مفکّرِ اسلام سید ابوالحسن علی ندویؒ
امتِ اسلامیہ آخری دینی پیغام کی حامل ہے، اور یہ پیغام اس کے تمام اعمال اور حرکات و سکنات پر حاوی ہے، اس کامنصب قیادت و رہنمائی اور دنیا کی نگرانی و احتساب کا منصب ہے، قرآن مجید نے بہت قوت اور صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے:-
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ (آل عمران - ۱۱۰)
(اےپیروان دعوتِ ایمانی) تم تمام امتوں میں"بہتر امت" ہو جو لوگوں(کی ارشاد و اصلاح) کے لئے ظہور میں آئی ہے، تم نیکی کا حکم دینے والے، برائی سے روکنے والے اور اللہ پر سچا ایمان رکھنے والے ہو۔
دوسری جگہ کہا گیا ہے:-
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (البقرہ ۱۴۳)
اس لئےاس کاسوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اس امت کی جگہ قافلہ کے پیچھے اور شاگردوں اور خاشیہ برداروں کی صف میں ہو اور وہ دوسری اقوام کے سہارے زندہ رہے، اور قیادت و رہنمائی، امرو نہی اور ذہنی و فکری آزادی کے بجائے تقلید اور نقل، اطاعت و سپر اندازی پر راضی اور مطمئن ہو، اس کے صحیح موقف کی مثال اس شریف قوی الارادہ، آزاد ضمیر شخص سےدی جاسکتی ہے، جو ضرورت و احتیاج کے وقت دوسروں سے اپنے ارادہ و اختیار سے وہ چیزیں قبول کرتا ہے، جو اس کے حالات کے مطابق ہوں اور اس کی شخصیت اور خود اعتمادی کو مجروح نہ کرتی ہوں، اور ان چیزوں کو مسترد کردیتا ہے، جو اس کی شخصیت اور حیثیت کے مطابق نہ ہوں یا اس کو کمزور کرتی ہوں، یہی وجہ ہے کہ اس قوم کو کسی دوسری قوم کے شعائر اور امتیازات کا اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔۱؎
یہ قوم زندگی کا ایک خاص متعین مقصد رکھتی ہے، دنیا کے لئے اس کے پاس ایک مکمل دعوت ہے، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کی جدو جہد اور عمل اور اس کی ہر قسم کی سرگرمی اور نشاط، اس کے عقیدہ، مقاصد اور پیغام کی تابع ہے، اس کے نزدیک علم برائے علم، اور طاقت برائے طاقت، اور اتحاد برائے اتحاد کی کوئی قیمت نہیں، انسان اور کائنات پر فتح حاصل کرنا اور طبعی و فلکی طاقتوں کی تسخیر ( اگر وہ اپنی قوت یا اپنی مادی اور علمی فتوحات کے اظہار کے لئے ہو) اس کے نزدیک لہو و لعب یا حد سے بڑھی ہوئی انانیت کے سوا کچھ نہیں، قرآن مجید اس کے جذبات اور میلانات کو اس آیت سے قابو میں رکھتا ہے:-
تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَo (القصص - ۸۳)
یہ عالمِ آخرت ہم ان لوگوں کےلئےخاص کرتےہیں جو دنیامیں بڑا بنناچاہتےہیں اور نہ فساد کرنا، نیک نتیجہ متقی لوگوں کوملتاہے۔
طاقتور، باخبر، صالح اور مصلح مسلمان!
ضرورت کی حد تک اور انسانیت کے مفاد اور نیک مقاصد کے لئے اسلام زندگی کائنات اور علم کی راہ میں جدو جہد کو نا جائز قرار دیتا ہے، بلکہ بعض اوقات اس کی ترغیب بھی دیتا ہے،اس کے لئےاللہ تعالٰے نے طاقتور، باخبر و ہوشمند اور صالح و مصلح مومن کی مثال دی ہے، جو کائناتی و مادّی طاقتوں کو مسخر بھی کرتا ہے، اور اسباب و وسائل کا ذخیرہ بھی جمع کرتا ہے، اور اپنی فتوحات اور مہمات کا دائرہ بھی برابر وسیعکرتا رہتا ہے، لیکن اپنی طاقت، سلطنت اور قیادت کے شباب میں بھی اور ظاہری اسباب پر تصرّف کے بعد بھی اپنے رب پر ایمان رکھتا ہے، اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے، آخرت پر یقین رکھتا ہے، اور اس کے لئے جدوجہد کرتا ہے، اپنے ضعف کا معترف ہے، انسانیت اور کمزور قوموں پر رحم دل اور حق کا حامی ہے، اور اپنی ساری قوت، جدو جہد، صلاحیتیں اور اپنے سارے وسائل اور ذخائر، اللہ کےنام کی بلندی اور انسانوں کو ظلمتوں سے نور کی طرف اور انسان کی بندگی سے اللہ کی بندگی کی طرف بلانے میں صرف کرتا ہے، وہ سیرت اور کردار جس کی نمائندگی سلیمان بن داود علیہماالسلام، ذو القرنین اور خلفاء راشدین اور ائمہ اسلام نے اپنے اپنے زمانہ میں کی ہے۔
زندگی، آخرت کے لئے ایک عبوری مرحلہ!
