شریعت۔ غلط عادات کا علاج
غلط خواہشات کو روکنے اور غلط عادات کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ مرد مومن اپنے اعمال کو زیادہ سے زیادہ سچے نصب العین کے تقاضوں کے مطابق بنائے اور ان کو بار بار کرے اور دہرائے اور ان پر مداومت اور مواظبت کرے یہاں تک کہ وہ عادات راسخہ میں تبدیل ہو جائیں۔ اس صورت میں غلط خواہشات اور عادات اظہار کا موقعہ نہ پانے کی وجہ سے کمزور ہو کر خود بخود مٹ جاتی ہیں اور مومن کے اپنے صحیح نصب العین سے سرزد ہونے والے صحیح عمل کے لئے راستہ ہموار ہو جاتا ہے جبلتی خواہشات اور ان کی پیروی میں پیدا ہونے والی غلط عادات کا مقابلہ اگرچہ آسان نہیں ہوتا۔ تاہم خدا کی محبت جو شریعت کی پابندی میں اظہار پاتی ہے اور جس ا دوسرا پہلوا خدا خوف ہے مومن کے لئے اس کام کو آسان بنا دیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کی محبت اور خدا کا خوف ہر غلط محبت اور غلط خوف کو ملیا میٹ کر دیتے ہیں۔
جو شخص لا الہ کا عصا ہاتھ میں لے لیتا ہے یعنی دل سے یقین کر لیتا ہے کہ خدا کے سوائے اس کا کوئی مطلوب اور محبوب نہیں وہ ہر خوف کے طلسم کو توڑ دیتا ہے اور کسی ناچیز سے نہیں ڈرتا جس شخص کے تن میں خدا کی محبت جان کی طرح ہو اس کی گردن کسی باطل کے سامنے جھک نہیں سکتی۔ خوف اس کے سینہ میں راہ نہیں پاتا اور وہ غیر اللہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اقلیم لا میں آباد ہو جائے یعنی یہ سمجھ لے کہ خدا کے سوائے کوئی چیز اس کا مقصود نہیں وہ بیوی بچوں کی فکر سے بھی آزاد ہو جاتا ہے اور غیر اللہ کو یہاں تک نظر انداز کر دیتاہے کہ خدا کی محبت کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح اپنے بیٹے کی گردن پر چھری رکھ دیتا ہے۔
تا عصائے لا الہ داری بدست
ہر طلسم خوف را خواہی شکست
ہر کہ حق باشد چو جاں اندرتنش
خم نگر دو پیش باطل گردنش
خوف را در سینہ او راہ نیست
خاطرش مرعوب غیر اللہ نیست
ہر کہ در اقلیم لا آباد شد
فارغ از بند زن و اولاد شد
مے کند از ماسوا قطع نظر
می نہد سا طور بر حلق پسر
شریعت کی پابندی غلط خواہشات اور عادات کا علاج اس لئے کرتی ہے کہ وہ ہر وقت مومن کی محبت کا امتحان کرتی رہتی ہے اور اس طرح سے اس کی محبت کی حفاظت اور ترقی کا باعث بنتی ہے لیکن وہ ان کا علاج اس لئے بھی کرتی ہے کہ وہ ان کی بجائے صحیح خواہشات اور عادات مہیا کرنے کا اہتمام کرتی ہے۔
لہٰذا مومن شریعت کا پابند رہتا ہے اس کے لئے اگر کلمہ توحید ایک صدف ہے تو نماز وہ گوہر ہے جس کے بغیر یہ صدف خالی رہتا ہے نماز مسلمان کا حج اصغر ہے اور وہ خنجر ہے جس سے وہ خدا کی نافرمانی اور بے حیائی اور برے کاموں کی خواہشات کو ہلاک کرتا رہتا ہے روزہ اس کی بھوک پیاس پر پابندی عائد کرتا ہے اور اسے تن پروری سے بچاتا ہے حج سے وہ یہ سیکھتا ہے کہ اگر اسے خدا کی محبت کی خاطر وطن چھوڑٹتا پڑے تو چھوڑ دے۔ زکوۃ کا حکم اسے بتاتا ہے کہ دولت سے محبت نہ کرے اور اس میں اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی شریک سمجھے۔
لا الہ باشد صدف گوہر نماز
