اقبال اپنی نظر میں


اقبال اپنی نظر میں
اقبال نے حیات و کائنات پر جو وسیع اور گہری نظر ڈالی اس سے پیدا شدہ افکار و تاثرات سے اس کا کلام لبریز ہے لیکن اقبال کی تعلیم و تلقین کا ایک بڑا اہم عنصر چشم بر خویشتن کشادی ہے۔ انسان بدن سے زیادہ ایک نفس ہے اور اس کے ظاہر سے زیادہ اس کا باطن اہم ہے۔ اقبال کے کلام سے شروع سے آخر تک مسلسل ارتقائے فکر پایا جاتا ہے۔ ابتداء میں وہ زیادہ تر ’’ فی کل واد بہیمون‘‘ والا شاعر دکھائی دیتا ہے۔ گرد و پیش کی جس شے سے متاثر ہوتا ہے اس کو فن لطیف کا لباس پہنا دیتا ہے۔ اور خود اپنے اندر جو کیفیت محسوس ہوتی ہے، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ، صلحا و حکما و عباد کے نزدیک مستحسن ہو یا مشتبہ، سب کو من و عن بیانگ دہل، یا لطافت کے لحاظ سے یوں کہیے کہ بہ بانگ چنگ نغموں میں منتقل کر دیتا ہے۔ اگرچہ یہ نغمے جا بجا فریاد کی لے سے بھی خالی نہیں ’’ کوچہ گرد نے ہوا جس دم نفس فریاد ہے‘‘ ہر شاعر اپنی شاعری میں متعلق بہت کچھ کہتا ہے کبھی براہ راست اور کبھی ’’ گفتہ آید در حدیث دیگراں‘‘ لیکن دنیا عام طور پر شاعروں کے اپنے متعلق بیان کا اعتبار نہیں کرتی۔ نہ صرف اس لیے کہ کبھی وہ کچھ کہتے ہیں اور کبھی کچھ اور ہمارے ہاں کے عام بلکہ بعض خاص غزل نویس تو ایک ہی غزل کے مختلف اشعار میں فکر و تاثر کے تضاد کی پروا نہیں کرتے۔
صدیوں سے ہماری شاعری، جس میں ہم فارسی اور اردو شاعری دونوں کو شامل کرتے ہیں، خلوص اور حقیقت سے عاری رہی ہے۔ قصابر کا دفتر تو دروغ بافی کا ایک طومار ہے۔ ان میں تمام صناعی کے محور خوشامد اور مبالغہ ہیں۔ اس طومار میں کہیں فن برائے فن ہے اور کہیں فن برائے زر۔ ایسی شاعری میں شاذ و نادر ہی اپنی زندگی پر حقیقت طلب نگاہ ڈالی گئی ہے۔ شاعر فقط اپنے انداز بیان اور ندرت صنعت کی داد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نہ اس کو اس سے غرض ہے کہ وہ اپنے یا دوسروں کے متعلق سچ کہہ رہا ہے یا نہیں اور نہ اس سے واسطہ کہ جن جذبات و تاثرات کو وہ فن لطیف کا جامہ پہنا رہا ہے وہ واقعی محسوس کردہ ہیں یا تکلیف و تصنع کا نتیجہ ہیں اس لیے کوئی سخن فہم یا نقاد سنجیدہ طور پر اسے قابل غور نہیں سمجھتا کہ شاعر نے اپنے متعلق کیا کیا کہا ہے۔ کئی شعرا نے تصوف کے افکار و جذبات سے اپنے کلام میں لطف پیدا کیا، لیکن وہ اپنی زندگی میں عشق الٰہی سے کوسوں دور تھے۔ ایسوں ہی کے متعلق شیخ علی حزیں کا قول درست ہے کہ ’’ تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘
اسی طرح عشق مجازی کے احوال و معاملات سے ہمارے اکثر شعراء کے دیوان بھرے پڑے ہیں، لیکن ان میں بہت سے ایسے ہیں کہ کبھی عشق مجازی کے قریب نہیں پھٹکے۔ ہوس پرستی کی شاعری میں ذوق کی صناعی دیکھئے، لیکن اس کی زندگی میں کہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کبھی جنسی عشق کی گرفت میں آیا ہو۔ اس کی صناعی خود اس کی غماز ہے کہ یہاں محض فن برائے فن ہے اور بیان عشق کی تہ میں کوئی جذبہ کار فرما نہیں۔ا میر مینائی کو دیکھئے کہ تہجد گزار، تسبیح بدست عابد و زاہد، نہ جنس لطیف سے واسطہ اور نہ ہم جنسوں کے کسی قدر غیر فطری عشق سے کوئی تعلق، لیکن محض صناعی کی داد لینے کے لیے برہنہ گوئی اور فحش نگاری سے بھی گریز نہیں۔ شراب کے قطرے سے کبھی زبان آلودہ یا لطف اندوز نہیں ہوئی مگر غزلوں میں پکے شرابی بن رہے ہیں اور شراب بھی وہی افشردۂ انگور، ام الخبائث جس پر کبھی صہبائے عشق الٰہی کا دھوکا نہ ہو سکے۔ بعض شعراء ایسے ہیں کہ ان کا واحد مضمون خمریات ہی ہے۔ جام و مینا و خم کی جزئیات، سکر کی نفسی کیفیات، ان کی تعریف و توصیف، کمال درجے کی نکتہ آفرینی اور ترغیب شراب نوشی، لیکن اصل زندگی میں زاہد و پاکباز انہیں وجودہ سے ہماری شاعری میں یہ ایک روایت پیدا ہو گئی کہ شاعر جو کچھ اپنے متعلق کہتا ہے اس پر نہ اعتبار کرو۔ کیوں کہ اس بیان کا کچھ تعلق ان کے حقائق نفسی سے نہیں ہوتا۔ اقبال کو پھر اگر کوئی شخص اسی قسم کا شاعر سمجھ لے تو اقبال اپنی نظر میں ایک بے حقیقت عنوان بن جاتا ہے۔ لیکن اقبال کی روش شروع سے ہماری روائتی شاعری سے الگ رہی ہے۔ غالب تک بھی محض لطف بیان کو وظیفہ فن لطیف سمجھتا ہے اور شاعری کا کام کبھی مضمون آفرینی قرار دیتا ہے اور کبھی کہتا ہے کہ ’’ نگویم اگر نغز نباشد‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اظہار حقیقت نہیں بلکہ محض نغز گوئی اس کا مطمع نظر ہے۔
اقبال کی شاعری میں شروع ہی سے خلوص نظر آتا ہے۔ جو کچھ محسوس کرتا ہے وہی کہتا ہے اور جب تک طبیعت پر کوئی تاثر طاری نہیں ہوتا، وہ نہ دوسروں کے تقاضے سے شعر کہتا ہے اور نہ صناعی کے شوق سے شعر کہنا تو درکنار جب تک طبیعت میں خاص کیفیت موجود نہ ہو وہ کسی کے تقاضے سے شعر سناتا بھی نہیں۔ فن میں خلوص کا یہ کمال ہمارے شعراء میں الشاذ کالمعدوم ہے۔ حیات و کائنات کے متعلق اقبال کے افکار و تاثرات بہت کچھ بیان ہو چکے ہیں لیکن یہ بیان تشنہ رہ جاتا ہے اگر اس کے ساتھ ہی اس کا جائزہ نہ لیں کہ حکیمانہ اور الہامی شاعری کے علاوہ یہ صاحب کمال شخص وقتاً فوقتاً خود اپنے اوپر نظر ڈال کر اپنی کیفیت کس طرح بیان کرتاہے۔ اقبال ان شعراء میں سے نہیں ہے جن کے فن کو ان کی زندگی سے کوئی قریبی رابطہ نہیں ہوتا۔ اس کے کلام کا زیادہ تر حصہ حیات و کائنات کے مظاہر و حوادث پر اس کے اپنے نفس کا رد عمل ہے۔ اس کے نظریات حیات اس کی اپنی نفسی کیفیات کے ساتھ وابستہ ہیں۔
ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ شعراء کے اپنے بیان ذات و صفات پر لوگ اس لیے اعتبار نہیں کرتے کہ ان میں کچھ ہم آہنگی نہیں ہوتی اور خلوص کا بھی فقدان ہوتا ہے۔ اگر کوئی کامل یک آہنگی اقبال میں بھی ڈھونڈے، جس کے اندر کوئی داخلی تضاد نظر نہ آئے تو اسے طلب میں مایوسی ہو گی۔ اقبال بھی اپنے متعلق مختلف حالات اور کیفیات میں متضاد باتیں کرتا ہے، لیکن یہ تضاد مصنوعی یا وہمی نہیں ہوتا۔ زندگی میں کامل یک آہنگی تو شاید کسی کو بھی نصیب نہ ہوتی۔ یہ ایک کمالی نصب العین ہے اور جو اس کے حصول کے مدعی ہیں وہ یا دوسروں کو دھوکا دے رہے ہیں یا خود دھوکا کھائے ہوئے ہیں۔ کم و بیش اندرونی پیکار اور مختلف میلانات میں کش مکش، ہمیشہ انسانی زندگی میں موجود رہتی ہے۔ برگزیدہ انسانوں کے متعلق اگر یہ درست ہے کہ:
گہے بر طارم اعلیٰ نشینم
گہے بر پشت پاے خود نہ بینم
تو عام انسانوں کے اندر، جنہیں انبیاء و اولیاء کا مرتبہ حاصل نہیں، یہ کیفیت اور بھی زیادہ تضاد آفرین ہوتی ہے۔ اقبال کو اخیر عمر میں بعض معتقدوں نے عابد و زاہد، عارف و ولی یا مجدد عصر سمجھنا شروع کیا، لیکن اقبال کی طبیعت میں اس قدر شناسی نے کچھ مغالطہ پیدا نہ کیا۔ وہ آخر تک معتقدوں کے اس مغالطے کو رفع کرنے کی کوشش کرتا رہا اور اس پوجا سے بچنے کے لیے اپنی کمزوریوں کو طشت از بام کرتا رہا۔ اس پر بعض معتقدوں نے یہ نظریہ قائم کیا کہ یہ عارفانہ کسر نفسی کا مظاہرہ ہے اور ایک مشہور شخص نے یہ کہا کہ حضرت اقبال صوفیہ کے فرقہ ملامتیہ میں داخل ہیں، جو ستائش خلق کی آفت سے بچنے کے لیے خواہ مخواہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کرتے ہیں۔ کہ لوگ انہیں عاصی یا رند سمجھیں۔
اقبال نے اپنے انداز تفکر و تاثر کو کس کس طرح بیان کیا ہے اسے پہلے اس کے ابتدائی کلام میں تلاش کرنا چاہیے۔ بانگ درا میں ’’ گل رنگیں‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی فطرت کا خارجی فطرت سے مقابلہ کیا ہے۔ سوز و ساز آرزو، جو ترقی یافتہ کلام میں اس کا موضوع خاص بن گیا اور جس کے لیے آخر میں اس نے عشق کی اصطلاح کو مخصوص کر لیا، وہ ابتداء میں بھی موجود ہے۔ اس لیے کہ اقبال کی فطرت کا اصلی جوہر یہی تھا جو ارتقاء کی ہر منزل میں نمایاں ہے۔ پھول کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ تو بڑا مطمئن خود مست اور بے پروا معلوم ہوتا ہے۔ زندگی کی شورش اور کشاکش سے تجھے فراغت حاصل ہے جو میرے لیے باعث رشک ہے:
تو شناسائے خراش عقدۂ مشکجل نہیں
اے گل رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
  
