عمر عزیز کے بہترین لمحے!
حفیظ ہوشیار پوری، ایم اے
دل کو تڑپاتی ہے اب تک گرمی محفل کی یاد
جل گیا حاصل، مگر محفوظ ہے حاصل کی یاد
(اقبال)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات گورنمنٹ کالج کے زمانہ تعلیم کے دوران میں ہوئی۔ ان دنوں ہمارے کالج میں احباب کا ایک ایسا گروہ موجود تھا جسے ڈاکٹر صاحب کی تعلیم اور فلسفہ شعر سے خاص عقیدت تھی۔ ہم عموماً شام کے وقت ’’ نیو ہوسٹل‘‘ یا ’’ کواڈر ینگل‘‘ سے ’’ لارنس گارڈن‘‘ کی سیر کا ارادہ کر کے نکلتے اور اکثر ایسا ہوتا کہ راستے میں ہمارا ارادہ بدل جاتا اور ہم ڈاکٹر صاحب کی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی پر پہنچ جاتے۔ ڈاکٹر صاحب کے ’’ جاوید منزل‘‘ میں چلے جانے کے بعد بھی ایسی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ لیکن کالج سے اس گروہ کے منتشر ہو جانے کے بعد یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔
’’ قادیانیت‘‘ کے متعلق ڈاکٹر صاحب کے پہلے اور دوسرے بیان کی اشاعت کے درمیانی عرصے میں ہم اکثر ان کے پاس جایا کرتے تھے اور گفتگو کا موضوع عام طور پر ’’ قادیانیت‘‘ ہوا کرتا تھا۔ ہماری تعداد پانچ چھ کے قریب ہوتی تھی جس کی وجہ سے ہر ایک کو فرداً فرداً کسی خاص موضوع پر مفصل گفتگو کرنے کا موقع نہ ملتا تھا، اس لیے اس زمانے کی کوئی خاص بات یاد نہیں، نہ اس وقت ہمیں ان کے ’’ ملفوظات عالیہ‘‘ کو محفوظ کرنے کا خیال تھا کیونکہ یہ معلوم نہ تھا کہ اس سرچشمہ علم و ادب کے فیض سے ہم بہت جلد محروم ہو جائیں گے۔
اس کے بعد دو تین مرتبہ پروفیسر تبسم1؎ کے ساتھ، ایک دفعہ عرشی صاحب کے ساتھ اور اکثر تنہا ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ ان میں سے جو ملاقاتیں مجھے یاد ہیں اس مضمون میں ان کا ذکر کروں گا۔
تین سال کا ذکر ہے کہ میں گورنمنٹ کالج کی ’’ مجلس فلسفہ‘‘ کے لیے ’’ بیسویں صدی میں فلسفہ اور سائنس‘‘ کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ رہا تھا، چند کتابیں پڑھنے کے بعد مزید استفادہ کے لیے علامہ مرحوم (رحمتہ اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔
میں نے جدید سائنس کے فلسفیانہ اور روحانی رحجانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ اس ’’ روحانیت‘‘ کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے جو مغرب کے موجودہ سائنسدانوں خصوصاً سر آرتھر اڈنگسٹن اور سر جیمز جینز کی تحریروں سے منسوب کی جاتی ہے اور کیا موجودہ سائنس واقعی مذہب کی طرف آ رہی ہے؟
آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ہمیں ان حالات سے خوش نہیں ہونا چاہیے۔ 6؎ موجودہ سائنس انیسویں صدی کی سائنس کے خلاف جس کی بنیاد’’ میکانیت‘‘ اور’’ قادیت‘‘ پر تھی ایک رد عمل ہے۔ چونکہ مادہ کی ماہیت کے متعلق اب سائنس کا نظریہ بدل گیا ہے، اس لیے موجودہ انقلاب کو بعض لوگ’’ روحانیت پرستی‘‘ پر محمول کرتے ہیں۔ ممکن ہے مادہ کے متعلق پھر ہمارا نظریہ بدل جائے اور ’’ روحانیت آمیز‘‘ خیالات کی یہ عارضی روخس و خاشاک کی طرح بہہ جائے۔ ہم زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ تحقیقات کے انتہائی مراحل پر سائنس کا حیرت و استعجاب سے دو چار ہو کر فلسفہ اور روحانیت کے دامن میں پناہ لینا اس کے اعتراف عجز و شکست کی دلیل ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے حقیقت کو پا لیا ہے۔ جہاں سائنس ختم ہوتی ہے وہاں سے فلسفہ شروع ہوتا ہے، اور حیرت و استعجاب جو سائنس کا انجام ہے، فلسفہ کا آغاز ہے، جو کوئی نئی بات نہیں، ہمیشہ سے ایسا ہوتا رہا ہے۔
