خودی کے خواص کا علم، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی کے خواص کا علم
ذکر اور نماز اور اسلام کی ایسی ہی دوسری تعلیمات پر اقبال کا ذور جیسا کہ اقبال کو ملا کہنے والے بعض ناقدر دانوں نے سمجھا ہے اس وجہ سے نہیں کہ وہ اسلام کا واعظ یا مبلغ بن کر اسلام کی ان تعلیمات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ فطرت انسانی یا انسانی خودی کے خواص کے جن ناقابل انکار حقائق کو وہ اپنی جستجو سے دریافت کر چکا ہے وہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں اور اقبال نے جس طریق سے ان حقائق کی جستجو کی ہے۔ وہ سائنس دان کے طریق جستجو سے چنداں مختلف نہیں۔ سائنس دان کا کام یہ ہے کہ وہ مشاہدات کے ذریعہ سے ہر چیز کے خواص معلوم کرنا چاہتا ہے لیکن بعض چیزیں دنیا میں ایسی بھی ہیں جو براہ راست کسی کے مشاہدہ میں نہیں آ سکتیں اور صرف ان کے خارجی اثرات ہی مشاہدہ میں آ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی چیزوں کے خواص کا علم سائنس دانوں کو ان کے اثرات کے مشاہدہ اور مطالعہ ہی سے حاصل ہو سکتا ہے اور سائنس دان ان کا علم حاصل کرنے کے لئے بالکل یہی طریقہ اختیار کرتا ہے۔ ان چیزوں میں سے جیسا کہ میں پہلے گذارش کر چکا ہوں ایک ایٹم ہے۔ شاید آج سے دس بارہ سال پہلے ایک امریکی سائنس دان نے الیکٹرانک خورد بین سے ایٹموں کو دیکھا تھا۔ لیکن ایٹم کے خواص کے متعلق جس قدر معلومات اس وقت سائنس دانوں کو حاصل ہیں وہ قریباً سب کی سب ایٹم کو دیکھنے سے پہلے اور اسے دیکھنے کے بغیر اس کے اثرات کے مشاہدہ سے حاصل ہوئی تھیں۔ اسی قسم کی ایک اور چیز انسانی خودی ہے جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ تاہم اس کے اثرات سے اس کے خواص معلوم کر سکتے ہیں۔ خودی کے خواص کا علم انسان کے لئے حد درجہ ضروری ہے کیونکہ خودی ہی انسان کی اصل ہے۔ انسان کے تمام اعمال و افعال جن سے دنیا کے اندر ایک ہنگامہ برپا ہے۔ خودی کے ہی اعمال و افعال ہیں۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ خودی کیا ہے اور اس کے خواص کیا ہیں۔ اس کے افعال و اعمال کا منبع کیا ہے اور یہ کیا چاہتی ہے اور کیوں چاہتی ہے یہ جاننے کے بغیر ہم انسان کے اعمال و افعال کو ضبط میں نہیں لا سکتے اور نہ حسب منشاء ان سے کام لے سکتے ہیں مثلاً انسان کی باہمی جنگوں اور رقابتوں کو روک نہیں سکتے اور انسانی دنیا میں امن اور صلح اور ترقی اور خوشحالی کی مکمل فضا پیدا نہیں کر سکتے اور یہ نہیں بتا سکتے کہ انسان اپنے سیاسی، قانونی، تعلیمی، اخلاقی، علمی اور فنی، جنگی، سفارتی اور اقتصادی نظامات کو کیسے قائم کرے کہ وہ پائیدار ہوں درست ہوں اور اس کے لئے مفید ہوں اور پریشانیوں کا باعث نہ ہوں۔ اقبال نے خودی کے اثرات کو جو انسانی اعمال و افعال کی صورت میں ہیں سامنے رکھ کر خودی کے خواص کے متعلق کچھ نتائج اخذ کئے ہیں۔ اقبال کا فلسفہ ان ہی نتائج پر مشتمل ہے۔ اقبال سے پہلے بعض اور لوگوں نے بھی خودی کے اثرات سے خودی کے خواص معلوم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبال کے سوائے کسی کے نتائج خودی کے اثرات کی (جو افراد اور اقوام کے ماضی اور حال کی تاریخ کے آئینہ میں آشکار نظر آ رہے ہیں) تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتے۔ یہ نتائج نہ تو ان اثرا ت کے ساتھ پوری پوری مطابق ترکھتے ہیں او رنہ ہی آپس میں اور دوسرے علمی حقائق کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ لہٰذا معقولیت اور یقین افروزی کے درجہ سے گرے ہوئے ہیں۔ اگر اقبال نے خودی کے اثرات کے مشاہدہ سے یہ بات معلوم کی ہے کہ خودی فقط خدا کی محبت کا ایک طاقتور جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اور خودی کے تمام اثرات اور اعمال و افعال خواہ وہ صحیح ہوں یا غلط اس کے اس جذبہ محبت سے پیدا ہوتے ہیں اور خودی کا جذبہ محبت ذکر و فکر سے تشفی پاتا ہے۔ تو وہ یہ بات کہنے پر مجبور ہے خواہ کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ یہ وعظ نہیں بلکہ مشاہدات کے ناگزیر نتائج کا اظہار ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان نتائج کو صحیح طور پر اخذ کرنے میں اقبال کو اسلامی تعلیمات نے بڑی مدد دی ہے اور نہ ہی اس بات سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ اسلام کی تعلیمات سے ان نتائج کی تائید مزید ہوتی ہے اگر کوئی شخص پانی کے خواص کا مشاہدہ کر کے یہ کہے کہ وہ صفر ڈگری سینٹی گریڈ پر برف بن جاتا ہے تو خواہ وہ شخص جو برف سے نفرت کرتا ہو یا برف کے اخلاف ایلرجک (Allergic) ہو، اس بیان کو ناپسند کرے اس میں پھر بھی کوئی نقص نہیں ہو گا او رکہنے والے کو پھر بھی یہی کہنا چاہئے۔