زیب محفل ہے شریک شورش محفل نہیں
یہ فراغت بزم ہستی میں مجھے حاصل نہیں
  
اس چمن میں میں سراپا سوز و ساز آرزو
اور تیری زندگانی بے گداز آرزو
اس سے آگے چل کر وہ اس اطمینان کو قابل رشک نہیں سمجھتا اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے، جسے وہ ابھی پورے یقین کے ساتھ پیش نہیں کرتا، کہ تو مطمئن ہے اور میں مثال بو پریشاں اور زخمی شمشیر ذوق جستجو، بظاہر یہ بے اطمینانی تو خواہ مخواہ کی سزا معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کا بھی احتمال ہے کہ انسان کا نصب العین جس انداز کی جمعیت خاطر ہے، وہ اضطراب و جستجو اور سوز و ساز ہی کے وسیلے سے پیدا ہوتی ہے اور شاید حکمت کا سرچشمہ بھی یہی بیتابی ہو:
یہ پریشانی مری سامان جمعیت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغ خانہ حکمت نہ ہو
  
ناتوانی ہی مری سرمایہ قوت نہ ہو
رشک جام جم مرا آئینہ حیرت نہ ہو
  
یہ تلاش متصل شمع جہاں افروز ہے
تو سن ادراک انسان کو خرام آموز ہے
دیکھئے کہ آخر میں ایک مخصوص نظریہ حیات کی تلقین کرنے والا اقبال اس ابتدائی نظم میں بھی موجود ہے۔ اقبال کے آخری کلام کے اشجار مثمر کے بیج ان اشعار میں موجود ہیں۔
خفتگان خاک سے جو سوالات پوچھے ہیں وہ اقبال کی اپنی زندگی کا نقشہ ہے۔ انداز استہفام میں اپنی تمام دلی آرزوئیں بھی بیان کر دی ہیں، لیکن یہ دور حیرت و تذبذب ہے۔ ابھی اقبال کو دانائے راز ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ حیات بعد الموت کے متعلق کوئی یقینی تصور نہیں۔ زندوں سے اسرار کی گرہ کشائی نہ ہوئی تو اب اس دنیا کی طرف گئے ہوئے لوگوں سے پوچھتا ہے:
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت اک چبھتا ہوا کانٹا دل انساں میں ہے
اپنے وطن اور اپنی ملت میں اخوت اور وحدت کا فقدان اس کے لیے سوہان روح ہے۔ جب تک اس وطن میں وحدت مقصد اور مودت پیدا نہ ہو یہ غلام ہی رہے گا۔ اس شدت احساس نے اس سے وطنیت پر ولولہ انگیز نظمیں لکھوائیں۔ ابھی تک اس کا یہی خیال تھا کہ مذاہب تو نفاق انگیزی ہی پر تلے ہوئے ہیں۔ اگرچہ مذہب کی حقیقت افزونی محبت ہے، لیکن ہندوستان میں مذاہب اور مذاہب کے فرقوں اور ذات پات نے خلیجیں اور نفرت پیدا کر رکھی ہے۔ اقبال کا حساس دل اس سے جلتا ہے اور مایوسی میں خود کشی کرنے کو آمادہ ہوتا ہے:
چل رہا ہوں، کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے اے محیط آب گنگا تو مجھے

 سر زمین اپنی قیامت کی نفاق انگیز ہے
وصل کیسا، یاں تو اک قرب فراق آمیز ہے
ایسی قوم میں اس کو اپنی شاعری بھی بے کار معلوم ہوتی ہے اور وہ نغمہ پیرائی سے بھی بیزار ہو جاتا ہے:
جس کے پھولوں میں اخوت کی ہوا آئی نہیں
اس چمن میں کوئی لطف نغمہ پیرائی نہیں

 ذوق گویائی خموشی سے بدلتا کیوں نہیں
میرے آئینے سے یہ جوہر نکلتا کیوں نہیں
  
کب زباں کھولی ہماری لذت گفتار نے
پھونک ڈالا جب چمن کو آتش پیکار نے
روح کے اندر گہرائی جلوت میں نہیں بلکہ خلوت میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی ذوق نے بعض اہل دل کو راہب بنا دیا۔ جب مخلوق میں اس ذوق کی پرورش نہیں ہوتی تو طبیعت گریز کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اقبال نے کبھی صحرا و کوہسار کی طرف گریز نہ کیا، لیکن اس آرزو کی جوہر طبیعت میں پیدا ہوئی، اس کو ایک آرزو والی نظم میں بیان کر دیا۔ تخیل میں اس خلوت اور فطرت سے ہم آہنگی کا لطف اٹھایا، اگرچہ یہ خواب کبھی زندگی میں شرمندۂ تعبیر نہ ہوا:
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

 شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
  
آزاد فکر سے ہوں، عزلت میں دن گزاروں
دنیا کے غم کا کانٹا دل سے نکل گیا ہو
اس دور میں ابھی ملت اسلامیہ اقبال کی نظر گاہ اور اس کا محور فکر نہیں بنی۔ ابھی اس کی طبیعت تمام فطرت اور تمام نوع انسان کے ساتھ رابطہ پیدا کرنے کی آرزو مند ہے۔ بعد میں اپنی ملت کو بیدار کرنے میں اپنی تمام قوت صرف کرنے سے اقبال تنگ نظر نہیں ہو گیا۔ یہ وسعت آخر تک اس کے کلام میں جھلکتی ہے، لیکن ملی شاعری میں اس نے اپنی شعاعوں کو شعلہ انگیزی کے لیے جذبہ مل میں مرتکز کر دیا ہے۔ عقل سلیم کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اصلاح اپنے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ ’’آفتاب صبح‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی آرزوئیں بیان کر جاتا ہے۔
ملتوں کے متعلق ابھی اس کا زاویہ نگاہ صوفیانہ ہی معلوم ہوتا ہے:
جنگ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چوں ندیدند حقیقت رہ افسانہ زدند
(حافظ)
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہو گئیں
(غالب)
ملتوں کی جنگ نہ ہندوستان کو متحد ہونے دیتی تھی اور نہ آزاد ملتوں کو صلح کی طرف مائل کرتی تھی۔ اس لیے ہر صلح جو انسان کی طرف اقبال کے دل میں بھی یہ جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ وہ جہاں بینی اور یک بینی کے لیے چشم آفتاب کا طالب ہے اور سورج کو مخاطب کر کے کہتا ہے:
شوق آزادی کے دنیا میں نہ نکلے حوصلے
زندگی پھر قید زنجیر تعلق میں رہے
  
زیر و بالا ایک ہیں تیری نگاہوں کے لیے
آرزو ہے کچھ اسی چشم تماشا کی مجھے

 آنکھ میری اور کے غم میں سرشک آباد ہو
امتیاز ملت و آئیں سے دل آزاد ہو

 بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
نوع انسان قوم ہو میری، وطن میرا جہاں
  
دیدۂ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
ہو شناسائے فلک شمع تخیل کا دھواں

 عقدۂ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر آئے مجھے
جس طرح پھول کے اطمینان پر پہلے اظہار رشک کر کے آخر میں کہا کہ نہیں ہماری بیتابی اس اطمینان سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے، اسی طرح آفتاب کو بھی آخر میں کہتا ہے کہ ہماری جستجو کی بدولت ہمیں شاید تیری بصارت سے زیادہ بصیرت حاصل ہو۔ یہ حیرت و استفہام جو تجھ میں نہیں اور مجھ میں ہے، اسی وجہ سے مجھ پر افشاے راز قدرت ہو گا:
آرزو نور حقیقت کی ہمارے دل میں ہے
لیلیٰ ذوق طلب کا گھر اسی محمل میں ہے