اس سلسلے میں آپ نے ایک لطیفہ بھی ارشاد فرمایا جس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ جب میں نے عرض کیا کہ جیمز جینز ’’ قادر مطلق‘‘ کو ایک بہت بڑے ریاضی دان سے تشبیہہ دیتا ہے اور اس کے نزدیک یہ عالم امکان ایک ریاضی کے مسئلے کی مانند ہے جو اس کے ’’ ذہن لا محدود‘‘ کی تخلیق ہے تو آپ نے ہنس کر جواب دیا کہ اس طرح آپ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا’’ شاعر مطلق‘‘ ہے اور یہ دنیا جو اس کی تخلیق ہے ایک ایسی نظم ہے جس کا مطلع اور مقطع ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔
کچھ عرصہ بعد اسی مجلس کے لیے میں ایک اور مقالہ تیار کر رہا تھا جس کا موضوع یہ تھا: ’’ فلسفہ جدید میں قدر کا تصور‘‘ یعنی The Conception of Value in Modern Philosophy۔ اس مقالے کے بیشتر حصے کی بنیاد میرے پہلے مقالے پر تھی، لیکن مختلف کتابوں کے مطالعہ کے بعد بھی ’’ قدر‘‘ یعنیValueکی ماہیت میرے لیے ایک معمہ تھی، خصوصاً یہ مسئلہ کہ ’’ قدر‘‘ کا وجود’’ خارجی‘‘ ہے یا ’’ داخلی‘‘ اس کے متعلق متضاد نظریے میری نظر سے گزرے تھے اور میں کسی خاص نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔ شکوک رفع کرنے کے لیے پھر علامہ سے رجوع کیا۔
میں نے اس مسئلے پر دو نظریے پڑھے تھے:
1’’ قدر‘‘ ایک خارجی حقیقت کے انکشاف کا نام ہے جس کا منبع’’ نفس انسانی‘‘ کی حدود سے باہر ہے۔
2’’ قدر‘‘ نفس انسانی کی تخلیق ہے اور اس سے باہر اس کا وجود نہیں۔
پروفیسر رادھا کرشن نے جو پہلی بات کے قائل معلوم ہوتے ہیں، ان متضاد نظریوں کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
1’’ قدر‘‘ اس حقیقت کے انکشاف کا نام ہے جس کا منبع روح مطلق ہے۔
2’’ قدر‘‘ نفس غیر مطلق کی استعداد کا انتہائے کمال ہے میں نے علامہ مرحوم سے دریافت کیا کہ اس مسئلے پر آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟
آپ نے جواب دیا کہ دونوں نظریے درست ہیں۔
میں نے کہا’’ وہ کس طرح؟‘‘
آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں اور تصویر ان میں سے کسی ایک کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔’’ قدر‘‘ کا وجود بیک وقت’’ خارجی‘‘ اور’’ داخلی‘‘ ہے، اور اس کو محض’’ خارجی‘‘ یا محض’’ داخلی‘‘ تصور کرنے کی بنیاد اس غلطی پر ہے جس میں مغرب اور مشرق دونوں شریک ہیں۔ کوئی خالص’’ مادی‘‘ یا کوئی خالص’’ روھانی‘‘ نقطہ نظر’’ قدر‘‘ کی ماہیت کی تسلی بخش تشریح نہیں کر سکتا۔ فلسفے کی یہ روایت ہے کہ وہ عام طور پر’’ روح‘‘ اور’’ مادہ‘‘ دونوں میں سے ایک کو حقیقت تصور کر کے دوسرے کو’’ سراب‘‘ سمجھ کر ترک کرتا رہا ہے، حالانکہ دونوں کے امتزاج کا نام’’ حقیقت‘‘ ہے۔ یہی روائتی غلطی مسئلہ ’’ قدر‘‘ پر بھی اثر انداز ہوئی ہے اور اس لیے دو متضاد نظریے پیدا ہو گئے ہیں۔ ’’ قدر‘‘ کا سرچشمہ خارجی ہے، لیکن اس کی تخلیق میں انسانی استعداد کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ کوئی دو آرٹسٹ بعینہ ایک ہی چیز نہیں بنا سکتے۔ دونوں کے عمل سے اپنی اپنی انفرادیتIndividuality نمایاں ہو گی۔ اس کے برعکس دو سائنسدانوں کے لیے اپنے اپنے مشاہدات و تجربات سے ایک ہی ’’ قانون فطرت‘‘ اخذ کرنا ممکن ہے۔
