مفکر اسلام سید ابوالحسن علی ندوی ؒ
(چھٹی صدی عیسوی اور اس سے قبل ) "رہبانیت میں اتنا غُلو اور افراط پیدا ہوگیا تھا کہ اس زمانہ میں اس کا قیاس کرنا بھی مشکل ہے ’’ تاریخ اخلاق یورپ‘‘ سے اس کے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
راہبوں اور زاہدوں کی مجموعی تعداد مؤرخین کے اختلاف بیان کی وجہ سے قطعی طور پر نہیں بتائی جاسکتی تاہم ان کی کثرت اور تحریک رہبانیت کی اشاعت و مقبولیت کا اندازہ اعدادِ ذیل سے ہو سکتا ہے سینٹ جروم کے زمانے میں ایسٹر کی تقریب پر تقریباً پچاس ہزار راہبوں کا مجمع ہوتا تھا، چوتھی صدی میں صرف ایک راہب کی ماتحتی میں پانچ ہزار راہب تھے، سینٹ سراپین کی ماتحتی میں دس ہزار راہب تھے ، اور چوتھی صدی کے خاتمہ پر تو یہ حالت ہوگئی تھی کی جتنی خود مصر کے شہریوں کی آبادی تھی تقریباًاسی قدر ان زاہدوں اور راہبوں کی تھی، دو چار سال نہیں کوئی پورے دو سو ۲۰۰ سال تک جسم کشی منتہائے اخلاق سمجھی جاتی رہی۔
مؤرخین نے اس کی بڑی لرزہ خیز مثالیں پیش کی ہیں، سینٹ میکریس اسکندری کی بابت مشہور ہے کہ وہ چھ ماہ تک برابر ایک دلدل میں سویاکئے تاکہ ان کے برہنہ کو زہریلی مکّھیاں ڈسیں، نیزیہ کہ یہ ہمیشہ ایک من لوہے کے وزن اپنے اوپر لادے رہتے تھے، ان کے مرید سینٹ یوسیس تقریباً دومن لوہے کا وزن لادے رہتے تھے ، اور تین سال تک ایک خشک کنویں کے اندر مقیم رہے، ایک مشہور راہب یوحؔنا کے متعلق منقول ہے کہ وہ متصل تین سال تک کھڑے ہوئے عبادت کرتے رہے ایک مدّت میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ بیٹھے نہ لیٹے، جب بہت تھک جاتے تو چٹان پر اپنے جسم کو سہارا دے لیتے، بعض زاہد لباس کسی قسم کا نہیں استعمال کرتے تھے، ستر پوشی کا کام اپنے جسم کے بڑے بالوں سے لیتے تھے، اور چوپایوں کہ طرح ہاتھ پیر کے بل چلتے تھے، راہبوں کے مسکن علی العموم اس وقت مکانات نہیں ہوتے تھے بلکہ وحشی درندوں کے غار، خشک کنویں یا قبرستان ہوتے تھے، اہل زُہد کا ایک طائفہ صرف گھاس کھاتا تھا، جسم کی طہارت، روح کی پاکیزگی کے منافی سمجھی جاتی تھی، اور جو زائد مرتبۂ زہد میں جتنی زیادہ ترقی کرتے جاتے تھے، اسی قدر وہ مجسمہ عفونت و غلاظت ہوتے۔
سینٹ اتھینیس نہایت فخر سے بیان کرتا ہے کہ سینٹ انٹونی بایں کِبر سنی کبھی مدت العمر اپنے پیر دھونے کے عصیاں کا مرتکب نہیں ہوا، سینٹ ابرہام نے پنجاہ سالہ مسیحی زندگی میں اپنے چہرہ یا پیر پر پانی کی چھینٹ نہ پڑنے دی، راہب الگزنڈر بڑے تأسف اور تحیّر سے فرماتے ہیں کہ ایک وہ زمانہ تھا جب ہمارے اسلاف منھ دھونا حرام جانتے تھے اور ایک ہم لوگ ہیں کہ حمام جایا کرتے ہیں، راہب معلموں کا بھیس بدلے ہوئے پھرتے تھے، اور بچوں کو پھُسلا پھُسلا کر اپنے حلقہ میں شامل کرتے تھے۔
والدین کا اپنی اولاد پر کوئی اختیار نہیں رہ گیا تھا، جو اولاد انہیں چھوڑ کر تارک الدنیا ہو جاتی تھی، اس کے نام پر پبلک میں ہر طرف واہ واہ ہوتی تھی، پہلے جو اثر و اقتدار بزرگ خاندان یا والد کو حاصل ہوتا تھا، وہ اب پادریوں اور راہبوں کی طرف منتقل ہو گیا ، پادری رہبانیت کے لئے لڑکوں کا اغواء کرتے تھے، سینٹ ایمبروز میں اس قسم کے اغوا کی قوت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اُسے دیکھ کر مائیں اپنے اپنے بچوں کو گھر کے اندر بند کر دیتی تھیں۔
تحریک رہبانیت کا اخلاقی نتیجہ یہ ہوا کہ جتنے کمالات مردانگی و جوانمردی سے متعلق ہیں، وہ سب یکسر معیوب قرار پا گئے مثلاً زندہ دلی، خوش طبعی، صاف گوئی، فیاضی ، شجاعت جرأت کہ عابدانِ مرتاض کبھی ان کے قریب بھی ہو کر نہیں گزرے تھے، دوسرا اہم نتیجہ رہبانی طرز معاشرت کا یہ ہے کہ خانگی زندگی کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور دلوں سے اعزا کا احترام و ادب کا فور ہو گیا، اس زمانہ میں ماں باپ کے ساتھ احسان فراموشی اور اعزا کے ساتھ قساوت قلبی کی جس کثرت سے نظریں ملتی ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔
یہ زاہدان صحرا اور عابدانِ مرتاض اپنی ماؤں کی دل شکنی کرتے تھے، بیویوں کے حقوق کی پامالی کرتے تھے، اور اپنی اولاد کو یہ دغا دیتے تھے کہ انہیں بے دلی ووارت محض دوسروں کے ٹکڑوں کے رحم پر چھوڑ دیتے تھے، ان کا مقصود زندگیتمام تر یہ ہوتا تھاکہ خود انھیں نجات اخروی حاصل ہو، انھیں اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ ان کے متعلقین و متوسّلین جئیں یا مریں لیکی نے اس سلسلہ میں جو واقعات لکھے ہیں، ان کو پڑھ کر آج بھی آنسو نکل آتے ہیں، عورتوں کے سایہ سے وہ بھاگتے تھے، ان کا سایہ پڑ جانے سے اور راستہ گلی میں اتفاقاََ سامنا ہوجانے سے وہ سمجھتے تھے کہ ساری عمر کی زہد و ریاضت کی کمائی خاک میں مل جاتی ہے، اپنی ماؤ ، بیویوں اور حقیقی بہنوں سے بات کرنا بھی وہ معصیتِ کبیرہ سمجھتے تھے، لیکی نے اس سلسلہ کے جو واقعات لکھے ہیں ان کو پڑھ کر کبھی ہنسی آتی ہے کبھی رونا." (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1- "انسانی دنیا پر مسلمانوں عروج و زوال کا اثر" ص 210-2013 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )