تخلیق کائنات کا ہر قدم خدا کے قول کن کا نتیجہ ہے، ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

تخلیق کائنات کا ہر قدم خدا کے قول کن کا نتیجہ ہے
یہ حقیقت کہ کائناتی خودی ہماری نظروں سے مخفی ہے کائنات کی ارتقائی حرکت یا کائناتی خودی کی تخلیقی فعلیت کے لئے کوئی فرق پیدا نہیں کرتی۔ خودی انسان کی ہو یا خدا کی وہ اپنی تخلیق میں ہمیشہ ایک پر اسرار مخفی اور غیر مرئی قوت کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ کائناتی خودی کے مخفی ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر حالت اس کی گزشتہ حالت کا نتیجہ اور آئندہ حالت کا سبب ہے حالانکہ گزشتہ حالت آئندہ حالت کا سبب نہیں ہوتی بلکہ صرف وقت میں اس سے پہلے آتی ہے اور اس کے ساتھ پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ بغیر اس کے کہ اس پر ذرہ بھر اثر انداز ہو رہی ہو۔ دراصل کائنات کی کسی حالت کے بدلنے والی قوت کا نظارہ ان آنکھوں سے نہیں کر سکتے اور چونکہ کائنات کی ہر حالت کے اندر نئی حالت کو پیدا کرنے کے اسباب مخفی ہوتے ہیں۔ یعنی اس کے اندر ایسی خاصیتیں اور صلاحیتیں پوشیدہ ہوتی ہیں کہ اگر کسی قادر مطلق کا حکم موجود ہو تو وہ اس نئی حالت میں بدل جائے جس میں وہ فی الواقع بدل جاتی ہے۔ ہم غلطی سے خود اس حالت کو ہی بدلنے والی قوت سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ کائنات کی کوئی حالت اپنی خاصیتوں اور صلاحیتوں کے باوجود اس وقت تک کسی نئی حالت میں نہیں بدل سکتی جب تک کہ خدا کا حکم یا قول کن صادر نہ ہو اور اس کی تخلیقی قوت اور قدرت اس کو بدلنے کے لئے بروئے کار نہ آئے۔ اقبال اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
ہر چہ مے بینی ز اسرار خودیست
خفتہ در ہر ذرہ یزوئے خودی یست
اقبال کا نظریہ ارتقا خودی کی فطرت سے ماخوذ ہے
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اگرچہ سائنس کا فیصلہ یہ ہے کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور یہ فیصلہ دنیا کے علمی حلقوں میں قبول کر لیا گیا ہے۔ تاہم اقبال سائنس کے اس فیصلہ کی بنا پر یا رائج الوقت تصورات کی کشش کی وجہ سے ارتقا کا قائل نہیں۔ اقبال کا نظریہ ارتقا نہ تو مستجحرات(Fossils) کی دریافت پر موقوف ہے اور نہ ہی کسی سائنس دان کے نظریہ ارتقا کی غیر معلوم کڑیوں کی کامیاب جستجو پر مبنی ہے بلکہ اس کا نظریہ ارتقاء خودی کی فطرت اور اس کے اوصاف و خواص کے علم سے ماخوذ ہے۔ یہ حقیقت کہ سائنس بھی اس نظریہ کی تائید کر رہی ہے اس کی صحت اور صداقت کا مزید ثبوت ہے کیونکہ ضروری ہے کہ ہر سچی فلسفیانہ حقیقت بشرطیکہ وہ فی الواقع سچی ہو زود یا بدیر سائنس سے بھی تائید مزید حاصل کرے۔
اگر بالفرض سائنس دان کل کو ایسے جدید حقائق سے آشنا ہو جائیں جن کی بنا پر وہ نظریہ ارتقاء سے انکار کرنے پر مجبور ہوں تو پھر بھی اقبال کا یہ نتیجہ کہ ارتقاء ایک حقیقت ہے اور اس کا سبب خالق کائنات کی ربوبیت ہے اپنی جگہ پر قائم رہے اور زود یا بدیر سائنس دانوں کو یہ مان کر اس کی طرف لوٹنا پڑے گا کہ انہوں نے جدید حقائق کا مطلب غلط سمجھا تھا پھر اقبال کے نظریہ ارتقا میں یہ بات بھی داخل نہیں جیسا کہ ڈارون اور کئی حکمائے ارتقا نے سمجھا ہے کہ آدمی بندر یا کسی اور نچلے درجہ کے غیر انسانی حیوان کی اولاد ہے جو اب زندہ ہے یا پہلے زندہ رہ چکا ہے اقبال کے نظریہ ارتقاء کے اندر یہ بات مضمر ہے کہ انسان اپنے ارتقاء کی ہر منزل پر انسان ہی سے پیدا ہوا ہے یعنی انسان کی ہر بلند تر حالت انسان ہی کی پست تر حالت سے پیدا ہوئی ہے اور کسی غیر انسانی حیوان سے پیدا نہیں ہوئی اس کی مثال انسانی جنین کی نشوونما ہے۔ ایک فرد کی حیثیت سے انسان ہی کی حالت ہوتی ہے۔ ایک نوع کی حیثیت سے بھی اگرچہ انسان اپنی ترقی کی مختلف حالتوں میں سے گزرتا ہے۔ تاہم انسانی جنین کی ہر حالت کی طرف ان حالتوں میں سے بھی کسی حالت میں وہ سوائے انسان کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
ماہرین حیاتیات کا اعتراف
آج دنیا بھر میں چوٹی کے ماہرین حیات(جن میں ایک جولین ہکسلے(Julian Huxley)ہے اگرچہ عمل ارتقاء کی مادی اور لادینی توجیہہ کرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے ماہرانہ مشاہدات کی بنا پر اس نتیجہ سے گریز نہیں کر سکے کہ عمل ارتقا کا حاصل انسان ہے اور آئندہ کا ارتقا بھی انسان ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ نظریات اور اقدار کی محبت انسان کا ایسا امتیاز ہے جو کسی حیوان میں موجود نہیں لہٰذا آئندہ کا ارتقا نظریاتی ہو گا اور ا س بات پر موقوف ہو گا کہ انسان اپنی محبت نظریات و اقدار کو کس حد تک مطمئن کرتا ہے علمی ارتقا کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نتیجہ ترقی یافتہ انسانی شخصیت ہے۔ انسانی ارتقا نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ ان گہرے معنوں میں بے مثال ہے کہ وہ ایک ہی راستہ ہے جو انسان کی ضروری خصوصیات کو پیدا کر سکتا تھا۔ حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ نا ممکن ہے کہ ارتقائے حیوانات کا کوئی اور راستہ آگے جا کر کسی ایسے حیوان وک پیدا کر سکے جو انسان سے بہتر اور بلند تر ہو۔
جولین ہکسلے (Julian Huxley)اپنی کتاب انسان ’’ دنیائے جدید میں ‘‘ (Man in the modern World)میں لکھتا ہے:
’’ عمل تخلیق کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ نتیجہ ترقی یافتہ انسانی شخصیت ہے۔‘‘
’’ انسان کے وجود میں آنے کے بعد ارتقا کی نوعیت یکایک بدل جاتی ہے۔ انسانی شعور کے ساتھ اقدار و نظریات پہلی دفعہ زمین پر ظہور پذیر ہوئے۔ لہٰذا مزید ارتقاء کا معیار یہ ہے کہ یہ نظریاتی اقدار کس حد تک مطمئن ہوتی ہیں‘‘
’’ بظاہر حیاتیاتی نقطہ نظر سے یہ بات نا ممکن ہے کہ ارتقائے حیوانات کا کوئی اور راستہ آگے جا کر ایک نئے اعلیٰ اور ارفع جسم حیوانی تک جا پہنچے۔‘‘
انسانی ارتقاء کا راستہ بھی ایسا ہی بے مثال تھا جیسا کہ اس کا نتیجہ یہ ان معمولی معنوں میں بے مثال نہیں تھا کہ وہ دوسرے تمام حیوانات کے راستوں سے مختلف تھا۔ بلکہ ان عمیق معنوں میں بے مثال تھا کہ وہ ایک ہی ایسا راستہ تھا جو انسان کی ضروری خصوصیات کو پیدا کر سکتا تھا۔
اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ ارتقاء کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کو پیدا کر کے اس کی شخصیت کو نقطہ کمال پر پہنچایا جائے۔ گویا ماہرین حیاتیات کے ان نتائج سے بھی حضرت انسان کے بارے میں اقبال کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ
ضمیر کن فکاں غیر از تو کس نیست

نشان بے نشاں غیر از تو کس نیست