یہ مضمون ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدین مرحوم کے ایک انگریزی خطاب کا ترجمہ ہے ۔ یہ خطاب انھوں نے ۱۹۵۳ء میں پرنسٹن (امریکہ) میں ایک اجتماع سے کیا تھا ۔ اس کے مترجم حاجی فضل احمد ہیں۔ یہ ہفت روزہ ’’حمایت اسلام‘‘ کی ۲۵ اکتوبر ۱۹۵۷ء کی اشاعت میں شائع ہوا ۔
مقدمہ
کوئی طریقۂ تعلیم جو کسی جماعت وقوم میں رواج پکڑتا ہے ، وہ اس کی اجتماعی زندگی کا نہایت اہم عنصر اور اس کی امتیازی حیثیات کا علم بردار ہوتا ہے۔ چونکہ وہ اس کی ذہنی اور روحانی خصوصیات کا عکاس بھی ہوتا ہے ، اس لیے کسی قوم کا روحانی و اخلاقی جائزہ لیتے وقت ہر محقق کے لیے لازمی ہے کہ اس کی تعلیمی نشو ونما اور ارتقا کا بھی جائزہ لے ۔ اس امر کی افادیت اور قدر وقیمت یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی کہ وہ اس قسم کی روحانی اور ذہنی صلاحیتوں کو ظاہر کرے جس کے ہاتھوں اس نے تربیت پائی، بلکہ اسی کے مستحکم ہو جانے پر اس کو معراج کمال تک پہنچانے کے لیے ہر مرحلہ پر زبردست ممد ومعاون بھی ثابت ہوتا ہے اور اس طرح اس کے قابل تقلید خصائص اور نصب العین کے لیے ایک مستقل اور دوامی صورت اختیار کرنے میں امداد دیتا ہے۔
موجودہ دور میں جبکہ تمام اسلامی ممالک کا طریقۂ تعلیم کم وبیش سرعت کے ساتھ انقلاب پزیر ہو رہا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرتے وقت نہایت صحیح اور فلسفیانہ انداز فکر اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔
تعلیمی تصور، نصب العین اور مقصد
’’ تعلیم زندگی کا ایک جزو لا ینفک ہے۔‘‘ اس مقولہ کی اہمیت کا کما حقہ اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ اس معاملے کو تعلیمی مسئلہ میں دلچسپی لینے والے حضرات کے سامنے رکھا جائے۔ عوام کے جماعتی نظام کے لیے کامیاب حکومت ترتیب دینے میں تعلیم کا حصہ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا مقصد صالح انسان اور شریف شہری تیار کرنا ہے۔ ایک نصب العین کے مطابق، اپنی آیندہ نسلوں کی تشکیل میں کسی جماعت کے بالغ افراد کی جد وجہد کو تعلیم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ’’ جے ایس مل‘‘ تعلیم کے تحت ہر ایسی چیز کو شامل کرتا ہے جو انسانی صورت کی تکمیل کے لیے مددگار ہوتی ہے۔ ’’ لاک‘‘ تعلیم کا مفہوم ادا کرنے کے لیے اسے ایک تندرست جسم میں نیک روح سے تشبیہ دیتا ہے اور یہ مفہوم مہذب انسانی طبقہ میں نیک عادات، دانائی اور حکمت کی تعلیم سے پورا ہو سکتا ہے۔ جس سے معاشرے کے افراد عام امور کو خوش اسلوبی سے سر انجام دینے کے قابل بن جائیں۔ نری افزایش نسل اور محض تعلیم کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ ’’لاک‘‘ امام غزالی کے نقش قدم پر چل کر اخلاقی ، بلکہ دینی تعلیم کو اصل الاصول کا رتبہ دیتا ہے۔ امام صاحب گیارہویں صدی عیسوی کے ابتدائی دور میں ایسی تعلیم کو مردود قرار دے چکے ہیں جس سے اخلاقی ودینی شعور کی بیداری مقصود نہ ہو۔ ’’ہربرٹ سپنسر‘‘ کے نزدیک تعلیم کا مقصد کسی فرد کو مکمل زندگی کے لیے تیار کرنا ہے۔ یہ اسناد اس امر کے ثبوت کے لیے کافی ہوں گے کہ کسی طریقۂ تعلیم کو اس وقت تک معقول وکامیاب نہیں کہا جا سکتا، جب تک کہ وہ قوم کی اخلاقی، تہذیبی او رمعاشرتی ضروریات کا بدرجہ اتم کفیل نہ بن سکے۔