اس زندگی کے بارہ میں اس کی پالیسی اور موقف یہ ہے کہ وہ اس کو سب سے بلند مقصد "آورش" اور ترقی و کامیابی کی معراج نہیں سمجھتا، وہ اس کو ایک ایسا عبوری مرحلہ سمجھتا ہےجس کو پار کرنا انسان کے لئے ضروری ہے، اس کے نزدیک وہ عظیم تر کامیابی، لافانی اور پُر مسرّت زندگی کا ایک ذریعہ اور واسطہ ہے، قرآن مجید اس دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کے مقابلہ میں اس کی بےحقیقتی بیان کرتے ہوئے بہت وضاحت اور قوت کے ساتھ کہتا ہے:-
فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ (التوبہ - ۳۸)
( یاد رکھو) دنیا کی زندگی کی متاع تو آخرت کے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے مگر تھوڑی!
دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَ إِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿العنکبوت:٦٤﴾
اور اصل زندگی عالم آخرت ہے۔ اگر ان کو اس کا علم ہوتا تو ایسا نہ کرتے۔
ایک اور جگہ آتا ہے:
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ ﴿الحدید:٢٠﴾
تم خوب جان لو کہ (آخرت کے مقابلہ میں) دنیوی زندگی محض لہو و لعب اور (ایک ظاہری) زینت اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے اور زیادہ بتلانا ہے، جیسے مینھ (برستا) ہے کہ اس کی پیداوار (کھیتی) کاشتکاروں کی اچھی معلوم ہوتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے سو اس کو تو زرد دیکھتا ہے، پھر وہ چورا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت (کی کیفیت یہ ہے کہ اس) میں عذاب شدید ہے اور خدا کی طرف سے مغفرت اور رضامندی ہے اور دنیوی زندگی محض دھوکے کا اسباب ہے۔
وہ بہت صفائی کے ساتھ اس کو آخرت کا پل اور عمل کا ایک موقع قرار دیتا ہے۔ ارشاد ہے:
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ﴿الکہف:٧﴾
روئے زمین میں جو کچھ بھی ہے اسے ہم نے زمین کی خوشنمائی کا موجب بنایا ہے اور اس لئے بنایا ہے کہ لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں، کون ایسا ہے جس کے کام سب سے زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ایک اور موقع پر آتا ہے:-
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُo
(الملک - ۲)
جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ آخرت زیادہ بہتر اور زیادہ پائدارحقیقت ہے:-
وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَo
(الانعام - ۳۲)
اور دنیاکی زندگانی تو کچھ نہیں ہے مگر (ایک طرح کا) کھیل اور تماشا، اور جو متقی ہیں تو یقیناََ ان کے لئے آخرت ہی کا گھر بہتر ہے (افسوس تم پر) کیا تم ( اتنی بات بھی) نہیں سمجھتے!
وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّـهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَo
(القصص - ۶۰)
اور جو کچھ تم کو دیا دلایا گیا ہے، وہ محض( چند روزہ) دنیوی زندگی کے برتنے کے لئے ہے اور یہیں کی(زیب) زینت ہے اور جو ( اجرو ثواب) اللہ کے ہاں ہے وہ بدرجہاں اس سے بہتر ہے اور زیادہ باقی رہنے والا ہے، کیا تم لوگ ( اس تفاوت کو) نہیں سمجھتے؟
وہ ان لوگوں کی مذمت کرتا ہے، جو اس فانی، عارضی، ناقص اور پر عیب دنیا کو ابدی، لازوال، وسیع، ہر قسم کی کدورت اور آلائش، بیماری اور نقصان سے خالی ہراندیشہ سے آزاد اور ہر خطرہ سے پاک آخرت پر ترجیح دیتے ہیں،قرآن مجید کہتا ہے:-
إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ o أُولَـٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَo (یونس - ۸،۷)
جو لوگ (مرنے کے بعد) ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے، صرف دنیا کی زندگی ہی میں مگن ہیں اور اس حالت پر مطمئن ہوگئے ہیں، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سےغافل ہیں،تو ایسے ہی لوگ ہیں جن کا(آخری) ٹھکانہ دوزخ ہوگا، یہ سبب اس کمائی کے جو (خود اپنے ہی عملوں کے ذریعہ) کماتے رہتے ہیں۔
دوسری جگہ ارشادہے:-
مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَo أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ۖ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَo (ہود - ۱۶،۱۵)
جو کوئی(صرف) دنیاکی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے تو (ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوششِ و عمل کے نتائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے (لیکن یاد رکھو) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئےآخرت (کی زندگی) میں ( دوزخ کی) آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا، جو کچھ انہوں نے یہاں بنایا ہے، سب اکارت جائے گا، اور جو کرتے رہے ہیں سب نابود ہونے والا ہے۔
وَوَيْلٌ لِّلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍo الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَ يَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ o (ابراہیم ۳،۲)
اور عذاب سخت کی خرابی ہے، ان منکروں کے لئےجنھوں نے آخرت چھوڑ کر دنیا کی زندگی پسند کرلی، جو اللہ کی راہ سے انسانوں کو روکتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس میں کجی ڈالیں یہی لوگ ہیں کہ بڑی گہری گمراہی میں جا پڑے۔
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَo (الروم - ۷)
یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں، اور یہ لوگ آخرت سے بےخبر ہیں!
فَأَعْرِضْ عَن مَّن تَوَلَّىٰ عَن ذِكْرِنَا وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا o ذَٰلِكَ مَبْلَغُهُم مِّنَ الْعِلْمِ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اهْتَدَىٰo (النجم - ۳۰،۲۹)
آپ ایسے شخص سے اپناخیال ہٹا لیجئے جو ہماری نصحیت کا خیال نہ کرے اور بجز دنیوی زندگی کے اس کو کوئی(اخروی مطلب) مقصود نہ ہو، ان لوگوں کہ فہم کی رسائی کی حد بس یہی(دنیوی زندگی) ہے، تمہارا پرودرگار خوب جانتا ہےکہ کون اس کے راستہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہی اس کو خوب جانتا ہے جو راہ راست پر ہے۔
دوسری جگہ ارشادہے:-
إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًاo (الدّہر - ۲۷)
یہ لوگ دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے آگے (آنےوالے) ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔
ایک اور جگہ یہ آیت ملتی ہے:-فَأَمَّا مَن طَغَىٰ o وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا o فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ o (النّٰزِعٰت - ۳۹،۳۸،۳۷)
جس شخص نے (حق سے) سرکشی کی ہوگی اور (آخرت کا منکر ہو کر) دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی سو دوزخ ( اس کا) ٹھکانہ ہوگا۔
وہ اس شخص کی تعریف کرتا ہے، جو آخرت کو ترجیح دیتے ہوئے اور پیشِ نظر رکھتے ہوئے دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب زندگی گذارتا ہے، وہ کہتا ہے:-
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِo (البقرہ - ۲۰۱)
اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔
حضرت موسٰی علیہ السلام کی زبان سے ارشاد ہوتا ہے:-