پھر جدید سائنس کی روشنی میں اس موضوع پر گفتگو ہوئی کہ دنیا ایک اتفاقی ظہور ہے یا اس کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے۔ مجھے اس کے متعلق سر جیمز کے نظریوں میں تضاد نظر آتا تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے علامہ سے کہا کہ جیمز کے نزدیک ایک طرف تو دنیا کسی مقصد کے پیش نظر پیدا کی گئی ہے کیونکہ وہ ’’ خلاق‘‘ ( Creator) کا قائل ہے اور جہاں ’’ خلاق‘‘ کا تصور ہو گا وہاں مقصد کا ہونا ضروری ہے، لیکن دوسری طرف وہ اس عالم امکان کی ہیبت ناک وسعتوں میں انسان کو ’’ اسٹرونومی‘‘ کی رو سے ایک نہایت ہی غیر اہم اور بے بس چیز تصور کرتا ہے۔’’ غیر محدود قوت تخلیق‘‘ کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس کا یہ نظریہ نہایت مایوس کن ہے۔
اس تضاد کے متعلق آپ نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے فرمایا کہ اس قسم کی متضاد باتیں تمام موجودہ سائنس دانوں کے ہاں پائی جاتی ہیں، اور کہا کہ اسٹرونومی کا مطالعہ واقعی انسان کو پست ہمت کر دیتا ہے، میں ہمیشہ نوجوانوں کو اس سے منع کرتا ہوں۔
میں بعض لوگوں سے اس قسم کی باتیں سنا کرتا تھا کہ اقبال کے فلسفے میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس کے تمام افکار اصل میں مغربی فلسفیوں کے افکار ہیں۔ ان مغربی فلسفیوں میں نیٹشے اور برگساں کا نام وہ اکثر لیا کرتے تھے۔ مثلاً ایک صاحب کہا کرتے تھے کہ اقبال نے انسانیت کی تکمیل یا خودی کے مرقع کا مسئلہ نیٹشے کے نظریہ ’’ فوق البشر‘‘ سے لیا ہے۔ اسی طرح ’’ قوت عمل‘‘ یا ’’حرکت‘‘ اور ’’ مکان و زمان‘‘ کے نظریے جو اقبال کے ہاں پائے جاتے ہیں وہ ’’ برگساں‘‘ کی کاوش طبع کا نتیجہ ہیں۔ ایک صاحب نے جنہوں نے’’ شوپنہار‘‘ کے ’’ عزم للحیات‘‘ (Will to be) کا نام سن رکھا تھا اور اس لفظ کے معانی اور شوپنہار کے مایوس کن فلسفہ حیات سے بے بہرہ معلوم ہوتے تھے، یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ خودی‘‘ کی بنیاد اسی پر رکھی ہے۔ یہ سن کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی اور میں نے اسی روز تہیہ کر لیا کہ فلسفیانہ نظموں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کروں جس میں فلسفہ کے کسی خاص موضوع کے متعلق علامہ اقبال اور ایک مغربی فلسفی کے نظریے مکالمے کی صورت میں پیش کیے جائیں تاکہ ان لوگوں پر جنہیں مغربی فلسفیوں تک رسائی کے موقعے نہیں ملتے، وہ اختلافات واضح ہو جائیں جو علامہ اقبال کو فلسفہ مغرب سے ہیں۔
چنانچہ میں نے اس سلسلے میں تین نظمیں لکھیں۔ ایک کا موضوع ’’ خدا‘‘ تھا۔ جس میں’’ ذات مطلق‘‘ کے متعلق نیٹشے اور اقبال کا مطالعہ تھا۔ باقی دو نظموں ’’ عزم للحیات‘‘ اور ’’ عزم للقوت‘‘ میں علی الترتیب شوپنہار و اقبال اور نیٹشے و اقبال کے مکالمے تھے۔ میں نے یہ سلسلہ جاری رکھنے کے لیے علامہ سے اجازت طلب کی اور ایک خط کے ساتھ یہ تینوں نظمیں ان کی خدمت میں بذریعہ ڈاک ارسال کیں۔ اس خط کے جواب میں آپ کا یہ گرامی نامہ موصول ہوا:
لاہور، یکم نومبر1936ء
’’ جناب حفیظ صاحب السلام علیکم
آپ کا خیال بہت اچھا ہے، مگر اردو میں خیالات کا ادا کرنا بہت مشکل ہے، اس کے لیے آپ کو بہت غور و فکر کرنا ہو گا۔ بحیثیت نظم ’’ عزم للحیات‘‘ اوروں سے بہتر ہے۔ آپ جس وقت چاہیں تشریف لا سکتے ہیں۔‘‘
محمد اقبال
اس کے بعد خود بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ لیکن افسوس کہ گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے نظموں کا یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکا۔ ہم مردہ پرستوں کی ’’ زود پشیمانی‘‘ غور کے قابل ہے، ابھی آپ کے جسد خاکی کو سپرد خاک بھی نہ کیا گیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں نے بھی مرحوم کی کتابیں خرید کر یا مانگ کر پڑھنی شروع کر دیں جو اس سے پہلے آپ کے کلام سے نا آشنا تھے یا علامہ کی شاعری کے متعلق ان کی معلومات محض’’ بانگ درا‘‘ کی چند نظموں تک محدود تھیں۔ اس صورت حالات کے پیش نظر جب کہ ڈاکٹر صاحب ’’ جاوید منزل‘‘ سے ’’ منزل جاوید‘‘ کو جا چکے ہیں، ان غلط فہمیوں کا دور کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے جو ان کے فلسفیانہ افکار کے متعلق پڑھے لکھے عوام میں مشہور ہیں، اس لیے میں اس سلسلے کی طرف دوبارہ توجہ کروں گا۔
21فروری37ء کو ’’ انجمن اردو پنجاب‘‘ کی طرف سے ’’ یوم غالب‘‘ منایا گیا۔ میں اس تقریب پر پیغام لینے کے لیے مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ صبح کا وقت تھا۔ آپ ’’ جاوید منزل‘‘ کے صحن کے مغربی کونے میں چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹانگیں چارپائی سے نیچے لٹکائی ہوئی تھیں اور ان پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ان میں درد یا اسی قسم کی کوئی اور تکلیف ہے مجھے دیکھ کر فرمایا’’ نیازی صاحب ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ نہیں! میں حفیظ ہوں‘‘ یہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک دو مرتبہ پہلے بھی انہیں مجھ پر نیازی صاحب کا شبہ ہوا تھا۔ خیر میں چارپائی کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا او رمزاج پرسی کی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور ’’ یوم غالب‘‘ کے لیے پیغام کی درخواست کی۔ اس پر آپ لیٹ گئے اور کچھ دیر خاموش رہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ مجھے تکلیف ہے آپ جس قسم کا پیغام چاہتے ہیں خود لکھ لیں، میں دستخط کر دوں گا۔ چنانچہ میں نے غالب کے متعلق چند اس قسم کی سطور لکھ لیں جو عام طور پر ایسی رسمی تقریبوں کے لیے لکھی جاتی ہیں۔ اس وقت یاد نہیں رہا کہ میں نے کیا لکھا تھا۔ میں نے یہ پیغام انہیں پڑھ کر سنایا اور دستخط کے لیے ان کی خدمت میں پیش کرنے ہی کو تھا کہ آپ جوش کے عالم میں فوراً اٹھ بیٹھے اور فرمانے لگے: ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے غالب کا کلام پڑھا ہی نہیں۔ آپ اس کے فلسفہ شعر سے بے بہرہ ہیں۔