یاد ایام
خواجہ عبدالوحید
آٹھ اکتوبر1934ء کو رات کے پونے نو بجے میں ریلوے سٹیشن پر ایک چٹھی سپرد ڈاک کرنے کے بعد میکلوڈ روڈ کے راستہ گھر جا رہا تھا۔ جس وقت میں سر محمد اقبال کی کوٹھی کے سامنے سے گزر رہا تھا، خیال آیا کہ علامہ محترم اس وقت اکیلے ہوں گے، اس لیے ملاقات کا اچھا موقعہ مل جائے گا۔ میں بالعموم ایسے ہی اوقات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہونا پسند کیا کرتا تھا۔ اس لیے کہ دوسرے لوگ بالعموم آپ کے پاس بیٹھ کر سیاسیات حاضرہ پر گفتگو کیا کرتے تھے جو اقبال کی شخصیت کے لیے میرے نزدیک ایک کمتر موضوع تھا۔ چنانچہ موقعہ کو غنیمت جان کر میں کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوا۔ حضرت علامہ برآمدے میں چارپائی پر لیٹے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب دیکھ رہے تھے، سوائے ایک ملازم کے جو آپ کے پاؤں دبا رہا تھا اور کوئی پاس نہ تھا۔
علامہ مرحوم کے ہاں آنے جانے کی دقت کبھی نہ ہوتی تھی وہ جہاں بڑے سے بڑے آدمیوں کی کسی گرمجوشی کے ساتھ آؤ بھگت نہ کرتے تھے وہاں معمولی سے معمولی حیثیت کے آدمی کے ساتھ بھی حسن سلوک فرماتے تھے۔ نہ کسی کے استقبال کا خاص اہتمام ہوتا تھا نہ کسی کی راہ میں رکاوٹ پیش ہوتی۔ میں ہمیشہ زیادہ سے زیادہ اس بات کی ضرورت سمجھتا تھا کہ اپنے آنے کی اطلاع دے دوں۔ اس موقع پر اس کی بھی ضرورت نہ تھی اس لیے کہ آپ نے مجھے خود ہی دیکھ لیا اور اپنے معتاد طریق’’ آئیے خواجہ صاحب‘‘ کہہ کر مجھے قریب بلا لیا۔ میں سلام مسنون کے بعد مزاج پرسی کر کے جو بیٹھا تو نو بجے شب سے لے کر گیارہ بجے تک بڑی ہی پر لطف صحبت رہی۔ بیشمار باتیں مختلف الانواع موضوعوں پر ہوئیں اور اس تمام عرصہ میں کوئی اور صاحب وہاں وارد نہ ہوئے۔
جو لطف اور خوشی میں نے ان دو گھنٹوں میں حاصل کیے وہ میری زندگی کی ایک بہت ہی غیر معمولی اور بیش باہ چیز ہے۔ میں شرح صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ یہ دو گھنٹے میری زندگی کے بہترین اوقات میں سے تھے۔ جی چاہتا ہے کہ وہ تمام باتیں جو حضرت علامہ نے میرے سامنے کہیں لفظ بلفظ یہاں دہرا دوں، لیکن باتوں کی کثرت ہی اس راہ میں مانع ہو رہی ہے۔
ایک بہت بڑی خوشخبری1؎ جو ڈاکٹر صاحب نے سنائی یہ تھی کہ وہ اپنے دل میں اس بات کی زبردست خواہش رکھتے ہیں کہ قرآن حکیم کی تعلیم پر اپنے خیالات مفصل طور پر کتابی صورت میں ظاہر فرمائیں۔ وہ فرماتے تھے:’’ میں نے اپنے خیالات کا بڑی تفصیل سے اشعار میں اظہار کر دیا ہے، لیکن ابھی میرے دل میں ان سے بھی بڑی چیز ہے جسے قرآن حکیم کی شرح کی صورت میں ظاہر کرنے کی آرزو رکھتا ہوں۔‘‘
لیکن وہ یہ کام اسی صورت میں یکسوئی کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ پانچ سال کے لیے ان کو افکار روزگار سے کامل طور پر فرصت حاصل ہو جائے۔
افسوس کہ دنیائے اسلام کے اس عدیم النظیر فلسفی اور کلیم کے لیے ہندوستان کی مسلمان قوم فراغت کا سامان مہیا نہیں کر سکتی ۔ مسلمانان ہند کی بے سر و سامانی اور بے حسی کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔
حضرت علامہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے متعلق فرمایا :’’ میرا مدت العمر کا مطالعہ اور مشاہدہ مجھے یقین دلا چکا ہے کہ یہ لوگ بالکل بیکار ہیں، بالخصوص ہندوستان کے تعلیم یافتہ مسلمان2؎‘‘ ان کا خیال تھا کہ اگر کبھی کام آ سکتے ہیں تو غریب مزدوری پیشہ یا دکاندار مسلمان جن کے لیے ان کے دل میں محبت اور عزت ہے اور جن سے مل کر انہیں حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن تعلیم یافتہ مسلمانوں کا گروہ ان کے نزدیک مستحق التفات نہیں، یہاں تک کہ اگر وہ قرون متوسطہ کے ڈکٹیٹر بن جائیں تو وہ اس گروہ کو ’’ ہلاک‘‘ کر دیں۔
حضرت علامہ کی غریبوں سے ہمدردی اور امیروں سے نفرت آپ کے کلام کا طغرائے امتیاز ہے۔ بال جبریل میں’’ لینن‘‘ والی نظم کے آخری اشعار کس قدر واضح ہیں:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
وہ تو خدا کی زبان سے فرشتوں کے نام بھی یہ حکم سننا چاہتے تھے کہ:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو
میں ناخوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے
میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ ’’ اسلام کا مستقبل دنیا کے دوسرے مسلمانوں پر منحصر ہے نہ کہ ہندی مسلمانوں پر۔‘‘
جاپان کا ذکر آیا تو آپ نے کہا کہ جاپان میں تبدیل مذہب 3؎دنوں یا ہفتوں کا کام ہے نہ کہ یورپین ممالک کی طرح صدیوں کا۔ اگر اسلام کا چرچا اس ملک میں شروع ہو گیا تو چند ہفتوں میں تمام جاپانی قوم مسلمان ہو جائے گی۔ اس کی وجہ زیادہ تر سیاسی ہے۔ جاپان کے لیے مسلمان ہو جانے میں یہ فائدہ ہو گا کہ روس کے خلاف اسے چین اور ترکستان میں زبردست اسلامی قوت کی امداد حاصل ہو جائے گی۔
14اکتوبر1934ء کی شب کو میں سیر کرتا ہوا پھر حضرت علامہ کے دولت کدہ پر جا نکلا۔ اس وقت آپ کے پاس قیصر صاحب، استاد عشق لہر اور ایک ’’ حکیم صاحب‘‘ بیٹھے تھے۔ دس منٹ کے بعد وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے اور حضرت علامہ اور میں باتیں کرنے کے لیے رہ گئے۔ قریباً ایک گھنٹہ تک پر لطف علمی گفتگو ہوا کی۔ ایک موقعہ پر گفتگو کا رخ اس مسئلہ کی طرف پھر گیا کہ اہل یورپ جن باتوں کا صدیوں تک تجربہ کر کے ان سے متنفر ہو چکے ہیں، یورپ کے ایشیائی مقلدین انہیں چیزوں کے پیچھے جا رہے ہیں مثلاً آزادی نسواں۔ حضرت علامہ نے اس سلسلہ میں عورتوں کے متعلق بہت سی باتیں ارشاد فرمائیں۔ مثلاً
I have no faith in women 4؎
یا
’’ عورتیں اپنے مخصوص مشاغل (مثلاً خانہ داری) میں بھی بلند ذہنیت کا ثبوت نہیں دیتیں‘‘
پھر حضرت علامہ نے فرمایا کہ عورت کو دماغ کمزور ملا تھا، اس لیے کہCreative (تخلیقی) Function( قوت) اس کے معاملہ میں دماغ کی بجائے Womb (رحم) سے تعلق رکھتی ہے۔ مرد دماغ سے تخلیق کا کام لیتا ہے اور عورت Womb(رحم) سے۔