یہ مسئلہ بحث طلب اور پیچیدہ ہے کہ آیا تعلیم بذات خود کوئی مقصد ہے یا کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے ؟ اور کیا مقاصد، اجزا او رطریقۂ تعلیم کی تمام اصناف پر محیط ہے۔ اطمینان قلب اور ذہنی تسکین کے لیے، تعلیم کو بذات خود مقصد قرار دینا ایک ارفع واعلیٰ ترین نصب العین تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن اس اعلیٰ وارفع خیال کے حامل بہت کم ہیں او رتعلیم کو عوام کے لیے کسی دوسرے مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دینا ہی عام فہم تصور کیا جاتا ہے۔
ایک نوخیز بچے کے حافظہ میں چند بے ربط امور کے ٹھونس دینے کا نام تعلیم نہیں ہے، کیونکہ اس سے کسی آزاد قوم کے تمام لوازمات زندگی فراہم نہیں ہو سکتے۔
اسلام میں تعلیم کی اہمیت
اسلام نے عرب میں صرف وہ طریقۂ تعلیم ہی جاری نہیں کیا جس سے قبل اسلام اہل عرب بے بہرہ تھے ، بلکہ انھیں تہذیب و تمدن کے اعلیٰ علیین تک پہنچا دیا۔ قرآن حکیم بذات خود علم وحکمت کی اعلیٰ اقدار کا شاہد ناطق ہے۔ عرب قوم میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ باوجودیکہ خود رسول کریم بھی پڑھنا لکھنا نہ جانتے تھے، لیکن وحی کے اولین خطاب میں جو بات انھیں سب سے پہلے ارشاد فرمائی گئی ، وہ یہ تھی کہ’’ پڑھیے‘‘ اس کے بعد موقع بموقع حصول علم کے ذرائع ومقاصد کی سیر حاصل تشریح ہوتی رہی۔ انسانی ہستی کی ابتدا، جو قابل ذکر شے سے خطاب ہوئی۔ اس کے مختلف مدارج، تحصیل علم کے لیے اس کی جد وجہد اور اس کے مقابلہ میں باری تعالیٰ کی طرف سے انعامات کی بارش، اسی کریمی ذات (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ سے دنیا تک پہنچی۔ علم کے بارہ میں رسول کریم کے ارشادات، احادیث میں موجود ہیں چنانچہ طلب علم میں چین تک جانے کی تلقین حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمائی اور حصول علم کو ہر مسلمان مرد اور عورت کا مذہبی فریضہ قرار دیا۔ اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل مقولہ نہایت جامع اور واضح ہے، کیونکہ یہ ارشاد گرامی نہ صرف ہر مسلمان کے لیے تحصیل علم لازمی ہی قرار دیتا ہے، بلکہ اس کی سربستہ حکمتوں سے بھی روشناس کرا دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
