مظفر حسین (10مئی 1994ء اکیڈیمک اینڈ منسٹر یٹو ڈائریکٹر آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگرس) ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کتاب "پاکستان کا مستقبل " کی اشاعت مکرر کے بارے میں لکھتے ہیں " پاکستان کے مستقبل کے بارے میں آج ہر ہوشمند پاکستانی فکر مند ہے۔ خارجی خطرات سے کہیں زیادہ سنگین تر داخلی روگ ہیں جو جسد ملی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیںَ اور ستمگاری حالات کا سب سے زیادہ دردناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاسی اور دینی راہنما اپنے بدشگون بیانات سے ملک میں مایوسی اور گھمبیرتا کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
خدا کی رحمت پر بھروسہ رکھنے والے بندگان خدا جنہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا آج بھی اس انتظار میں ہیں کہ نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز رکھنے والا کوئی مرد خدا ہم میں سے اٹھے گا اور قوم کو بتلائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہے وہ ابھی پورا نہیں ہوا اسے بہرحال پور ا ہو کر رہنا ہے اور یہ سوچنا بھی کفر ہے کہ خدا کا کوئی کام (نعوذ باللہ) بے مقصد ہوتا ہے۔
ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم و مغفور جو کار مرداں روشنی و گرمی است کے قلم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جب تک زندہ رہے قوم کو روشن مستقبل کی نوید سناتے رہے قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں آپ نے پاکستان کا مستقبل کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اسے شائع کیا۔ اس کتاب میں آپ نے قوم کے بنیادی مرض کی تشخیص کی اور اس کا علاج بھی تجویز کیا۔ لیکن ہماری قوم کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ وہ خسروانہ انداز رکھنے والے اس مرد درویش کے کام بلکہ نام تک سے ناواقف ہے۔ جو عمر بھر تند و تیز ہوائوںمیں اپنا چراغ جلاتا رہا مگر اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ انسانی تاریخ میں اکثر ایسا ہوتا آیا ہے ۔
موجودہ حالات میں جب تاریکیاں کچھ زیادہ ہی پھیلتی جا رہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے ہ اس مرد درویش کے چراغ سے روشنی حاصل کی جائے جس کی رجائیت پسندی کا یہ عالم رہا کہ کسی بھی حالت میں مایوسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا بلکہ مرض کو بھی رحمت ہی خیال کیا ذرا سنیے۔
’’عجیب بات ہے کہ کئی امراض کی صورت میں آج تک مرض کو روکنے کے لیے مرض کو پیدا کرنے سے بہتر کوئی طریقہ علاج ایجاد نہیں ہوا۔ وہ مرض جو آ کر گزر جائے جسم کے لیے رحمت بن جاتا ہے کیونکہ اس سے جسم کی مخفی قوتیں جو مرض کو روکنے کے لیے فطرت نے اس کے اندر رکھی ہوئی ہیں بروئے کار آ جاتی ہیں اور اس کی آئندہ سحت کی ضامن بن جاتی ہیں‘‘۔
ڈاکٹر رفیع الدین مایوسی کو پھیلانے والے سیاسی اور دینی رہنمائوں سے سخت بیزار تھے۔ پیشہ ور سیاسی علماء کے بارے میں ان کی عمومی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ دینی بصیرت سے محروم ہیں۔ ان کے نزدیک دین کا علم ایک روحانی استعدا د ہے اور مطالعہ کتب پر موقوف نہیں۔ ان کے خیال میں علامہ اقبال اس روحانی استعداد سے پوری طرح بہرہ ور تھے اور ان میں وہ تمام صلاحیتیں موجود تھیں جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی امتی کو دور جدید کے غلط تصورات کے خلاف حق و صداقت کے قدرتی رد عمل کا آلہ کار بننے کے لیے درکار ہیں نیز ان کی یہ قطعی رائے تھی کہ علامہ اقبال کا فلسفہ ان کا ذاتی فلسفہ نہیں بلکہ فقط جذبہ ایمان کی عقلی توجیہہ اور تشریح ہے چنانچہ وہ فلسفہ خودی کو علم جدید کی روشنی میں قرآن کی تفسیر اورقرآن کی روشنی میں علم جدید کی تطہیر قرار دیتے ہیں اور بلا تامل ہمارے مرض کا یہ علاج تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کو ریاست کا سرکاری نظریہ قرار دے کر فلسفہ خودی کو اسلام کی سرکاری ترجمانی کے لیے کام میں لایا جائے اپنے اس موقف کی تائید میں وہ بہت ہی محکم دلائل رکھتے تھے۔
افسوس کہ ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے امید افزا اور یقین افروز افکار و نظریات سے ہم ابھی تک کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے جو عمر بھر ہمیں اپنی تحریروں کے ذریعے ماں کی مامتا کی سی دلسوزی کے ساتھ پکارتے رہے۔
دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
موجودہ وقت کا شدید تقاضا ہے کہ ہم ان کی باتوں پرتوجہ دیں جو انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں لکھی ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ہم سمجھتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ آج ہر محب وطن پاکستانی پر واجب ہے جو پاکستان کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔"
اب ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کتاب " پاکستان کا مستقبل " کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
" میں نے اپنی کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر Ideology of the Futureمیں اقبال کے تصور خودی کی منظم تشریح کرتے ہوئے اس کو اس کے آخری نتائج تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ جب میں یہ کتاب لکھ رہا تھا تو رجحانات ارتقا کے مطالعے سے مجھے معلوم ہوا کہ حقائق فطرت ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ زور یا بدیر عالم انسانی میں ایک ایسی ریاست وجود میں آئے گی جو نہایت اخلاص کے ساتھ اسلام کے بنیادی اصولوں کو اپنا سیاسی نظریہ بنائے گی اور پھر یہ ریاست رفتہ رفتہ تمام دنیا میں پھیل جائے گی۔ اور اس کے ذریعے سے آدم اپنے انتہائی عروج کو پہنچے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے اس خیال کو ان حقائق کے سمیت جو اس پر مجبور کرتے ہیں ا س کتاب کی فصل پالیٹکس اینڈ وار Politics and Warمیں درج کیا ہے ۔ یہ کتاب مئی 1942ء میں ختم ہوئی تھی۔ اور اس وقت پاکستان کا مطالبہ اکثر مسلمانوں کے نزدیک ایک دھندلی سی امیداور اکثر ہندوئوں اور انگریزوں کے نزدیک سودے بازی کے لیے ایک چال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ اگرچہ میں نے لکھا کہ مستقبل کے عالمگیر اسلامی ریاست تو مسلموں کے ایک گروہ کی لمی اور دشوار جدوجہد کے بعد عدم سے وجودمیں آئے گی اور ایک فلسفیانہ ریاست ہو گی جو اسلام کے فلسفہ یعنی فلسفہ خودی پر جو ایک ہی صحیح اور سچا فلسفہ ہے قائم ہو گی اور فلسفہ خودی کی اشاعت اس کی توسیع کا بڑا ذریعہ بنے گی وغیرہ تاہم اس وقت اس ریاست کی باریک جزئیات پر مثلا یہ کہ وہ کہاں وجود میں آئے گی غور کرنے کی ضرورت موجود نہ تھی۔ اگر میں غور کرتا بھی تو شاید اس وقت نتائج اخذ کرنے کے لیے کافی وجوہات نہ پا سکتا۔ لہٰذا میں نے ان جزئیات کو مستقبل کے سپرد کر رکھا کہ وہ ان کو جس طرح کہ وہ فی الواقع ظہور پذیر ہونے والی ہیں اپنے وقت پر خود بخود بے نقاب کر لے گا۔
اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس ریاست کو دیکھنا میری قسمت میں ہو گا۔ لیکن میں خیال کرتا تھا کہ روح اسلام کے مطابق اس کے دستور اساسی کی تشکیل میں اس کے نظم و نسق میں اس کی اندرونی اور بیرونی پالیسی کو وضع کرنے میں اس کے صنعتی تبلیغی تجارتی ‘ تعلیمی‘ اور مالی نظام کی تشکیل میں مستقبل کے مسلمانوں کو دقت پیش آئے گی اور میری تمنا بھی تھی کہ میں اس ریاست کا خاکہ بنائوں اور ان امور کے متعلق جیسا کہ میں ان کو سمجھتا ہوں اپنی تجاویز پر مدلل طور پر لکھ دوں تاکہ جب یہ ریاست وجود میں آئے تو مسلمان میری تجاویز کو بھی غور و فکر کے بعد جس حد تک کار آمد پائیں کام میں لائیںَ لیکن ریاستی ملازمت کی مجبوریوں اور بعض اور مجبوریوں کی وجہ سے جن میں سے ایک یہ تھی کہ میری پہلی کتاب چھپنے میں دیر ہو گئی۔ اس کام کو جلدی ہاتھ میں لینا ممکن نہ ہوا۔
لیکن جب پاکستان کے مطالبہ نے زور پکڑا تو میری توجہ بعض ایسے حقائق کی طر ف ہوئی جن کی بنا پر مجھے یقین ہو گیا کہ مستقبل کی عظیم الشان اور عالمگیر اسلامی ریاست جس کی طرف حقائق اشارہ کر رہے ہیں پاکستان ہی ہے اور پاکستان بن کر رہے گا۔ جب پاکستان بن گیا تو میں نے قائد اعظمؒ کی خدمت میں اپنی کتاب کا نسخہ بھیجا اور ایک طویل عریضہ لکھا جہ کس طرح سے اگر پاکستان کو اسلامی ریاست بنایا گیا تو اس کا مستقبل ہماری توقعات سے بڑھ کر شاندار ہو گا اور کس طرح فلسفہ خودی اس زمانہ کی اسلامی ریاست کی مشکلات کا قدرتی حل ہے اس عریضہ کی کاپیاں بعض وزرا کو اور اسمبلی کے اراکین کو بھیجیں لیکن اس وقت تک پاکستان ایسی مشکلات میں گھر ا ہوا تھا کہ دستور سازی کے مسئلہ کی طرف توجہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
زیر قلم مقالہ میں جو پاکستان کا مستقبل کی صورت میں قارئین کے سامنے آ رہا ہے میں نے کوشش کی ہے کہ فلسفہ خودی کی مختصر سی تشریح کر کے پاکستان کے سیاسی نظریہ کے طورپر اس کی اہمیت اور ضرورت کی وضاحت کر دوں۔ جب وزیر اعظم کی قرار داد مقاصد پیش ہو کر منظور ہوئی تو اس وقت یہ مقالہ لکھا جا چکا تھا۔ لیکن قرار داد کی منظور ی سے مجھے اپنی معروضات میں کوئی تبدیلی کرنا ضروری نہیں ہوا کیونکہ اس قرار داد سے میری تجاویز کا وہ حصہ جس کی میں پہلے ہی توقع کر رہا تھا منظور ہوا اور دوسرے حصہ کی منظوری کے راستہ میں سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ البتہ یہ قرار داد اس خیال کی اور تائید کرتی ہے کہ مستقبل کی عالگیر ریاست پاکستان ہی ہے اقبال کے فلسفہ خودی کا ظہور پانا پھر اس کا زیادہ مفصل اور منظم صورت اختیار کرنا پاکستان کے ایک معجزہ کے طور پر وجود میں آنا اور پھر ایک ایسے ہی معجزہ کے طور پر ایک اسلامی ریاست بننا‘ یہ سب مستقبل کے اسلامی ریاست کی زندگی اور ترقی کے اسباب ہیں۔ اور اس سلسلہ کی اگلی کڑی فلسفہ خودی کو پاکستان میں اسلام کی سرکاری ترجمانی کے لیے کام میں لانا ہے اور پھر وہ کڑیاں جن کا ذکر میں نے مختصراً اس مقالہ میں کیاہے جو پاکستان کو زمین کے کناروں تک پھیلا دیں گی اس کے بعد آئیں گی۔
اگر آپ مقالہ میں درج کی ہوئی معروضات میں سے کسی کی مزید تشریح یا تفصیل کی ضرورت محسوس کرتے ہوں تو میری کتاب آئیڈیالوجی آف دی فیوچر Ideology of the Future کا مطالعہ کریں۔ اگر آپ فلسفہ خودی کی ضرورت اور اہمیت کا احساس رکھتے ہوں تو پھر آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ جہاں کہیں ہوں اور جس حیثیت سے ہوں اور جہاں تک آپ کے لیے ممکن ہو۔ اس جہان تازہ کو جس کے ایوانی اوراولین صورت اقبا ل کی صبح گاہی آہوں میں نمودار ہوئی تھی ایک مکمل شکل دینے کے لیے کمربستہ ہو جائیں ۔ اسلام اور کفرکی کشمکش اس وقت ایک بحرانی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے۔ اگر فلسفہ خودی پاکستان کا سرکاری نظریہ بن گیا تو یہ کشمکش فوراً اسلام کے حق میں اور کفرکے خلاف طے پا جائے گی ۔ اگرچہ یہ یقین کرنے کی وجوہات موجود ہیں کہ فلسفہ خودی پاکستان کا سرکاری نظریہ قرار پانا قدرت کا اپنا مقصد ہے جو پورا ہو گا لیکن خدا اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اہم کام لینا چاہتا ہے۔ آئیے ہم اس کام کے لیے کمرہمت باندھ لیں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ اگر ہم نے آج سستی کی تو خدا تعالیٰ کے مقاصد تو نہ رکیں گے البتہ ہماراکوئی ٹھکانہ نہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ہر سمجھدار مسلمان جو اپنی قوم کی موجودہ حالت پر دیانت دارانہ طریق سے اور جذباتیت سے الگ ہو کر غور و فکر کرتا ہے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ہم ایک ایسے شدید انحطاط کے دور سے گزر رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے لیے نہایت خطرناک ہو سکتا ہے ۔ ہمارے دلوں سے اپنے نصب العین یعنی اسلام کی محبت یا تو بالکل ختم ہو چکی ہے یا اگر زند ہے تو شمع رہ گزر کی طرح جسے ہوا کے جھونکے ٹھیک طرح سے روشن کرنے کا موقع نہیں دیتے جو نہ جلتی ہے نہ بجھتی ہے او رجو اپنی زندگی کے لیے ہر وقت ایک ناکام کشمکش میں رہتی ہے یہ مسلم ہے کہ اب اسلام ایک ایسی قوت نہیں رہا جو ہماری زندگی کے سارے افعال اور اعمال پر نگران اور حکمران ہو۔ آہستہ آہستہ ہم ا س سے رخصت ہو رہے ہیں ۔ کوئی بداخلاقی ایسی نہیں جس سے اسلام نے روکا نہ ہو‘ لیکن کوئی بداخلاقی ایسی نہیں جس کے ہم مرتکب نہ ہو رہے ہوں رشوت ستانی‘ چور بازاری‘ کنبہ پروری ‘ جتھے بندی‘ دوست نوازی‘ جاہ طلبی ‘ غداری‘ قومی بے حمیتی‘ اسراف‘ حرص ‘ منافقت ‘ جھوٹ ‘ عیاشی‘ آرام طلبی‘ سہل انگاری‘ صوبہ پرستی‘ نسل پرستی غرضکہ تمام رزائل جو قو م کی جڑ کاٹنے والے ہیں دوسری قوموں سے بڑھ کر ہم میں موجود ہیں ۔ اب اسلام سے ہمارا تعلق قریباً قریباً ایک رسمی یا روایتی حیثیت رکھتا ہے ورنہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس میں ہم اسلام سے الگ تھلگ نہ ہو چکے ہوں۔ مثلاً دستور حکومت ہی کے مسئلے کو لیجیے ہم نے پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا تھا لیکن اب ہم سمجھتے ہیں (اور کسی حد تک جائز طورپر سمجھتے ہیں) کہ پاکستان کو ایک کامیاب اسلامی ریاست بنانا ایک ایسا کام ہے جس کی راہ میں ناقابل عبور مشکلات ہیں۔ اگر ہم پاکستان کو ایک اسلامی ریاست نہ بنا سکے یا اسلامی ریاست بنانے کے بعد عملی طورپر اسلام کی ریاست کی روح رواں نہ بنا سکے تو یہ اس بات کا اعتراف ہو گا کہ ہم سمجھ چکے ہیں کہ اس زمانہ میں اسلام ایک سیاسی نظریہ کے طور پر ناقابل عمل ہے۔ اور جب اسلام عملی طور پر ایک موثر سیاسی نظریہ نہیں بن سکتا تو پھر زندگی کا کون سا شعبہ ایسا ہے جس پر اس کا اثر باقی رہ سکتا ہے۔ کیا یہ ٹھیک نہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ضابطہ قانون و اخلاق ہمارا نظام معاشیات اور ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلو درحقیقت ہمارے سیاسی نظریہ کے ماتحت صورت پذیر ہوتے ہیں۔ اہل یورپ کو دیکھ لیجیے کہ جب سے ان لوگوں نے پورے اختیار کے ساتھ اور جان بوجھ کر عیسائیت کو حکومت سے الگ کیا ہے ۔ عیسائیت مردہ ہو کر زندہ ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔اسلام کو ایک مکمل تصور زندگی قرار دینا بظاہر ایک خوش فہمی سی نظر آتی ہے۔ کیونکہ تصور زندگی کی خصوصیتیں ہر قوم اپنے نظریہ زندگی کو خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ایک مکمل نظریہ سمجھتی ہیں۔ لیکن یہ جاننے کے لیے کہ اسلام کیوں ایک مکمل نظریہ زندگی ہے اور اشتراکیت یا عیسائیت کیوں نہیں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ نظریہ زندگی کی خصوصیات کیا ہوتی ہیں اور انسان کی نفسیات اور ارتقا کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے لہٰذا میں مختصر طور پر نظریات زندگی کی خصوصیات کا ذکر کروں گا۔
ہر انسان اپنی فطرت سے مجبور ہے کہ کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی نظریہ قائم کرے نظریہ زندگی Ideology اعتقادات اور آراء کا ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ایک انسان اپنے علم کے مطابق کائنات کا حل سمجھتا ہے۔ اور اسے اپنی خودی کے تقاضا کو پورا کرنے کے لیے قبول کرتاہے۔ ہر انسان مجبور ہے کہ کائنات کے متعلق کوئی نہ کوئی نظریہ قائم کرے اور اس پر ایک ایسا پکا اور سچا اعتقاد رکھے جو فی الواقع اس کی زندگی کے سارے افعال پر مسلط ہو۔ ایک فرد بشر کے لیے کسی نظریہ کائنات کو قائم کرنا اور باور کرنا اس قدر ضروری ہے کہ اگر وہ ایک نظریہ زندگی کا ناکافی یا غیر تسلی بخش سمجھ کر چھوڑنا چاہے تو جب تک کسی اور نظریہ زندگی پر اعتقاد قائم نہ کر لے اسے چھوڑ نہیں سکتا ۔ غرضیکہ انسان اپنے نظریہ زندگی سے ایک لمحہ کے لیے بھی الگ نہیں ہو سکتا۔ نظریہ زندگی اس کے لیے خوراک سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ مشاہد ہ میں آتاہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو انسان اپنے نظریہ زندگی کی حفاظت ک لیے خواہ وہ نظریہ زندگی کسی نوعیت کا ہو بھوکا رہنے بلکہ جان تک دینے کو تیار ہو جاتا ہے۔ نظریہ زندگی کا منبع انسان کی خودی کا قوی ترین جذبہ یعنی کشش حسن ہے۔
نظریہ زندگی کا سرچشمہ یا منبع درحقیقت فطرت انسانی کا وہ زبردست (انسا ن کے تمام نفسیاتی تقاضوں سے زیادہ قوی اور زیادہ زبردست) جذبہ Urgeہے جسے حسن و کمال کی معنوی کشش کہنا چاہیے۔ یہ جذبہ اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی تصور کی طر ف حسن و کمال معنوی کی تمام صفات شعوری یا غیر شعور طور پر منسوب کرے خواہ یہ صفات اس تصور میں فی الواقع موجود ہوں یا نہ ہوں۔
ظاہر ہے کہ انسان کا یہ فطری جذبہ محبت صرف ایک ایسے تصور سے مستقل اور مکمل طور پر مطمئن ہو گا جس کے اندر حسن و کمال کے تمام وہ عناصر یا اوصاف فی الواقع موجود ہوں گے جنہیں ہم انسان ہونے کی حیثیت سے وہم و گمان میں لا سکتے ہیں یا جن کی خواہش کر سکتے ہیں ایسا تصور تصور کامل ہو گا۔ اور یہی ہماری فطرت کا اصل مقصود و مطلوب ہو گا۔ اور اگر کسی تصور میں ان صفات کمال میں سے جن کے لیے ہماری فطرت بے تاب ہے ایک صفت بھی مفقود ہو گی تو وہ تصور ہمیں آخر کار پوری تسلی نہ دے سکے گا۔ اور لہٰذا ناقص اور ناپائیدار ہو گا۔
