ایاز امیر
کالم نگار روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت 7مارچ 2018
جنون صرف اچھی نہیں ناگزیر چیز ہے۔ اُس کے بغیر نہ شاعری‘ نہ موسیقی لکھی جا سکتی ہے۔ جسے انگریزی میں آرٹ کہتے ہیں جنون کے بغیر ناممکن ہے‘ اور عشق کا تصور محال۔ ہمارا اعزاز ہے کہ پورا معاشرہ جنون کا شکار ہے لیکن اِس قسم کا جنون کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایسے تصورات میں اپنے آپ کو جکڑا ہوا ہے کہ آرٹ تو دُور کی بات یہ نارمل ریاست نہیں کہلائی جا سکتی۔
حال ہی میں اٹلی کے دارالخلافہ رُوم میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کا موضوع پاکستان میں پائی جانے والی کچھ روشوں سے تھا۔ رُوم میں تاریخی عمارتیں بہت ہیں۔ اُن میں سے ایک کُولُوسیم (Colosseum) ہے‘ جہاں پہ رُومن قیصروں کے زمانے میں طرح طرح کی گیمز ہوا کرتی تھیں۔ اِس قدیم عمارت کو لال بتیوں سے آراستہ کیا گیا تھا اور پاکستان کا ذکر مخصوص قوانین اور سزاؤں کے حوالے سے تھا۔ اُس تقریب کی جتنی بازگشت پاکستان میں ہونی چاہیے تھی، نہیں ہوئی کیونکہ ایسے واقعات سے ہم غافل رہنا پسند کرتے ہیں۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ میں گول مول انداز میں گفتگو کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ ہمارے ہاں یہ موضوع حساس سمجھا جاتا ہے۔ اتنا حساس کہ اِس پہ معقول قسم کی بحث تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔ یہ موضوع چھیڑا جائے تو جنون کی ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ جان کا خطرہ پڑ سکتا ہے۔ آسیہ بی بی اور مرحوم سلمان تاثیر کا سرِ عام ذکر آسان نہیں رہا۔ رُوم کی تقریب اسی حوالے سے تھی اور وہاں پہ پوپ فرانسس بھی موجود تھے۔
باہر کی دُنیا میں جب پاکستان کو ایسی چیزوں سے پہچانا جاتا ہے تو ہماری عزت افزائی نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ تاثر مزید گہرا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
ایسا ہونا نہیں چاہیے تھا۔ جب پاکستان معرضِ وجود میں آیا توکوئی وجہ نہ تھی کہ ہم ایک ماڈرن اورپروگریسیو ملک کی شکل میں سامنے نہ آتے۔ گو کہ پاکستان کی بنیاد مسلمان جداگانہ تصور پہ تھی لیکن بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تصورِ حیات ماڈرن اورپروگریسیو تھا‘ جس کا اظہار اُن کی 11اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی میں تقریر ہے ۔ اُس سے زیادہ روشن خیال تصورِ ریاست ہو نہیں سکتا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جن ارشادات کا درجہ احکامات کا ہونا چاہیے تھا اُن کو یا تو ہم نے دبا دیا یا متنازع بنادیا ۔ نام نہاد نظریہ پاکستان قسم کے لوگوں کو غصہ دلانا ہو تو سب سے آسان طریقہ قائداعظم کی اِس تقریر کاحوالہ دیناہے۔ کہنے کو کچھ نہیں ہوتا لیکن لال پیلے ہو جاتے ہیں ۔یہ جنون کی کیفیت کہیں تو جا کے رُ ک جاتی لیکن جو حکمران بھی آیا اُس نے یہ نہ دیکھا کہ ریاست کس طرف جارہی ہے اورکس قسم کے تصورات اُس پہ حاوی ہورہے ہیں ۔ لُوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم رہا اورعام آدمیوں کو بہلانے کیلئے جنون کے نعرے بھی لگتے رہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو پڑھے لکھے اورروشن خیال انسان تھے ۔ بظاہر سیاست بھی اُن کی پروگریسیو تھی‘ لیکن اُنہوں نے بھی ایسی دلدل میں پاؤں رکھے جہاں اُنہیں نہیں جانا چاہیے تھااورایسا کرنے سے اُنہیں فائدہ بھی کچھ نہ ہوا۔ اُنہوں نے سمجھا تھا کہ اسلام کے ہیر وبن جائیں گے۔اس کے برعکس جب 1977ء کے انتخابات کی گھڑی آن پہنچی تو تمام کی تمام اسلام پسند قوتیں اُن کے خلاف کھڑی ہوگئیں ۔ پھر وہی قوتیں ضیاء الحق کے دست وبازو بنیںاوراُن کے اقتدار کو دَوام بخشا۔