ماہ نومبر1934ء کے آخری یکشنبہ کے روز تین چار دوستوں کے ہمراہ حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ہم لوگ قریباً دو گھنٹے ان کے پاس بیٹھے رہے۔ اس عرصہ میں علامہ محترم کے خیالات عالیہ سے ہم لوگ بہت بڑی حد تک فیض یاب ہوئے اور سب احباب کی رائے میں ہمارا وہ وقت بہت ہی بابرکت شغل میں صرف ہوا۔
حکمت و معرفت کے دریا تھے جو ہمارے سامنے بہتے چلے جا رہے تھے۔ علامہ موصوف نے سیاسیات، اقتصادیات، تصوف، شریعت، سبھی قسم کے مسائل پر رائے زنی فرمائی۔
ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا کہ ایک قوم یا فرد کو حالات کی نا مساعدت اور بخت کی نارسائی سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بے سر و سامانی، اخلاص (افلاس) اور نفرت سے بھی انسان بیشمار فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ ایک مفلس آدمی جس کے پاس چھن جانے کے لیے کچھ بھی نہیں یا جس کے پاس وہ مال و متاع نہیں جس کی محبت اسے اپنی طرف کھینچ سکے، وہ حق و صداقت کی حمایت میں دلیری اور جرأت دکھا سکتا ہے۔
اسی طرح ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں ملک کی سیاسیات میں فرقہ وارانہ مناقشات میں حصہ لینے کے لیے شامل نہ ہوا تھا، بلکہ محض اس لیے کہ ہندوستان کے آئندہ نظام سیاسی11؎ میں مسلمانوں کی حیثیت واضح کر دوں اور یہ ظاہر کر دوں کہ اس ملک کے سیاسی ارتقا میں حصہ لیتے ہوئے مسلمانوں کو دوسری اقوام ہند میں مدغم نہ ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے اس پر اصرار کیا کہ ’’ میں نے اس کے سوا گول میز کانفرنس کی کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔‘‘
تعلیم کا ذکر آیا تو فرمایا کہ مسلمانوں نے دنیا کو دکھانے کے لیے دنیوی تعلیم حاصل کرنی چاہی، لیکن نہ تو دنیا حاصل کر سکے اور نہ دین ہی سنبھال سکے۔ 6؎ یہی حال آج مسلم خواتین کا ہے جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے شوق میں دین بھی کھو رہی ہیں۔
31مئی 1935ء کے روز جو ملاقات ہوئی اس کے دوران میں میں نے حضرت علامہ سے ’’ادب لطیف ‘‘ 7؎ کی تعریف پوچھی تو اس سلسلہ میں ’’ ادب‘‘ اور ’’ آرٹ‘‘ پر آپ نے بہت سی پر از معلومات اور دلچسپ باتیں ارشاد فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگرچہ آرٹ کے متعلق دو نظرئیے موجود ہیں: اول یہ کہ آرٹ کی غرض محض حسن کا احساس پیدا کرنا ہے اور دوم یہ کہ آرٹ سے انسانی زندگی کو فائدہ پہنچنا چاہیے۔ ان کا ذاتی خیال یہ ہے کہ آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسان کی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے اور اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہو قابل نفرت و پرہیز ہے اور اس کی ترویج حکومت کی طرف سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔
اس پر حکومت کے فرائض پر اظہار خیالات ہونے لگا اور آپ نے فرمایا کہ حکومت کا سب سے بڑا فرض افراد کے اخلاق8؎ کی حفاظت ہے لیکن اس اہم تریں فرض کو دنیائے جدید تسلیم ہی نہیں کرتی۔ حکومتیں محض لوگوں کے سیاسی خیالات و رحجانات سے تعلق رکھتی ہیں؟ افراد کے اخلاق کو درست کرنا اپنے فرائض میں داخل ہی نہیں سمجھتیں۔
