عام طور پر علماء کا ذوق علمی ہوتا ہے، وہ مطالعہ کتب یا تدریس و تصنیف کے مشغلہ میں ہمہ تن منہمک رہتے ہیں، اور معاشرہ کے مختلف طبقات کی کمزوریوں اور خامیوں سے عمومابے خبر ہوتے ہیں۔
علمائے سلف میں اس بارے میں دو شخصیتیں مستثنی ہیں ، ایک حجۃ الاسلام امام غزالیؒ ( متوفی سن۵۰۵ھ ) ، جنھوں نے اپنی شہرہ آفاق کتاب " احیاء علوم الدین " میں اپنے زمانہ کے مسلم معاشرہ کے مختلف طبقات کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ كی عوامی زندگی اور معاشرہ كے مختلف طبقا ت علماء، كے حلقہائے درس اور مشائخ كی مجالسِ ، خلفاء و سلاطین كے درباروں، امراء كے ایوانوں اور رؤسا كے عشرت خانوں تك، اور ان محل سراؤں سے لے كر اہل حرفہ و تاجروں كی دوكانوں اور بازاروں كے پر شور ہنگامہ خیز ماحول تك سے واقف ہیں، اور جانتے ہیں كہ نفس و شیطان نےكس كس طرح سے علماء و رؤسا كے مختلف طبقوں اور عوام و خواص كے مختلف حلقوں كو فریب دے ركھا ہے۔
اور دوسری شخصیت علامّہ ابن جوزیؒ (متوفی ۷۹۵ ھ) کی ہے ،انہوں نے اپنی مشہور تصنیف "تلبیس ابلیس" میں اپنے زمانہ كی پوری مسلمان سوسائٹی كا جائزہ لیا ہے، اور مسلمانوں كے ہر طبقہ اور جماعت كو سنت و شریعت كےمعیار سے جانچا ہے، اور اس كی كمزوریوں، بے اعتدالیوں اور غلطیوں كی نشاندہی كی ہے، اور اس بارے میں كسی طبقہ كی رعایت نہیں كی، علماء ومحدثین فقہاء و واعظین، ادباء و شعراء سلاطین و حكام، عبّاد وزہّاد، صوفیائے اہل دین اور عوام سب كابے لاگ احتساب كیا، اور ان كے مغالطوں كا پردہ چاك كیا ہے۔
ان دو شہرہٴ آفاق علماء كے بعد اس سلسلہ میں امام شاہ ولی اللہ كا كارنامہ سب سے زیادہ روشن اور تابناك ہے، انھوں نے سلاطین اسلام، امراء و اركان دولت، فوجی سپاہیوں، اہل صنعت و حرفت، مشائخ اور پیر زادوں، غلط كار علماء اور خورددہ گیر واعظوں اور تارك الدنیا و عزلت گزیں زاہدوں كو علیحدہ علیحدہ خطاب كیا ہے، ان كی دكھتی ہوئی رگوں پر انگلی ركھی ہے، اوران كی اصلی بیماریوں اور خود فریبیوں كی نشاندہی كی ہے، ان سب كے علاوہ امت اسلامیہ سے عمومی اور جامع خطاب فرمایا ہے، اور ان كے امراض كی تشخیص كی ہے، اور ان كا علاج بتایا ہے، ان خصوصی خطابات میں شاہ صاحب كے دل كا درد، اسلامی حمیت كاجوش، دعوت كا جذبہ اور زور قلم اس نقطہٴ عروج پر ہے، جس كی مثال سابق الذكر مصلحین و ناقدین اور ان كی مذكورہ بالا كتابوں میں ملنی مشكل ہے،شاہ صاحب كی مشہور كتاب ’’التفہیمات الالہیۃ‘ (جلد۱۔۲) سے یہاں پر چند اقتباسات پيش كیے جاتے ہیں، جن میں آپ نے اپنے زمانہ كے مختلف ممتاز اور صاحب اثر طبقوں كے سربراہوں سے خطاب كیا ہے۔ ان خصوصی خطابات سے امام شاہ ولی اللہ كی زرف نگاہی،حکمت دعوت ، اخلاقی جرات اور واقفیت عامّہ و خاصّہ کا اظہار ہوتا ہے ۔
امراء و ارکان دولت سے خطاب:
اے امیرو! دیکھو کیا تم خدا سے نہیں ڈرتے، دنیا کی فانی لذتوں میں تم ڈوبے جارہے ہو، اور جن لوگوں کی نگرانی تمہارے سپرد ہوئی ہے، ان کو تم نے چھوڑ دیا ہے تاکہ ان میں بعض بعض کو کھاتے اور نگلتے رہیں، کیا تم علانیہ شرابیں نہیں پیتے؟ اور پھر اپنے اس فعل کو تم بُرا بھی نہیں سمجھتے، تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ بہت سے لوگوں نے اونچے اونچے محل اس لئے کھڑے کئے ہیں کہ ان میں زنا کاری کی جائے، اور شرابیں ڈھالی جائیں، جُوا کھیلا جائے، لیکن تم اس میں دخل نہیں دیتے، اور اس حال کو نہیں بدلتے، کیا حال ہے ان بڑے بڑے شہروں کا جن میں چھ سو سال سے کسی پر حد شرعی نہیں جاری ہوئی، جب کوئی کمزور مل جاتا ہے تو اسے پکڑ لیتے ہو، اور جب قوی ہوتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو، تمہاری ساری ذہنی قوتیں اس پر صرف ہورہی ہیں، کہ لذیذ کھانوں کی قسمیں پکواتے رہو، اور نرم گداز جسم والی عورتوں سے لطف اٹھاتے رہو، اچھے کپڑوں اور اونچے مکانات کے سوا تمہاری توجہ اور کسی طرف منعطف نہیں ہوتی، کیا تم نے اپنے سر کبھی اللہ کے سامنے جھکائے؟ خدا کا نام تمہارے پاس صرف اس لئے رہ گیا ہے کہ اپنے تذکروں اور قصے کہانیوں میں اس نام کو استعمال کرو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے لفظ سے تمہاری مراد زمانہ کا انقلاب ہے، کیونکہ تم اکثر بولتے ہو ، خدا قادر ہے کہ ایسا کردے، یعنی زمانہ کے انقلاب کی یہ تعبیر ہے۔(1)
------------------------------
۱؎ تفہیمات الہیہ جلد اول از ص ۲۱۵ تا ۲۱۶
مشائخ کی اولاد یعنی پیرزادوں سے خطاب
" اے وہ لوگو! جو اپنے آباؤ اجداد کے رسوم کو بغیر کسی حق کے پکڑے ہوئے ہو، یعنی گذشتہ بزرگان دین کی اولاد میں ہو، میرا آپ سے سوال ہے کہ آپ کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹکڑیوں ٹکڑیوں، ٹولیوں ٹولیوں میں آپ بنٹ گئے ہیں، ہر ایک اپنے اپنے راگ اپنی اپنی منڈلی میں الاپ رہا ہے، اور جس طریقہ کو اللہ نے اپنے رسول محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے نازل فرمایا تھا، اور محض اپنے لطف و کرم سے جس راہ کی طرف راہنمائی فرمائی تھی، اسے چھوڑ کر ہر ایک تم میں ایک مستقل پیشوا بنا ہوا ہے، اور لوگوں کو اسی کی طرف بلا رہا ہے، اپنی جگہ اپنے کو راہ یافتہ اور راہ نما ٹھہرائے ہوئے ہے، حالانکہ دراصل وہ خود گم کردہ راہاور دوسروں کو بھٹکانے والا ہے، ہم ایسے لوگوں کو قطعاً پسند نہیں کرتے جو محض لوگوں کو اس لئے مرید کرتے ہیں تا کہ ان سے ٹکے وصول کریں، ایک علم شریف کو سیکھ کر دنیا بٹورتے ہیں، کیونکہ جب تک اہل دین کی شکل و شباہت اور طرز و انداز وہ نہ اختیار کریں گے، دنیا حاصل نہیں ہو سکتی۔
اور نہ میں ان لوگوں سے راضی ہوں جو سوائے اللّٰہ و رسول کے خود اپنی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں، اور اپنی مرضی کی پابندی کا لوگوں کو حکم دیتے ہیں، یہ لوگ بٹ مار اور راہگیر ہیں، ان کا شمار دجّالوں کذّابوں فتّانوں اور ان لوگوں میں ہے جو خود فتنہ اور آزمائش کے شکار ہیں۔
خبردار! خبردار! ہر گز اس کی پیروی نہ کرنا، جو اللّٰہ کی کتاب اور رسول کی سنت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو۔ اور اپنی طرف بلاتا ہو، اور چاہئے کہ زبانی جمع خرچ صوفیائے کرام کے اشاروں کے متعلق عام مجلسوں میں نہ کیا جائے کیونکہ مقصد تو (تصوف) سے صرف یہ ہے کہ آدمی کو احسان کا مقام حاصل ہو جائے، لوگو، دیکھو! کیا تمہارے لئے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد میں کوئی عبرت نہیں ہے۔
وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُو السُّبّلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ مِّنْ سَبِیْلِهٖ ۔(الانعام ۱۵۳)
یہ میری راہ ہے سیدھی، تو اس پر چل پڑو اور مختلف راہوں کے پیچھے نہ پڑو، وہ تمہیں اللّٰہ کی راہ سے بچھڑا دیں گے"۔۱
------------------------------
۱ ایضاً ۴۱۲
غلط كار علماء سے خطاب
’’ارے بد عقلو! جنھوں نے اپنا نام ’’علماء‘‘ ركھ چھوڑا ہے، تم یونانیوں كے علوم میں ڈوبے ہوئے ہو، اور صرف ونحو معانی میں غرض ہو، اور سمجھتے ہو كہ یہی علم ہے، یاد ركھو!(علم) یا تو قرآن كی كسی آیت محكم كا نام ہے، یا سنت ثابتہ قائمہ كا۔
چاہیے كہ قرآن سیكھو، پہلے اس كے غریب لغات كو حل كرو، پھر سبب نزول كا پتہ چلاؤ، اور اس كے مشكلات كو حل كرو، اسی طرح جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی صحیح ثابت ہو چکی ہے، اسے محفوظ كرو، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز كس طرح پڑھتے تھے، وضو كرنے كا حضور صلی اللہ علیہ وسلم كا كیا طریقہ تھا، اپنی ضرورت كے لیے كس طرح جاتے تھے، اور حج كیونكر ادا فرماتے تھے، جہاد كا آپ كے كیا قاعدہ تھا، گفتگو كا كیا انداز تھا، اپنی زبان كی حفاظت كس طرح فرماتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم كے اخلاق كیا تھا، چاہیے كہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی پوری روش كی پیروی كرو، اور آپ كی سنت پر عمل كرو، مگر اس میں بھی اس كا خیال رہے كہ جو سنت ہے، اسے سنت ہی سمجھو، نہ كہ اسے فرض كادرجہ عطا كرو، اسی طرح چاہیے كہ جو تم پر فرائض ہیں، انہیں سیكھو، مثلاً وضو كے اركان كیا ہیں، نماز كے اركان كیا ہیں، زكاۃ كا نصاب كیا ہے، قدر واجب كیا ہے، میت كے حصوں كی مقدار كیا ہے، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم كی عام سیرت كا مطالعہ كرو، جس سے آخرت كی رغبت پیدا ہو، صحابہ اور تابعین كے حالات پڑھو، اور یہ چیزیں فرائض سے فاضل اور زیادہ ہیں، لیكن ان دنوں تم جن چیزوں میں الجھے ہوئے ہو اور جس میں سر كھپار رہے ہو، اس كو آخرت كے علم سے كیاواسطہ یہ دنیا كے علوم ہیں(تفہیمات الہیہ ص 214 )پھر ان ہی طلباء كو فرماتے ہیں۔
’’جن علوم كی حیثیت صرف ذارئع اور آلات كی ہے (مثلاًصرف ونحو وغیرہ) توان كی حیثت آلہ اور ذریعہ ہی كی رہنے دو، نہ كہ خود انہی كو مستقل علم بنا بیٹھو، علم كا پڑھنا تو اس لیےواجب ہے، كہ اس كو سیكھ كر مسلمانوں كی بسیتوں میں اسلامی شعار كو رواج دو، لیكن تم نے دینی شعار اور اس كے احكام كو تو پھیلایا نہیں اور لوگوں كو زائد ازضرورت باتوں كا مشورہ دے رہے ہو۔
تم نے اپنے حالات سے عام مسلمانوں كو یہ باور كرادیا ہے، كہ علماء كی بڑی كثرت ہو چکی ہے، حالانكہ ابھی كتنے بڑے بڑے علاقے ہیں، جو علماء سے خالی ہیں، اور جہاں علماء پائے جاتے ہیں، وہاں بہی دینی شعاروں كو غلبہ حاصل نہیں ہے۔(تفہیمات الہیہ ص 215)
(تلخیص از تاریخ دعوت و عزیمت ج 5 ، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )