حضرت علامہ , عبدالواحد ایم۔ اے

حضرت علامہ
عبدالواحد ایم۔ اے

میں1917ء میں مرے کالج سیالکوٹ کی انٹرمیڈیٹ جماعت کے سال اول میں داخل ہوا۔ ان دنوں وہاں عربی کے پروفیسر مولوی میر حسن مرحوم1؎ تھے۔ مولوی صاحب کو سیالکوٹ میں ہر چھوٹا بڑا جانتا تھا۔ ان کی خود داری اور وضع داری ضرب المثل تھیں۔ ان کی شخصیت اس قدر پر وقار اور با رعب تھی اور وہ اس قدر معاملہ فہم اور نکتہ شناس تھے کہ گو وہ انگریزی بالکل نہ جانتے تھے، پرنسپل صاحب کالج کے تمام انتظامی معاملات میں سب سے پہلے ان سے استصواب رائے کرتے۔ مولوی صاحب بہت ضعیف تھے، ایک لمبا سا عصا ہاتھ میں رکھتے اور اس کے سہارے نہایت آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم لے کر چلتے۔ لیکن پابندی اوقات کا یہ عالم تھا کہ کالج میں وقت مقررہ سے نہ کبھی ایک سیکنڈ پہلے پہنچتے نہ بعد۔ وہ اپنے مکان سے کالج تک جو کم و بیش دو میل کا فاصلہ تھا، تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں پہنچتے، لیکن جاتے ہمیشہ پیدل ۔ ایک دن پرنسپل صاحب نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ تانگے پر آیا کیجئے، الاؤنس آپ کو کالج دے دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ بھائی کیا تم یہ چاہتے ہو کہ ٹانگوں میں جو رہی سہی سکت ہے وہ بھی کھو دوں۔ اسی طرح چشمہ لگانے کے سخت مخالف تھے، گو بینائی اس قدر کمزور تھی کہ پڑھتے وقت کتاب بلا مبالغہ ناک سے چھو جاتی۔ ان کا لباس تمام تر سفید ہوتا تھا؟ شاید سفید داڑھی کی مناسبت سے۔ گرمیوں میں لٹھے کا پاجامہ اور ململ کا لمبا کرتہ اور پگڑی، جاڑوں میں پاجامہ اور کرتہ روئی دار۔ کالج میں لڑکے اور پروفیسر سب ان سے اس قدر مرعوب تھے کہ ان کو دور سے آتے دیکھ کر یا تو راستے سے ہٹ جاتے یا جلدی سے سلام کر کے ایک طرف کو ہو جاتے۔ ان کے طالب علم جو ان سے عربی پڑھتے تھے کچھ سہمے سے رہتے تھے۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ وہ علم کا سمندر ہیں، لیکن ان سے کچھ حاصل کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے کیونکہ وہ شروع شروع میں بہت سختی کرتے ہیں اور بات بات پر ڈانٹ دیتے ہیں۔ جو شخص یہ پہلا مرحلہ کامیابی سے طے کر لے پھر اس پر اپنا فیض عام کر دیتے ہیں۔
میں نے عربی نہیں لے رکھی تھی، لیکن چونکہ پڑھنے پڑھانے کا شوق تھا اس لیے مولوی صاحب کی قابلیت سے حتی المقدور استفادہ کرنے کی خواہش ہمیشہ سے دل میں موجزن تھی۔ میرے لیے ان میں جو جاذبیت تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اقبال کے استاد تھے۔ کالج میں داخل ہوتے ہی میں نے فیصلہ کیا کہ مولوی صاحب کی خدمت میں بحیثیت شاگرد ہونے کا یہ سب سے اچھا موقعہ ہے۔ اب میں بہانہ ڈھونڈنے لگا کہ کسی ترکیب سے ان کے پاس جاؤں۔ ان دنوں میں مولوی محمد علی صاحب کا قرآن شریف کا ترجمہ پڑھا کرتا تھا، میں نے سوچا کہ مولوی صاحب سے یہی کیوں نہ پوچھ لیا جائے کہ آپ معجزات کی استدلالی تاویل کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ چنانچہ ایک دن جب وہ فارغ بیٹھے تھے میں لرزتا کانپتا ان کے کمرے میں داخل ہوا اور سلام عرض کیا، ادھر سے کچھ جواب نہ ملا۔ میں خاموش بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمانے لگے، کہو بھئی کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ آج کل میں مولوی محمد علی صاحب کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں، اس کے پڑھنے سے میرے ذہن میں ہیجان سا پیدا ہو گیا ہے۔ آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ معجزات کی حقیقت پر کچھ روشنی ڈالیں۔ ’’ تو یعنی تم نیچری ہو گئے ہو۔ نکل جاؤ یہاں سے، تمہارا کیا کام ہے یہاں، جاؤ محمد علی کے پاس، نکل جاؤ‘‘ میں گھبرایا تو بہت، لیکن دل کڑا کر کے خاموش بیٹھا رہا۔ کچھ دیر کے بعد وہ پسیجے اور کہنے لگے کہ آج فرصت نہیں، کل آنا۔
اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مولوی صاحب محض خشک عالم تھے۔ ان کی طبیعت کا ایک لطیف پہلو بھی تھا، لیکن ان کی ظرافت اور شگفتہ مزاجی خاص خاص موقعوں پر ظاہر ہوتی تھی۔ ان کی گلی کے سامنے بازار میں کنجڑوں اور کنجڑیوں کی گویا مارکیٹ لگا کرتی تھی۔ آپ خود سبزی خریدا کرتے تھے۔ اس خرید و فروخت کے وقت کنجڑوں اور خاص کنجڑیوں سے جو مزے کی باتیں ہوتیں اور جو قہقہوں کی آوازیں بلند ہوتیں وہ اس بازار میں رہنے والے لوگ کبھی نہیں بھول سکتے۔ ان دنوں کالج کے نزدیک ایک میدان میں جلاہیاں تانا تنا کرتی تھیں جب وہ مولوی صاحب کو دور سے آتا دیکھتیں تو مارے خوشی کے اچھل پڑتیں اور کہتیں ’’ وہ بابا آیا۔‘‘ مولوی صاحب ٹھہرتے نہیں تھے، لیکن ان کو وہاں سے گزرتے گزرتے کوئی پندہ منٹ ضرور لگ جاتے اور اس دوران میں ہر ایک جلاہی سے کوئی نہ کوئی ہنسی ٹھٹھے کی بات ضرور ہو جاتی۔ ایک دفعہ مولوی صاحب سٹاف میٹنگ میں دو منٹ دیر سے پہنچے۔ یہ واقعہ اس قدر خلاف معمول یا یوں کہیے کہ خلاف عادت تھا کہ کالج میں چرچا ہو گیا۔ ہر ایک یہ کہتا پھرتا تھا کہ مولوی صاحب کل دو منٹ دیر سے آئے۔ میں نے اتفاقاً پرنسپل صاحب سے پوچھا:’’ سنا ہے کہ مولوی صاحب کل وقت پر نہ پہنچ سکے، کیا یہ درست ہے؟‘‘ پرنسپل صاحب نے کہا:’’ ہاں درست ہے اور میں تمہیں مولوی صاحب کا ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ کل جب وہ سٹاف روم میں داخل ہوئے تو میں نے از راہ تمسخر گھڑی دکھاتے ہوئے مولوی صاحب سے کہا کہ دیکھئے مولانا آپ نے ہمیں پورے دو منٹ تک انتظار کرایا۔‘‘ مولوی صاحب نے فوراً کہا، ’’ بھئی ایسی بھی کیا بات ہے؟ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اس دنیا میں تمہارا کتنے برس انتظار کیا۔‘‘ (پرنسپل صاحب کی عمر اس وقت کوئی پینتالیس سال تھی)
میں سمجھتا ہوں کہ اقبال کی خود داری، وضعداری اور شگفتہ مزاجی کو ان کے استاد کی طبیعت کی بھی خصوصیات سے ایک گہری مناسبت ہے۔
مجھے اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف سب سے پہلے ان دنوں حاصل ہوا جب وہ میکلوڈ روڈ والے مکان میں رہتے تھے۔ میں کئی دفعہ اس سڑک پر سے گزرا کرتا تھا اور ہر دفعہ نگاہ خود بخود ان کے مکان کے دروازے کی طرف جاتی جس میں سے کچھ فاصلے پر برآمدے کے دو ستون دکھائی دیتے تھے اور بس گو اقبال کو دیکھنے کی خواہش مدت سے تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بغیر تقریب کے کسی طرح چلا جاؤں اور اقبال کا میری طبیعت پر غائبانہ طور پر کچھ ایسا رعب طاری تھا۔ گو میرے ایک دو دوست ان کے ہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے او رمجھ سے کہتے بھی تھے کہ آؤ تمہیں بھی لے چلیں، لیکن میں نے ہر دفعہ یہ وہ کہہ کر ٹال دیا۔ ایک تو میں فطری طور پر اختلاط سے کتراتا ہوں اور دوسرے شاید میں یہ سمجھتا تھا کہ شاگرد بھی استاد کی طرح ہو گا اس لیے اپنے پرانے تجربے کو کیوں دہرایا جائے۔ لیکن چونکہ میرے دوست میرے انتہائی شوق سے بے خبر نہ تھے، اس لیے ایک دن وہ مجھے کھینچ کر لے ہی گئے۔ سڑک والے گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی میرے دل کی دھڑکن ذرا تیز ہو گئی۔ آگے جا کر میرے دوست نے ان کے ملازم علی بخش سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کر دو۔ اس نے واپس آ کر کہا کہ چلے جائیے۔ ہم برآمدے میں سے ہوتے ہوئے دائیں جانب ایک کمرے میں داخل ہوئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
میں نے اپنے ذہن میں اقبال کی ایک خاص شبیہہ تجویز کر رکھی تھی۔ میں سمجھتا تھا کہ وہ نہایت پر ہیبت شخص ہو گا۔ اس کی پیشانی پر ہمیشہ غصے کی وجہ سے شکن رہتے ہوں گے۔ اقبال سے ہمکلام ہونا ہر ایک کے بس کی بات نہ ہوتی ہو گی، کیونکہ اس سے تو وہی گفتگو کرے جس کی علمیت اور ذہانت بہت بلند پائے کی ہو، ورنہ جب کبھی اقبال نے کسی کے منطقی استدلال میں کوئی خامی دیکھی، جھٹ وہیں ڈانٹ بتا دی۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس نکلی۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی اقبال نے مجھے بظاہر سرسری طور پر ایک نظر سے دیکھا، لیکن مجھے یہ محسوس ہوا کہ ان کی نگاہ میرے روح و قلب کی گہرائیوں تک سرایت کر گئی ہے اور انہوں نے میری شخصیت کا ایسا مکمل جائزہ لے لیا ہے کہ ان سے کچھ مخفی نہیں رہا۔ ہم کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ فروری کے آخری دن تھے، ہلکی ہلکی سردی تھی، علامہ اقبال ایک بادامی رنگ کا دھسہ اوڑھے، حقے کی نے منہ میں لیے بستر پر گچھا مچھا بنے، تکیے پر ٹیک لگائے، آدھے لیٹے آدھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی بے تکلفی اور لا ابالی پن دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ میں نے دیکھا کہ اقبال محض انسان نہیں مافو ق البشر ہیں۔ کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے، ان کا انداز بھی بے تکلفانہ تھا۔ ہمارے داخل ہونے کے کچھ دیر بعد تک خاموشی رہی۔ پھر کسی نے کچھ بات کی، میرے دوست نے اپنی رائے ظاہر کی، اقبال نے کچھ کہا ، اوروں نے سلسلہ کلام کو جاری رکھا۔ میں اب بھول گیا ہوں کہ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی، لیکن آخر میںRelativity اور Gravity کا ذکر چھڑ گیا۔ اوروں کو اس طرح آزادانہ گفتگو کرتے ہوئے دیکھ کر میری بھی ہمت بڑھی اور میں نے بھی ایک دو باتیں کہہ دیں علامہ اقبال ہر ایک کو نہایت توجہ سے سنتے، زیادہ تر خاموش رہتے، لیکن جب کبھی مناسب سمجھتے کچھ کہہ بھی دیتے یا جب کبھی کوئی ان سے براہ راست سوال کرتا تو اس کا نہایت سوچ سمجھ اور متانت سے جواب دیتے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ فرما رہے ہیں نہایت غور و خوض کا نتیجہ ہے اور ان کا انداز بیان اس قدر موثر اور دلکش تھا کہ پیچ در پیچ مسائل بھی آسانی سے ذہن نشین ہو جاتے۔