قلب مسلم را حج اصغر نماز
در کف مسلم مثال خنجر است
قاتل فحشاء و بغی و منکر است
روزہ بر جوع و عطش شبخون زند
خیبر تن پروری را بشکند،
مومناں را فطرت آموز است حج
حجرت آموز و وطن سوز است حج
حب دولت را فنا ساز و زکوۃ
ہم مساوات آشنا ساز و زکوۃ
شیطان کی اہمیت
قرآن حکیم نے جبلتی خواہشات کے حد سے متجاوز مطالبات کو ہوی (بری خواہشات) کا نام دیا ہے اور مومن کو بتایا ہے کہ ہوی کو روکنے سے ہی وہ خدا کی محبت کے اس بلند مقام پر پہنچ سکتا ہے۔ جہاں وہ جنت کا حقدار ہو جاتا ہے۔
اما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوی
(جو شخص اس بات سے ڈر جائے کہ اس نے خدا کے روبرو کھڑے ہو کر ہر نافرمانی کا جواب دینا ہے اور نفس کو بری خواہشات سے روک لے اس کا ٹھکانہ جنت ہے)
شیطان ہوی کے مطالبات کو طرح طرح سے حسین اور دلکش بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اس کی یہ سب کارروائیاں فریب محض ہوتی ہیں۔ لہٰذا شیطان کی مخالفت خودی کی تربیت ترقی اور تکمیل کے لئے ضروری ہے اور اس کے برعکس شیطان کی موافقت خودی کی ترقی کے لئے وبال ہے۔
رزم یا دیواست آدم را کمال
بزم باد بو است آدم را وبال
قرآن بار بار شیطان کے فریب کا ذکر کرتا ہے اور اس سے بچنے او رشیطان کی مخالفت کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔
وزین لھم الشیطان اعمالھم
(اور شیطان نے ان کے لئے ان کے برے اعمال کو حسین بنا کر پیش کیا ہے)
یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطان الاغرورا
(وہ ان سے وعدہ کرتا ہے اور ان کو امیدیں دلاتا ہے لیکن شیطان جو وعدے بھی ان سے کرتا ہے محض فریب ہوتے ہیں)
خد اکی حکمت نے شیطان اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مومن کی خودی کی مزاحمت کرے تاکہ مومن اپنی محبت سے مجبور ہو کر اس مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے نیکی کی تمام اندرونی قوتوں کو جمع کرے اور ان کے زور سے شیطان کی مزاحمت کو توڑ کر آگے نکل جائے۔ ایسا کرنے سے مومن کی خودی اپنے ارتقاء کے ایک بلند تر مقام پر قدم رکھتی ہے اور ایک بے نظیر راحت اور لذت محسوس کرتی ہے۔ خدا کے سچے عاشق کو ایسی دنیا کے اندر رہنے میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا جس میں اسے اپنے اور اپنے محبوب یعنی خدا کے دشمن کے ساتھ مقابلہ کر کے فتح یاب ہونے کا کوئی موقعہ نہ ملتا۔
مزی در آن جہانے کور ذوقے
کہ یزداں وارد و شیطان ندارد
جنت میں شہداء جنت کی ہر نعمت سے سرفرازہونے کے باوجود یہ تمنا کریں گے کہ خدا انہیں پھر دنیا میں بھیجے تاکہ وہ اس راحت اور لذت سے پھر بہرہ ور ہوں جو شیطانی قوتوں کو تباہ کرنے کے لئے جان تک کی بازی لگانے میں انہیں حاصل ہوئی تھی۔ گویا خدا کے عاشق کے لئے یہ وہ نعمت ہے جو جنت میں بھی موجود نہیں۔ اقبال کی نظم ’’ جبریل و ابلیس‘‘ میں ابلیس جن باتوں پر جبریل کے سامنے فخر کرتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر میں جرات کر کے خدا کی نافرمانی نہ کرتا تو میں انسان کو تاقیامت گمراہ کرتے رہنے کی اجازت بھی نہ مانگتا اور اگر مجھے یہ اجازت نہ ملتی تو خدا کی جستجو کے راستہ میں انسان کے لئے رکاوٹیں کون پیدا کرتا اور اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو انسان جو محض ایک مشت خاک ہے اس کی خودی اپنے ارتقا کی ان بلند ترین منزلوں پر کیسے پہنچ سکتی جو ان رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے اور ان پر عبور پانے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہیں۔ لہٰذا اگرچہ میں خدا کے حضور سے راندا گیا ہوں جو میری موت سے کم نہیں۔ لیکن میرا لہو قصہ آدم کو رنگین کر گیا ہے۔ باغ آدم کی بہار کا دار ومدار میری اپنی تباہی پر ہے۔ عقل و خرد کا لباس جو دور حاضر میں اکثر گمراہ انسانوں نے پہن رکھا ہے اور جس پر ان کو فخر ہے اس کا تار و پود میرے پیدا کئے ہوئے فتنوں سے بنایا گیا ہے سب سے پہلے میں نے ہی عقل و خرد کی بنا پر خدا کے اس حکم کو محل اعتراض ٹھہرایا تھا کہ میں آدم کو سجدہ کروں۔
ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تار و پو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگین کر گیا کس کا لہو
سچا مومن اپنی مخلصانہ محبت کی وجہ سے خدا کے خوف سے خدا کی ناراضگی کا خوف مراد لیتا ہے۔ وہ جسمانی تکلیفوں کی شکل میں خدا کے عذاب سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا خدا کی ناراضگی سے ڈرتا ہے۔ اس کے نزدیک اس سے بڑھ کر خدا کا عذاب اور کوئی نہیں ہوتا کہ خدا اس سے ناراض ہو۔ اسی طرح سے اس کے نزدیک خدا کی محبت جسمانی لذتوں کی صورت میں کسی انعام کی محبت نہیں ہوتی۔ بلکہ خدا کی رضا مندی کی محبت ہوتی ہے۔ مومن کے نزدیک خدا کی رضا مندی سے بڑھ کر کوئی اور انعام نہیں ہوتا۔ اگرچہ ہر فعل کی بدنی سزا یا بدنی جزا فعل کے اندر موجود ہوتی ہے اور اس سے الگ نہیں ہو سکتی تاہم جب کوئی شخص بدنی سزا کے خوف سے یا کسی بدنی راحت یا لذت کے طمع سے ایک برے کام کو ترک کر کے ایک اچھا کام کرتا ہے تو اس اچھے کام کی اچھائی ناقص رہ جاتی ہے۔ ایسے شخص کے نزدیک جو چیز ترک کے قابل ہوتی ہے وہ فعل کی برائی نہیں ہوتی بلکہ وہ بدنی تکلیف ہوتی ہے جو وہ سمجھتا ہے کہ فعل کی سزا ہو گی اور جو چیز قبول کرنے کے قابل ہوتی ہے وہ فعل کی اچھائی نہیں بلکہ وہ بدنی راحت یا لذت ہوتی ہے۔ جو اس کے خیال میں فعل کا انعام ہو گی۔ اچھا کام وہی ہے جو خدا کی محبت کے مقام کمال سے صادر ہو۔ محبت کے اس مقام پر یہ کام مومن کو اس لئے کشش کرتا ہے کہ وہ خود اسے زیبا نظر آتا ہے اور اس کی زیبائی کی محبت اور اس کے نقیض کی زشتی کی نفرت بے اختیار اس کے دل سے پیدا ہوتی ہے۔ صرف اس قسم کا اچھا کام ہی و ہ اصلی فعل جمیل ہوتا ہے جس کی جزا مومن کو خدا کی پوری رضا مندی کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ اقبال اس حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے۔
جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گذر مینا و جام سے گذر
یہ ہے مختصر الفاظ میں روئداد اور علمی اور نفسیاتی بنیاد اس معرکہ ’’ خوب ناخوب‘‘ کی جو جہان خودی میں برپا ہوتا ہے۔