خودی اور فلسفہ تاریخ, تاریخ کے ناقص فلسفے ڈاکٹرمحمد رفیع الدین ؒ

خودی اور فلسفہ تاریخ
تاریخ کے ناقص فلسفے
انسانی افراد اور جماعتوں کے افعال کے سلسلہ کو انسانی تاریخ کہتے ہیں لیکن کیا انسانی اعمال جن سے تاریخ کا تار و پود بنتا ہے کسی قاعدے یا قانون کے پابند ہیں۔ کیا ان کا کوئی مقصد ہے۔ کیا ان کی کوئی سمت یا منزل مقصود ہے اگر ہے تو وہ کیا ہے۔ قومیں اور تہذیبیں کیوں ابھرتی ہیں ۔ کیوں مٹتی ہیں۔ کیا ان کے عروج و زوال کا کوئی اصول ہے۔ کیا کوئی قوم یا کوئی تہذیب ایسی بھی ہو سکتی ہے جو قوموں اور تہذیبوں کو مٹانے والے عوامل کی زد سے محفوظ رہ سکتی ہو ۔ اور ارتقائے عالم کی منزل مقصود ہو۔ اس قوم کے اوصاف اور امتیازات کیا ہوں گے۔ کیا ہم ایسی قوم کو وجود میں لا سکتے ہیں۔ کیا ہم اپنے آپ کو ایسی قوم بنا سکتے ہیں و علیٰ ہذا القیاس۔ بہت سے فلسفیوں نے جن میں ڈینی لیوسکی (Denilevsky) شپنگلر(Spengler) ٹائن بی (Toynbee) اور سوروکن (Sorokin) زیادہ مشہور ہیں اپنی بالعموم غیر معمولی اور غیر ضروری طوالت کی تصنیفات میں اس قسم کے بعض سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے جوابات مبہم اور غیر واضح اور الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اس بات کو ملحوظ نہیں رکھا کہ انسان کے اعمال انسان کی فطرت سے سر زد ہوتے ہیں۔ لہٰذا جب تک پہلے انسان کی فطرت کا ایک معقول اور صحیح نظریہ پیدا نہ کیا جائے۔ تاریخ کے واقعات کے پیچھے جو قوانین قدرت کام کر رہے ہیں ان کو سمجھنا ممکن نہیں۔ تاریخ سب سے پہلے فرد انسانی کی فطرت کے اندر جنم لیتی ہے، فرد انسانی کے اعمال قوموں اور تہذیبوں کی تاریخ کی اکائی (Unit) کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک اس اکائی کو نہ سمجھا جائے ممکن نہیں کہ ہم ان بڑے بڑے مجموعوں کو سمجھ سکیں جو اس اکائی سے صورت پذیر ہوتے ہیں اور فرد انسانی کی فطرت کو سمجھنے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی شخصیت کی گاڑی کے ڈرائیور کو یعنی اس کے افعال کو اندرونی قوت محرکہ کو سمجھا جائے۔ جب تک ہمیں اس قوت کا علم نہ ہو ممکن نہیں کہ ہم معلوم کر سکیں کہ وہ کون سا قانون قدرت ہے جو انسان کے اعمال کو ضبط میں رکھتا ہے اور ان کی سمت اور منزل معین کرتاہے اور قوموں کے عروج و زوال کے اسباب پر حاوی ہے۔ فلسفہ خودی کی رو سے انسان کے اعمال کی قوت محرکہ سچے خدا کی محبت ہے اور یہی وہ قوت ہے جو افرد کو متحد کر کے ایک قوم کی شکل دیتی ہے۔ جب کوئی قوم سچے خدا سے محبت نہ کر سکے تو وہ اس کی بجائے کسی اور تصور کو جس کی طرف وہ حسن و کمال کے اوصاف منسوب کر سکتی ہو اپنا نصب العین بنا لیتی ہے اور پھر اسی سے محبت کرتی ہے اور اپنے سارے اعمال کو اس کی محبت کے تابع کر دیتی ہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد جب وہ محسوس کرتی ہے کہ اس میں حسن و کمال کے اوصاف در حقیقت موجود نہیں وہ مجبور ہوتی ہے کہ اس کی محبت سے رجوع کرے یہاں تک کہ اسے بالکل ترک کر دے اور جب یہ نوبت آتی ہے تو قوم صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔
تاریخ عالم کے چار ادوار
تاریخ کے ان فلسفیوں کی ایک اور غلطی یہ ہے کہ انہوں نے انسانی تاریخ کو کائنات کی باقی تاریخ سے الگ کر کے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ انسانی تاریخ مجموعی تاریخ کا ایک دور ہے جو اس کے پہلے ادوار سے بے تعلق نہیں ہو سکتا بلکہ ضروری ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہم آہنگ اور مسلسل ہو۔
ایچ جی ویلز (H.G. Wells) نے اپنی عالمی تاریخ کی کتاب ’’ تاریخ کا خاکہ‘‘ (Outline of History) کو بجا طور پر آفرینش سے شروع کیا ہے اور اس نے اپنے اس موقف کی تائید کے لئے فریڈرک راٹزیل (Fredrich Ratzel)کا یہ نہایت ہی گہرا اور دانشمندانہ قول اپنی کتاب کے شروع میں نقل کیا ہے کہ ’’ نوع انسانی کی تاریخ کا فلسفہ جو فی الواقع اس نام کا مستحق ہو اس یقین سے پر ہونا چاہئے کہ ہستی تمام کی تمام ایک وحد ت ہے وہ ایک ہی تصور ہے جو شروع سے آخر تک یکساں رہنے والے ایک ہی قانون پر قائم چلا آتا ہے۔