‘‘ اگر یہ الفاظ کسی اور کی زبان سے نکلتے تو شاید مجھے اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا احساس نہ ہوتا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ میں کس کے سامنے ہوں اور یہ الفاظ کس کی زبان سے نکلے ہیں، اس لیے ندامت کے احساس سے چپ ہو رہا۔ کوئی دو منٹ کی خاموشی کے بعد آپ نے فرمایا:’’ لکھیے!‘‘ آپ بولتے گئے اور میں لکھتا گیا۔ پھر جو کچھ لکھا پڑھ کر سنایا اور آپ نے دستخط کر دیے۔
چونکہ یہ پیغام غالب و بیدل3؎ کے فلسفہ شعر اور ان کے روحانی تعلق کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے اور اس کا محفوظ رکھنا بھی نہایت ضروری ہے، اس لیے میں اسے ذیل میں نقل کرتا ہوں:
’’ اپنا پیغام تو میں کیا دوں گا، البتہ غالب کا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں جو آج یوم غالب منا رہے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہے:‘‘
بگذر از مجموعہ اردو کہ بے رنگ من است
مرزا آپ کو اپنے فارسی کلام کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اس دعوت کا قبول کرنا یا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے، لیکن اگر آپ اسے قبول کرنے کا فیصلہ کر لیں تو ان کے فارسی کلام کی حقیقت اور ان کی تعلیم کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے دو باتوں کا جاننا ضروری ہے: اول یہ کہ عالم شعر میں مرزا عبدالقادر بیدل اور مرزا غالب کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ دوم یہ کہ مرزا بیدل کا فلسفہ حیات غالب کے دل و دماغ پر کہاں تک موثر ہوا اور مرزا غالب اس فلسفہ حیات کو سمجھنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے۔ مجھ کو یقین ہے کہ اگر آج کل کے وہ نوجوان جو فارسی ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں، اس نقطہ نگاہ سے غالب کے فارسی کلام کا مطالعہ کریں تو بہت فائدہ اٹھائیں گے۔
یہ بات موجب اطمینان ہے کہ پروفیسر حمید اللہ خاں صاحب4؎ نے ’’ غالب اور بیدل‘‘ پر ایک محققانہ مقالہ لکھ کر علامہ کی زندگی ہی میں ان کی یہ خواہش پوری کر دی جس کا اظہار انہوں نے اپنے پیغام میں کیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب سے اکثر ملاقات کرنے والوں نے جہاں مرحوم کو ’’ رقت انگیز‘‘ کیفیت میں آنسو بہاتے دیکھا ہے وہاں آپ کے منہ سے علمی و ادبی لطائف کے پھول جھڑتے بھی دیکھے ہیں۔ چنانچہ مجھے بھی ایک دو ایسے لطیفے یاد ہیں۔
ایک دفعہ عرشی صاحب اور پروفیسر تبسم صاحب کی معیت میں آپ کے پاس گیا تو ان مضمونوں اور نظموں کا ذکر چھڑ گیا جو آج کل اردو کے عام رسالوں میں شائع ہوتی ہیں۔ علامہ مرحوم اس بات پر اظہار افسوس کر رہے تھے کہ مجھے ’’ ضرب کلیم‘‘ کا یہ شعر یاد آ گیا:
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
میں نے یہ شعر پڑھا اور پھر مثنوی ’’ پس چہ باید کرد اے اقوام شرق!‘‘ کے ان اشعار کی طرف اشارہ کیا جو آپ نے ’’ حکمت فرعونی‘‘ کے عنوان کے تحت عصر حاضر کے متعلق لکھے ہیں:
دختران او بزلف خود اسیر
شوخ چشم و خود نما و خردہ گیر
ساختہ، پرداختہ، دل باختہ
ابرواں مثل دو تیغ آختہ
ساعد سیمین شاں عیش نظر
سینہ ماہی بہ موج اندر نگر!
