مسلمان فرد کے لیے وطنیت کے نتائج
ایک وطنی لادینی ریاست کے ماتحت کوئی مسلمان پوری طرح سے مسلمان رہ کر زندگی بسر نہیں کر سکتا جو مسلمان برضا و رغبت ایک لادینی قومی یا وطنی ریاست کا فرد ہو گا اور وہ مجبور ہو گا کہ اپنی انفرادی عملی زندگی میں یا تو اسلام سے مطلقاً الگ ہو جائے یا ا س سے فقط برائے نام اورنمائشی تعلق رکھے۔ اس کیو جہ یہ ہے کہ اسلام فقط ‘ نماز روزہ کلمہ حج اور زکوۃ کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر فعل میں خدا کی رضامندی کو ملحوظ رکھنے کا نام ہے۔ مسلمان کی ساری زندگی ہی عبادت ہے۔ اگر وہ اپنی عملی زندگی کے ایک حصہ میں جس پر وطنی لادینی ریاست کا کنٹرول ہے خدا کی رضاجوئی کے لیے کام میں نہیںلا سکتا اور اس حالات پر رضا مند ہے تو وہ صریحاً خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے کیونکہ اپنی زندگی کے ایک حصہ کو دیدہ و دانستہ اور اپنی رضامندی کے ساتھ غیر اللہ کے تصر ف میں دیتا ہے اور اس حصہ کی حد تک غیر اللہ کو اللہ کا مقام دیتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ وہ نماز روزہ‘ حج ‘ اور زکوۃ کے فرائض اپنے کس خدا کے لیے ادا کرتا ہے ۔ اور کس خدا کا کلمہ پڑھتا ہے اور کس کو لاشریک سمجھتا ہے۔ گویا ایسے ارکان اسلام کی پابندی نمائش کے سوائے کوئی فائدہ نہ دے گی۔ اسی بنا پر مسلمانوں کو قرآن حکیم کی ہدایت یہ ہے کہ خدا کی اطاعت میں پوری طرح سے داخل ہو جائو۔
یا یھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کانہ (۲۳۷:۲)
یہودیوں کی اس حرکت کی مذمت کی گئی ہے کہ وہ خدا کی کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہیں اور ایک حصہ کا انکار کرتے ہیں
افتومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض (۸۵: ۲)
اسلام کفر یا لادینیت کے ساتھ سمجھوتہ کر کے خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ پیدا نہیںکرتا۔
یوں ہاتھ نہیں آتا وہ گوہر یکدانہ
یکرنگی و آزادی اے ہمت مردانہ
حب وطن اور وطنیت میں فرق
اس کھلی ہوئی حقیقت کے مقابلہ میں بعض لوگوں نے ’’وطن کی محبت ایمان کا ایک جزو ہے‘‘
حب الوطن من الایمان
کا قول سامنے رک کر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وطن کی محبت ایک فطری چیز ہے لہٰذا یہ اسلام ایسے ایک فطری دین کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ خیال اپنی جگہ درست ہے لیکن جو لوگ اس رائے کو وطنیت کے سیاسی عقیدہ کی حمایت میں پیش کرتے ہیں وہ حب وطن اور وطنیت کے سیاسی نصب العین میں فرق نہیں کرتے۔ وطن سے محبت کرنا جائز ہے لیکن اس طرح سے نہیں کہ وطن کو ایک معبود یا مقصود حیات کا درجہ دے دیا جائے۔ اس سلسلہ میں اقبال لکھتا ہے:
’’ہم سب ہندی ہیں اور ہندی کہلاتے ہیں کوینکہ ہم سب کرہ ارض کے اس حصہ میں بودوباش رکھتے ہیں جو ہند کے نام سے موسوم ہے۔ علی ہذا القیاس چینی‘ عربی‘ جاپانی‘ ایرانی‘ وغیرہ۔ وطن کا لفظ جو اس قول میں مستعمل نہیں ہوتا محض ایک جغرافیائی اصطلاح ہے اور اس حیثیت سے اسلام سے متصادم نہیں ہوتا۔ اس کے حدود آج کچھ ہیں اور کل کچھ ۔ کل تک اہل برما ہندوستانی تؤھے اورآج برمی ہیں۔ ان معنوں میں ہر انسان فطری طور پر اپنے جنم بھوم سے محبت رکھتاہے ارو بقدر اپنی استطاعت کے اس کے لیے قربانی دینے کو تیار رہتا ہے۔ بعض نادان لوگ اس کی تائید کرتے ہوئے
(حب الوطن من الایمان)
کا مقولہ حدیث سمجھ کر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وطن کی محبت انسان کا فطری جذبہ ہے جسے پرورش کے لیے اثرات کی کچھ ضرورت نہیں۔ مگر زمانہ حال کے سیاسی لٹریچر میں وطن کا مفہوم محض جغرافیائی نہیں بلکہ وطن ایک اصول ہے۔ ہئیت اجتماعیہ انسانیہ کا اور اس اعتبار سے ایک سیاسی تصور ہے چونکہ اسلام بھی ہیئت اجتماعیہ انسانیہ کا ایک قانون ہے اس لیے جب وطن کو ایک سیاسی تصور کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اسلام سے متصادم ہوتا ہے‘‘۔
(مقالات اقبال صفحہ 223)