اس مختصر سی صحبت کے بعد مجھے بوجوہ ایک طویل عرصہ تک اقبال کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقعہ نہ ملا۔ پانچ چھ سال کے بعد میں اسلامیہ کالج لاہور میں ملازم ہوا اور یہاں پروفیسر ڈاکٹر سعید اللہ اور پروفیسر حمید احمد خاں سے دوستانہ تعلقات کی بنا پڑی۔ ایک دفعہ (یہ اقبال کی وفات سے تقریباً ایک سال پیشتر کا ذکر ہے)میرے دوستوں نے کہا کہ چلو آج اقبال کے ہاں چلیں۔ میں نے یہ کہہ کر ٹالنا چاہا کہ آپ تو اکثر ان کے ہاں جاتے ہیں لیکن چونکہ میں کبھی نہیں گیا اور وہ مجھے نہیں جانتے اس لیے میر اآپ کے ہمراہ جانا مناسب نہیں۔ دراصل اس دفعہ بھی میری جبلی کم آمیزی مانع ہوئی۔ مگر میرے دوستوں نے کہا کہ گو ہم کئی دفعہ اقبال کے ہاں گئے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیں جانتے ہی ہوں۔ وہاں دیوان عام ہوتا ہے۔ ہر کس و ناکس کو بے دھڑک آنے جانے کی اجازت ہے۔ تم بھی چلے چلو۔ چنانچہ میں ان کے ہمراہ ہو لیا۔
اب اقبال اپنی میو روڈ والی کوٹھی میں رہتے تھے۔ اس سڑک پر سے بھی میں کئی دفعہ گزرا تھا اور اس کوٹھی کو دوران تعمیر میں اور تکمیل کے بعد کئی دفعہ دیکھا تھا۔ اس کوٹھی کی طرز تعمیر سے مجھے ہمیشہ مایوسی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے رواق کے ستونوں پر نظر پڑتی ہے۔ یہ ستون پست قد، نازک اور سبک سے ہیں اور ان کی کرسی مقابلتاً بھاری ہونے کے باعث غیر متناسب معلوم ہوتے ہیں۔ صحن میں دائیں اور بائیں جانب جو کمرے بنے ہوئے ہیں وہ بھی قطعاً نا موزوں ہیں۔ کوٹھی کے کمروں کی چھتیں بہت نیچی ہیں۔ اگر عمارت اقبال کے پسند ہوتی تو اس میں وسعت، رفعت اور جبروت کی خصوصیات ہونا چاہئیں تھیں، لیکن موجودہ عمارت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس میں حسن ضرور ہے لیکن بیگماتی۔ سننے میں آیا ہے کہ اقبال کے عقیدتمندوں میں سے چند مقتدر حضرات ان کے مزار پر اقبال کے شایان شان ایک مقبرہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس دفعہ یہ کام کسی ایسے ماہر فن کے سپرد کرنا چاہیے جس نے اقبال کے کلام کا بغور مطالعہ کیا ہوا ہو اور جو ان کی شخصیت سے بخوبی واقف ہو۔
الغرض ہم ’’ جاوید منزل‘‘ پر پہنچے۔ علی بخش سے کہا گیا کہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ہمارا سلام عرض کر دو۔ ادھر سے وہی جواب آیا کہ آ جائیے۔ ہم ڈرائنگ روم میں سے گزر کر بائیں پہلو والے کمرے میں داخل ہوئے جس میں جناب علامہ اپنے مخصوص انداز میں بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ پلنگ کے پاس تین کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گئے۔ اقبال کی آواز بہت کمزور تھی اور دیرینہ علالت کی وجہ سے جسم نحیف و نزار تھا لیکن نیم وا آنکھوں میں وہی چمک اور نگاہوں میں وہی تیزی تھی جو میں ابھی تک نہیں بھولا تھا اور چہرے پر افسردگی یا تکلیف کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم نے احوال پرسی کی۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اب پہلے سے بہتر ہوں۔ حکیم نابینا صاحب کی دوا استعمال کرتا ہوں، بہت کچھ افاقہ ہے۔ اس سے میں یہ سمجھا کہ اگر آپ کی صحت کا اس وقت یہ عالم ہے تو اس سے پیشتر تو آپ کی حالت بالکل خطرناک صورت اختیار کر گئی ہو گی لیکن مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت اقبال اس قدر خوش امید واقع ہوئے ہیں کہ گو در حقیقت ان کی حالت روز بروز رو بہ تنزل ہی کیوں نہ ہو، ان کو ہمیشہ یقین ہوتا تھا کہ میں بتدریج رو بصحت ہوں۔ نہ معلوم یہ خیال حکیموں کے نزدیک درست ہے یا نہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقبال کی مرگ افگن رجائیت ہی تھی جس کی بدولت وہ اتنی دیر بیماری کا مقابلہ کر سکے، ورنہ اگر کوئی اور شخص انہی موذی امراض میں مبتلا ہوتا تو وہ کبھی کا جاں بحق ہو گیا ہوتا۔ در حقیقت لوگ بھی اقبال کی طبیعت سے واقف ہو چکے تھے۔ ان کی حیرت انگیز تاب مقاومت کے پیش نظر سب جانتے تھے کہ باوجود پے در پے حملوں کے موت ان پر غلبہ نہیں پا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ گو وہ عرصہ دراز تک بیمار رہے، ان کی وفات کی خبر بالکل غیر متوقع تھی۔
اس ملاقات کے بعد مجھے کئی دفعہ اقبال کی قدمبوسی کا شرف حاصل ہوا ہے، لیکن میں ہمیشہ اپنے دوستوں کی معیت میں گیا ہوں، اکیلا جانے کی جرأت میں آخر تک نہیں کر سکا۔
اب میں اقبال
1بینائی کا جاتے رہنا
2یونانی طب، کالی عینک، دواؤں کا تیار کرنا
3تصوف، ریواڑی والے حکیم، لوٹے کا قصہ
کے صرف چند ایسے اقوال بیان کروں گا جو کسی نہ کسی وجہ سے میرے ذہن پر دیرپا نقش چھوڑ گئے ہیں۔
ایک دفعہ ہم تینوں دوست ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اندر جانے کی اجازت پا کر ہم علامہ موصوف کے کمرے میں داخل ہوئے اور السلام علیکم کہہ کر کرسیوں پر بیٹھ گئے تھوڑے عرصہ کے بعد اقبال نے پوچھا’’ کون صاحب ہیں؟‘‘ حمید احمد خاں نے ہم تینوں کے نام بتائے اور کہا کہ ہم اسلامیہ کالج سے آئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا، فرمانے لگے کہ مجھے تمہارا نام دریافت کرنے کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ میری بینائی روز بہ روز کمزور ہو رہی ہے، چنانچہ اب میں آسانی سے کسی کی صورت بھی نہیں پہچان سکتا۔ اس پر میں نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی طویل علالت کے دوران میں مطالعہ ہی ایک ایسا مشغلہ تھا جو آپ کی تسکین کا باعث ہو سکتا تھا، افسوس کہ اب آپ اس سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔ فرمانے لگے کہ نہیں یہ کچھ ایسا نقصان نہیں۔ دیکھیے نا جب سے میں پڑھنے کے قابل نہیں رہا، میرا حافظہ زیادہ قوی اور میری قوت فکر زیادہ تیز ہو گئی ہے۔ اب محض غور و فکر سے مجھے وہ وہ نکات سوجھتے ہیں کہ بہت سا مطالعہ کرنے کے بعد بھی نہ سوجھتے تھے۔ پھر کہنے لگے کہ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میری ایک آنکھ کی بینائی بچپن میں ہی کسی بے احتیاطی کی وجہ سے زائل ہو گئی تھی۔ چنانچہ میں اب تک صرف ایک آنکھ سے کام لیتا رہا ہوں اور مجھے کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ اب یہ آنکھ بھی جواب دے رہی ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا ہے، ان کی رائے ہے کہ اس کو بالکل کوئی ضرر نہیں پہنچا صرف موتیا اتر رہا ہے، جب پک جائے گا تو آپریشن سے آنکھ درست ہو جائے گی۔ فی الحال مجھے کالی عینک استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ آنکھ پر زیادہ زور نہ پڑے۔ دریافت کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ شیشے میں کالا رنگ جست اور سرمے کی آمیزش سے دیا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے سرمے میں بھی یہی دو اجزا ہوتے ہیں۔ چنانچہ میرے خیال میں کالی عینک کا پہننا ویسا ہی اثر رکھتا ہے جیسے آنکھوں میں سرمے کا استعمال۔ میں نے کہا کہ دونوں کا اثر ایک جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ شیشہ تو ہر وقت آنکھ کے سامنے رہتا ہے اس لیے روشنی کی شعاعیں اس میں سے چھن کر آتی ہیں، لیکن سرمہ صرف پپوٹوں میں رہ سکتا ہے۔ فرمایا کہ نہیں، ہر دفعہ آنکھ جھپکنے سے سرمے کی ایک نہایت باریک جھلی آنکھ پر تن جاتی ہے اور یہ وہی کام دیتی ہے جو کالی عینک۔ دراصل علامہ اقبال یونانی طب2؎ کے بہت معتقد تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ طریقہ علاج نہایت مجرب ہے۔ اس کے زیادہ مقبول نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی کوئی معیاری حیثیت نہیں۔ اگر یونانی دوائیں ویسی ہی معیاری ہوں جیسی ایلوپیتھی کی تو یونانی طب کو بہت جلد فروغ ہو سکتا ہے۔ موجودہ صورت میں دواؤں اور مرکبات کا گھر میں تیار کرنا بہت بڑی دقت کا باعث ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کی طبیعت میں عقلیت4؎ کا پہلو بہت نمایاں تھا، لیکن وہ عقل کی گورانہ تقلید نہ کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عشق یا وجدان ہی ایک ایسا ملکہ ہے جس کی بدولت موجودات کے تمام اسرار کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ اکثر صوفیائے کرام کی روایات بیان کیا کرتے تھے جن سے ان کے اس رحجان کا ثبوت ملتا ہے۔
ایک دفعہ ہم تینوں دوست حاضر خدمت ہوئے۔ علامہ موصوف ڈرائنگ روم میں تشریف فرما تھے اور بہت سے لوگ موجود تھے۔ گفتگو جاری تھی جس میں ادب سے نمایاں حصہ ایک حکیم صاحب لے رہے تھے جو ریواڑی سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ یہ حکیم صاحب نہایت خوش اعتقاد واقع ہوئے تھے اور طرح طرح کے نا ممکن الوقوع قصے بیان کر رہے تھے۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک خدا رسیدہ بزرگ نے اپنے ایک مرید کے لیے دعا کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موخر الذکر کے مٹکے اشرفیوں سے بھرے رہتے تھے۔ یہ اور ایسی ہی اور باتیں سن کر حاضرین حکیم صاحب کی سادہ لوحی پر مسکرا رہے تھے۔ لیکن حکیم صاحب کو نہ لوگوں کے تبسم زیرلب کا احساس ہوا اور نہ ان کا یقین متزلزل ہوا۔ اس پر علامہ اقبال نے بھی ایک واقعہ بیان کیا فرمانے لگے کہ ایک دفعہ بابا فرید شکر گنج کا ایک مرید ان کی خدمت میں قدمبوسی کے لیے حاضر ہوا۔ حضرت کے ہاتھ میں اس وقت ایک مٹی کا لوٹا تھا اور آپ وضو کر رہے تھے اتنے میں انہوں نے لوٹے کو اس طرح پھینک دیا جیسے کسی پر دے مارتے ہیں۔ لیکن بجائے اس کے کہ لوٹا تھوڑی دور جا کر زمین پر گر پڑے وہ ہوا میں غائب ہو گیا۔ بہت دنوں کے بعد حضرت کے مریدوں کا ایک قافلہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی قافلہ نے آپ کے سامنے مٹی کے چند ٹھیکرے پیش کیے۔ مرید مذکور نے موقعہ پا کر قافلے والوں سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایران سے آ رہے تھے اور بلوچستان میں سفر کر رہے تھے کہ راستے میں دفعتاً ایک شیر نے ہم پر حملہ کیا۔ ہم نے بارگاہ الٰہی میں سلامتی کی دعا کی جس کا فوراً یہ نتیجہ ہوا کہ ایک مٹی کا لوٹا شیر کے سر پر پڑا اور وہ بھاگ گیا۔ ہم فوراً سمجھ گئے کہ یہ ہمارے حضرت کی کرم فرمائی ہے۔ لہٰذا ان ٹھیکروں کو تبرک جان کر ہم ساتھ لے آئے اور یہاں پہنچ کر حضرت کی خدمت میں پیش کر دیا۔
اس پر حاضرین میں سے کسی نے پوچھا کہ طبعی حوادث میں سے زمانے کا عنصر کیونکر خارج ہو سکتا ہے۔ دیگر اعتراضات سے قطع نظر یہ قرین قیاس نہیں کہ لوٹا پاکپتن میں پھینکا جائے اور وہ اس وقت سینکڑوں میل کے فاصلے پر بلوچستان میں ایک شیر کے سر پر جا پڑے۔ جواب میں حاضرین میں سے ایک اور صاحب نے کہا کہ جدید ترین طبیعیات کی رو سے ایک جسم کی دو حالتوں میں بعد مکانی ہونے کے باوجود ان میں بعد زمانی ہونا لازم نہیں۔ اس کا ثبوت جوہر کی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی کی حرکات سے ملتا ہے۔ جوہر کی ساخت اور اس کے اجزائے ترکیبی کی حرکات ایکProtonہوتا ہے جس کے گرد جوہر کی نوعیت کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ برقیے مخصوص مداروں میں گردش کرتے ہیں۔ اب مشاہدے میں آیا ہے کہ کبھی ایک برقیہ اپنے مدار کو چھوڑ کر ایک نئے مدار میں گھومنے لگتا ہے اور اس سے متعلق دو حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔ اول یہ کہ اس تغیر کی کوئی علت نہیں ہوتی۔ یعنی جدید طبیعیات کے نزدیک علت و معلول کا قانون اٹل نہیں۔ دوم یہ کہ برقیے کا ایک مدارسے دوسرے مدار تک جست کرنا ہم وقت حادثات ہیں، یعنی مسافت مکانی کے لیے مرور زمان لازم نہیں4؎ علامہ اقبال نے اس تقریر کو بہت توجہ سے سنا اس پر حاضرین کے مابین تھوڑی بہت بحث بھی ہوئی۔ لیکن بعد ازاں گفتگو کا رخ بدل گیا اور ہم کچھ دیر کے بعد رخصت لے کر چلے آئے۔
اب اقبال اس دار فانی سے چل بسے ہیں۔ ان کی وفات ایک ایسا نقصان ہے جو قطعاً نا قابل تلافی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال اپنے کلام کی بدولت زندہ جاوید ہیں اور ایسی عظیم الشان ہستی کو کبھی موت نہیں ہو سکتی۔ یہ نظریہ اس کلیے پر مبنی ہے کہ ایک شاعر کی نظم اس کی مکمل شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہمیں شیکسپیئر کی سوانح حیات کا بالتفصیل علم نہیں تو کچھ مضائقہ نہیں، کیونکہ شیکسپیئر کی ہمہ گیر شخصیت اس کے ڈراموں میں جلوہ گر ہے۔ اسی طرح شیلے کے کلام میں اس کی بیباک اور آزاد طبیعت واضح طور پر نمودار ہوتی ہے۔ لیکن اقبال کا کلام اس کلیے کی استثنا ہے۔ اقبال کی شخصیت کے دو امتیازی پہلو تھے جن کے درمیان بہت بڑا فرق تھا۔ اپنے کلام میں اقبال فوق البشر کی حیثیت سے رونما ہوتے ہیں۔ ان کا بلند پایہ کلام اس قدر بلند ہے کہ ان کا تخیل اپنے پرواز کی ابتدا عرش بریں سے کرتا ہے۔ ان کے فکر کی رفعتوں کی انتہا اور گہرائیوں کی تہہ تک پہنچنا شاید کسی کے بس کی بات ہو۔ بعض دفعہ تو ان کا کلام فلسفیانہ دقائق سے پر ہونے کی وجہ سے ہمارے فہم سے بالاتر ہو جاتا ہے یہ درست ہے کہ اقبال کے شعر سے ہر شخص حتی المقدور استفادہ کر سکتا ہے، لیکن محض ان کی نظم پڑھنے سے، اب وہ ذاقی تعلق پیدا نہیں ہو سکتا جو ان کی زندگی میں ممکن تھا ان سے تبادلہ خیالات کے یہ مواقع اس قدر بیش قیمت تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد یہ کمی ہر گز پوری نہیں ہو سکتی۔
