عشق اور عمل سے خودی کا استحکام
اگر مومن کا نمایاں وصف علم ہو تو خودی کے انقلاب اوراستحکام کے بعد اس کا علم کمال پر پہنچ جاتا ہے اور انسان اور کائنات کے اسرار و رموز اس پر اس طرح سے آشکار ہوتے ہیں کہ گویا جبریل بھی اس استحکام کے بعد ا س کا عشق محرک عمل کی حیثیت سے کمال پر پہنچ جاتاہے اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے عمل کی قوت سے ایک قیامت برپا کر دیتا ہے۔
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
اس حالت کمال کو پانے کے بعدجب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اس کی آیات کے مطالب اور معانی کو اورطرح سے سمجھتا ہے کیونکہ پھر اسے ایسا نظر آتا ہے کہ یہ معانی اور مطالب خود اس کے دل کے اندر پہلے ہی سے موجود تھے۔ ایسے ہی مومن کے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو پا لیتا ہے تو اسے ایک علم حاصل ہوتا ہے جس کی روشنی میں وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن کی آیات بینات پہلے ہی اس کے دل کے اندر موجود تھیں
بل ھو آیات بینات فی صدور الذین اوتو العلم
(بلکہ قرآن ایسی آیات بینات پر مشتمل ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں جنہیں علم دیا جاتا ہے پہلے ہی سے موجود ہیں) گویا وہ محسوس کرتا ہے کہ قرآن خود اس کے ضمیر پر نازل ہوا ہے اور جب یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے توآیات قرآنی کے معانی او رمطالب کی گرہیں اس پر کھلتی چلی جاتی ہیں۔ اور جب تک یہ صورت حال پیدا نہ ہو رازی اور صاحب کشاف بھی اس کے لیے یہ گرہیں کھول نہیںسکتے۔
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب کشاف
جب تک کہ وہ اس حالت کو نہیںپہنچتا یعنی ان معنوںمیںخود صاحب قرآن نہیں بن جاتا وہ بار بار قرآن کی تلاوت کرنے کے باوجود قرآن کے مطالب پر حاوی نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا وہ قرآن پڑھنے میں ہی لگا رہتا ہے اور قرآن پر عمل کرکے خدا کی دنیا کو بدلنے کا وقت اس پر نہیں آتا۔
نہیں کتاب سے ممکن تجھے فراغ کہ تو
کتاب خوان ہے مگر صاحب کتاب نہیں
لیکن جب وہ اس حالت کمال کو پہنچ جاتاہے تو اس کے اپنے ضمیر کی روشنی دین کے اسرار و رموز اس پر منکشف کرتی ہے ۔ اس کے بغیر وہ کسی طریق سے ان اسرار و رموز کو کبھی نہیںجان سکتا۔ جب تک وہ اس حالت کو نہ پہنچے کہ وہ دین پر مجبوری سے عمل کرتا ہے رغبت سے عمل نہیں کرتا اور ظاہر ہے کہ جو شخص خدا کے احکام کی تعمیل مجبوری سے کرتا ہے وہ اس شخص کی نسبت خداسے بہت دورہے جو رغبت اور محبت سے ان کی تعمیل کرتاہے۔
فاش مے خواہی اگر اسرار دیں
جز با عماق ضمیر خود مبیں
گر نہ بینی دیں تو مجبوری است
ایں چنیں دیں از خدا مہجوری است
گویا ایسی حالت میں مومن فقط قاری نہیں رہتا بلکہ خود قرآن بن جاتاہے۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
علم عشق سے راہ نمائی پاتا ہے
پھر جب وہ انسانوں کے پید اکیے ہوئے علوم پر نگا ہ ڈالتا ہے تو اسے یہ معلوم کرنے میںکوء دقت نہیںہوتی کہ کسی فلسفی یا حکیم یا سائنس دان یا عالم دین یا مفتی یا مجتہد یا مفسر یا فقیہ کی کونسی بات درست ہے اور کون سی غلط۔ اس کا علم خود اس کو بتاتا ہے کہ ان لوگوں کے علم نے جو خدا کی محبت کے کما ل سے محروم ہیں جو غلط حقائق کے بت کھڑے کر لیے ہیں ان کو کس طرح سے توڑا جا سکتا ہے اور ان کی جگہ صحیح حقائق کو کس طرح سے رکھا جا سکتا ہے۔
وہ علم اپنے بتوں کا ہے آپ ابراہیم
کیا ہے جس کو خدا نے دل و نظر کا ندیم
عالم دین یا فقیہ منطق کی نازک خیالیوں یا لغت کی موشگافیوں سے انہی علمی مشکلات کو حل کرنا چاہتا ہے اور پھر بھی حل نہیںکر سکتا۔ لیکن ایسا مومن کلمہ توحید کے نور تجسس کی مدد سے ہر علمی حقیقت کو باسانی دیکھ لیتا ہے کیونہ وہ اس کے دل میں پہلے ہی موجود ہوتی ہے اور اسے دیکھنے کے لیے اسے فقط اپنے دل میں جھانکنا پڑتا ہے او ر اسے منطق اور لغت کے بکھیڑوں میں الجھنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا
خودی کے اسی مقام کو اقبال تجلی (یعنی خدا کے نور کا چمکنا) کہتا ہے اور اس بات پر زور دتیا ہے کہ تجلی کے بغیر انسان بے یقینی اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے اپنے شکوک و شبہات ہی اس کی ر وحانی موت کا موجب بن جاتے ہیں۔ گویا مقام تجلی انسان کے شکوک و شبہات کو دور کر کے ا س کے یقین کو محکم کرتاہے اور اس کی عقل اور اس کے دین کی صحیح راہ نمائی کرتاہے۔ تجلی کے بعد انسان کی عقل اسے خدا کے اور قریب لاتی ہے اور اس سے دور نہیں کرتی اور وہ احکام دین کی پابندی کسی مجبوری سے نہیںکرتا بلکہ ایک ایسی خواہش سے کرتا ہے جسے وہ روک نہیںسکتا۔
بے تجلی مرد دانا رہ نبرد
از لکد کوب خیال خویش مرد
بے تجلی زندگی رنجوری است
عقل مہجوری و دیں مجبوری است
مومن خدا کی تقدیر بنتا ہے
خودی کے انقلاب کے بعد مرد مومن خدا کی تقدیر بن جاتا ہے۔ خدا جب کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے قول کن کہتاہے اوروہ ہو جاتی ہے ۔ کائنات قول کن سے وجود میں آ کر ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ قول کن کائنات میں خدا کی مرضی کا سرچشمہ ہے اور خدا کی مرضی اور خدا کی تقدیر ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کائنات میں عمل تخلیق و تربیت کو آگے بڑھانے اور جار رکھنے کے لیے جو قوت کارفرما ہے وہ خدا کے قول کن کی یہی قوت ہے۔ دنیا کے تمام واقعات اور تمام تغیرات خدا کی تقدیر کا نتیجہ ہیں اور خدا کے قول کن کی قوت سے اور صرف اس ایک مقصد کے تحت جو قول کن میںپوشیدہ ہے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ جب بندہ مومن مقام تجلی پر پہنچنے کے بعدیہاں تک خدا کی مرضی کا تابع ہوجاتا ہے کہ اس کی مرضی باقی نہیںرہتی اور وہ اپنی مرضی کو خدا کی مرضی میں گم کر دیتا ہے۔ یعنی وہ خدا کی مرضی کو ہی اپنی مرضی بنا لیتا ہے تو وہ خدا کی مرضی یا خدا کے قول کن کا آلہ کار بن جاتا ہے اوراس کی مرضی خدا کی مرضی کا راستہ بن جاتی ہے۔ جس س ہو کر وہ اپنے آپ کو پورا کرنے کے لیے ظہور پاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں وہ خدا کے قول کن کی قوت کے اظہار اور عمل کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ مومن کو خواہ اس بات کا علم ہو کہ کیا ہو رہاہے۔ لیکن خدا کی مرضی مومن کی مرضی میں خودبخود نمودار ہونے لگتی ہے۔ جو بات اس کے منہ سے نکل جاتی ہے وہ ہو جاتی ہے۔ بند ہ مومن گویا ہمہ تن خدا کی مرضی یا خدا کی تقدیر بن جاتا ہے۔ کیونکہ ایسی حالت میں خدا کا قول کن اس کے دل میں اور اس کی زبان کی صورت میں اختیار کر لیتا ہے گویا اس کی خودی اپنی مرضی کو ناپید کر کے خد اکی مرضی کا راستہ بن جاتی ہے۔
چوں فنا اندر رضائے حق شود
بندہ مومن قضائے حق شود
پہلے صور ت حال یہ تھی کہ جو کچھ خدا چاہتا ہے بندہ مومن کوشش کرکے وہی چاہتا تھا۔ اب خودی کے بلند ترین مقام پر صورت حال یہ ہو جاتی ہے کہ جو کچھ بندہ مومن چاہتا ہے وہی خدا بھی چاہنے لگ جاتا ہے۔ یعنی وہی کچھ خدا کی مرضی بن جاتاہے۔ پہلے اس کی مرضی خدا کی مرضی میں گم تھی۔ اب خدا کی مرضی اس کی مرضی میںگم ہو جاتی ہے۔ اولیا ء اللہ کی کرامات اور دعائوں کی قبولیت کا باعث یہی حقیقت ہے یہ بات اس قدر عجیب ہے کہ جو لوگ خودی کے اس مقام کی خصوصیات سے بے خبر ہیں شاید اس پر یقین نہ کر سکیں۔
در رضایش مرضی حق گم شود
ایں سخن کے با در مردم بود
اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ مومن کے لیے زیبا نہیں کہ خدا کی تقدیر کا گلہ کرے۔ وہ خود خدا کی تقدیر بن سکتا ہے اور اسے خدا کی تقدیر بننا چاہیے۔
عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
مومن کو چاہیے کہ خدا کی عبادت اور اطاعت سے خودی کو ایسے بلند مقام پر پہنچا ئے کہ خدا خود چاہے کہ میرا بندہ مومن جو چاہتاہے میں وہی کروں۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اگر بندہ مومن یہ کہے کہ یہ دنیا مجھے پسند نہیں۔ میں ایک نئی دنیا بنانا چاہتا ہوں۔ جو تیری مرضی کے مطابق ہو تو خدا اسے کہے کہ ہاں ایسا ہی کر لو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اقبال نے اس حقیقت کو ایک شعر میں بیان کیا ہے اور جو خدا اور بندہ مومن کے درمیان ایک مکالمہ کی صورت میں ہے۔ خدا نے بندہ مومن سے پوچھا کہ ہماری یہ دنیا تمہیں سازگار ہے تو بندہ مومن نے جواب دیا کہ سازگار نہیں کیونکہ آپ کی اور میری مرضی کے خلاف ہے خدا نے کہا اچھا اسے تو ڑ پھوڑ کر نئی دنیا بنا دو۔ ہم تمہارے ساتھ تعاون کریں گے اور جیسی دنیا تم چاہتے ہو ویسی ہی بنا دیں گے۔
گفتند جہان ما آیا بتومے سازو
گفتم کہ نمے ساز و گفتند کہ برہم زن
خدا کی محبت کے بلند ترین مقام پر پہنچ کر عاشق کو خود نظر آ جاتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی کا آلہ کار بن گیا ہے اور اب تقدیر کے مقاصد کے اس کے خیال‘ قول اور فعل کی وساطت سے پورے ہوںگے۔ اس کے چشم سرمہ سا کی محبت (یعنی خدا کا عشق) کیا چیز ہے۔ بس کچھ نہ پوچھیے۔ تقدیر کی گہرائیوں (یعنی تقدیر کے گہرے اور مخفی مقاصد کو) اپنے ہاتھ میں لے لینے سے کم نہیں ۔
نظر آئیں تجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشین مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے
جو شخص خدا کی مخلصانہ عبادت اور اطاعت کے ذریعہ سے خدا کے عشق کو درجہ کمال پرپہنچاتا ہے اور خدا کے جمال کا سچا عاشق بن جاتا ہے وہ تمام موجودات کا سردار یا حکمران بن جاتا ہے کیونکہ خدا جوکائنات کا اصل حکمران ہے وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
ہر کہ عاشق جمال ذات را
اوست سید جملہ موجودات را
خدا کی تیغ بے نیام
لیکن خدا کی محبت کے بلند ترین مقام پر پہنچنا اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرنے کے بغیر ممکن نہیں ہوتا انسان کا دل جنگاہ حق و باطل ہے جس میں اگر حق فتح یاب ہو جائے او ر انسان حق پرست بن کر خدا کے عشق کو کمال پر پہنچائے اور خودی میں ڈوب جائے تو اس کا نتیجہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔ انسان کا خودی میں ڈوبنا خدا کی محبت میں جذب ہونا گویا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوبنا ہے۔ جب مومن اس ڈوبنے کے بعد ابھرتاہے تو تیغ بے نیام ہوکر باہر آتا ہے اورپھر جس طرح سے اس نے اسے اپنے دل کی جنگاہ حق و باطل میں باطل کا استیصال کر کے حق کو فتح یاب کیا تھا اور خدا کی مخلصانہ محبت کا نقش اپنے دل پر ثبت کیا تھا اسی طرح سے وہ خارجی دنیا کی رزم گاہ حق و باطل کا استیصال کر کے حق کو فتح یاب کرتا ہے اور خدا کی مخلصانہ محبت کا نقش دنیا پر ثبت کرتا ہے۔ اس طرح سے اس کے وجود ی تیغ بے یام خدا کی تقدیر کے مقاصد کو پورا کرتی ہے:
نقش حق اول بجان انداختن
باز او اور جہان انداختن
ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کیفیت کو اپنے آپ پر وارد کر کے دیکھے کہ آیا وہ باطل کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے دلیر اور نڈر ہوتاہے یا نہیں اور ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے تقدیر کے مقاصد کو پورا کرتا ہے یا نہیں۔
ذرا تقدیر کی گہرائیوں میں ڈوب جا تو بھی
کہ اس جنگاہ سے میں بن کے تیغ بے نیام آیا