اس کے بعد علامہ کی خدمت میں عرض کیا کہ ان فارسی اشعار میں آپ نے عورت کا ذکر جس والہانہ انداز میں کیا ہے اس کے پیش نظر یہ شعر کیا آپ پر بھی صادق نہیں آتا:
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
ڈاکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اس شعر میں’’ عورت شاعر پر سوار ہے‘‘ لیکن مثنوی کے فارسی شعروں میں ’’ شاعر عورت پر سوار ہے‘‘ اور دونوں میں فرق ظاہر ہے۔
مرحوم چونکہ خود نہایت خوش ذوق تھے اس لیے جب کسی سے کوئی لطیفہ سنتے تو بے اختیار داد دیتے۔ ایک روز میں نے ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم صاحب سے پوچھا کہ آپ اقبال کے فلسفہ شعر کی توضیح کن الفاظ میں کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا ’’ اقبال قرآن کا شاعر ہے اور شاعر کا قرآن ہے‘‘ اس کے بعد میں علامہ سے ملا تو خلیفہ صاحب کے اس فقرے کا ذکر کیا۔ آپ بے حد محظوظ ہوئے۔ خلیفہ صاحب کا یہ فقرہ محض ادبی لطیفہ ہی نہیں بلکہ میں اسے علامہ کی شاعری پر مختصر مگر جامع تبصرہ سمجھتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کے پاس بعض لوگ ان کے اشعار کے معنی پوچھنے جایا کرتے تھے۔ا گرچہ ذاتی طور پر اس سلسلے میں مجھے ان کے پاس جانے کا اتفاق نہیں ہوا، لیکن مشہور ہے کہ آپ خاموش رہا کرتے تھے، چنانچہ قبلہ تاثیر صاحب بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ علامہ فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے شعروں کا مطلب آپ بیان رک کے ان کے معانی کو محدود نہیں کرنا چاہتا۔ دو ایسے حضرات کو میں بھی جانتا ہوں جو آپ کے پاس اس غرض سے گئے۔ ایک صاحب کا بیان ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میری گزارش کے جواب میں فرمایا کہ ’’ یہ شعر میں نے آپ کے لیے نہیں لکھا۔‘‘ دوسرے فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے ارشاد کیا’’ میرا کام لکھنا تھا، میں لکھ چکا، سمجھنا آپ کا کام ہے۔‘‘
میں اس مضمون کو ایک ایسے واقعہ کے ذکر کے بغیر ختم نہیں کر سکتا جو میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کے ’’ روحانی تصرف‘‘ کی دلیل ہے۔
اب سے دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں ہوشیار پور میں اپنے برادر اکبر شیخ عبدالرشید صاحب راحل کے پاس بیٹھا مثنوی ’’ مسافر‘‘ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ہم نظم کے آخری حصے پر پہنچے تو برادر محترم اس مصرع پر آ کر رک گئے:
’’صدق و اخلاص و صفا باقی نماند‘‘
اور دو تین منٹ کی خاموشی کے بعد فرمانے لگے کہ اس مصرع کے اعداد1357ھ ہیں، دیکھیں دو سال کے بعد اس مصرع سے کس کی تاریخ وفات نکلتی ہے۔ میں یہ بات سن کر ہنس دیا اور اس مصرع کے اعداد گئے تو واقعی 1357ھ تھے۔ اس وقت کسے معلوم تھا کہ اس الہامی مصرعے کے اندر خود مصنف کی تاریخ وفات مضمر ہے۔ اس واقعہ کی یاد میرے ذہن سے بالکل محو ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد جب میں نے اس مصرعے سے تاریخ نکالی تو بھائی صاحب نے اپنے خط میں یہ قصہ یاد دلایا۔
اقبال فی الحقیقت’’ صدق و اخلاق و صفا‘‘ کا مجسمہ تھا۔ وہ ہماری نگاہوں سے رو پوش ہے،لیکن اس کی یہ صفات ہمیشہ باقی رہیں گی۔ اقبال زندہ جاوید ہے، مرنے کے بعد اس کے چہرے پر مسکراہٹ کی ہلکی سی جھلک موت کی بظاہر کامیاب یورش پر ایک لطیف طنز تھی، کیونکہ:
چشم عالم سے وہ چھپ سکتا ہے مر سکتا نہیں
حفیظ ہوشیار پوری، ایم اے