین دلاتی ہے کہ ان کا اور ان کی اولاد کا رازق خدا ہے اور وہ خود نہیں خدا کا ارشاد ہے کہ اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ تمہیںاور تمہاری اولاد دونوں کو رزق دینے والے ہم ہیں۔
لا تقتلوا ا ولادکم خشیہ املاق نحن نرزقکم وایاکم (۳۱: ۱۷)
کفایت شعاری کی تلقین
پھر خودی کے ٹٹو یعنی جسم کے حد سے متجاوز مطالبات سے خودی کو بچانے کے لیے نبوت اس بات پر زور دیتی ہے کہ جسم کی ضرورتوں پر بقدر کفایت خرچ کرو۔ جس سے جسم زندہ اور توانا رہے اور خودی کے کام آتا رہے۔ جو لو گ اس سے زیادہ خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں کیونکہ وہ شیطان کے مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ جو یہ چاہتا ہیکہ انسان خودی کی ضرورتو ں کو نظر اانداز کرے اور جسم یا نفس کی ضرورتوں کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دے یہاں تک کہ اس کی زندگی ختم ہو جائے اور وہ جہنم میں پہنچ جائے۔
ان المبذرین کاو اخوان الشیطین
فالتو مال کو صدقہ میں دینے کا حکم
اور پھر نبوت یہ حکم دیتی ہے کہ کفایت اور ضرورت سے جو کچھ بچ رہے وہ اپنے پاس نہ رکھو بلکہ خدا کی راہ میں دے دو ۔
ویسئلونک ماذا ینفقون قل العفو (۲۱۹:۲)
نبوت کی تعلیم کا زور اس بات پر ہے کہ مال کو جسم کی وقت ضرورت کا مداوا سمجھا جائے اور اسے جمع نہ کیا جائے ۔ جو لوگ سونا اور چاندی کے سکوں کی صورت میں یا کسی اور صورت میں جو سونا اور چاندی کے سکوں کی شکل اختیار کر سکتی ہے مال جمع کر تے ہیں اور اسے خدا کی راہ میں نہیں دیتے انہیںدردناک عذاب ہو گا۔ جب سونے اور چاندی کے سکے دوزخ کی آگ میں خوب گرم کیے جائیں گے اورپھر ان سے ان کی پیشانیاں اور اطراف اور پینھیں داغی جائیں اور کہا جائے گا کہ یہی وہی ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا۔ سو جو کچھ تم جمع کرتے تھے اب اس کا مزہ چکھو۔
والذین یکنزون الذھب والفضہ ثم لا ینفقو نھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم
یوم یحمی علیھا فی نار جہنم فکتوی بھا جاھہم وجنوبہم و ظہورھم ھذا ما کنزتم لا نفسکم فذوقو اما کنتم تکنزون (۵۳:۹)
حضورؐ کی وفات کے بعد حضورؐ کے مقتدر صحابی جناب ابوذر غفار ی جب دیکھتے تھے کہ لوگ خدا کے اس حکم پر عمل نہیں کرتے جو اس آیت کے اندر موجود ہے اور مال جمع رکھتے ہیں تو ان کودکھ ہوتاتھا اور وہ لوگوں کو خدا کی ا س نافرمانی کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