‘‘ فلسفہ تاریخ کے متعلق یہ نقطہ نظر بالکل درست ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقائے عالم ایک واحد اور مسلسل عمل ہے جو شروع سے آخر تک ایک ہی مقصد رکھتا ہہے اور ایک ہی منزل کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اور جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں اس عمل کو حرکت دینے والی قوت بھی ایک ہی ہے اور وہ خدا کا ارادہ تخلیق یعنی خود خدا ہے۔ اس عمل کا آغاز کائناتی شعاعوں سے ہوا تھا او راس کے پہلے بڑے دور میں مادی کائنات ترقی پا کر تکمیل کو پہنچی تھی۔ کائنات کی مادی تکمیل کا مقصد یہ تھا کہ مادہ اس حالت کو پا لے جو زندگی کے ظہور کے لئے سازگار ہو چنانچہ مادہ کی تکمیل کے ساتھ ہی زندگی کا نمایاں ظہور سب سے پہلے ایک خلیہ کے حیوان میں ہوا اور اس واقعہ سے تاریخ عالم کا دوسرا بڑا دور شروع ہوا جس کے اختتام پر کائنات کی حیاتیاتی تکمیل عمل میں آئی۔ کائنات کی حیاتیاتی تکمیل کا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسا جسم حیوانی وجود میں آئے جس میں خدا کی محبت کا جذبہ اس کے سارے اعمال کی قوت محرکہ کے طور پر نمودار ہو چنانچہ زندگی کے کروڑوں برس کے ارتقاء کے بعد یہ جسم حیوانی وجود میں آیا اور یہی انسان ہے پہلے انسان کے ظہور سے تاریخ عالم کا تیسرا بڑا دور شروع ہوتا ہے جسے انسانی تاریخ کا پہلا دور کہنا چاہئے۔ اس دور میں ارتقاء کی قوتیں زمین کے گوشہ گوشہ میں ان گنت انبیاء پیدا کر کے انسان کی نظریاتی تکمیل کے لئے کار فرما رہیں۔ اس دور کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار ایک نبی کامل یا رحمتہ للعالمین ؐ کا ظہور ہو جس کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کی مثال میں خدا کی محبت کا جذبہ انسان کی قدرتی عملی زندگی کے تمام ضروری شعبوں پر حاوی ہو جائے اور جو اس طرح سے نوع انسانی کو ایک ایسا کامل نظریہ حیات بہم پہنچائے جو انسان کی اخلاقی، سیاسی، روحانی، تعلیمی، قانونی، اقتصادی، علمی اور فنی ترقیوں کو نقطہ کمال پر پہنچا سکے۔
نبی کامل یا رحمتہ للعالمینؐ کے ظہور سے انسانی تاریخ کا دوسرا دور اور تاریخ عالم کا چوتھا اور آخری دور شروع ہوتا ہے اور وہ اس وقت ختم ہو گا جب نوع انسانی اپنے کمالات کو پہنچے گی امت مسلمہ یا نبی کاملؐ کی امت تاریخ عالم کے تیسرے اور چوتھے ادوار یعنی تاریخ انسانی کے پہلے اور دوسرے ادوار کے وسط میں نمودار ہوئی ہے تاکہ وہ نوع انسانی کی قیادت کی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو سکے تاکہ ایک طرف سے وہ نبی کاملؐ کی وساطت سے تمام گذشتہ انبیاء کی تعلیمات کے کمال کی حامل بن جائے اور دوسری طرف سے اپنے اس امتیاز کی وجہ سے نوع انسانی کی آنے والی نسلوں کے لئے اسی طرح سے کامیاب راہ نما بنے۔
لتکونوا شہداء علی الناس
جس طرح سے نبی کامل اس کے کامیاب راہ نما بنے ہیں
ویکون الرسول علیکم شہیدا
اسی لئے قرآن حکیم نے امت مسلمہ کو امتہ وسطاً کہا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ تاریخ عالم کے چار واقعات نہایت عظیم الشان ہیں۔ا یک تو وہ جب تخلیق عالم کا آغاز ہوا اور کائناتی شعاعیں یکایک ’’ فاصلہ۔ وقت‘‘ کے ایک بحر نا پیدا کنار کے اندر دوڑنے لگیں۔ دوسرا وہ جب سمندروں کے کنارے کیچڑ میں کہیں پہلا ایک خلیہ کا جاندار نمودار ہوا۔ تیسرا وہ جب پہلا مکمل جسم انسانی اپنے پہلو میں خدا کی محبت کا ایک طوفان لے کر ظہور پذیر ہوا اور چوتھا وہ جب ایک رحمتہ للعالمینؐ کی نظری تعلیم اور عملی زندگی کے نمونہ میں وہ مکمل نظریہ زندگی نمودار ہوا جو اپنے اندر انسان کو اس کی ہر نوع کی ترقی کے نقطہ کمال تک پہنچانے کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ ان میں سے ہر واقعہ ایک دور کا آغاز کرتا ہے جو اگلے دور کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور ا سکی آمد کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے یہاں تک کہ آخری دور آ جاتا ہے۔ لہٰذا انسانی ادوار کی تاریخ حیاتیاتی اور مادی ادوار سے بے تعلق نہیں۔

کارل مارکس (Karl Marx) نے بھی ایک فلسفہ تاریخ دیا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس کا فلسفہ تاریخ فطرت انسانی کے غلط نظریہ پر مبنی ہے اور ارتقائے عالم کے بنیادی سبب کو بھی نظر انداز کرتا ہے لہٰذا وہ از سر تاپا غلط ہو کر رہ گیا ہے۔