قدیم فلسفۂ یونان میں خدا کا تصور

قدیم فلسفۂ یونان میں  خدا کا تصور



 شاویٹیکن سٹی کے ایک عجائب گھر میں زیوس کا گات۔
یونانی اساطیر میں زیوس سب سے عظیم اور طاقتور دیوتا تھا۔

یونانی اساطیر میں زیوس سب سے عظیم اور طاقتور دیوتا تھا۔


   اِسے دیوتاؤں کا بادشاہ تصّور کیا جاتا تھا۔
              اِس کے قبضے میں کئ قُوّتیں تھیں جن میں سرِفہرست، 
              طوفان اور آسمانی بجلی تھیں۔ زیوس کو اکثر بجلی کی کڑک، 
              بلوط، سانڈ اور چیل سے مرموز  کیا جاتا ہے۔


تاریخ مذہب اور فلسفہ میں بیان کیا گیا ہے کہ یونانی خدا کو مانتے تھے ، مگر اس سے ان کو کوئی قلبی لگاؤ ، گہرا تعلق اور وابستگی نہ تھی ، یونانیوں کا فلسفۂ الہیات (GREEK MYTHOLOGY ) اور اس کے عقائد کی ساخت کچھ ایسی واقع ہوئی تھی کہ خشوع و خضوع، انابت اور رجوع الی اللہ کی کیفیت ان میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی ، ذات باری کے تمام صفات ، ہر قسم کے اختیار ، فعل و تصرّف اور خلق و امر کی نفی کرنے اور اس کو بالکل بے صفت اور معطّل قرار دینے کا طبعی اور منطقی نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ زندگی میں خدا کی کوئی ضرورت اور اس سے کوئی تعلق اور دل چسپی باقی نہ رہ جائے ،

 نہ اس سے کوئی امید ہو ، اور نہ اس کا کوئی خوف اور نہ دل میں اس کی کوئی ہیبت ہو نہ محبت اور نہ ضرورت و مصیبت کے وقت اس سے دعا و التجا ہو (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو WE.H LECKY کی کتاب HISTORY OF EUROPEAN MORALS – LONDON , 1869 VO.1 PP,344-45)  اس لئے کہ وہ اس فلسفہ کے مطابق ایک بالکل معزول و معطل ہستی ہے جس کو عالم میں تصرّف کرنے کا نہ کوئی اختیار ہے نہ طاقت ، اس لئے اس عقیدہ کے ماننے والوں کی زندگی عملاً ایسی گذرتی ہے اور گذرنی چاہیے کہ گویا خدا نہیں ہے ، اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان کا سارا زور اس پر تھا کہ خدا یہ نہیں ہے ، خدا یہ نہیں ہے ، مگر خدا کیا ہے؟  اس کے کیا صفات و کمالات ہیں ؟ اس کا ان کے یہاں بہت کم ذکر آتاہے ، ان کا سارا زور نفی (NEGATION) (نہیں ) پر تھا ، اثبات  (ASSERTION) (ہے) پر نہیں ، ماہرین نفسیات اور فلسفہ و اخلاق ، اور مذہب و روحانیت کے واقفین جانتے ہیں کہ ایک  ہزار "نہیں " ایک "ہاں " کے برابر نہیں ، عظمت و احترام ، جذب و شوق ، امید ورجا اور طلب و سوال کے لئے یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ خدا ایسا ہے ، اس کی صفات و قدرت ، و محبت و رحمت کے علم کی ضرورت ہے ۔

پس جب ہم یہ سنتے ہیں کہ یونانیوں میں خشوع و خضوع کی کمی تھی ، اور ان کی عبادات اور مذہبی اعمال ایک قالب بے روح سے زیادہ  نہ تھے ، اور یہ کہ وہ خدا کی بزرگوں سے زیادہ تعظیم نہیں کرتے تھے ، تو ہم کو ذرا تعجب نہیں ہونا چاہئے ، اس لئے کہ تاریخ میں آدمی سیکڑوں صنّاعوں اور موجدوں کا تذکرہ پڑھتا ہے لیکن کبھی ان کی طرف سے اس کے دل میں خشوع و خضوع اور ان سے بندگی کا ربط نہیں پیدا ہوتا ، بندگی کا تعلق تو اس وقت پیدا ہوتا جب خدا کو اس کائنات میں ابدی طور پر اور اب بھی متصرّف اور کار فرما اور اپنے کو اس کا  محتاج سمجھتے ۔(مثال کے طور پر تاج محل بڑی خوبصورت عمارت ہے اور عجائب عالم میں شمار کئے جانے کے قابل ہے ، مگر اب اس کے بنا  نے والے (شاہجہاں ) یا اس کے معماروں اور ماہرین فن کا اس سے کوئی تعلق نہیں ، وہ اس دنیا سے جاچکے ، اس لئے ان سے ڈرنے یا ان سے مدد اور کام لینے اور ان کے لحاظ کی ضرورت نہیں )

یونانیوں اور بعض دوسرے ایشائی ملکوں میں اسی پر بس نہیں کیا گیا کہ خدا  کو  اس کی صفات (تعریفوں اور خصوصیتوں ) سے الگ کر کے  ایک مجرّد (تنہا اور خیالی ) (ABSTRACT ) ہستی کی طرح مانا گیا ، بلکہ اس کی ہر صفت کے لئے ( جو زندگی کی ایک ضرورت ہے اور انسان اس کا محتاج ہے ) ایک الگ خیالی وجود اور پیکر  (IMAGINARY BUT PERFECT BEING) تجویز کر لیا گیا ، مثلا رحم و شفقت کا فلاں دیوتا ہے ، محبت کا فلاں ، پانی برسانے والا اور کھیتی سر سبز کرنے والا فلاں ، دشمن پر فتح دینے والا اور کامیاب کرنے والا فلاں ، اولاد عطا کرنے اور قسمت بنانے اور بگاڑ نے والا فلاں ، یہاں تک کہ بعض بعض بیماریوں (چیچک وغیرہ ) کو دور کرنے والا فلاں دیوتا یا دیوی ہے ، اس کانتیجہ میں خالق کائنات  اور رب العالمین (سب جانوں کا پالنے والا اور ان کو ان کی ضروریات مہیا کرنے والا) خدا ایک خیالی ہستی اور ایک معطّل وجود بن کر رہ گیا ۔


اسلام نے اس کے برخلاف ساری تعریفوں اور خوبیوں کا مستحق ، ہر طرح کی قدرت کا مالک ، نفع و ضرر ، موت و حیات ، رزق،صحت و مرض ، فقر و غنا ، اور فتح و شکست کا دینے والا اسی کو قرار دیا ، اور مختصر ترین  لیکن جامع ترین الفاظ میں قرآن میں  کہدیا گیا ۔" الَالَہُ الخَلقُ وَ الاَمرُ" (سورۃ الاعراف – 54) یا د رکھو اسی کا کام ہے پید ا کرنا  اسی کا کا م ہے اس کار خانۂ عالم کا چلانا اور اس کا انتظام کر نا ۔


(ماخوز  از اسمائے حسنی ، تالیف : مفکر اسلام سید ابوالحسن علی  ندوی ؒ  ، دائرہ حضرت شاہ علم اللہ ؒ رائے بریلی ، 16
 شوال المکرم 1410ھ 12، مئی 1990ء)