خودی کی تربیت
غرض لوگوں کو کھانا کھلانا اور مال و زر بخشنا بذات خود کوئی نیکی نہیں جب تک کہ اس کے عقب میں خدا کی رضامندی کو حاصل کرنے کی نیت موجود نہ ہو۔ ایسی نیت کے بغیر یہ نیکی ایک باعث عذاب بدی بن جاتی ہے وجہ صاف ظاہر ہے کہ تعلیم نبوت میں غربا کی مالی امداد کے حکم کا بنیادی مقصد وہی ہے جو خدا کی عبادت کا مقصد ہے یعنی تخلق باخلاق اللہ سے خودی کے جذبہ محبت کی تشفی اور پھر اس کی تشفی سے خودی کی تربیت اور ترقی ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں زکوۃ کا حکم صلوۃ کے ساتھ ساتھ آیا ہے اور دوزخ میں جانے والے بھی ان دو جرموں کا ذکر ایک ساتھ ہی کریں گے۔ ہم نہ نماز پڑھتے تھے اور نہ کھانا کھلاتے تھے۔
سوشلزم نیکی سے بے تعلق ہے
حضورؐ کی تعلیم نے اس گراں قدر حقیقت سے پرد ہ اٹحایا ہے۔ کہ ہر عمل کی حیثیت اور قدر وقیمت کا دارومدار اس نیت پر ہوتا ہے کہ جو ا س کی محرک کی ہوئی ہے۔ وہی عمل جو ایک نیت کے ساتھ صواب ہو۔ دوسری نیت کے ساتھ ناصواب ہو کر رہ جاتا ہے۔
انما الاعمال بالنیات
سوشلسٹوں کی اقتصادی مساوات کی کوششوں کے پیچھے خدا کی رضا کی طلبی کی کوئی نیت ن موجود ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ سوشلزم خدا کے انکار پر مبنی ہے لہٰذا یہ کوششیں کی جا رہی ہیں کہ انسان یا خودی کے کسی کام کی نہیں اور ان میں کوئی بھی نیکی یا خوبی موجود نہیں۔ اس کے برعکس چونکہ یہ کوششیں خودی کے اصل مقصود کو انسان کی نظروں سے اوجھل کر دیتی ہیں وہ اس کے لیے موت کا پیغام ہیں۔
نبوت خودی کی مشکلات کا حل پیش کرتی ہے
اوپر کی تصریحات سے ظاہر ہے کہ نبوت سب سے پہلے اور براہ راست جس مشکل کا حل پیش کرتی ہے وہ یہ نہیں کہ انسان کے عارضٰ اور ناپائیدار آلہ کار کا جسم کی پرورش کس طرح سے کی جائے بلکہ یہ ے کہ انسان کی خودی کی پائیدا ر اور مقصود بالذات زندگیکو اس کے جسم کی پرورش کے جبلتی تقاضوں کی زیادتیوں خود غرضیوں اور بے اعتدالیوں کی دست برد سے آزاد کیا جائے۔ اور کس طرح بچایا جائے تاکہ وہ تادم آخر پوری آزادی ک ساتھ خدا کی محبت کے جذبہ کی تشفی کرتی رہے اور کائنات کے ارتقا کا عمل جو خودی کے ااس عمل سے اپنی منزل مقصود پر پہنچنے والا ہے پوری قوت سے جاری رہے اور انسانی فرد کی خودی بھی بعد از مرگ خوف اور غم سے محفوظ رہے اور مسرت اور شادمانی سے ہمکنار ہو یعنی دوزخ سے بچے اور جنت میں جائے نبوت کا مقصد اصل انسان کی خیر خواہی اور راہ نمائی ہے ور ہم دیکھ چکے ہیں کہ انسان کی حقیقت خدا کی محبت کا ایک جذبہ ہے اور اس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ نبوت اسی جذبہ کی تشفی کی راہ نمائی کرتی ہے نبوت براہ راست افلاس کا علاج نہیں کرتی بلکہ افلاس کے خوف کا علاج کرتی ہے تاکہ اس بے حقیقت کیچڑ کے تقاضے جس کو جسم انسانی کہا جاتا ہے غالب آ کر مستقل قدر و قیمت کے اس گوہر تابدار کو برباد نہ کریں جسے انسانی خودی کا نام دیا گیا ہے۔
سوشلزم کے نظام میں سچی نیکی ممکن نہیں
بعض سوشلزم پسند مسلمان یہ کہا کرتے ہیں کہ سوشلزم نظام کے بھوک کے ختم ہونے سے بدی کی تمام قسمیں مٹ جاتی ہیں ارو نیکی کا دور دورہ ہو جاتاہے کیونکہ بھوک ہی چوری‘ ڈاکہ زنی‘ رشوت ستانی‘ دروغ گوئی‘ دھوکہ دہی‘ قتل اور تشدد اورعصمت فروشی کا سبب بنتی ہے۔ افسوس ہے کہ یہ حضرات نیکی اور بدی اور سچی نیکی اور جھوٹی نیکی اور اس کے فرق کو مدنظر نہین رکھتے جس کی وضاحت ہمیں قرآن حکیم میںملتی ہے۔ قرآن حکیم نے سچے اور اصلی فعل جمیل کو جھوٹے اور نقلی فعل جمیل سے ممیز کیا ہے ۔ یہ بات مسلم ہے کہ دنیا نیکی کی اتنی قسمیں ہیں جتنے کہ نظریات زندگی ہیں۔ ہر نظریہ حیات کی الگ نیکی الگ قسم کی ہوتی ہے ل۔ جو اس نظریہ سے مطابقت رکھتی ہے۔ سچی نیکی پھر کون سی ہے ظاہرہے کہ وہ وہی ہو گی جو سچے نظریہ سے مطابقت رکھے گی۔ قرآن حکیم کے نزدیک سچی نیکی صرف وہی ہے جو خدا کی محبت کا سرچشمہ سے پھوٹے اور جس کی غرض سے خدا کی خوشنودی ہو۔ اصلی سخاوت اور نقلی سخاوت اصلی سچ اور نقلی سچ اصلی عدل اور نقلی عدل‘ اصلی پرہیز گاری اور نقلی پرہیز گاری بظاہر ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
سچی نیکی کی تعریف
قرآن حکیم کے نزدیک سچی نیکی وہی ہے جس کا مقصد خدا کی ذات سے محبت کے اظہار اور خدا کی رضامندی کی طلب کے سوائے اور کچھ نہ ہو۔ ایسی نیکی خدا کی محبت کو اور فروغ بخشتی ہے لیکن جھوٹی نیکی جس کی ہزاروں قسمیں ہو سکتی ہیں خدا کے منکر یا نافرمان کی نیکی ہے جو کسی غلط نصب العین کی محبت سے پیدا ہوتی ہے اور اسی غلط محبت کو اور فروغ دیتی ہ۔ چونکہ وہ خودی کے جذبہ محبت کو غلط راستہ پر ڈالتی ہے اور وہ خﷺدی کی پرورش نہیں کرتی بلکہ اس کی پرورش کے عمل کو نقصان پہنچاتی ہے۔ قرآن حکیم کی اصطلاح میں ایسی نیکی ضائع ہو جاتی ہے۔ ایسی نیکی راکھ کے اس ڈھیر کی طرح ہے جو آندھی کے دن تیز ہوا چلے اور اسے اڑ ا کر لے جائے۔ اس طرح کافرجو کچھ کماتے ہیں اس میں سے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
والذین کفروا اعمالھم کرما دن اشتدت بہ الریح فی یوم عاصف لا یقدرون مما کسبوا علی شئی (۱۸:۱۴)
کافروں کے اعمال کی مثال ایسی ہے کہ جیسے میدان میں ریت کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تکہ کہ جب اس کے پاس آئے تو اسے کچھ بھی نہ پائے۔
والذین کفراو ااعمالھم کسراب بقیعۃ یحسبہ الظمان ماء حتی اذاجاءہ لم یجدہ شیاء (۳۹:۲۴)
ان کے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ اور قیامت کے دن جب اعمال کا محاسبہ ہو گا تو ان کا کوئی وزن مشار میں نہ آئے گا۔
وحبطت اعمالہم فلا نقیم لہم یوم القیمۃ وزنا (۱۰۶:۱۸)
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک شخص خدا سے اپنی سخاوت کا اجر طلب کرے گا تو خدا یہ کہے گاکہ م نے سخاوت اس لیے نہیں کی تھی کہ میں راضی ہو جائوں بلکہ اس لیے کی تھی کہ لوگتمہاری ستائش کریں اور تمہیں سخی کہیں۔ سو لگوںنے تمہیں دنیا میں سخی کر دیا۔ اب یہاں تمہارے لیے کوئی اجر نہیں ۃے۔ ۔ سوشلزم نظام کے لیے بے خدا ہونا ضروری ہے بلکہ وہ خدا پرستی کی مخالفت کی بنیاد پر ہی قائم ہو سکتاہے لہٰذا اس میں نیکی کا وجود ناممکن ہے۔ نیکی خدا کی محبت کا ایک پہلو ہے یا جزو ہے جو اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں اس کا کل نہ ہوگا وہاں اس کا جزو بھی نہیں ہو سکتا۔ جب درخت ہی موجود نہ ہوں تو اس کا کوئی پھل یا پتہ کیسے موجود ہو سکتاہے۔
اخلاقی برائیوں کے محرکات
پھر ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جن برائیوں کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے اسباب اور محرکات بھوک اور افلاس کے علاوہ اور بھی ہیں اور جو خوشحالی اور فارغ البالی کی حالت میں اور بھی زیادہ موثراور فعال ہو جاتے ہیں۔ مغرب میں ان جرائم کی روز افزوں ترقی کا باعث زیادہ تر بے فکری فارغ البالی‘ تنوع پسندی اورتفریح طلبی ہے۔ اگر خدا کا خوف نہ ہو تو اعمال میں اخلاقی نظم اور ضبط پیداکرنے والی کوئی موثر قوت موجود نہیں ہوتی۔ اور ایسی حالت میں عافیت بھی انسان کے لیے بار گراں بن اتی ہے لیکن جہاں ان جرائم کا سبب بھوک اور افلا س ہو وہاں اگر بھوک اور افلاس کے دور ہونے سے ان کا ازالہ ہو جائے تو اصلی اور حقیقی نکو کاری ان کی جگہ نہیں لے گی کیونکہ بھوک اور افلاس واپس آنے پر اپھر ان کی طرف عود کرنے کی نیت موجود رہے گی اور یہ نیت ان کی نیکو کاوری کو خاک میں ملاتی رہے گی۔ لہٰذا اگر سوشلسٹ ملکوں میں بھوک اور افلاس کے دور ہونے سے کوئی نیکی رواج عام ہوئی ہے تو اصلی اور سچی نیکی نہیں۔ اصلی نیکی وہی ہے جس کا سبب دولت مندی نہ ہو بلکہ خدا کی رضامندی ہو۔ جو لوگ افلاس کی حالت میں ہر قسم کے جرائم کا ارتکاب کر کے اپنے افلاس کا ازالہ کرنے پر آمادہ ہو سکے ہوں سوشلزم کا نظام افلاس اور بھوک کا ازالہ کر کے ان کو نیک نہیں بنا سکتا۔
نفسیاتی لذات کی افیون
سوشلسٹ کہا کرتے ہیں کہ مذہب جو صبر اور قناعت اور شکر گزاری اور امن پسندی اور تقدیر کے ساتھ رضامندی کی تلقین کرتا ہے۔ ایک افیون ہے جو انسان کو اس کی اصلی ضرورتوں سے غافل کر دیتی ہے ۔ مذہب پر ان کا یہ حملہ قابل معافی ہے اس لیے کہ وہ بیچارے فقط ناپائیدار ٹٹو اور اس کی ضرورتوں کو جانتے ہیں۔ اور باقی رہنے والے اور آگے جانے والے روح اور ان ارتقائے کائنات سوار کا اور اس کی ضڑورتوں کا ان کو علم ہی نہیں۔ اگر اصل انسان انسان کا جسم ہوتا اور اگر انسان کی اصل ضرورتیں اس کے جسم کی ضرورتیں ہوتیں تو سوشلسٹوں کی یہ بات درست ہو سکتی تھی۔ لیکن حقیقت حال یہ نہیں۔ اصل انسان انسان کا جسم نہیں بلکہ اس کی خودی ہے لہٰذا مرد مومن کو حق پہنچتا ہے کہ وہ سوشلسٹوں کے برعکس یہ کہے کہ جسمانی خواہشات کی لذت ایک افیون ہے جو ہر انسان کو اس کی اصل ضرورتوں سے غافل کر دیتی ہے۔ لہٰذا وہ جسمانی خواہشات کو جس قد ر نظر انداز کرے گا اور کم کرے گا اسی قدر اس کے لیے اچھا ہے کیونکہ اسی قدر وہ اپنی اصل ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے آزاد ہو گا یہی وجہ ہے کہ مومن اپنے نفس کے ساتھ برسرپیکار رہتاا ہے اور اسے ابھرنے نہیں دیتا۔
مرد مومن زندہ و باخود بجنگ
بر خود افتد ہمچو بر آہو پلنگ
مرد مومن کے برعجس اگر ایک سوشلسٹ نادانی سے یہ سمجھتاہے کہ جسم ہی سب کچھ ہے اور خودی اور اس کے تقاضے محض توہمات ہیں تو قدرتی بات ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ وہ جس قدر خدا کا خیال دل سے نکالے گا۔ اسی قدر اچھا ہے کیونکہ اسی قدر وہ جسم کے مطالبات کو آزادی سے پورا کر سکے گا ۔ا س بے بنیاد مفروضہ کو اپنانے کے بعد اگر وہ مذہب کو ایک افیون نہ سمجھے تو اور کیا سمجھے۔