خودی اور فلسفہ اخلاق ، فعل جمیل۔ خودی کی ایک ا ہم ضرورت، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ اخلاق
فعل جمیل۔ خودی کی ایک اہم ضرورت
انسانی خودی ہر ممکن طریق سے خدا کی محبت کے جذبہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ اس جذبہ کی تشفی کے لئے مظاہر قدرت کے مشاہدہ اور اسمائے حسنیٰ کے ذکر ایسے ذرائع سے خدا کی صفات کے حسن وکمال پر غور و فکر ہی نہیں کرتی۔ بلکہ اپنے عمل میں بھی خدا کی صفات کے حسن کو ظاہر کرتی ہے۔ اس کی آرزوئے حسن اسے مجبور کرتی ہے کہ اپنے ہر فعل کو معنوی طور پر یعنی فعل کے مقصد اور مدعا کے اعتبار سے خد اکی صفات حسن و کمال کے تقاجوں کے مطابق بنائے یہ ہو نہیں سکتا کہ خودی صفات خداوندی کے حسن سے متاثر ہو اس سے گہری محبت رکھتی ہو اور جہاں ممکن ہو اس کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے سرور اور لذت حاصل کرے لیکن جب عمل کا وقت آئے تو اس حسن کے اثر سے آزاد اور اس کی محبت سے فارغ اور اس کے سرور سے بے نیاز ہو۔ بلکہ غیر حسن کو حسن سمجھ کر اپنے عمل کو اس کے مطابق بنائے خودی ہمہ تن خدا کے حسن کی محبت ہے وہ خدا کے حسن کے قریب آنے اس کے حسن کو قریب لانے اور ہر رنگ میںاس کے حسن کا مشاہدہ اور مظاہرہ کرنے کا کوئی موقعہ ترک کرنا نہیں چاہتی خواہ اس کا تعلق اس کے فکر سے ہو یا اس کے عمل سے لہٰذا خودی چاہتی ہے کہ خدا کی صفات جس حسن یا کمال کی آئینہ دار ہیں وہ اس کو اپنے کردار کی اصل یا روح یا مقصد یا مدعا میں بھی نمودار کرے۔ لیکن خودی کے کردار میں اس حسن کا اظہار بعض وقت کم ہوتا ہے اور بعض وقت زیادہ۔ ظاہر ہے کہ حسن کے لئے خودی کی محبت جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر زیادہ وضاحت اور صفائی کے ساتھ وہ جان سکے گی کہ حسین عمل کیا ہے اور کیا نہیں اور اسی قدر زیادہ حسن اس کا عمل حسن سے عاری ہو گا۔ اقبال نے ایسے عمل کے لئے جس میں حسن موجود ہو۔ فعل جمیل، عمل خوب، عمل محمود اور عمل محبوب ایسی اصطلاحیں برتی ہیں اور ایسے عمل کو جس میں حسن موجود نہ ہو یعنی جس کا مقصد اور مدعا خدا کی صفات حسن کا آئینہ دار نہ ہو، فعل قبیح یا فعل نامحبوب یا فعل ناخوب یا فعل زشت یا فعل مذموم کہا ہے۔
جہان خودی کا بھی ہے صاحب فراز و نشیب
یہاں بھی معرکہ آراء ہے خوب سے ناخوب
نمود جس کی فراز خودی سے ہو وہ جمیل
جو ہو نشیب میں پیدا قبیح و نا محبوب
فراز خودی فعل جمیل کا مصدر
اقبال کے یہ دو شعر ایک جدید فلسفہ اخلاق کی کلید ہیں۔ ان میں اقبال نے فعل جمیل کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس کے منبع اور مصدر کو بھی بیان کیا ہے اور اس کے علل و اسباب پر بھی روشنی ڈالی ہے اور اس کی مزاحمتوں اور رکاوٹوں کی بھی توضیح کی ہے اور پھر یہ بھی بتایا ہے کہ فعل قبیح یا فعل نا محبوب کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتاہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں خودی سے مراد انسانی خودی ہے۔ انسانی خودی کے جہاں میں خدا کی محبت کے سوائے اور کچھ نہیں ہوتا۔ لہٰذا جہان خودی کا مطلب خدا کی محبت کی دنیا ہے۔ جو انسانی خودی میں آباد ہوتی ہے۔ مومن کی خودی کو فراز یا بلندی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب مومن کے دل میں خدا کی محبت ترقی پا کر اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ مومن کی خودی کا نشیب اس کی وہ حالت ہے جب اس کے دل میں خدا کی محبت ابھی اپنے ارتقا کی ابتدائی منزلوں میں ہوتی ہے اور کمزور ہوتی ہے۔ جہان خودی میں خوب و ناخوب کے معرکہ کا باعث یہ ہے کہ مومن جب ایمان لاتا ہے تو اس کی ساری فطری استعداد محبت خدا کے تصور کے لئے فوراً نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ترقی پا کر مہیا ہوتی ہے۔ خدا کی محبت جو اس کے دل میں ایمان لانے کے بعد پیدا ہوتی ہے شروع میں غلط تصورات کی محبت سے گھری ہوئی ہوتی ہے۔ غلط تصورات مومن کی فطری استعداد محبت کا بہت سا حصہ اپنے تصرف میں لئے ہوئے ہوتے ہیں اور مومن کی محبت ان تصورات کو سخت مقابلہ کے بعد بتدریج بے اثر کرتی ہے اور محبت کا جو حصہ ان کے تصرف میں آ چکا ہوتاہے اس کو رہا کر کے اور اپنے ساتھ ملا کر اپنے آپ کو ترقی دیتی ہے۔ یہاں تک کہ آخر کار اس کے دل میں خدا کے سوائے ہر تصور کی محبت مٹ جاتی ہے۔ خودی کے صحیح تصورات جو خدا کے تصور سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اس کے غلط تصورات پر جو غیر اللہ سے متعلق ہوتے ہیں غلبہ پانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا دونوں میں کشمکش ہوتی ہے جو تصور خودی کی محبت کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے وہی مقابل کے تصورات پر غالب آ جاتا ہے اور وہی خودی کی قوت عمل کا مالک بن جاتاہے اور خودی مقابل کے تصورات کو پس پشت ڈال کر اسی کے مطابق عمل کرتی ہے صحیح اور غلط تصورات کی یہ باہمی آویزش خودی کی محبت کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہے اور جب تک کہ خودی کی محبت کا سارا ذخیرہ جو فطرت نے اسے دے رکھا ہے خدا کے تصور کے تصرف میں نہیں آتا جب تک خدا کا تصور غلط تصورات پر پوری طرح سے غالب نہیں آ جاتا ۔ دوسرے لفظوں میں جب تک مومن کے دل میں خدا کی محبت اپنے کمال کو نہیں پہنچتی۔ اس وقت تک صحیح اور غلط تصورات کی باہمی کشمکش جاری رہتی ہے کیونکہ اس وقت تک غلط تصورات خودی کی محبت کو خدا کے تصور سے ہٹا کر اپنے استعمال میں لاتے رہتے ہیں۔
غلط تصورات جو اس طرح سے خد اکے تصور کے ساتھ الجھ جاتے ہیں۔ بالعموم انسان کی جبلتی یا حیوانی خواہشات اور ان کے ماتحت پرورش پانے والی عادات سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان خواہشات میں خدا نے دو اہم خصوصیتیں رکھی ہیں جن کی وجہ سے وہ خدا کی محبت کی حریف بن جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کے اندر ایک حیاتیاتی زور یا دباؤ ہوتا ہے جو خودی کو ان کی تشفی کے لئے مجبور کرتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ان کی تشفی کے اندر ایک حیاتیاتی قسم کی لذت ہے۔ قدرت میں ان دونوں خصوصیتوں کا مقصد یہ ہے کہ حیوان کو مجبور کیاجائے کہ وہ اپنی زندگی اور نسل کو قائم رکھنے کے لئے بر وقت ضروری اقدامات کرتا رہے۔