پھر اسلام اور تہذیب حاضرہ کا ذکر ہوا۔ فرمانے لگے کہ اسلام تہذیب حاضرہ9؎ کی تمام ضروری اور اصولی چیزوں کا دشمن ہے اس لیے مسلمانوں کو اسے تباہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، نہ یہ کہ ان چیزوں کو جزو اسلام بنا لیا جائے۔
آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اب دنیا اسلام کی طرف آ رہی ہے، اس لیے اگر آج تہذیب مغربی تباہ ہو جائے تو اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس آنے والے دور کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ جس وقت تہذیب جدید کا خاتمہ ہو۔ مسلمانوں کو اسلام کا علم بلند کر دینا چاہیے۔
آرٹ کے مضمر اثرات کے متعلق آپ نے فرمایا کہ بعض قسم کا آرٹ قوموں کو ہمیشہ کے لیے مردہ بنا دیتا ہے۔ چنانچہ ہندو قوم کی تباہی میں اس کے فن موسیقی کا بہت حصہ رہا ہے 10؎
میں جب کبھی حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ایسے وقت کی تلاش میں رہتا جب کہ طویل فراغت حاصل ہو تا کہ اطمینان کے ساتھ ان کی صحبت با برکات سے فیضیابی ہو سکے۔ اس لیے کہ جہاں ان تک رسائی آسان ہوتی وہاں رخصت حاصل کرنا محال ہوتا، اس لیے کہ ان کے ارشادات عالیہ کا سلسلہ بہتے ہوئے دریا کی روانی کے مثل تھا۔ نہ وہ رکتا اور نہ آدمی رخصت لے سکتا۔ چنانچہ15جون1935ء کو مجھے ایک قادیانی احمدی نے رسالہ دیا۔ جو دراصل مرزا بشیر الدین محمود کا وہ خطبہ جمعہ تھا جو انہوں نے سر محمد اقبال کے بیانات کے خلاف انہی دنوں دیا تھا۔ 16جون کی صبح کو دفتر جاتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ حضرت علامہ کو وہ رسالہ دکھاتا جاؤں۔ وہاں جو ٹھہرا تو ساڑھے بارہ بج گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے دریافت فرمایا کہ انجمن خدام الدین کا انگریزی اخبار’’ اسلام‘‘ کا آئندہ پرچہ کب چھپے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پرچہ پریس میں جا رہا ہے۔ اس پر آپ نے اسی پرچہ کے لیے بیان لکھوایا۔ پھر اس کی کانٹ چھانٹ میں بہت وقت صرف ہوا۔ اس بیان کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے اس چٹھی کی نقل بھی دی جو انہی دنوں اسٹیٹسمین میں شائع ہوئی تھی تاکہ اسے بطور مضمون ’’ اسلام‘‘ میں شائع کر دیا جائے۔
19دسمبر1935ء کے روز حضرت استاذی المحترم مولانا احمد علی صاحب کے فرزند اکبر حافظ حبیب اللہ صاحب کی معیت میں حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حافظ صاحب کو بہت مدت سے ملاقات کا شوق تھا۔ باتوں باتوں میں جہاد پر گفتگو شروع ہو گئی۔ میں نے پوچھا کہ جہاد جارحانہ ہونا چاہیے یا دفاعی؟ فرمانے لگے کہ عام طور پر تو دفاعی ہے لیکن بوقت ضرورت جارحانہ بھی ہو سکتا ہے 11؎ مثلاً اگر کسی قوم کی بد اخلاقی اس قدر بڑھ جائے کہ اس سے ہمسایہ قوموں کے اخلاق تباہ ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جائے تو ہمسایہ مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ بزور شمشیر اس قوم میں سے خرابی کو مٹانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ سلطان شہید ٹیپو نے مالا بار کے غیر مسلم وحشی باشندوں سے کہا تھا کہ تم لوگ بجائے برہنہ پھرنے کے کپڑے پہننا شروع کر دو، ورنہ میں بزور شمشیر تمہیں کپڑے پہننے پر مجبور کروں گا۔
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن میں مسلمانوں کو جو امر بالمعروت اور نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ اشاعت حق کے پیچھے شمشیر کی حمایت ہونی چاہیے، اس لیے کہ بغیر طاقت کے امر و نہی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ اگر امر و نہی کے فرائض مسلمان ادا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کا ہونا ضروری ہے۔
میری آخری ملاقات حضرت علامہ سے ان کی وفات سے قریباً ایک ہفتہ پہلے ہوئی۔ آپ کے مرض الموت میں میں قریباً ہر روز ’’ جاوید منزل‘‘ جاتا، لیکن اس خیال سے باہر سے ہی مزاج پرسی کر لیتا کہ اگر حاضر خدمت ہوا تو آپ باتیں کریں گے اور ا س سے آپ کو تکلیف ہو گی۔ ایک روز دوپہر کے وقت میں کوٹھی کے احاطہ میں علی بخش کے ساتھ باتیں کر رہا تھا، حضرت علامہ نے اندر سے دیکھا اور یہ معلوم ہونے پر کہ میں آپ کی مزاج پرسی کر رہا ہوں مجھے اندر بلا بھیجا۔ میں حاضر ہو،ا مزاج پرسی کے بعد میں نے پوچھا کہ آج کل علاج انگریزی ہے یا یونانی؟
فرمانے لگے:
I hve lost all faith in allopathy.
اس کے بعد ارشاد ہوا:
There can be no science of medicine, for there is no science of life.
پھر فرمایا:
How cn you have a science of something the reality of which you can not Know.
اس کے بعد تمدن اسلام اور دوسرے موضوعوں پر گفتگو ہوئی۔ آپ بڑے جوش سے باتیں کرتے رہے۔ اس وقت آپ کو شدید درد تھا، درد کی شدت سے مجبور ہو کر آپ بستر پر الٹے لیٹ لیٹ جاتے، لیکن پھر فرط جوش سے سیدھے بیٹھ جاتے اور گفتگو کا سلسلہ چھیڑ دیتے۔ میں دل ہی دل میں افسوس کر رہا تھا کہ کیوں اندر آیا،نہ میں حاضر خدمت ہوتا، نہ آپ کو زحمت گفتگو ہوتی۔
وفات سے پہلے روز صبح کو میں ’’ جاوید منزل‘‘ گیا۔ حضرت علامہ چائے نوش فرما رہے تھے۔ میں سامنے ہو کر زحمت گفتگو بھی نہ دینا چاہتا تھا اور بغیر دیکھے بھی نہ رہنا چاہتا تھا۔ شاید فطرت اندر ہی اندر یہ احساس دلا رہی تھی کہ آج اس یگانہ دہر کی مادی زندگی کا آخری روز ہے، اس کے بعد وہ صورت دیکھنی نصیب نہ ہو گی۔ میں درمیانی کمرے میں، جہاں آپ کا بڑا فوٹو آویزاں ہے، بیٹھ گیا۔ آپ چائے پی رہے تھے اور میں اپنی جگہ سے آپ کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن آنکھیں نہ ملاتا تھا، مبادا پہچان کر اپنے پاس بلا لیں۔ اسی عالم میں بصد حسرت و یاس میں کچھ دیر کے بعد رخصت ہوا اس روز میں نے حضرت علامہ کی صورت کی آخری جھلک پائی۔ دوسرے روز علی الصبح ایک دوست یہ روح فرما خبر لائے کہ علامہ محترم نے اس دنیائے آب و گل سے عالم جاوید کاسفر اختیار فرما لیا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
خواجہ عبدالوحید