فوق البشریت کے مقابلے میں اقبال کی کیفیت کا دوسرا رخ ان کی بشریت ہے۔ اقبال کی سادگی اور ان کی ظرافت دو ایسے عنصر ہیں جو ان کے کلام میں مشکل سے ملتے ہیں۔ ان کا فیض بلا امتیاز مذہب وملت ہر شخص پر عام تھا۔ جس کا جی چاہتا ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، جب تک جی چاہتا ان کی صحبت سے مستفیض ہوتا اور جب جی چاہتا چلا آتا۔ اقبال ہر ایک کی گفتگو میں پوری توجہ اور انہماک سے حصہ لیتے اور ہر ایک کی ذہنی سطح کے مطابق بات کرتے۔ جب کبھی کسی نے علی بخش سے جا کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے اطلاع کر دو۔ اندر سے ہمیشہ یہی جواب آیا کہ آ جائے۔ اقبال نے کبھی اشارے یا کنائے سے کسی پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے، آپ تشریف لے جائیے یا یہ کہ میں آپ کی بے ربط گفتگو سے تنگ آ گیا ہوں، اب ختم کیجئے۔ میرا اور میرے دوستوں کا دستور تھا کہ جب کبھی کوئی ایسا علمی مسئلہ ہمارے در پیش ہوتا جس کا حل ہمیں نہ سوجھتا تو ہم اقبال کے پاس چلے جایا کرتے۔ ان سے احوال پرسی کے بعد ہم سوال پوچھتے اور ہم ہر دفعہ یہ دیکھتے کہ ہماری مشکل کا حل ان کے پاس جچا تلا موجود ہے۔ ان سے جس کسی موضوع پر گفتگو کرتے، ایسا معلوم ہوتا کہ اقبال تمام عمر اسی ایک موضوع پر غور و خوض کرتے رہے اور اس کا کوئی باریک سے باریک پہلو بھی ان کی نکتہ شناس نظر سے پوشیدہ نہیں۔
دنیا کے مصائب اور مشکلات کا بہترین علاج اقبال کی صحبت تھی۔ ان کی طبیعت میں ایک قسم کی غیر مغلوب (Invincible) رجائیت تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ تا دم آخر خندہ جبیں رہے۔ کیوں نہ ہو آخر دنیا و مافیہا بلکہ دنیا و مافیہا کی کون سی طاقت تھی جو ان کے زیر نگیں نہ تھی۔ وہ صحیح معنوں میں فقیری میں امیری کرتے تھے۔ یہ قول کہ علم قوت ہے بالکل درست ہے۔ اقبال کی حکومت تمام کائنات پر حاوی تھی۔ انہوں نے تمام مظہر کو ایک ایسے مکمل اور پختہ نظام میں منظم کر رکھا تھا کہ اس کائنات کی بڑی سے بڑی طاقت بھی سرتابی کی تاب نہ لا سکتی تھی۔ اب اگر ایسا شخص خوش امید نہ ہو گا تو اور کون ہو گا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی طبیعت میں شگفتگی اور ظرافت ضرور ہونی چاہیے۔
اقبال کبھی اس خیال سے بات نہیں کرتے تھے کہ میری زبان سے ہمیشہ گوہر شہوار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گو ان کے پاس بڑے بڑے صاحب قلم اور صاحب طرز لوگ جایا کرتے، ان کا کوئی Boswellنہ بنا۔ اقبال میں صحیح شان قلندری نمایاں تھی۔ وہ اپنے علم کے انمول موتیوں کو اس طرح بے دریغ لٹایا کرتے تھے جیسے ان کے نزدیک ان کی کوئی قدر ہی نہ تھی۔ لہٰذا ہر شخص جس نے ان کے علم سے خوشہ چینی کی ہے ان کی وفات حسرت آیات کو اپنا ذاتی نقصان تصور کرتا ہے اور ان کا کلام موجود ہونے کے باوجود نوحہ خواں ہے۔

عبدالواحد ایم۔ اے