چونکہ انسان ٹھیک طرح سے یعنی ذاتی علم تجربہ یا احساس کی بنا پر نہیں جانتا کہ تصور کامل فی الحقیقت کون سا ہے۔ اور چونکہ اس کا جذبہ محبت ناقابل التواء اور ناقابل گریز ہے۔ اور فوری اطمینان چاہتا ہے۔ اس لیے وہ بہتر علم کا انتظار نہیں کر سکتا۔ اور مجبور ہوتا ہے کہ اپنے دائرہ علم کے اندر جو تصور اسے فی الوقت بہترین نظر آئے اسی سے حسن و کمال کی تمام صفات جن کی تمنا اس کی فطرت کے اندر ودیعت کر گئی ہیں منسوب کر دے۔ جیسے کہ ہر شخص جو اپنی خوراک نہ پا سکتا ہو بھوک سے مجبو رہوتاہے ۔ کہ جو کھانے کو ملے اسی سے اپنا پیٹ بھر لے۔ اور اسی میں لذت و اطمینان پائے۔ ہر تصور جو ایک انسان اس طرح سے اختیار کرتا ہے اسی قسم کا ہوتا ہے کہ اس میں سے صفات کمال و حسن میں سے ایک یا چند صفات کی جھلک صاف طور پر دکھائی دیتی ہے ۔ اور پھر باقی ماندہ صفات کو وہ تحقیق کرنے کے بغیر اور غیر شعوری طور پر اس کی طرف منسوب کر کے ان کی موجودگی کا احساس کرنے لگتا ہے کیونکہ اس کا تصور کیسا ہی ناقص ہو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے تقاضائے فطرت کا کوئی پہلو غیر مطمئن رہے وہ کسی ایسے تصور کو پسند نہیں کر سکتا جس کے متعلق اسے شبہ ہو کہ کوئی صفت کمال ایسی بھی ہے جو اس میں موجود نہیں۔ لہٰذا وہ جس تصور کو پسند کرتا ہے اس کے متعلق ناجائز یا جائز اطمینان رکھتا ہے کہ اس کے اندر تمام صفات کمال موجود ہیں۔ لیکن درحقیقت جس قدر اس کا علم یعنی تجربہ یا احساس ناقص ہو گا اسی قدر اس کا باور کیا ہواتصور بھی ناقص ہو گا۔ اور جس قدر اس کے علم اور تجربہ کا دائرہ وسیع ہو گا اسی قدر اس کے تصور کا معیار حسن و کمال بھی بلند ہو گا۔ تاہم جب کوئی انسان کسی تصور کو اختیار کرتاہے تو اسے زندگی کا نصب العین قرار دیتا ہے۔ اور جب تک اس کے ساتھ وابستہ رہتا ہے اس کے ساتھ پوری پوری عقیدت رکھتا ہے اور اپنی تمام زندگی کو اس کی خدمت میں اور اطاعت کے لیے وقف کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔مغربی حکماء کے اس عقیدہ نے کہ صداقت وہی ہے جسے حواس کے ذریعہ سے معلوم کیا جا سکے نہ صرف مغربی علوم کو صحیح اور معیاری علوم کے درجہ سے گرا دیا ہے اور انسان اور کائنات کے ایسے فلسفوں کو جنم دیا ہے۔ تہذیب مغرب کے بعض فریب خوردہ شاید اس بات کو باور نہ کر سکیں۔ اس لئے میں مغرب کے ایک سر بر آوردہ حکیم پروفیسر پٹی رم سوروکن کی کتاب ’’ ہمارے عہد کا بحران‘‘ (The Crisis of our age) سے کچھ حوالے نقل کرتا ہوں جن سے معلوم ہو گا کہ پروفیسر سورو کن اپنی تحقیق سے اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مغربی تہذیب ایک ’’ المناک بحران‘‘ میں مبتلا ہے جو عنقریب اس کی ’’ تباہی‘‘ کا موجب ہو گا اور یہ تباہی ’’ دور حاضر کے انسان کے لئے ذلت اور نکبت‘‘ کا پیغام اپنے ساتھ لائے گی۔ وہ لکھتا ہے کہ مغربی تہذیب کے اس بحران کا سبب یہ ہے کہ مغربی تہذیب