جب تک ایک مومن کے دل میں خدا کی محبت کمزور ہوتی ہے اس وقت تک وہ اپنی محبت کے عملی تقاضوں کو ٹھیک طرح سے نہیں سمجھ سکتا۔ جب تک ہماری محبت بیدار نہیں ہوتی ہم اپنی حیوانی جبلتی خواہشات کی قوت اور لذت کی وجہ سے ان کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ان کے دباؤ سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں اوران کی لذت سے اس قدر مسحور ہو جاتے ہیں کہ ہم ان کے اصلی فطری مقصد اور مدعا کو بھول کر ان کو حد سے زیادہ اہمیت دینے لگ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم بعض وقت ان کو تصورات حقیقت یا انسان و کائنات کے نظریات کی شکل دے لیتے ہیں چنانچہ مارکسنرم، فرائڈزم، ایڈلرزم اسی قسم کے نظریات ہیں جو بالترتیب جبلت تغذیہ جبلت جنس اور جبلت تفوق پر مبنی ہیں۔ جبلتی خواہشات سے مغلوب اور مسحور ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری خواہشات ہماری محبت کی اس فطری استعداد کو استعمال کر لیتی ہیں جو نصب العین کے لئے مخصوص ہے اور اس طرح سے ان کی قوت اس حد سے بڑھ جاتی ہے جو قدرت نے ان کے مقصد یعنی بقائے حیات کی ضرورت کے پیش نظر مقرر کی ہے۔ گویا ہماری خواہشات ہمارے نصب العین یا معبود کی جگہ لے کر خود ہمارا نصب العین یا معبود بن جاتی ہیں۔
خودی کے محرکات عمل
انسان اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ اس کی ساری عملی زندگی محبت اور خوف کے دو محرکات سے طے پاتی ہے۔
طرح تعمیر تو از گل ریختند
با محبت خوف را آیختند
لیکن انسان کے یہ دونوں محرکات عمل اس کے نصب العین زندگی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر اس کا نصب العین ان حیوانی خواہشات پر مشتمل ہو گا جو جسم سے تعلق رکھتی ہیں اور ماء وطین کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہیں اور لہٰذا غلط ہو گا تو اس کی محبت اور اس کا خوف دونوں غلط ہوں گے وہ غلط چیزوں سے محبت کرے گا اور غلط چیزوں کا خوف رکھے گا اور اس کا ہر عمل غلط اور قبیح اور نا خوب او رنا محمود ہو گا۔
خوف دنیا، خوف عقبیٰ، خوف جان
خوف آلام زمین و آسمان،
حب مال و دولت و حب وطن
حب خویش و اقربا و حب زن
امتزاج ماء وطین تن پرور است
کشتہ فحشاء ہلاک منکر است
اگر ایک ایسے غلط نصب العین سے پیدا ہونے والا عمل جو خواہشات حیوانی پر مشتمل ہو، بار بار ہوتا رہے تو تکرار کی وجہ سے وہ ایک عادت بن جاتا ہے جس سے اس کی قوت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جب ایک انسان خدا پر ایمان لاتا ہے اور اس کی فطری محبت آشکار ہوتی ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی حد سے بڑھی ہوئی جبلتی خواہشات اور ان کے ماتحت پیدا ہونے والی عادات کی محبت کے عملی تقاضوں کے ساتھ مزاحمت کر رہی ہیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس مزاحمت کا مقابلہ کر کے اسے ختم کر دے۔ یہ مقابلہ نہایت مشکل ہوتا ہے لیکن مومن اپنی محبت کی حفاظت کی خاطر اس سے ہمت نہیں ہارتا اور اپنے آپ کے ساتھ سختی کا برتاؤ کرنے سے دریغ نہیں کرتا یہاں تک کہ ایک چیتے کی طرح اپنے آپ پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
مرد مومن زندہ و باخود بجنگ

برخود افند ہمچو بر آہو پلنگ