’’ علم حاصل کرو، کیونکہ جو اس میں کوشاں ہوتا ہے ، وہ راہ خدا کی سعادت مندی سے بہرہ اندوز ہوتا ہے جو اسے بیان کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کہتا ہے۔ جو اسے تلاش کرتا ہے ، وہ معبود برحق کی عبادت کرتا ہے۔ جو اس کا درس دیتا ہے ، وہ خیرات کرتا ہے ، جو اس کی تبلیغ کرتا ہے ، وہ گویا زہد وریاضت میں مصروف رہتا ہے۔ صاحب علم، حلال وحرام میں تمیز کر سکتا ہے اور اپنے لیے جنت کے راستہ کو منور کر دیتا ہے۔ بیابان میں ساتھی، غربت میں رفیق اور بے یار کا حامی ہے۔ مصیبت میں دست گیری کرتا ہے۔ بزم میں زینت او رحریف کے مقابلہ میں اسلحہ کا کام دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بندہ علم کے ذریعہ سے معراج سعادت کو پہنچتا ہے۔ دنیوی زندگی میں شاہوں کا ہم نشین اور اخروی زندگی میں کامرانی سے ہم کنار ہوتا ہے۔‘‘
اسلامی تعلیم کے جزئیات
مسلمان اپنی تاریخ کی ابتدا سے معاشرتی زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تعلیم کو جزو لا ینفک خیال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور اس وقت سے دین ہی کو تعلیم کا نصب العین سمجھا جاتا ہے۔ قصہ کوتاہ دین ہی کا دوسرا نام تعلیم ہے، کیونکہ یہ قرار دیا جا چکا ہے کہ صحیح تعلیم انسان کو اللہ تعالیٰ اور تمام مخلوق کی برادری کے ساتھ اس کے فرائض کے متعلق مستند معلومات بہم پہنچاتی ہے اور اسے اس قابل بنا دیتی ہے کہ ان فرائض کو بجا طور پر ادا کر سکے۔ اسی وجہ سے مسلمان ابتدائی دور میں اپنے اخلاقی، معاشرتی اور قانونی معاملات کے متعلق الہامی فرامین کے ہر جز کو بلا تمیز ازبر کرنے کے خوگر تھے اور آنحضرت کے اس ارشاد سے کہ ’’ علم کی تلاش ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے‘‘ علم کا وہی مفہوم مراد ہے جو الہامی طریقہ سے آپ تک پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تعلیم کا دائرۂ عمل الہامی اجزا کے حفظ کرنے اور اسلامی مسائل کی تبلیغ تک ہی محدود رہا۔ باوجودیکہ آپ لکھنا پڑھنا نہ جانتے تھے، لیکن علم کے حصول اور تبلیغ کے لیے تحریر کی معاونت کی اہمیت پر بہت زور دیتے رہے ۔ اس کا اندازہ غزوۂ بدر کے مشہور واقعہ سے ہو سکتا ہے جس میں بڑی دل کشی بھی ہے۔ اسلام کے مخالفین کفار کی ایک بڑی تعداد بطور جنگی اسیر، بدر کے میدان سے مدینہ منورہ میں لائی گئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر قیدی سے سکۂ رائج الوقت کے مطابق چار ہزار کی رقم بطور فدیہ وصول کر کے اسے رہا کر دیا جائے، لیکن جب ان میں سے بعض کو اس رقم کی ادائیگی کے قابل نہ پایا گیا تو آنحضرت نے حکم فرمایا کہ ان میں سے جو شخص دس مسلمان بچوں کی جماعت کو جب ایک مقررہ معیار کے مطابق لکھنے پڑھنے کے قابل بنا دے گا تو اسے رہا کر دیا جائے گا۔ زید ابن ثابت جنھیں آنحضرت کی خدمت میں بطور کاتب وحی رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے ، وہ مدینہ منورہ کے انھی بچوں میں سے تھے جو اس ترکیب سے زیور تعلیم سے آراستہ ہوئے۔ آنحضرت نے انھیں بعد میں عبرانی زبان کی وہ تحریر سیکھنے کا حکم دیا جو اس وقت مدینہ منورہ کے یہودیوں میں رائج تھی۔ خلافت راشدہ کے عہد میں عربوں کی تمام سرگرمیاں نئے مقبوضات میں اسلامی طرز حکومت کے استحکام تک محدود تھیں ، اس لیے انھیں مسئلہ تعلیم میں اصلاح کرنے اور اسے وسیع پیمانے پر جاری کرنے کی طرف توجہ دینے کے لیے وقت میسر نہ آ سکا اور اسلام کے بنیادی اصول کی تبلیغ ہی تعلیم کا مطمح نظر برقرار رہا۔ اسلام کے ابتدائی معلم وہ قاری تھے جن کے سینے قرآن حکیم ازبر ہونے کے باعث منور ہو چکے تھے اور وہ دوسروں کو اس کا درس دینے کی استعداد رکھتے تھے۔ حضرت عمر نے اپنے دور خلافت میں ایسے قاری تمام مملکت اسلامی میں اس غرض سے بھیجے تھے کہ وہ عوام الناس میں اپنا ربط بڑھائیں اور مرکزی مساجد میں جمعۃ المکرم کے روز اجتماع منعقد کیا کریں۔
تعلیم: عہد بنو امیہ میں
جب عربی حکومت مستقل طور پر مستحکم ہو گئی اور اولین تعلیم جس میں علوم کے بنیادی قواعد شامل تھے معرض وجود میں آئے تو خلافت بنو امیہ کے شروع میں ہمیں ابتدائی تعلیم کے اثرات کے حوالہ جات ملنے شروع ہو جاتے ہیں ۔ علم کی تلاش میں عوام مساجد کی طرف رجوع کیا کرتے تھے جو عبادت گاہ ہونے کے علاوہ تعلیمی مراکز کی ضروریات کی کفیل ہوتی تھیں ۔ جب کوئی بچہ چھ سال کی عمر کو پہنچتا تھا تو وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے قابل سمجھا جاتا تھا۔ دکان ومکان کی طرز کی عمارتیں مستقل ابتدائی مدارس کے طور پر استعمال میں لائی جاتی تھیں۔ جنھیں ’’ مکتب‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ قرآن حکیم کی تلاوت ہی سے تعلیم کی ابتدا ہوتی۔ اس میں زیادہ ضروری دینی مسائل اور احکام سکھائے جاتے۔ جن کی عبادت سے قبل صفائی وغیرہ کے لیے ضرورت تھی اور ایسی عبارات کو ازبر کرایا جاتا جن کا نماز ودیگر اجتماعی عبادات کے دوران میں پڑھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو لکھنا سکھایا جاتا اور انھیں ریاضی کے ابتدائی قاعدوں سے روشناس کرایا جاتا تھا۔ اس میں پیغمبروں کے سوانح حیات اور بزرگوں کے واقعات کا درس بھی شامل تھا۔ آخر الامر شاگردوں کو ممتاز شعرا کے کلام کا انتخاب پڑھا دینے پر تمہیدی تعلیم ختم کر دی جاتی۔
تعلیم: عہد بنو عباس میں
خلفاے بنو عباس کے برسر اقتدار آنے پر مملکت اسلامیہ ترقی کے درخشاں دور سے گزری۔ ہر طرف امن قائم ہو گیا اور اقتصادی خوش حالی کے ساتھ علوم عقلیہ میں سرگرمیوں کا ایسا سیلاب امنڈ آیا جو اس سے قبل مشرقی ممالک کو کبھی نصیب نہ ہوا تھا۔ اس دور میں مسلمان یونان، ایران او رہندوستان کے قدیمی فلسفہ وحکمت کے خیالات سے واقف ہوئے۔ اس طرح ان کے ذہنی افق میں محیر العقول وسعت پیدا ہو گئی۔ اس نوعیت کی ہمہ گیر عقلی دلچسپیاں، اعلیٰ تعلیمی نصاب کی صورت میں رونما ہوئیں جو نشو ونما پا کر بڑی بڑی علمی درس گاہوں میں جاری ہوئے۔ ان درس گاہوں کو اس دور کے دار العلوم کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ ان میں علم وحکمت کی فاضلانہ تحقیق ہوتی اور انتہائی درجہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انھیں ’’مدارس‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ ان میں زیر مطالعہ مضامین دو بڑی اقسام میں منقسم ہوتے تھے۔ العلوم النقلیہ جن میں قرآن، حدیث، فقہ اور ادب کا درس شامل تھا اور علوم العقلیہ جن میں منطق، فلسفہ، ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، کیمیا او رادویہ زیر تدریس آتے تھے۔ دار العلوم اور مکاتب جو مملکت اسلامی میں مختلف مقامات پر وقتاً فوقتاً قائم ہوتے رہے وقت او رجگہ کی قلت ان میں زیر تعلیم مضامین کا تفصیلی جائزہ لینے سے مانع ہے۔ ۸۳۰ھ میں بغداد کے مقام پر علم وفن کی اعلیٰ تعلیم کے لیے اولین دار العلوم موسوم بہ ’’ دارالحکمت‘‘ کے معرض وجود میں لانے کی سعادت مامون الرشید کو نصیب ہوئی تھی۔ جامعہ ازہر، نظامیہ اور مستنصریہ نے بھی کسی لحاظ سے اسلامی تعلیم کے نشر وارتقا کے اہم فریضہ سے عہدہ برآ ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
سطور بالا میں جو کچھ بیان ہو چکا ہے وہ اس امر کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ ابتدا ہی سے اسلام میں تعلیم دین کی علم بردار اور اخلاقی نصب العین کی حامل رہی ہے۔ اسلامی نصاب میں ایک ایسی یکسانیت تھی جو دینی ودنیوی تعلیم میں امتیاز جائز رکھنے کی قطعی طور پر مخالف تھی۔ درحقیقت ایک خالص اسلامی معاشرہ میں ایسا سوال پیدا ہونے کا پہلے ہی سے امکان نہیں۔ اسلام میں دین زندگی سے کوئی علیحدہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ کوئی دینی عقائد کا منجمد ڈھانچا نہیں ، بلکہ یہ مسلمان کی روز مرہ زندگی کے تمام پہلووں کو مع زندگی کی خفیف ترین جزئیات کے اپنے دائرۂ نظم وضبط میں رکھنا چاہتاہے۔ تعلیمی مسائل جیسا اہم معاشری پہلو اسلام کے دائرۂ عمل سے باہر نہیں رہ سکتا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دینی درس جس میں لامحالہ اخلاقی تربیت بھی شامل ہے۔ اسلام میں تعلیم کی ابتدا وانتہا کا حامل رہا اور اسے ہر مرحلہ پر تعلیمی نصاب کے جسم میں روح کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ اسلامی تعلیم کی یہ دینی خصوصیت ہر دور میں برقرار رہی اور آج بھی جب ایک مسلمان بچہ حروف تہجی سے شناسا ہو کر پڑھنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اکثر قرآن حکیم ہی سے اس کے درس کی ابتدا ہوتی ہے۔ عربی ممالک میں ہی نہیں ، بلکہ جہاں بھی تعلیم یافتہ طبقہ میں عربی زبان سے بہرہ اندوز ہونے کا شوق پایا جاتا ہے یہی طریقہ رائج ہے۔ اس دستور عمل کا لازمی طریقہ یہ ہے کہ عموماً ہر وہ مسلمان جس کی تعلیم رسمی طریقہ پر ہوتی ہے وہ قرآن حکیم پڑھ کر اس الہامی کتاب کے ساتھ براہ راست ایک مستحکم رابطہ پیدا کر لیتا ہے۔
اور چونکہ قرآن اخلاقی تصورات کا اصلی مرجع ہے اس لیے اس کے ساتھ تعلق اخلاقی طور پر بے حد منفعت بخش ثابت ہوتا ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ اشراق ، تاریخ اشاعت، نومبر 2004)