’’ اس اعتقاد کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی کہ سچی صداقت اور سچی نیکی دونوں کلیتہً یا بیشتر حسی یا مادی ہیں۔ ہر وہ چیز جو حواس خمسہ کی گرفت سے بالا ہے بطور صداقت کے فرضی ہے یا تو اس کا کوئی وجود ہی نہیں یا اگر کوئی وجود ہے تو چونکہ وہ حواس خمسہ سے معلوم نہیں کیا جا سکتا تھا وہ غیر موجود کے حکم میں ہے۔ چونکہ سچی صداقت اور سچی نیکی کو مادی یا حسی قرار دے لیا گیا تھا ہر وہ چیز جو حواس کے ادراک سے ماوراء تھی خواہ وہ خدا کا تصور تھا یا انسان کا شعور۔ ہر وہ چیز جو غیر حسی اور غیر مادی تھی اور جو روز مرہ کے تجربات سے دیکھی، سنی، چکھی، چھوئی یا سونگھی نہیں جا سکتی تھی۔ ضروری تھا کہ اسے غیر حقیقی، غیر موجود اور بے سود قرار دیا جاتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ اس شجرکاری کا پہلا زہر آلود پھل یہ تھا کہ سچی صداقت اور سچی نیکی کے دائرہ کو مہلک حدود تک محدود کر دیا گیا اور جب تہذیب ایک بار اس راستہ میں داخل ہو گئی تو پھر اس کو اسی راستہ پر آگے جانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صداقت اور نیکی کی دنیا ہر روز اور زیادہ حسیت اور مادیت کے تنگ سانچوں میں ڈھلتی گئی۔‘‘
سوروکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ دور حاضر کی حسیت زدہ تہذیب (Sensate Civilization) کو موت کے منہ سے بچانے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ جس قدر مکمل ہو وہ اپنے حسیت نواز بنیادی مفروضہ کو بدل کر اس کی جگہ کسی روحانی مفروضہ کو اپنی بنیاد بنائے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اس’’ حسیت زدہ تہذیب کے تمام عقیدوں اور اس کی تمام قدروں کا نئے سرے سے گہرا مطالعہ کیا جائے۔ اس کی خارج از وقت کاذب اقدار کو رد کیا جائے اور ان سچی قدروں کو بحال کیا جائے جو اس نے رد کر دی ہیں۔۔۔۔ مذہب اور سائنس کا موجودہ اختلاف حد درجہ تباہ کن ہی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہے۔ اگر سچی صداقت اور سچی نیکی کے معقول اور تسلی بخش نظریہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذہب اور سائنس دونوں ایک ہی ہے اور ایک ہی مقصد کو پورا کرتے ہیں اور وہ مقصد یہ ہے کہ قادر مطلق خدا کی صفات کو اس مرئی دنیا کے اندر آشکار کی اجائے تاکہ خدا کے نام کا بول بالا ہو اور انسان کی عظمت پایہ ثبوت کو پہنچے۔‘‘
خودی کی فطرت پر نگاہ رکھنے والے لوگ محترم پروفیسر سوروکن کو پورے اعتماد کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ وہ روحانی عقیدہ جو نہایت معقولیت کے ساتھ مغرب کے حسی اور مادی عقیدہ کی جگہ لے سکتا ہے اور مغربی تہذیب کو موت کے منہ سے بچا سکتا ہے یہ ہے کہ ’’ انسان کے اعمال کی قوت محرکہ خدا کی محبت ہے جو بھٹک کر کسی غلط نصب العین کی صورت میں اپنا اظہار کرنے لگتی ہے۔‘‘ یہ بیان علمی زبان میں لا الہ الا اللہ کا ترجمہ ہے۔
لہٰذا مغربی تہذیب یا تو مٹ جائے گی یا پھر اس عقیدہ کو اپنا کر فلسفہ خودی سے جو قرآن حکیم کا بنیادی فلسفہ ہے ہمکنار ہو جائے گی اور اسلامی تہذیب کے نام سے تا قیامت زندہ رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ہم نے علم کو علم دین تک اور دین کو قرآن اور حدیث کے الفاظ تک محددو کردیا، حالانکہ اس وقت جس قدر صحیح اور سچا علم دنیا میں موجود ہے یا آئندہ زمانوں میں انسان کی ذہنی کاوش سے پیدا ہونے والا ہے وہ علم دین کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اس زمانہ میں علوم کی ترقی قرآن کے علم کو بہت آگے لے گئی ہے ،لیکن ہم وہیں کھڑا ہیں۔ دنیا آگے جارہا ہے ۔ اور ہمارا رخ پیچھے کی طرف ہے ۔۔۔۔۔۔۔‘‘