جنرل ضیاء الحق کے اپنے مسئلے مسائل تھے ۔اقتدار پہ قبضہ کیا تو عالمی برادری میں قدرومنزلت نہ تھی ۔لیکن افغانستان میں جو شورش برپا ہوئی وہ اُن کے کام آئی ۔امریکہ کے ہاتھ موقع آیا اوراسے افغانستان میں مہم جوئی کیلئے پاکستان کی ضرورت پڑی ۔ جنرل ضیاء پہلے ہی تیار تھے؛ چنانچہ لپک کر امریکہ اورسی آئی اے کی گو د میں جا بیٹھے ۔ دنیائے اسلام کے چاروں کونوں سے انتہا پسند پاکستان کی طرف آئے اورپشاور اُن کا ہیڈ کوارٹر بن گیا ۔جہاد کے نام پہ افغانستان کی جنگ کے سپاہی بنے۔ڈالر امریکہ سے آئے اورہرامریکی ڈالر کے مقابلے میں اتنی ہی رقم سعودی عرب سے آئی۔ افغانستان میں جہاد کیا ہونا تھا پاکستان اُس جہاد کے رنگ میں رَنگا گیا ۔روسی افواج افغانستان سے چلی گئیں لیکن افغانستان میں امن نہ آیا ۔ یہاں تک حالات رہتے پھر بھی کچھ بات تھی ۔ لیکن پاکستان اپنے سے بڑے کھیل میں ملوث ہوکے اتنا نقصان کر بیٹھا کہ اب تک اُس کی تلافی نہیں ہوسکی ۔ ہرقسم کی جنونیت یہاں پروان چڑھنے لگی ۔ دہشت گردوں کے ٹھکانے بنے ۔فرقہ وارانہ فساد ہوئے اورریاست کی شکل بدل کے رہ گئی۔
جنرل مشرف حالات بدل سکتے تھے ۔ اُن کے پاس تاریخی موقع تھا ۔ ریاست کے مطلق العنان سربراہ تھے اورسیاسی محاذ پہ اُنہیں کوئی خاطر خواہ مزاحمت درپیش نہ تھی ۔لیکن 9/11کاسانحہ امریکہ میں ہوا اورجنرل مشرف اوراُن کے ساتھی جرنیل صحیح ادراک نہ کرسکے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ۔ آنکھیں بندکرکے اوربغیر صحیح قیمت وصول کیے امریکہ کے معاون کیا‘ سپاہی بن گئے اورجیسا کہ اپنے وقت میں جنرل ضیاء الحق پھولے نہیں سماتے تھے کہ لو ہمارا درجہ بڑھ گیاہے مشرف اوراُس کے جرنیل بھی چھاتیاں پھیلا کے چلنے لگے کہ بڑا تیر مارلیاہے۔ امریکہ نے بمباری افغانستان پہ کی ۔القاعدہ اورافغان طالبان نے ہتھیار اُٹھائے اوربارڈر کے اِس طرف آگئے ۔اپنی کمین گاہیں ہمارے قبائلی علاقوںمیں بنائیں۔ نہ صرف یہ بلکہ مقامی بارسُوخ مَلکوں کی گردنیں کاٹ دیں اورپورے قبائلی خطے میں اپنا تسلط قائم کرلیا۔ پاکستانی فوج یہ تماشا دیکھتی رہی ۔ پھر قبائلی خطے سے دہشت گردانہ حملے پورے پاکستان میں کئے گئے اورریاست کی بنیادیں ہل کے رہ گئیں ۔ بہت بعد میں‘ پہلے جنرل کیانی اورپھر جنرل راحیل شریف نے کھوئے ہوئے وقار اورہاری ہوئی جگہوں کو واپس لینے کی سعی کی ۔ القاعدہ اورطالبان کو تو قبائلی خطے سے پیچھے کردیا گیا لیکن اندرون ملک مخصوص جنون کی کیفیت کمزور ہونے کی بجائے مزید زور پکڑتی گئی۔
کچھ روز ہوئے میں رات گئے لاہور چھاؤنی سے گزر رہاتھا۔ وہاں ایک آرمی چیک پوسٹ تھی اورکاروں کی قطار قدرے لمبی تھی ۔کیا دیکھتاہوں کہ ایک خاص مذہبی گروہ کے جنونی پیروکار موٹرسائیکلوں پہ سوار اپنے مخصوص نعرے لگاتے ہوئے چیک پوسٹ کی طرف آئے ۔ پہنچتے ہی ایک لیڈ ر قسم کے شخص نے اشارہ کیا ‘جس پر موٹرسائیکل سوار اُترے اوربیریئر ہٹانے لگے۔ایک قدآور حوالداراوردو تین فوجی جوان وہاں موجود تھے ۔ میں نے گاڑی کے شیشے سے دیکھا کہ حوالدار کا منہ غصے سے لال ہوگیا ہے ۔ اُونچی آواز میں اپنے جوانوں کو کہا: ان بدمعاشوں کو پکڑو۔ جوان اُن کی طرف گئے تو جیسے جنونیوں کی جھاگ یکدم بیٹھ گئی۔ اُن کا لیڈرسوری وغیرہ کہنے لگا۔حوالدار نے کہا: ان سب کو پکڑو۔
کہنے کا مطلب یہ کہ فوجی جوان دَبک جاتے تو اُن جنونیوںنے بیرئیر ہٹانے تھے اورنعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔اُن کے حوصلے اوربلند ہوجاتے اگلے بیرئیر پہ مزید بدتمیزی کرتے ۔ یہی ہماری ریاست نے کیا ہے۔ جہاں کھڑا ہونا چاہیے تھا وہاں دبک گئے اورجن کو للکارنے کی ہمت نہیں ہونی چاہیے تھی ریاست اورمعاشرے کو آنکھیں دکھانے لگے۔
فیض آباد دھرنا حکومت نے نہیں ریاست نے غلط طریقے سے ہینڈل کیا۔ جیسا بھی مسئلہ تھا اورجو بھی اس کے محرکات اُس طریقے سے دھرنے والوں کی خوشنودی حاصل کرنے سے ریاست کی عزت میں اضافہ نہیں ہوا۔لاہور چھاؤنی کا حوالدار ہی ہوتا توحالات سے بہتر نمٹ سکتا ۔ پر ایسی باتیں کون سمجھے ؟
( کالم نگار کی رائی سے بلاگر کا اتفاق ضروری نہیں )
( کالم نگار کی رائی سے بلاگر کا اتفاق ضروری نہیں )