وَاكْتُبْ لَنَا فِي هَـٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ۔ (الاعراف - ۱۵۶)
اور ( خدایا!) اس دنیاکی زندگی میں بھی ہمارے لئے اچھائی لکھ دے، اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لئے اچھائی کر، ہم تیری طرف لوٹ آئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:-
وَ آتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَo (النحل - ۱۲۲)
اسے دنیا میں بھی بہتری دی اور بلاشبہ آخرت میں بھی اس کی جگہ صالح انسانوں میں ہوگی۔
وہ تعبیر اور تمثیل جو اس دنیا کے بارہ میں ایک مسلمان کے موقف کو بہت کامیابی اور نزاکت کے ساتھ متعین کرتی ہے، وہ یہ ماثور حکیمانہ جملہ ہے، جو جمعہ کے بعض خطبات کا جزو ہے "إِنَّ الدُّنْيَا خُلِقَتْ لَكُمْ وَ أَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَةِ" (دنیا تمہارے لئے
پیدا کی گئی ہے، اور تم آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہو) مسلمان دنیا کے اسباب و وسائل سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے جیسے کہ یہ چیز اس کے لئے مسخر کر دی گئی بلکہ اسی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور آخرت کے لئے وہ اس طرح کوشش کرتا ہے جیسے کہ وہ اسی کے لئے پیدا کیا گیا ہے، وہ دنیا اور اس کے اسباب و وسائل کو مرکب سمجھتا ہے، راکب نہیں، غلام اور ماتحت سمجھتا ہے، آقا اور مالک نہیں، ذریعہ اور وسیلہ سمجھتا ہے، مقصد اور غایت نہیں، آخرت کو وہ اپنے سفر کی "منزل مقصود" سمجھتا ہے، جہاں اس کو پہونچنا ہے، ایسا وطن سمجھتا ہے جہاں اس کو پناہ لینا ہے، چنانچہ وہ اس کے لئے اپنی ساری قوت جمع کرتا ہے، ہر قسم کی زحمت مول لیتا ہے، عزم اور شوق کے ساتھ اپنے وسائل کو کام میں لاتا ہے، اور یہ نبوت کی وہ مثال ہے جو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے دی بھی۔ آپ نے فرمایا تھا :
مالی وللدنیا، انما انا کواکب استظل تحت شجرۃ ثم راح و ترکھا۔ ( مسند احمد و ترمذی)
میرا اور دنیا کا تعلق صرف اتنا ہے کہ میری مثال اس سوار کی طرح ہے جو تھوڑی دیر کے لئے ایک درخت کے نیچھ سایہ لینے کے لئے بیٹھ گیا پھر اس کو چھوڑ کر چلا گیا۔
دنیا کی زندگی کے بارہ میں قرآن کا یہ طرز بیان اور تمثیل رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی زندگی، آپ کی تعلیمات، آپ کی گفتگو، آپ کے جذبات، آپ کی دعاؤں، آپ کی خلوت و جلوت، ہر چیز سے عیاں ہے، ان قدسی نفوس کی زندگی بھی اس کی تصویر پیش کرتی ہے۔ جنہوں نے آپ کے دامن عاطفت میں تربیت پائی اور ان کی شخصیت اور سیرت کی تعمیر آپ کی تربیت میں ہوئی اور اسی طرح وہ تابعین اور دوسرے اہل ایمان و
یقین جو ان کے راستہ پر چلتے رہے، اور ان کی ہدایت پر عمل پیرا رہے۔
یہ ان کا مزاج اور سرشت بن گئی تھی، اور ایک ایسی تاریخی حقیقت، جس میں شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں، یہ وہ نقطہ ہے جہاں آسمانی مذاہب اور نبوت کی تعلیمات یا (اگر یہ تعبیر صحیح ہو) مدرسہ نبوت مادی فلسفوں اور اس مادی فکر سے ٹکراتا ہے جس کا اصرار یہ ہے کہ یہی دنیا سب کچھ ہے، یہی انسان کا منتہا ہے، چنانچہ وہ اس کی تعریف و تقدیس، اور اس کی عزت و محبت میں اور اس کو آرام دہ اور اچھے سے اچھا بنانے میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔
( ماخوز از "مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش" ص 278-288 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
( ماخوز از "مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش" ص 278-288 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ )
------------------------------
۱؎ علامہ (حسین بن محمد عبداللہ) طیبی(م۷۴۳ھ) اپنی کتاب"الکاشف عن حقائق السنن المحمدیہ" ( شرح مشکوٰۃ المصابیح) میں حدیث" من تشبَّہ بقوم فھو منھم" کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں،" یہ اخلاق، شکل وصورت اور شعار تینوں کے لئے عام ہے "لیکن چونکہ شعار سب سے زیادہ نمایاں اور ظاہر ہوتا ہے، اس لئے اس کو اس باب میں ذکر کیا ہے، ملا علی قاری (م۱۰۱۴ھ) نے"مرقاۃ" میں لکھا ہے کہ یہاں شعائر ہی میں تشبّہ مراد ہے، اس لئے کہ صوری اخلاق میں تشبّہ کا تصور نہیں ہوتا، اور معنوی اخلاق کے لئے تشبّہ کا نہیں بلکہ تخلّق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، اس لئےاس سے مراد قومی خصائص اور علامات ہی ہیں ( ج۴ ص۴۳۱)