کس قدر لذت کشود عقدۂ مشکل میں ہے
لطف صد حاصل ہماری سعی بے حاصل میں ہے
  
درد استفہام سے واقف ترا پہلو نہیں
جستجوئے راز قدرت کا شناسا تو نہیں
آخر تک اقبال نے زندگی کو جستجو اور آرزو ہی سمجھا اور اس کا آرزو مند رہا کہ یہ مرحلہ شوق کبھی طے نہ ہو۔ سید کی لوح تربت کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بھی اقبال اپنا مقصود حیات اور لائحہ عمل سید کی زبان سے بیان کر رہا ہے:
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم دیں
ترک دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
  
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
  
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ! کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
  
محفل نو میں پرانی داستانوں کو نہ چھیڑ
رنگ پر جواب نہ آئیں ان فسانوں کو نہ چھیڑ
اقبال نے جو لائحہ عمل ابتداء میں اپنے لیے تجویز کیا تھا آخر تک اس پر عمل کیا ہے۔ اسلامی فرقوں کی لا طائل بحثوں میں اقبال کبھی نہیں پڑا۔ فقیہانہ مناظرہ اس نے کبھی نہ کیا اور بے شمار لا حاصل پرانی داستانیں، جو مسلمانوں کا سرمہ ادب اور گنجینہ مواعظ بن گئی ہیں ان کو اقبال نے یک سر ترک کر دیا۔
اقبال نے اپنے کلام میں جا بجا اپنی سیرت اور میلانات کا تجزیہ کیا ہے لیکن کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں عام محاورے کے مطابق اپنا کچا چٹھا پیش کر دیا ہے۔ بانگ درا میں زاہد اور رندی کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بظاہر ایک مولوی صاحب اقبال کے اندر متضاد نما میلانات دیکھ کر اور اس کی سیرت ناقابل فہم سمجھ کر، معترضانہ انداز میں بات کر رہے ہیں، لیکن اقبال نے مولوی صاحب کے بیان میں سے کسی بات کی تردید نہیں کی۔ مولوی صاحب نے جو کچھ کہا وہ نوجوان اقبال کی زندگی میں کلا یا جزا موجود تھا۔ اقبال کے خلوص اور صاف گوئی کی داد دینی چاہیے کہ سب کچھ سن کر مولوی صاحب سے اتفاق ہی کیا کہ واقعی یہ سب باتیں یک جا میری زندگی اور میری طعبیت میں موجود ہیں۔ میں خود بھی ابھی اپنی حقیقت سے شناسا نہیں ہوں:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تسمخیر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبال نے خود اپنے آپ کو اس نظم میں رند کیا ہے۔ رند کے صفات جو فارسی میں اور اردو ادب میں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ظواہر میں شریعت کا پابند معلوم نہیں ہوتا۔ عاشق مزاج ہے۔ تنگ و نام کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی طبیعت میں مکروہات سے کچھ گریز دکھائی نہیں دیتا۔ اقبال کی زندگی میں دور شباب میں ان تمام صفات کا شائبہ موجود تھا۔ جو باتیں مولوی صاحب نے کہیں وہ یہ ہیں کہ ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ یہ درست بات تھی اس نے موحد اور صوفی منش ہندوؤں کی تعریف میں نظمیں لکھی ہیں اور آخری دور میں بھی برتری ہری کا دل سے مداح تھا اور اسے عارف سمجھتا تھا۔ مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ اقبال کی طبیعت میں تشیع بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا مذہب حضرت علی ؓ کی فضیلت کے بارے میں تفصیلی معلوم ہوتا ہے یہ بات بھی غلط نہ تھی اس دور میں طبیعت کا یہی میلان تھا۔ بعض حضرات نے تو اس کو آخر میں بھی شیعہ ہی سمجھا ہے اور اہل بیت کی محبت میں اس نے جو اشعار کہے ہیں ان کو ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں، لیکن اہل بیت کی محبت تو شیعہ، سنی سب کے دلوں میں برابر ہے خواہ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوں۔ ایام شباب کی ایک نظم میں اقبال کا ایک شعر تھا جو انہوں نے بعد میں ساقط کر دیا، جس میں کمال درجے کا غلو ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرستش خدا کی طرح کی جائے اور حضرت علیؓ کو نبی کا رتبہ دے دیا جائے:ـ
نجف میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے مرا کعبہ
میں بندہ اور کا ہوں امت شاہ ولایت ہوں
بعض اوقات اقبال جیسا محتاط شاعر بھی جوش اور غلو میں کیا کیا کہہ جاتا ہے، جسے بعد میں اس کی عقل سلیم رد کر دیتی ہے، لیکن تمام عمر میں اقبال نے شیعیت کو کسی رنگ میں بھی درست نہیں سمجھا۔ ایام شباب کی یہ ہلکی ہلکی لہریں پھر اس کے دریائے طبیعت میں کبھی ابھرتی ہوئی دکھائی نہیں دیں۔ مولوی صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ اقبال کو موسیقی سے رغبت ہے۔ یہ بھی صحیح بات تھی۔ شعر میں موسیقی سموئی ہوئی ہے۔ کون تلمیذ الرحمن شاعر ایسا ہو سکتا ہے جس کی روح میں موسیقی موجود نہ ہو۔ اقبال اچھا گانا سننے کے شائق تھے اور خود بھی اچھے سروں میں گا سکتے تھے۔ لیکن بقول عارف رومی:
بر سماع راست ہر کس چیر نیست
طعمہ ہر مرغکے انجیر نیست
ایام شباب میں اقبال کو رقص و سرود کی محفلوں سے گریز نہ تھا اور ان کے ایک دوست جو ابھی تک بقید حیات ہیں، اپنے گھر پر اس کا انتظام کرتے تھے لیکن یہی طوائفوں کا گانا سننے والا اقبال گانا سنتے سنتے کسی اور عالم میں بھی گم ہو جاتا تھا اور علی الصباح بڑے سوز و گداز سے قرآن کی تلاوت کرتا تھا:
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی
اقبال کی طبیعت میں اس دور میں رندی، تصوف اور حکمت باہم بر سر پیکار تھے۔ کسی دوسرے ظاہر پرست ملا کی زبانی اقبال نے اس تضاد کا پورا نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ یہ سب باتیں مجھ میں موجود ہیں، اب آپ کا جو جی چاہے میری نسبت رائے قائم کر لیجئے لیکن اقبال ابھی خود اپنے آپ کو نہیں سمجھتا تو دوسرا اسے کیا سمجھے گا۔
اقبال کی شاعری کا شہرہ یک بیک بہت عالم گیر ہو گیا۔ اس کے افکار میں جدت تھی، طرز کلام میں لذت تھی، اعلیٰ درجے کے قوی اور روحانی جذبات اور حکمت کے جواہر ریزے اس کے اشعار میں بکھرے پڑے تھے۔ اس کے علاوہ وہ اشعار ایسے ترنم سے پڑھتے تھے کہ سننے والوں کی روح وجد میں آ جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے ان کی نقالی شروع کر دی، لیکن کہیں بھی نقل اصل کو نہ پہنچ سکی۔ کثرت سے نوجوان اس کی لے میں شعر پڑھنے لگے۔ اس کیفیت کے متعلق اقبال نے تصویر درد میں اشارہ کیا ہے:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
  
اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
حسن اور عشق تو شاعر اور شاعری کا خمیر ہیں۔ خواہ وہ عشق الٰہی ہو، خواہ عشق عالم، خواہ عشق آدم۔ یہ جواہر اقبال کی طبیعت اور اس کے کلام میں شروع میں بھی نمایاں ہے وسط میں بھی اور دور آخر میں بھی۔ آخر میں تو شراب دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گئی ہے۔ لیکن ایام شباب میں اقبال کا ذوق سلیم بھی حسن و عشق کی کشش سے کچھ کم نہ تھا۔ مشرقی تہذیب و ادبیات کو وہ ایک مشرقی استاد کامل مولانا میر حسن سے حاصل کرتا ہے اور مغربی فلسفہ آرنلڈ جیسے باکمال مغربی استاد سے۔ مولانا میر حسن کی شان میں اقبال کی کوئی مستقل نظم نہیں، لیکن دل میں اس استاد سے عقیدت ہمیشہ استوار رہی۔ آرنلڈ کے لاہور سے رخصت ہوتے ہوئے کیا حسرت ناک اشعار لکھے ہیں۔ اس دور میں اقبال ابھی تک مغرب اور مغربی فلسفے سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ ابھی تک وہ اس سے حقیقت رسی کی امید رکھتا تھا۔
اولیاء کرام سے اقبال کی عقیدت کچھ اسے ورثے میں ملی تھی اور کچھ اس کی اپنی طبیعت اور نظریہ حیات کی بدولت تھی۔ یورپ جاتے ہوئے درگاہ حضرت محبوب الٰہی پر عقیدت کے جو پھول چڑھائے ہیں وہ التجائے مسافر کی نظم میں موجود ہیں۔ اس دور میں اقبال کو اپنے اندر دو قسم کے احساسات دکھائی دیتے ہیں۔ایک احساس یہ ہے کہ ارباب علم اور اہل دل سے فیض حاصل کرنا چاہیے، خواہ وہ مشرق میں ہوں، خواہ مغرب میں۔ کوئی امتیاز ملت نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی احساس بھی ہے کہ فکر ونظر کے لحاظ سے کچھ تنہا ہی ہوں۔ مجھے اپنا راستہ خود تلاش کرنا پڑے گا:
تراش از تیشہ خود جادۂ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است
اس احساس نے کبھی کسی دور میں اقبال کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ابتدائی غزلوں میں ایک یہ شعر ملتا ہے:
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ درا ہوں میں
کسی اور شاعر کا اسی انداز کا شعر ہے:
از آنکہ پیروی خلق گمرہی آرو
نے رویم بہ راہے کہ کارواں رفتہ است
یورپ جاتے ہوئے فرنگ سے حصول علم کی تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ کسی استاد کی شاگردی اور دوسروں سے اکتساب کے باوجود مجھے جو کچھ حاصل ہے یا ہو گا وہ اس مبدء فیاض سے ہو گا جس سے براہ راست فیضان کی توقع ہے:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو


نظر ہے ابر کرم پر، درخت صحرا ہوں
کیا خدا نے نہ محتاج باغبان مجھ کو
اس کے بعد وہ آرزوئیں ہیں جو اقبال کی سیرت اور اس کے مقصود حیات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ الٰہی! مجھے ایسا نروبان عطا ہو کہ میں خاک سے افلاک کی طرف عروج کر سکوں۔ اپنے ہم سفروں سے اس قدر آگے ہو جاؤں کہ قافلے والے مجھے منزل مقصود سمجھ لیں۔ میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے۔ دلوں کو چاک کرنے والی فغاں مجھے عطا ہو۔ اس کے آگے مادر و پدر کی محبت، جس نے اقبال کی جسمانی اور روحانی پرورش کی، اس کا موثر بیان ہے۔ اپنے برادر بزرگ کے متعلق اظہار تشکر ہے جس کی شفقت اقبال پر مادر و پدر سے کم نہ تھی۔ مولانا میر حسن کے فیضان اور احسان کا بھی اقرار ہے۔ اقبال اپنے تئیں بندہ شاکر سمجھتا تھا اور در حقیقت یہ اس کی طبیعت کا ایک قابل قدر عنصر تھا:
وہ شمع بارگہ خاندان مرتضویٰ
رہے گا مثرل حرم جس کا آستاں مجھ کو
  
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو
اقبال خود اپنی سیرت کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے اس کا ثبوت جا بجا اس کی آرزوؤں سے ملتا ہے اور یہ نفسانی حقیقت ہے کہ ہر سیرت کی مخصوص تعمیر مخصوص آرزوؤں سے ہوتی ہے۔ ہر انسان کی اصلیت وہی ہے جو اس کی آرزوؤں کی ماہیت ہے۔ا گرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ خارجی حوادث اور باطنی مزاحمتیں ان میں بعض کو وجود کا جامہ نہ پہنا سکیں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں 1؎


ستم ہو کہ ہو وعدۂ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
  
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
اس دور میں مسلسل خود اپنی حقیقت کی تلاش میں ہے:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہوں میں
1؎ اس شعر کی اقبال کی اپنی شرح ایک صاحب کے سوال کے جواب میں پہلے درج ہو چکی ہے۔
اقبال کو فطرت نے مقلد بنایا تھا اور نہ ظاہر پرست۔ وہ گورانا تقلید سے ہمیشہ گریزاں رہا آخر تک اس کا یہی عقیدہ رہا کہ حقیقت رسی خواہ علم کی بدولت حاصل ہو اور خواہ عشق کا فیضان ہو، تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ جب واعظ اور صوفی کی روایتی اور تقلیدی زندگی پر اعتراض کرتا ہے تو در حقیقت ان کے مقابلے میں اپنی سیرت کو پیش کر رہا ہے جو تقلید سے گریزاں اور تحقیق کی طرف مائل ہے۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
  
مانند خامہ تیری زبان پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بیجا بھی چھوڑ دے
  
ہے عاشقی میں رگم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے
مقطع میں واعظ سے بغض للہ کو ایک عجیب شوخ انداز میں پیش کیا ہے:
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
عالم شباب میں جب عشق مجازی اور کسی حسین کی کوشش کو محسوس کرتا ہے تو اس کو چھپاتا نہیں۔ کسی دور میں بھی اپنی طبیعت کے کسی میلان اور کسی جذبے کو چھپانا اقبال کا شیوہ نہ تھا۔ اس نے کبھی لوگوں کے سامنے اپنے آپ کو زاہد و عابد بنا کر پیش نہیں کیا۔ ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ ریا میری فطرت میں نہیں۔ اگر میں دنیا داری میں ریاکاری کی کوشش بھی کروں تو کبھی کامیابی سے اس کو نبھا نہ سکوں۔ شبابی عشق کی عاشقانہ نظمیں بانگ درا کے مجموعے میں موجود ہیں، جن سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس کی فطرت زندگی کے تجربے سے محروم نہیں رہی۔ ’’ در عنفوان جوانی چنانکہ انند دانی‘‘ یہاں بھی موجود ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے ایک شعر میں کہا ہے کہ میں اپنی زندگی کی تمام روئداد ’’ افتد دانی کے سوا‘‘ سنانے کو تیار ہوں۔ مگر اقبال ان واقعات کو نظم میں بھی بیان کرتا ہے اور گفتگو میں بھی احباب سے اس کا تذکرہ کرنے میں دریغ نہیں کرتا:
جستجو جس گل کی تڑپاتی تھی اے بلبل مجھے
خوبی قسمت سے آخر مل گیا وہ گل مجھے
  
نامرادی محفل گل میں مری مشہور تھی
صبح میری آئنہ دار شب دیجور تھی
  
اب تاثر کے جہاں میں وہ پریشانی نہیں
اہل گلشن پر گراں میری غزل خوانی نہیں
ہماری روایتی شاعری میں عاشقوں نے ہمیشہ معشوقوں پر ہرجائی ہونے کا الزام لگایا ہے۔ حالانکہ ہوس پرستی میں عاشق بھی معشوقوں سے کم ہرجائی نہیں ہوتے۔ لیکن شعر کہنے والے عاشق ہیں اور ’’ قلم در کف دشمن است‘‘ محبوبوں کی بے وفائی کا رونا روتے ہیں، مگر اپنے ہرجائی ہونے کا ذکر نہیں کرتے۔ کبھی کبھار کوئی شاعر صرف واسوخت میں انتقاماً کہہ جاتا ہے کہ:
تو جو ہرجائی ہے اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
لیکن اقبال کی راست بیانی کی داد دیجئے کہ اس نے اپنے ’’ عاشق ہرجائی‘‘ ہونے پر ایک مستقل نظم لکھ ڈالی ہے۔ زور شور سے اس کا اقرار کیا ہے۔ اگرچہ اس صفت کے لیے صوفیانہ اور حکیمانہ جوا زپیدا کرنے کی بھی دلکش کوشش کی ہے:
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
  
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آسانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
جیسے کسی نبی صادق کی صدات کا ایک قاطع ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنی کسی کمزوری، یا بتقاضائے بشریت ادنیٰ لغزش کو بھی ہمیشہ کے لیے تمام جہاں پر چشت از بام کر دے، اسی طرح ایسی شاعری کا بھی یہی شیوہ ہے جسے جزو پیغمبری کہتے ہیں کہ ننگ و نام سے بے پروا ہو کر شاعر پر جو واردات گزری ہے، اسے فن لطیف کے سانچے میں ڈھال کر بقائے دوام بخش دے۔ اقبال نے بھی یہی کیا، تاکہ لوگ اسے بعد میں شروع سے آخر تک زاہد و عابد اور صوفی و مجدد ہی نہ سمجھ لیں۔ زندگی کے تمام مراحل سے گزرنے والا حقائق نفس انسانی کے متعلق زیادہ بصیرت حاصل کر سکتا ہے اور بہتر قسم کا مجدد بن سکتا ہے۔ عشرت امروز میں اپنے شباب کی کیفیت اور شباب کے نظریہ حیات:
با بر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کو کیا عمدگی سے کھول کر بیان کیا ہے:
نہ مجھ سے کہہ کہ اجل ہے پیام عیش و سرور
نہ کھینچ نقشہ کیفیت شراب طہور
  
مجھے فریفتہ ساقی جمیل نہ کر
بیان حور نہ کر ذکر سلسبیل نہ کر

شباب آہ کہاں تک امیدوار رہے
وہ عیش عیش نہیں جس کا انتظار رہے
  
عجب چیز ہے احساس زندگانی کا
عقیدہ عشرت امروز ہے جوانی کا
یورپ میں عملی زندگی کی گہما گہمی اور ہر سمت میں اہل فرنگ کی جدوجہد کا اقبال نے جب اپنی ملت کی معاشرت سے مقابلہ کیا تو وہ اس کو نہایت خفتہ اور انفعالی نظر آئی۔ پڑھے لکھے مسلمانوں بلکہ ان پڑھوں میں بھی ہمارے ہاں شاعروں، متشاعروں اور تک بندوں کی جو کثرت ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائی جاتی۔ شاعر مغرب میں بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن لاکھوں میں ایک۔ یہاں پر تو یہ صنعت گھر گھر پھیلی ہوئی ہے۔ مغرب میں اقبال کے دل میں یہ خیال گزرا کہ کام کرنے والی قوموں میں یہ وبا نظر نہیں آتی۔ اگر ملت خفتہ کو عمل پر آمادہ کرنا ہے تو اس شغل بے کاری سے اس کا رخ پھیرنا چاہیے اور مثال قائم کرنے کے لیے خود بھی یہ ارادہ کیا کہ شاعری ترک کر دوں۔ یہ قصہ ان کے دوست سر عبدالقادر مرحوم نے بیان کیا ہے۔ اقبال ایک ہنگامہ جذبے میں یہ بھول گیا کہ ایک قسم کی شاعری قوموں کے انحطاط کا مظہر اور ان کی قوتوں کو سلا دینے والی ہوتی ہے۔ لیکن ایک دوسری قسم کی شاعری جس کی کمال درجے کی اہلیت اس میں موجود تھی، قوموں کے لیے پیام حیات بھی ہو سکتی ہے۔ تھوڑے عرصے تک اقبال اپنے خاص مشن سے غافل ہو گیا، لیکن پھر اس کی فطرت نے اندر سے بڑے زور شور سے پکارا:
زمانہ دیکھے گا جب مرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
مری خموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کا
اب وہ سنبھل گئے اور اس حقیقت کو پا گئے کہ قوموں کو بیدار اور خود دار بنانے کے لئے حکمت و ہمت اور ضمیر فطرت سے ابھرنے والی شاعری ایک زبردست آلہ ہے۔ جس دوست سے شاعری کے ترک کرنے کا ذکر کیا تھا اب اسی کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ:
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ٹینی سن نے کیا خوب کہا ہے کہ جس شاعری سے ملت کے دل قوی ہوں وہ خود ایک زبردست عمل ہے:
شاعر دلنوار بھی بات اگر کہے کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری


اہل زمیں کو نسخہ زندگی دوام ہے
خون جگر سے تربیت پاتی ہے جو سخنوری


گلشن دہر میں اگر جوے مے سخن نہ ہو
پھول نہ ہو کلی نہ ہو سبزہ نہ ہو چمن نہ ہو
رات اور شاعر کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں شاعر کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ اقبال کی اپنی کیفیت ہے:
میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانند سحر روتا ہوں


دن کی شورش میں نکلتے ہوئے شرماتے ہیں
عزلت شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں


برق ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی جو ہے آنکھ کہاں سوتی ہے؟


ضبط پیغام محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں
اقبال کو جن لوگوں نے فرقہ ملامتیہ کا ایک فرد قرار دیا ہے ان کو اپنے اس نظریے کا ثبوت سب سے مضبوط اس نظم میں مل سکتا ہے جس کا عنوان ہے نصیحت اس میں ایک ریا کار لیڈر کا نقشہ کھنچا ہے اور اپنے آپ کو تمام بیان کردہ صفات مذمومہ سے ملوث کر دیا ہے۔ مگر اس نظم کا انداز اس قسم کا ہے کہ اقبال کے کہنے کے باوجود کوئی شخص یہ دھوکا نہیں کھا سکتا کہ یہ خود حضرت اقبال کی سیرت اور اعمال کا نقشہ ہے۔ ایک دلکش شاعرانہ انداز بیان ہے اقبال کے زمانے میں بھی سیاسی لیڈر ایسے ہی تھے اور اب بھی قوم کی بد قسمتی سے ایسی ہی سیرت کے مالک قوم کی رہبری کے مدعی ہیں اور انگریز سیاسی لیڈروں کے انتخاب کا جو طریقہ چھوڑ گیا ہے جب تک اس میں کوئی انقلابی تبدیلی واقع نہ ہو، قوم کی قسمت کی باگیںاسی قسم کے ریاکاروں اور مجرموں کے ہاتھوں میں رہیں گی۔ الا ماشاء اللہ کچھ اللہ کے مومن، خلوص کیش اور ایثار پیشہ لوگ اب بھی کبھی کبھی صاحب اقتدار اور ارباب حل و عقد ہو جاتے ہیں لیکن ان کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ ان کے نیک ارادے اور مخلصانہ اعمال حسب دل خواہ نتائج پیدا نہیں کر سکتے۔ اقبال نے ان رہزن رہنماؤں کے صفات جو بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کی رہبری کا دعویٰ ہے اور اسلام اسلام پکارتے ہیں لیکن نماز روزہ غائب۔ دل میں لندن کی ہوس، لب پہ ذکر حجاز، سرکاری کاموں کے سلسلے میں یا جھوٹ موٹ یوں ہی سرکاری کام پیدا کر کے فرنگ اور امریکا کے دس چکر لگاتے ہیں۔ ساحل حجاز کے قریب سے گزرتے ہیں لیکن کسی کو حج یا عمرہ کی توفیق نہیں ہوتی۔ اپنے ہر دروغ کو مصلحت اندیشی سمجھ لیتے ہیں۔ خوشامد کا فن لطیف اعجاز کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ جس کے ہاتھ میں حکومت آ جائے اس کی مدح سرائی شروع ہو جاتی ہے اور جہاں اس کا تختہ الٹا، اس کی مذمت میں صاف گوئی کی داد لینا چاہتے ہیں اور نئے آنے والے کی قصیدہ خوانی شروع ہو جاتی ہے۔ در حکام کا طواف ان کا شیوہ ہے۔ ہوس جاہ کو پردۂ خدمت دیں میں چھپاتے ہیں۔ اس میں سیاسی قسم کے علماء دین کہلانے والے بھی داخل ہیں اور دین سے مطلقاً بے بہرہ اقتدار کے طالب بھی۔ عید کے روز یہ سب ریا کار عید گاہ میں نظر آتے ہیں تاکہ عوام ان کی دینداری سے آگاہ ہو جائیں۔ کچھ اخباروں کو اپنے ہاتھ میں رکھنا لازمی ہے تاکہ ان کی ہر حرکت اور ہر تقریر، خواہ دوسروں سے لکھوائی ہوئی ہو مشتہر ہوتی رہے۔ ان تمام صفات کے ساتھ شاعری بھی آتی ہو تو سبحان اللہ۔ اس ساحری کی بدولت تقریر و تحریر میں اور جذبہ آفرینی ہو سکتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ جس میں یہ سب اوصاف موجود ہوں جو مجموعی طور پر سیاسی اقتدار کے ضامن ہیں اور پھرایسا شخص حصول اقتدار کی تگ و تاز میں شامل نہ ہو تو نہایت تعجب انگیز بات ہے۔ اس نظم میں بے چارے اقبال نے ریاکاری اور گناہوں کا بھاری پلندہ اپنی گردن پر رکھ لیا ہے۔ جس طرح کوئی مرد معصوم ناکردہ گناہ اپنی قربانی سے گناہ گاروں کے اعمال کا کفارہ بن جائے۔ اس تمام نظم میں حقیقی اقبال کہیں بھی نہیں۔
اقبال کے کلام میں جا بجا یاس کا اندھیرا بھی ہے اور امید کی افق تابی بھی۔ لیکن وہ زندگی کے لامتناہی ممکنات کا معتقد ہے اس لیے حاضر کی تیرہ بخشی اس کو مستقبل سے نا امید نہیں کرتی۔ اس کی یاس انگیز نظموں میں بھی آخری حصے میں امید یاس پر غالب آ جاتی ہے۔ زندگی امید و بیم کی مسلسل کشاکش کا نام ہے۔ کبھی اقبال کو یہ خوشگوار احساس ہوتا تھا کہ میں نے اس خستہ و خفتہ ملت میں نئی روح پھونک دی ہے اور میری نوا سے مردے زندہ ہوگئے ہیں لیکن پھر گرد و پیش نظر ڈالتا تھا تو نفوس میں کہیں حیات انگیز انقلاب دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر مایوسی کی ایک لہر دل میں اٹھتی تھی۔ اس نے اپنے کلام کے ایک مجموعے کا نام بانگ درا تجویز کیا اور قومی ترانے کے مقطع میں کہا:
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
لیکن پھر کسی دوسری کیفیت میں وہ حسرت و یاس سے کہتا ہے کہ جس کو میں آواز رحیل کارواں سمجھتا تھا وہ تو اک درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک تھی:
تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک
جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں
اور اپنی نوا گری اس کو اسی قسم کی نظر آنے لگتی ہے کہ اجڑے ہوئے گلستاں میں کسی سوکھی ہوئی شاخ پرایک بلبل نالہ گر ہے اور تاثیر کا طالب ہے کہ شاید اس کی نوا سے باغ میں پھر بہار عود کر آئے:
میں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں محتاج کو داتا دے
٭٭٭
عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن


ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
یاس کی ان ہنگامی لہروں کے باوجود اقبال کا پیام، پیام امید ہے۔ اس کے نزدیک نہ صرف ملت اسلامیہ بلکہ تمام نوع انسان کا مستقبل نہایت درخشندہ ہے اور فطرت ایک نیا آدم تعمیر کرنے میں کوشاں ہے۔ جس کی بدولت علم و عشق کی آمیزش سے ایک نیا عالم ظہور میں آئے گا۔
تقسیم برصغیر سے پہلے ہندوستان کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک ہیجان پیدا ہوا اور انہوں نے محسوس کیا کہ اب سیاست محض کھیل نہیں بلکہ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ اسی دور میں اقبال نے عملی سیاست میں قدم رکھا ورنہ وہ تمام عمر سیاست کی ابلیسانہ بساط شطرنج سے دور رہے۔ سیاست میں جس قسم کی تگ و دو اور جوڑ توڑ کرنے پڑتے ہیں وہ طبعاً اس کے لیے موزوں نہ تھے۔ سیاسی رہنما اورہیجان آفرین لیڈر ان کو بے عمل کہتے تھے اور کابل ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتے۔ جس زمانے میں اقبال انارکلی میں رہتے تھے ایک روز محمد علی اور شوکت علی ان کے ہاں وارد ہوئے اور کہاں کہ ظالم تو سب کو گرما کر اور جدوجہد پر آمادہ کر کے خود یہاں سکون سے بیٹھا ہے۔ یہ کیسا تساہل ہے۔ اٹھ! تو خود بھی شریک تگ و تاز ہو اس کے جواب میں علامہ نے انہیں ایک نہایت لطیف جواب دیا کہ بھائی تم اس حقیقت سے ناواقف معلوم ہوتے ہو کہ میں قوم کا قوال ہوں۔ قوال گاتا ہے تو محفل میں لوگوں کو وجد آتا ہے اور سروپا کا ہوش نہیں رہتا تم نے کبھی کسی قوال کو بھی دیکھا ہے کہ وہ خود بھی وجد میں آ کر الٹنا پلٹنا شروع کر دے۔ اگر قوال ایسا کرے تو قوالی ہی ختم ہو جائے۔ تم لوگ جاؤ جوش و مستی میں حال کھیلو قوال سے یہ توقع نہ رکھو۔ لوگوں کے طعنے سن سن کر اقبال نے بھی اپنے آپ کو بے عمل کہنا شروع کر دیا کہ میں گفتار کا غازی ہوں کردار کا غازی نہیں:
دیا اقبال نے ہندی مسلمانوں کو سوز اپنا
وہ اک مرد تن آساں تھا تن آسانوں کے کام آیا
اقبال تن آسان ہو تو ہو من آسان نہیں تھا۔ من میں تو وہی سوز و ساز رومی اور پیچ و تاب رازی اور دل و جگر سے شعلے اٹھنے کے ساتھ آتش نوائیـ:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
جہاد صرف تلوار ہی سے نہیں ہوتا بلکہ قلم اور زبان اور افکار و جذبات سے بھی ہوتا ہے۔ اور جب تک نفوس میں انقلاب پیدا نہ ہو از روے قرآن کسی قوم کی حالت نہیں بدل سکتی۔ اقبال اس بلند سطح پر مجاہد تھے۔ لیکن عام لوگوںکے نزدیک جسے سیاست کہتے ہیں اس ابلیسانہ بازی کے کھلاڑی نہ تھے۔ ایک صاحب نے خط میں یہی تقاضا کیا کہ آپ عملی سیاست میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ اس کے جواب میں جو اشعار کہے ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ اقبال اپنی طبیعت کے انداز اور اپنے وظیفہ حیات سے پوری طرح واقف ہو گیا تھا۔ اب لوگوںکے تقاضے اور طعنے اس کواپنے مخصوص مشن سے ہٹانہ سکتے تھے۔
ایک خط کے جواب میں
ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز
حصول جاہ ہے وابستہ مذاق تلاش


ہزار شکر طبیعت ہے ریزہ کار مری
ہزار شکر نہیں ہے دماغ فتنہ تراش


مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز
جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش


یہ عقدہاے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فرض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش


ہواے بزم سلاطین دلیل مردہ دلی
کیا ہے حافظ رنگیں نوا نے راز یہ فاش


گرت ہواست کہ با خضر ہم نشیں باشی
نہاں ز چشم سکندر چو آب حیواں باش
میں اور تو کے عنوان سے بانگ درا میں ایک غزل نما نظم ہے، جس میں اقبال اپنی کیفیت کا عام افراد ملت کے فکر و عمل سے مقابلہ کرتا ہے۔ یہ ان چند نظموں میں سے ہے جن میں یاس کا رنگ امید پر کسی قدر غالب معلوم ہوتا ہے۔ ملت کی موجودہ پست حالت کے مدنظر وہ اپنی کوششوں کو بے سود اور بے اثر سمجھتا ہے:
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا، نہق رینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاک جادوے سامری، تو قتیل شیوۂ آزری
فرماتے ہیں کہ کلام کا فیضان تو کسی رنگ میں مجھے بھی حاصل ہے مگر موسیٰ عمران کو جو خدا سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا اور جو باطل شکن جذبہ اور انقلاب آفرین قوت اس میں پیدا ہوئی وہ مجھ میں کہاں ہے میں ابھی تک زندگی کی نمود بے بود پر مٹا ہوا ہوں اور عصر حاضر کے سحر کا اثر مجھ میں موجو ہے۔ اسی لیے میرا کلام موثر نہیں ہوتا۔ دوسری طرف عام مسلمان ہیں جو بت گر اور بت پرست ہیں۔ ملت ابراہیمی کی پیروی کا دعویٰ موجود ہے لیکن عمل میں باطل معبودوں اور ہوے نفس کی پرستش ہے۔ میری خامی کی وجہ سے میرے کلام میں یہ حال ہے کہ نوا گلے اندر ہی راکھ ہو جاتی ہے۔ ادھر تیری زندگی میں کوئی نظر نہیں آتا۔ تیری ظاہری اور باطنی کیفیت برگ خزاں رسیدہ کی طرح رنگ و بو سے محروم ہے۔ کچھ اپنی کیفیت اور کچھ تیری کیفیت دیکھ کر میرا عیش غم میں اور شیرینی حیات زہر میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تیرے دل کو خدا نے حرم اور اپنا مسکن بنایا تھا۔ لیکن تو اس کو غیر اسلامی شعائر کے ہاتھ گرو رکھ دیا۔ اب تو جسے دین کہتا ہے وہ کافروں کی دکان سے خریدا ہوا مال ہے:
میں نواے سوختہ در گلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو
میں حکایت غم آرزو، تو حدیث ماتم دلبری

 مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفس عدم
ترا دل حرم، گرو عجم، ترا دیں خریدۂ کافری
اگر میری یاد غلطی نہیں کرتی تو یہ نظم ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء کے لگ بھگ زمانے میں کہی گئی اور انہیں دنوں میں علامہ نے مجھ سے یہ ذکر کیا کہ قاآنی کے قصائد کا ترنم مجھے بہت دلکش معلوم ہوتا ہے۔ جی چاہتا ہے کہا سی انداز کے کچھ اشعار لکھوں۔ یہ نظم غالباً اس خواہش کا اولیں ثمر تھی۔ بعد میں فارسی کے کلام میں بعض نظموں میں اس ترنم اور صنعت ترصیع میں بہت ترقی ہو گئی اور وہ نظمیں ایسی ہیں کہ قا آنی کے ترنم کی سطح پر پہنچ گئی ہیں، اگرچہ معانی کے لحاظ سے قاآنی کے مقابلے میں اقبال کے اشعار میں بہت زیادہ ثروت افکار، بہت زیادہ گہرائی اور بلندی ہے۔
اقبال کی بعض غزلوںمیں حافظ کا بھی رنگ ہے اور جا بجا بیان کے سانچے بھی بعض فارسی اساتذہ کا فیضان ہیں۔ لیکن معانی نظریات حیات میں اقبال عجمیت سے کوسوں دور ہو گیا ہے۔ ساغر و خم و مینا پرانے ہیں لیکن ان میں شراب ایک دوسرے قسم کی ہے۔ اقبال کو اس کا واضھ احساس تھا کہ میرے ساز پر عجمی مضراب تاروں کو جنبش دیتی ہے، مگر کیا کروں یہ بیان اور طبیعت کی مجبوری ہے۔ اسی لیے کہتا ہے کہ میں اس کا ستم رسیدہ ہوں لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس میں سے جو نوا نکلتی ہے وہ اسلامی ہوتی ہے۔ لطافت بیان اقبال کو عجمی یعنی فارسی شاعروں سے جو کچھ حاصل ہوا اس کا اقرار اقبال نے کئی جگہ کیا ہے۔ وہ اس کو اپنی طبیعت کا جزو لاینفک سمجھتا ہے، مگر کلام کی اس ہم آہنگی کے باوجود نئے نظریات حیات اشعار میں ڈال دیتا ہے جن سے فارسی شاعری زیادہ تر عاری تھی:
مرا ساز اگرچہ ستم رسیدۂ نغمہ ہائے عجم رہا
وہ شہید ذوق وفا ہوں میں کہ نوا مری عربی رہی
اس کا مقابلہ غالب کی طبیعت سے کیجئے جو کہتا ہے میری نہاد عجمی ہے، اس لیے دین عربی میرے دل و دماغ میں سرایت نہیں کرتا:
رموز دین نہ شناسم، عجب مدار زمن
کہ دین من عربی و نہاد من عجمی است
اقبال اپنی طبیعت میں کئی قسم کے عناصر پاتا ہے عجمی عنصر کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ لیکن اقبال ایرانی تو نہ تھا ہندی نژاد تھا۔ پنجابی ہو یا اردو، ہندوستان ہی کی زبان بولتا اور اردو کا قادر الکلام شاعر تھا۔ ایرانی اثر کے علاوہ ہندی عوامل اور محرکات بھی اس کی طبیعت میں موجود تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ورود اور اس وطن کے باشندوں سے میل جول کی بدولت اردو زبان پیدا ہو گئی۔ جس کے اندر قوت اظہار فارسی سے کچھ کم نہیں۔ یہ زبان فارسی اور عربی سے بھی فیض یاب ہے اور ہندی بھاشا سے بھی۔ زبان کا اثرتہذیب اور نظریہ حیات پر بھی پڑتا ہے، بلکہ وہ انداز حیات کی ترجمان ہوتی ہے، لیکن مسلمان کی طبیعت اس کی معاشرت اور اس کے دینی افکار و شعائر میں لازماً عربی اور اسلامی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں۔ انیسویں صدی میں ایک نئی تہذیب، نئی حکمت فرنگی تسلط کی بدولت پیدا ہوئی اور پہلے عناصر سے مل کر اس نے ایک نیا مرکب بنا لیا۔ اس نئے عنصر کا، جو اس معجون مرکب میں داخل ہوا۔ اقبال مداح بہ کم ہے اور مخالفانہ نقاد بہ زیادہ۔ زیادہ تر اس کو مخرب ملت ہی سمجھتا ہے، مگر اقبال کی اپنے متعلق صاف گوئی کی داد دینی چاہیے کہ علی الاعلان اپنی طبیعت کا تجزیہ کرتا ہے اور اچھے برے تمام عناصر کو بیان کر جاتا ہے۔ مغربی تعلیم کی وجہ سے اقبال کے استدلال میں اکثرمغربی فلاسفہ کا اثر نمایاں ہو جاتا تھا۔ نئے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے جب علمی بحث کرتے تھے تو غیر شعوری طور پر انگریزی زبان استعمال کرنے لگتے تھے۔ ان کے اسلام پر انگریزی خطبات میں بھی مغربی مفکرین کا رنگ موجود ہے، اسی لیے بعض قدامت پسند مسلمانوں کو یہ خطبات پسند نہیں آئے۔ اقبال اس انداز استدلال کا دلدادہ نہ تھا۔ لیکن ان خطبات میں جو گروہ اس کے مخاطب تھے ان کے لیے طرز استدلال اسی انداز کا ہو سکتا تھا۔ ’’ کلمو علی قدر عقولہم‘‘ اقبال کی اپنی فطرت وجدانی تھی، استدلالی نہ تھی۔ اس لیے اس وجدان کے بیان میں استدلال کو وہ آلودگی ہی سمجھتا تھا۔ مگر دیکھئے ان تمام عناصر کو کس اختصار اور خوبی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:
کوئی دیکھے تو میری نے نوازی
نفس ہندی، مقام نغمہ تازی


