حب غیر اللہ کا استیصال، ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

حب غیر اللہ کا استیصال
مومن کا صدقہ صرف اسی صورت میں نیکی شمار ہوتا ہے کہ جب وہ ا س کی ملکیت کی ان چیزوں پر مشتمل ہو جن سے اس کو محبت ہے کیونکہ اسی صورت میں وہ غیر اللہ کی محبت کا استیصال کرتا ہے اور خدا کی محبت کو آزمائش میںکامیاب کر کے پختہ کرتا ہے۔ چنانچہ خدا کا ارشاد ہے کہ جب تم اپنی ایسی چیزیں خیرات میں نہ دے دو جن سے تمہیں محبت ہے تم ہرگز نیکی نہ پا سکو گے۔
لن تنالو البر حتی تنفقو مما تحبون ۹۴:۸
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت طلحہؓ نے حضور سے عرض کیا کہ میرے پاس ایک ایسا باغ ہے جس سے مجھے بڑی محبت ہے  خدا کی قسم میں اس حکم کی تعمیل میں اسے خیرات میں دینا چاہتا ہوں حضورؐ نے فرمایا کہ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کر دو۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدقہ کا پہلا اور اصل مقصد صدقہ دینے والے کی خودی اور اس کی محبت کی تربیت اور ترقی ہے نہ کہ افلاس کا ازالہ اگرچہ ظاہر ہے کہ صدقہ دینے سے افلاس کا دور کرنا نیکی اس لیے ہے کہ ایک تو اس سے صدقہ دینے والے کے دل میں غیر اللہ کی محبت رخصت ہوتی ہے اور میں اس خدا کی محبت کے لیے جگہ پیدا ہوتی ہے اور دوسرے وہ خدا کے اخلاق ربوبیت ارو اخلاقیت سے متخلق ہوتاہے۔ جس سے اس کی خودی تربیت اور ترقی پاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقدر استطاعت انفاق کا حکم مفلس کو بھی ہے اوردولت مند کو بھی اور ہر حالت میں ہے کہ تنگدستی میں بھی اور فارغ البالی میں بھی۔
الذین ینفقون فی السراء والضراء (۱۳۴:۳)
حالانکہ تنگدستی کی حالت میں انسان اپنے جسم کی جائز ضرورتوں کو بھی نظر انداز کر کے ہی دوسروں کو دے سکتاہے۔
خدا کی رضا جوئی
یہی وجہ ہے کہ خیرات اور صدقہ کی مقبولیت کی شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اس کے پیچھے خدا کی رضا جوئی کی نیت موجود ہو ورنہ صدقہ نہ دینا برابر ہو جاتا ہے بلکہ صدقہ ریاکاری یا شرک ایسی ایک معصیت شمار ہوتا ہے۔ حالانکہ صدقہ لینے والے مفلس کی جسمانی ضرورت تو پھر بھی اس سے ویسی ہی پوری ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ ایسے صدقہ سے دینے والے کی خودی کی پرورش نہیںہوتی۔ اس فعل کو بیکار اور عبث ہی نہیں بلکہ ایک گناہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم کا ارشاد ہوتا ہے کہ اپنے صدقوں کو احسان جتا کر یا بعدمیں ذہنی آزارپہنچا کر ضائع نہ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم بھی ا س شخص کی طر ح ہو جو خدا پرایمان نہیںرکھتا اور جو خدا کی محبت اور خوشنودی کے لیے بلکہ لوگوں کو دکھانے کی طرح ہو جو خدا پرایمان نہیں رکھتااور جو خدا کی محبت ارو خوشنودی کے لیے بلکہ لوگوں کو دکھانے ک لیے اپنا مال خرچ کرتا ہے۔
لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والا ذی کالذی ینفق مالہ رئاء الناس ولا یومن باللہ ۲۹۴:۲
مومن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ مفلس کو کھانا کھلائے اور لیکن اپنی نیکی کو اس توقع سے ضائع نہ کرے کہ کھانا کھانے والا کل کو اس کے کام آئے گایا س کا شکر گزار ہو گا بلکہ واشگاف یہ اعلان کر دے کہ وہ محض بوجہ اللہ اس کو کھانا کھلا رہا ہے ۔ اور اس کے عوض میں کوئی صلہ یا شکریہ نہیں چاہتا بلکہ تاکہ خدا خدا کی محبت کا جذبہ اس کے عمل میں اظہار پائے اور اس کے نتیجہ کے طور پر اس کی خودی کے درجات ارتقاء بلند ہوں ۔
انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء ولا شکورا ۷۶:۹
ایمان لانے کا امتیاز یہ ہے کہ وہ مسکینوں اور یتیموں کو اور اسیروں کو محض خدا کی محبت کے لیے کھانا کھلاتے ہیں ۔
و یطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما و اسیرا ۷۶:۸
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خدا کی رضامندی کے لیے بغض رکھے ‘ خدا کی رضامندی کے لیے دے اور خدا کی رضامندی کے لیے دینے سے رک جائے (مثلاً دینا غیر اللہ کے لیے ہو) تو اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔
تزکیہ نفس
زکوۃ کے متعلق حضور نے فرمایا تھا کہ وہ ایک صدقہ ہے جو تمہارے دولت مندوں سے وصول کر کے تمہارے مفلسوں کو دیا جاتا ہے
صدقہ تو خذ من اغنیاء کم و تزدانی فقراء کم
اس صدقہ کو اصلی اور بنیادی غرض بھی مومن کی خودی کی تربیت ہے لفظ زکوۃ کامفہوم بتا رہا ہے کہ اس کامقصد کسی کا تزکیہ کرنا ہے اور کسی کی خود کو خدا کی صفات ربوبیت اور رزاقیت سے حصہ دلا کر پاک کرنا ہے۔ اگرچہ ظاہر ہے کہ زکوہ سے یہ تزکیہ اسی لیے ہوتا ہے کہ اس سے کسی حاجت مند کی حاجت پوری ہوتی ہے اور ورنہ زکوۃ ادا کرنا خدا کی صفات ربوبیت اور رزاقیت سے حصہ نہ دلا سکے اور خودی کا تزکیہ نہ کر سکے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے مال سے صدقہ وصول کر و جو ان کے دلوں کو پاک کرے۔
خذمن اموالھم صدقہ تطھر ھم و تزکیھم بھا ۱۰۳:۲
یہ نہیں فرمایا گیا تھا کہ جو مفلسوں کی مفلسی دور کرے اگرچہ صدقہ سے ضمناً مفلسی بھی دور ہوتی ہے پھر ایسا صدقہ جو غیر اللہ کے لیے دے  دیا جائے۔
ما اھل بہ لغیر اللہ ۷۳:۲

شرک ہے اور اس کا قبول کرنا بھی حرام ہے۔ حالانکہ ایساصدقہ بھی مفلسی کو دور کر سکتا ہے۔