عبادت کی اہمیت
انسان کا وہ عمل جسے خدا کا نام دیا جاتا ہے اور جس کا بڑا عنصر ذکر ہے۔ انسان کے تجربات میں سب سے زیادہ قیمتی اور اعلیٰ اور ارفع ہے۔ اس کے ذریعہ سے انسان اپنی زندگی کا سب سے بڑی اور سب سے زیادہ طاقتور اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والی آرزو کو اپنا صحیح اور قدرتی اظہار پانے کا موقعہ دیتا ہے اور اس طریق سے اس کی مکمل اور مستقل تشفی کر کے اپنی شخصیت کے ارتقا کو نکتہ کمال پہنچانے کا اہتمام کرتا ہے یہ گویا انسانی خودی کا اپنے مبداء کی طرف عود اور اپنی منزل مقصود کی طرف رجوع ہے۔ یہ دو بچھڑے ہوئے عاشقوں کی ملاقات ہے جو کروڑ ہا برس کے ارتقائی عمل کی صورت اختیار کرنے والی ایک دوسرے کی طویل جستجو کے بعد ان کو میسر آتی ہے۔ اقبال ہمیں بتاتا ہے کہ عبادت ایک فطری عمل ہے جو اپنی اصل کے اعتبار سے سائنس دانوں کی جستجوئے صداقت کا ہی ایک تتمہ ہے۔
’’ عبادت کا منبع انسان کی فطرت میں ہے۔ فکر کے ذریعہ سے شعور حقیقت کے عمل کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ذکر کے دوران یہ سست رفتاری سے منکشف ہونے والے عالمگیر اصولوں کی جستجو کی قوت کی حیثیت سے اپنا کام ترک کر دیتاہے اور فکر سے بالا ہو کر براہ راست حقیقت کو اپنی گرفت میں لینا چاہتا ہے۔ تاکہ اس کے کام میں ارادی طور پر شرکت کر سکے۔ اس میں کوئی مخفی یا ناقابل فہم بات نہیں۔ عبادت حصول تجلی کے ایک ذریعہ کے طور پر ایک قدرتی حیاتیاتی فعل ہے جس سے ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ اچانک ہی زندگی کی بڑی وحدت میں اپنا مقام دریافت کر لیتا ہے۔۔۔ دراصل عبادت کو قدرت کا مشاہدہ کرنے والے انسان کی جستجوئے علم کا ایک ضروری تتمہ سمجھنا چاہئے۔ قدرت کا سائنسی مشاہدہ حقیقت کے کردار کے ساتھ ہماری گہری وابستگی قائم کرتا ہے اور اس طرح سے اس کے زیادہ گہرے مطالعہ کیلئے ہمارے وجدان کو تیز تر کرتا ہے۔۔۔ سچ بات یہ ہے کہ علم کی ساری جستجو ہی دراصل ایک قسم کی عبادت ہے اور قدرت کا مشاہدہ کرنیوالا سائنسدان ایک قسم کا جویائے حق صوفی ہے جو عبادت کر رہا ہے۔‘‘
اگر مومن در حقیقت سچا مومن ہے تو ذکر اور تسبیح اور عبادت سے جو قوت اسے حاصل ہوتی ہے وہ اسے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر ضائع نہیں کرتابلکہ دنیا کو اپنے محبوب کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے کام میں لاتا ہے۔ قرآن حکیم میں ہے کہ دنیا کی کوئی چیز نہیں جو خدا کی تسبیح بیان نہیں کرتی۔ اگر انسان ذکر و تسبیح پر ہی اکتفا کرے تو اس کا درجہ جمادات اور نبادات سے بلند نہیں ہو گا جو بے شعور ہیں یا نیم شعور۔ لیکن انسان چونکہ خود شناس اور خود شعور ہے۔ کائنات میں اس کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ کائنات کی تعمیر اور تکمیل خدا کا شریک کار بنے اور اس غرض کے لئے فقط زبان سے نہیں بلکہ اپنی مسلسل عملی جدوجہد سے نعرہ تکبیر بلند کرے۔ زبان سے ذکر اور تسبیح کرنا اس کردار کی تیاری کے ذرائع ہیں۔ کیونکہ ان سے وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو اس کردار کو موثر طریق پر انجام دینے کے لئے کام آتی ہے۔ افسوس کہ اکثر علماء دین ذکر اور تسبیح پر زور دیتے ہیں لیکن خدا کی مرضی کے مطابق دنیا کو بدلنے پر زور نہیں دیتے۔ حالانکہ قرآن حکیم کے ارشادات کی رو سے خدا مومنین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی دنیا کو اس کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لئے جدوجہد کریں اور ان سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کی مدد ان کے ساتھ ہو گی۔
"ان تنصرواللہ ینصر کم"
(اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمہیں نصرت دے گا)
خد اکی مدد یہی ہے کہ خدا کائنات کو ترقی دے کر جس کمال پر پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کا چاہنے والا مرد مومن بھی یہ کوشش کرے کہ کائنات اس کمال پر پہنچے۔ اقبال نے ان حقائق کو تین زور دار شعروں میں بیان کیا ہے۔
انداز بیان گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل،
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہب مردان خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہب ملا و نباتات و جمادات

٭٭٭