نگہ آلودۂ انداز افرنگ
طبیعت غزنوی قسمت ایازی
اقبال نے جس عشق کی تلقین کی وہ مجاہدانہ اور انقلاب آفرین ہے۔ اس کا عشق جدوجہد کا پیغام ہے، اس لیے اپنی طبیعت کو غزنوی کہتا ہے۔ محمود غزنوی کے مقاصد کے متعلق خواہ کچھ ہی رائے قائم کی جائے، اسے غازی سمجھا جائے یا محض چنگیز خان اور نپولین کی طرح ایک فاتح، لیکن اس کی بے پناہ ہمت کی تو داد دینی پڑتی ہے۔ ایسی طبیعت کے ساتھ اقبال کے لیے ملک و ملت کی سیاسی غلامی سوہان روح تھی۔ اقبال عمر بھر اپنی قوم کو اور اپنے آپ کو اس غلامی سے نجات دلانے میں کوشاں رہا۔ پاکستان کا قیام انہیں کوششوں کا نتیجہ تھا۔ افکار اور جذبات اقبال نے پیدا کیے اور ان کو عملی سیاست کا جامہ ایک دوسرے انداز کے ماجدہ نے پہنایا۔
اقبال کے اکثر نقاد اس پر بحث کرتے ہیں کہ ا س کی نظر ماضی پر جمی ہوئی ہے یا مستقبل پر۔ محض ماضی پر نظر جمانے والے قدامت پرست اور رجعت پسند کہلاتے ہیں اور بعض ترقی پسند کہلانے والوں نے اقبال کو ایسا ہی سمجھا ہے وہ کہتے ہیں کہ وہ اسلام کے دور اولین کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ لیکن زمانہ تیرہ سو برس کی رجعت قہقری کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن اقبال کے کلام کا ایک بڑا حصہ جدت پسندی اور جدت آفرینی پر مشتمل ہے۔ وہ تقلید کی شدت سے مخالفت کرتا ہے اور مقصد محض کو بے بصر سمجھتا ہے۔ اس کے اندر ایک نیا عالم اور نیا آدم پیدا کرنے کی شدید آرزو ہے۔ اس کا نظریہ حیات ارتقائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی نئے انواع اور نئے انداز پیدا کرتی ہے اور جہاں یہ نو آفرینی نہ ہو وہاں زندگی جامد ہے۔ وہ زندگی میں شب و روز کی تکرار سے بھی بے زار ہے اور خدا سے کہتا ہے:
طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
قدامت پسندی اور ارتقاء بظاہر متضاد معلوم ہوتے ہیں لیکن اقبال کو ان میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ وہ اسلام کو ایک ترقی پسند دین سمجھتا ہے اور خالص اسلام کے نمونے اس کو طلوع اسلام ہی کے دور میں نظر آتے ہیں۔ اسی لیے وہ مسلمان سے کہتا ہے کہ ترقی کرنا چاہتے ہو تو اس دور اولین کے اقدار اور طرز فکر و عمل کا مطالعہ کرو۔ پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بڑھو۔ آگے بڑھنے کے لیے کوئی نصب العین چاہیے۔ لامتناہی ترقی کا نصب العین اسلام نے ہی پیش کیا تھا۔ اس کی بعض ظاہری صورتیں تو واپس نہیں آ سکتیں او رنہ اقبال ان تمام صورتوں کو واپس لانا چاہتا ہے۔ اس کا مقصود روح اسلام ہے، جس نے ایک زمانے میں وہ صورتیں پیدا کی تھیں۔ اگر پھر وہی روح عود کر آئے تو نئی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ وہ مسلمانوں کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، اس لیے وہ ایک کھوئی ہوئی چیز کی مسلسل جستجو کرتا رہتا ہے۔ اس کے نزدیک انقلاب کی آرزو اس کے منافی نہیں:
میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگذشت کھوئے ہووں کی جستجو
ایک دوسری نظم میں اپنے مسلک کو ایک مصرعے میں بیان کر دیا ہے:
دیکھتا ہوں دوش کے آئینے میں فردا کو میں
زمانہ حال میں مسلمانوں کے اکابر میں آغا خان بہت ترقی پسند شمار ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اس قدر ترقی پسند ہیں کہ عامتہ المسلمین انہیں یا موقع پرست سمجھتے ہیں یا مغرب زدہ۔ ایک مخصو ص عقائد کی محدود سے جماعت کے امام ہونے کی حیثیت سے علمی اور نظری اعتبار سے، تو ترقی پسندی ان سے کوسوں دور ہونی چاہیے۔ لیکن زندگی کی منطق کچھ اور ہی ہے وہ رسوم و رواج میں تبدیلی اور تنوع چاہتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں انہوں نے اخبار میں شائع شدہ ایک بیان میں بڑے زور سے اس عقیدے کی تلقین کی اور تمام عالم اسلامی کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر اسلام کی بناء پر تہذیب و تمدن میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو فقط طلوع اسلام کے دور کو دیکھو اور اسی روح کی اساس پر زندگی کی نئی تعمیریں قائم کرو۔ تاریخ اسلام میں بعد کی صدیوں سے اگر کوئی نصب العین حاصل کرنا چاہو گے، تو دگدا میں پڑ جاؤ گے۔ معلوم ہوا کہ کسی انقلاب پسند اور ترقی پسند مسلمان کے لیے بھی ماضی کے آئنے میں مستقبل کو دیکھنا کوئی متضا دبات نہیں۔
اقبال نے اپنی طبیعت کے ایک اور امتیازی عنصر کو بھی کئی جگہ بیان کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آفرینش فکر اور فن لطیف کے لیے خارجی محرکات لازمی ہیں اور جب تک ماحول میں کوئی تقاضا موجود نہ ہو، طبیعتوں کے اندر سے نئی باتیں نہیں ابھرتیں۔ یہ ایک متنازع مسئلہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انقلاب ماحول کے تغیر سے پیدا ہوئے ہیں یا غیر معمولی انسانوں کے نمودار ہونے سے۔ اشتراکی فلسفہ ماحول کو اہم اور مقدم سمجھتا ہے اور اس کی تعلیم یہ ہے کہ معاشی زندگی میں تبدیلی سے علوم و فنون اور مذہب و اخلاق بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ انبیا ہوں یا مصلحین، سب معاشی تغیرات کی پیداوار ہیں۔ اقبال اس کے برعکس اور کار لائل کا ہم نوا ہو کر، زندگی کو بدلنے والے اور آگے بڑھانے والے عوام میں غیر معمولی انسانوں کو موثر عامل سمجھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اقبال کو ماحول نے پیدا کیا یا اقبال نے ایک نیا ماحول پیدا کیا۔ اقبال کا اپنے متعلق یہ احساس ہے کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ میرے باطن میں ابھرا ہے۔ پنجاب کے یا ہندوستان کے عام ماحول نے، جس سے مسلمان کم و بیش ایک ہی طرح متاثر تھے، نہ اقبال سے پہلے کوئی ایسا شاعر پیدا کیا اور نہ اقبال کے بعد۔ اردو شاعری کو ہندوستان کے اہل زباں او روہاں بھی خاص شہروں کے لوگ اپنا اجارہ سمجھتے تھے اور حالی جیسے شاعر پر بھی طعنہ زنی کرتے تھے کہ وہ دہلی کا نہیں بلکہ پانی پت کا باشندہ ہے۔ اس سے جل کر حالی نے کہا تھا:
حالی کو تو بدنام کیا اس کے وطن نے
پر آپ نے بدنام کیا اپنے وطن کو
اہل پنجاب کو تو بھلا یہ لوگ کس شمار میں لاتے، لیکن دہلی اور لکھنو کوئی اقبال پیدا نہ کر سکے۔ سرسید کی تحریک بڑے زور کی اصلاحی تحریک تھی۔ سرسید کے رفقا نے مسلمانوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیا اور مسلمانوں کے لیے بصیرت افزاء چیزیں چھوڑ گئے۔ اس تحریک نے حالی کی تو معمولی غزل گوئی سے نکال کر قومی اور حکیمانہ شاعری کی طرف رہنمائی کی، لیکن وہاں بھی ادیبوں اور شاعروں کے ہجوم میں سے کوئی اقبال پیدا نہ ہو سکا۔ اس لحاظ سے اقبال کا یہ خیال غلط نہ تھا کہ میرے نظریات اور جذبات اور میرے کلام میں جو امتیازی خصوصیت ہے وہ میرے باطن میں سے ابھری ہے۔ میں اس کے لیے خارجی ماحول کا نہ محتاج تھا اور نہ رہین منت:
اقبال نے کل اہل خیاباں کو سنایا
یہ شعر نشاط آور و پر سوز و طربناک


میں صورت گل دست صبا کا نہیں محتاج
کرتا ہے مرا جوش جنوں میری قبا چاک
غالب کہتا ہے:
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارا چاہیے
لیکن حضرت اقبال خارجی بہار کے اشاروں پر نہیں بلکہ باطنی وجدان کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ اس لیے فرماتے ہیں کہ میں دست صبا کا محتاج کیوں ہوں، میری فطرت خود نسیم سحری ہے:
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی کبھی تیز

 پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
اقبال کو طبعاً امارت کے ٹھاٹھ پسند نہ تھے۔ اگر وکالت کے پیشے کی طرف پوری توجہ کرتے تو بہت سی دولت کما لیتے، لیکن زر اندوزی ان کا مقصود نہ تھا۔ رہائش کا طرز نہایت سادہ تھا۔ خورو نوش بھی سادہ، مکان میں آرائش کا سامان مفقود۔ کچھ طالب علمانہ اور قلندرانہ سی زندگی تھی۔ اسے درویشی یا غریبی تو نہیں کہہ سکتے، لیکن سادگی ضرور تھی۔ طبیعت میں اسباب حیات اور ماحول کے متعلق ایک قلندرانہ بے پروائی تھی۔ اقبال نے جا بجا قلندری کا ذکر کیا ہے۔ یہ کوئی بناؤٹ کی بات نہ تھی بلکہ اس کی فطرت کا میلان تھا۔ اپنے فرزند جاوید کو بھی نصیحت کرتے ہیں:
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آرائش و زیبائش کے سامان اور امیرانہ طرز زندگی کسی حد تک خودی کو بیچ کر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ کہیں دروغ، کہیں خوشامد، کہیں دنیا داری کے دام فریب، اخلاق اور روحانیت بلکہ علم و فن میں بھی اپنے کمال کو ملوث ہونے سے بچانے کے لیے قلت احتیاج لازمی چیز ہے۔ احتیاج میں اضافہ کرنا بزدلی اور مکاری پیدا کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی خودی کو اپنی سادہ زندگی کی بدولت بچایا۔ میری میری اور امیری زیادہ تر ایسے ہی لوگوں کے درمیان نظر آتی ہے جو یا تو دین سے معرا ہیں اور یا دین اور دولت کے درمیان عقل کی حیلہ گری سے ایک سمجھوتا قائم کر لیا ہے۔ر وحانی لحاظ سے تو دنیا کے اکثرت دولت مند مردان فرومایہ ہی نظر آتے ہیں۔ اس لیے تاریخ ادیان پر نظر ڈالو تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر روحانی پیشوا درویش تھا۔ اقبال بھی کہتا ہے:
اک مفلس خود دار یہ کہتا تھا خدا سے
میں کر نہیں سکتا گلہ درد فقیری
  
لیکن یہ بتا تیری اجازت سے فرشتے
کرتے ہیں عطا مرد فرو مایہ کو میری؟
ہندوستان میں فرنگی حکومت کے دوران میں کسی شخص کو جاہ و مال حاصل نہ ہو سکتا تھا جب تک کہ وہ حکام کی خوشامد نہ کرے اور مال کو قرب حکام کا ذریعہ نہ بنائے۔ خوشامد سے عہدے اور خطاب ملتے تھے۔ کسی شخص کے حقیقی کمال کی کچھ پرسش نہ تھی۔ ایسی حالت میں اہل دل کے لیے درویشی اور بھی زیادہ لازم ہو جاتی ہے۔ اسی کیفیت کو اقبال نے اس قطعے میں بیان کیا ہے:
فرنگ آئین رزاقی بداند
بایں بخشد ازو وا می ستاند
  
بہ شیطان آنچناں روزی رساند
کہ یزداں اندراں حیراں بماند
اقبال جو اپنے کلام میں خودی کا پیامبر دکھائی دیتا ہے وہ اپنی زندگی میں بھی نہایت درجہ خود دار تھا۔ اسے اپنی خود داری کا بڑا پاس اور گہرا احساس تھا۔ سر اکبر حیدری نے جو اقبال کی دوستی کا دم بھرتے تھے، لیکن حد درجے کے دنیا دار تھے، یہ دیکھ کر کہ اقبال مفلس ہو گیا ہے، اس کو نظام کے توشہ خانے سے ایک ہزار روپیہ کا چیک بھجوا دیا۔ یہ حقیقت میں ایک خیراتی فنڈ میں سے دیا گیا تھا۔ اقبال کی خود داری کو اس سے نہایت ٹھیس لگی وہ چیک واپس کر کے کچھ اشعار لکھ دیے کہ خدا اگر اپنی خدائی کی زکوٰۃ نکالتے ہوئے مجھے شکوہ پرویز بھی عطا کرے تو میں اس کو ہر گز نہ قبول کروں:
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے، یہ ہے میری خدائی کی زکوٰۃ
اقبال رفتہ رفتہ رہین عشق اور مست خودی ہو کر ہر اس چیز سے بے نیاز ہو گیا جس کا ماخذ یا مظہر عشق نہ ہو ۔ اس کیفیت کے متعلق اس نے جو کچھ کہا اور وعدہ کیا ہے، اس میں قطعاً کوئی تعلی یا تصنع نہیں ہے۔ جو اقبال کے خلوص سے پوری طرح آشنا نہ ہو وہ اسے شاعرانہ تعلیٰ سمجھے گا:ـ
جہاں از عشق و عشق از سینہ تست
سرورش از مے دیرینہ تست
  
جز ایں چیزے نمیدانم ز جبریل
کہ او یک جوہر از آئینہ تست
٭٭٭
مرا ایں سوز از فیض دم تست
بتاکم موج مے از زمزم تست


خجل ملک جم از درویشی من
کہ دل در سینہ من محرم تست
اقبال نے رومی کی مریدی محض اس لیے اختیار کی کہ وہاں اس کو عشق کی وہ کیفیت نظر آئی، جس کا وہ طالب تھا اس کے عشق میں بصیرت بھی ہے اور حمیت بھی اور اس کا مقصود خدا سے ہم آہنگی پیدا کر کے خودی کو خدا سے ہم کنار کرناہے۔ یہ عشق خدا طلبی میں ارتقاء کوش ہو جاتا ہے۔ اپنی بابت اقبال نے بہت سی باتیں کہی ہیں۔ کہیں اپنی خوبیاں بتائی ہیں اور کہیں خامیاں۔ لیکن ان تمام مراحل سے گزر کر وہ جو کچھ وہ گیا اور جس کا اعلان اس نے ببانگ دہل کرنا شروع کیا، وہ اس عشق میں غوطہ زنی تھی جس کی طرف عارف رومی نے اس کی رہنمائی کی۔ آخر عمر میں اقبال کو یہ قویٰ احساس تھا کہ میں رومی کا ہم رنگ ہو گیا ہوں اور اس دور میں میر امشن وہی ہے جو اپنے زمانے میں رومی کا مشن تھا:
بکام خود دگر آں کہنہ مے ریز
کہ با جامش نیرزد ملک پرویز
  
ز اشعار جلال الدین رومی
بہ دیوار حریم دل بیاویز
٭٭٭
بگیر از ساغرش آں لالہ رنگے
کہ تاثیرش دہد لعلے بہ سنگے
  
غزالے را دل شیرے بہ بخشد
بشوید داغ از پشت پلنگے
٭٭٭
سراپا درد و سوز آشنائی
وصال او زباں دان جدائی
  
جمال عشق گیرد از نے او
نصیبے از جلال کبریائی
٭٭٭
گرہ از کار ایں ناکارہ وا کرد
غبار رہگذر را کیمیا کرد
  
نے آں نے نوازے پاکبازے
مرا با عشق و مستی آشنا کرد
٭٭٭
ز رومی گیر اسرار فقیری
کہ آں فقر است محسود امیری
  
حذر زاں فقر و درویشی کہ از وے
رسیدی بر مقام سر بزیری
٭٭٭
مے روشن ز تاک من فرو ریخت
خوشا مردے کہ در دامانم آویخت
  
نصیب از آتشے دارم کہ اول
سنائی از دل رومی بر انگیخت
٭٭٭
اقبال کے کلام میں اور بھی بے شمار اشعار منتشر ملیں گے جن میں وہ اپنی طبیعت کا جائزہ لیتا ہے۔ اس باب کو ختم کرتے ہوئے ہم اس کے اور اشعار درج کرتے ہیں۔ دیکھئے کہ ایک ہی شعر میں اپنے کتنے صفات بیان کر ڈالے ہیں۔ اقبال کو قریب سے دیکھنے والا کوئی شخص اس کا انکار نہ کر سکے گا کہ جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے:
پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
  
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند

٭٭٭