ذیشان کلیم معصومی

امیر المومنین، امام المتقین، وارث علوم نبیؐ، ساقی کوثر، فاتح خیبر، والد شبیرؓ و شبرؓ، منبع رشد و ہدایت، تاجدار الاولیائ، محرم اسرارِ خفی و جلی، شیرخدا، داماد مصطفیؐ،حیدر کرار، صاحبِ ذوالفقار، میدان ِخطابت کے شہسوار، خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی ؓابن ابی طالبؓ کی کنیت ابو الحسن اور ابو تراب ہے جو آپؓ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود عطا فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپؓ کو ابو تراب (یعنی مٹی کا باپ)کہہ کر پکارا جاتا تو آپؓ بہت خوش ہوتے۔
آپؓ کے والد حضرت ابو طالبؓ اور دادا حضرت عبدالمطلبؓ ہیں۔ حضرت علیؓ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدؓ ہاشمی خاندان کی وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔ سیدنا حضرت مولا علیؓ کا شمار عشرہ مبشرہ میں سے ہے۔ آپؓ رشتہ مواخات میںاور دنیا و آخرت میں بھی نبی کریم ؐ کے بھائی ہیں۔ آپؓ کی ولادت13رجب30 عام الفیل کو خانہ کعبہ میں ہوئی۔ ولادت کے3 دن تک آپؓ نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ لوگ کہنے لگے کہ شاید آپؓ دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن جب نبی پاکؐ نے اپنی آغوشِ رحمت میں لیا تو آپؓ نے آنکھیں کھو لیں، گویا آپؓ پیدا ہوتے ہی سرکار دو عالمؐ کے عاشق تھے اور دنیا میں سب سے پہلے جس مقدس ہستی کا آپؓ پہلی بار دیدار کرنا چاہتے تھے وہ رسول خداﷺ کی با برکت ذات ہے۔ آپؓ نے رخ مصطفیٰؐ کی زیارت کیلئے3 دن تک آنکھ ہی نہ کھولی۔ حضور پاک ﷺ کے سایۂ رحمت میں پرورش پائی، انہی کی گود میں ہوش سنبھالا اور پروان چڑھے ، علم الٰہی کے لامحدود خزانے سینہ نبوتؐ سے حاصل کئے آپؓ کی پہلی تربیت گاہ ہی گود ِ رسالتؐ تھی۔ آپؓ نے سرکار دو عالم ؐ کی باتیں سنیں، ان کی عادتیں سیکھیں اسی لئے تو بتوں کی پوجا کی نجاست سے آپؓ کا دامن کبھی آلودہ نہ ہوا یعنی آپؓ نے کبھی بت پرستی نہ کی اورآپؓ کو وجہہ اللہ کا لقب عطاہوا۔
نو عمر وںمیں آپؓ سب سے پہلے اسلام لائے۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک 10سال تھی۔ بعض نے 9سال اور بعض نے 8 برس یا اس سے بھی کم روایت کی ہے۔ جس روز سرکار مدینہ ﷺ نے ہجرت فرمائی تو آپؓ کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور فرمایا ’’میرے بعد کفارِ مکہ کی امانتیں لوٹا کر آنا۔‘‘ آپؓ نے اللہ کے نبی پاک ﷺ کے حکم کی تعمیل فرمائی۔ عجب بات ہے تلواروں کی چھائوں میں آپؓ اتنی سکون کی نیند سوئے کہ ایسی نیند پھر آپؓ کوکبھی نہ آسکی چونکہ آپؓ جانتے تھے آج رات موت نہیں آسکتی۔ آپؓ جیسا بہادر پورے عرب و عجم میں نہ تھا۔ آپؓ کی ہیبت و دبدبے سے بڑے بڑے بہادر لرزہ بر اندام تھے۔ آپؓ نے تمام غزوات میں، سوائے غزوہ تبوک کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شرکت فرمائی چونکہ غزوہ تبوک میں سرکار دو عالم ؐ نے آپؓ کو اپنا خلیفہ بنا کر مدینہ منورہ میں چھوڑا تھا ۔ 10 ہجری میں سرکار دو عالم ؐکے حکم سے آپؓ یمن کے سفیر بن کر اہل یمن کو دعوت اسلام دینے گئے جہاں کثیر تعداد نے دینِ حق قبول کیا۔ قدرت نے آپؓ کو بہت سی خصوصیات عطا فرمائیں۔ آپؓ فن کتابت کے بھی ماہر تھے، آپؓ کے ہاتھ کا لکھاہوا قرآن پاک آج بھی ایران میں امام رضاؒ کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ آپؓ بہترین قاضی تھے، آپؓ کے فیصلے آج بھی دنیا کی عدالتوں میں اتھارٹی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں آپؓ نے لوگوں کو قرآن پاک کیساتھ ساتھ سابقہ کتبِ آسمانی اور صحیفوں کا علم بھی پڑھایا۔
آپؓ نے علمِ قرأت، علم الاعداد، علم الفرائض، علم کلام، علم خطابت، علم معانی و بیان، علم منطق، علم صرف و نحو، علم لغت، علم فقہ، علم نفسیات اور علم حکومت رانی میں وہ انمول موتی سپرد انسانیت کئے کہ رہتی دنیا تک جادہ حق و صداقت پر چلنے والوں کے لئے مشعل راہ کے طور پر رہنمائی کرتے رہیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد آپ ؓ نے مسلمانوں کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، خلفائے ثلاثہ کے دور میں ہمیشہ مفید مشورے دئیے۔ سڑکوں کی تعمیر سے لے کر جنگ کے آداب تک میں مدد فرماتے رہے۔ مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد کسی سے انتقام لینے کی بجائے اسلام کے تحفظ کیلئے کوشاں رہے۔ آپؓ نے تاجروں اور مزدوروں کی سرپرستی، کاشت کاروںسے تعاون، قیدیوں سے اچھا برتائو، دشمنوں سے عفو و در گزر، بیوگان اور یتیموں کی سرپرستی، افسروں کی نگرانی جیسے کار ہائے نمایاں سر انجام دئیے۔ آپؓ وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں لسان نبوتؐ نے فرمایا ’’ علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰؑ کیلئے حضرت ہارونؑ تھے۔ مگر ہارونؑ نبی تھے تم نبی نہیں ہو۔
‘‘ آپؓ احکام فقہ و سنت میں ماہر تھے۔ نہایت قوی تھے، رنگ گندمی تھا۔ آپؓ کی ریش مبارک گھنی اور دراز تھی۔ آپؓ نے اپنے قاتل کو شربت پلانے کا حکم فرمایا۔ 21رمضان المبارک 40 ہجری کو حالتِ روزہ میں آپ ؓکو کوفہ کی مسجد میں جام شہادت نصیب ہوا۔ حضرت امام حسن ؓ اور حضرت عبداللہ بن جعفرؓ نے آپؓ کو غسل دیا، نماز جنازہ آپؓ کے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن ؓ نے پڑھائی۔ آپؓ نے 4سال8ماہ اور 9 دن خلافت کی۔ آپؓ وہ عظیم ہستی ہیں جو پید اہوئے تو اللہ کے پاک گھر میں اور جب شہادت پائی تو بھی اللہ کے گھر میں یعنی آپؓ کی پاکیزہ حیات کا محور آغاز اور انجام اللہ کا گھر تھا۔ آپؓ فرمایا کرتے’’ مجھے نبی پاکؐ سے علم ایسے ملا جیسے پرندہ اپنے بچے کو غذا دیتا ہے۔‘‘آپؓ نے زندگی میں کبھی کوئی نماز قضاء نہیں کی۔ آپؓ کی مقدس تعلیمات پر چل کر ہم اپنی دنیا و آخرت سب سنوار سکتے ہیں۔ حکمران آج بڑھتی ہوئی دہشتگردی اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے مولائے کائناتؓ کے مقدس اقوال و سیرت پر عمل کریں۔ اللہ اپنے کامل بندوں کے صدقے وطن عزیز پاکستان اور تمام عالم اسلام کی حفاظت فرمائے اور ہماری انفرادی و اجتماعی مشکلات آسان فرمائے۔ آئیے آج یومِ ولادت مولائے کائناتؓ پر ہم یہ عہد کریں کہ ہم اتحاد بین المسلمین کا عملی مظاہرہ کر کے سب متحد ہو جائیں ۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
(روزنامہ دنیا ، تاریخ اشاعت : 30مارچ 2018)