سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی عصری معنویت

ڈاکٹر محمد رفعت 


معروف اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۷۹ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ گویا بیسویں صدی کے بڑے حصے پر آپ کی زندگی محیط ہے۔ اس زمانہ کا مطالعہ کریں تو سید مودودیؒ کی فکری کاوشوں کی معنویت سمجھی جاسکتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اللہ کی ہدایت پر مبنی فکر وپیغام کو خود سمجھنا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ دینی فکر کسی شخص کی طرف منسوب نہیں، بلکہ اس کا موزوں نام فکر اسلامی ہے۔ یعنی وہ فکر جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے نازل کیے ہوئے دین پر ہے۔ اس کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں مسلمانوں کے اہلِ علم نے اہم رول ادا کیا ہے۔ وحی الٰہی پر مبنی اس فکر کی مستند تشریح خود نبی کریمؐ نے فرمائی ہے۔ آپ کے بعد امت کی ہر نسل اسلامی فکر کو سمجھنے کی، اسے ترقی دینے کی اور اس کا انطباق کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ امت کے اہلِ علم میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں اور انھوں نے بھی اسلامی فکر کے ارتقاء میں حصہ لیا ہے۔

کچھ عرصے سے بعض دوستوں نے ’فکر مودودیؒ‘ کی اصطلاح کا استعمال شروع کردیا ہے۔ یہ اصطلاح مناسب نہیں۔ جس فکر کو داعیانِ حق کو پیش کرنا ہے، وہ ’فکر مودودی‘ نہیں بلکہ فکر اسلامی ہے۔ اس کو سمجھنا، فروغ دینا اور دنیا کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے۔ ہر صاحبِ علم کی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بڑا کارنامہ یقیناً انجام دیا ہے۔ اس کی قدر کی جانی چاہیے۔ انھوں نے اسلامی فکر کو سمجھنے اور اس کی تشریح کرنے میں اپنا حصہ ادا کیا ہے۔


البتہ ہر انسان جو رسول نہ ہو، اس کی فکری اور عملی کوششوںمیں غلطیاں ہوسکتی ہیں، اس کا امکان موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو وہ طریقہ بتایا ہے، جس سے ہم غلطیوں کے اتباع سے بچ سکتے ہیں اور کمزوریوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص کی باتوں کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ نبی کریمؐ نے منشائے الٰہی کی جو تشریح فرمائی، وہ تو خود مستند ہے اور معیار ہے۔ مگر باقی ہر شخص کی باتیں اس لائق ہیں کہ انھیں پرکھا جائے، جانچا جائے اور کتاب و سنت کی کسوٹی پر ان کا جائزہ لیا جائے۔

موجودہ زمانے میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام اسلام کے ترجمان اور نمائندے کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی خدمات کے جو لوگ قدرداں ہیں ان کے لیے یقیناً یہ خوشی کی بات ہے۔ لیکن بہت سے ناقدین جو مولانا مودودیؒ کا تعارف بحیثیت اسلام کے داعی اور ترجمان کے پیش کرتے ہیں، اس میں تحسین پیشِ نظر نہیں ہوتی، بلکہ تنقید مقصود ہوتی ہے۔ ذرائعِ ابلاغ نے یہ بات مشہور کررکھی ہے کہ اسلام کے نام پر بعض نامناسب حرکتیں دنیا میں ہورہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ان حرکتوں کی ذمہ دار ی مولانا مودودیؒ کے لٹریچر اور فکر پر عائد ہوتی ہے۔ اس سیاق میں مولانا مودودیؒ کے ساتھ سید قطبؒ کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ باقی مسلمان مفکرین اور علما کا ذکر اس سلسلے میں کم کیا جاتا ہے۔ یعنی سوال یہ قائم کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی طرف منسوب نامناسب حرکتوں کی ذمہ داری کس فکر پر ہے؟ اس سوال کے جوا ب میں عام طور پر سید مودودیؒ اور سید قطبؒ کے نام پیش کیے جاتے ہیں کہ ان کے پیش کردہ افکار نے نامناسب اقدامات کی ترغیب دی ہے۔


فکر کا مفہوم

اس منفی پروپیگنڈے کا جائزہ یقیناً لیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ اصل موضوع کا ایک ضمنی رخ ہے۔ اصلاً افکارِ مودودی کی تفہیم اور عصر حاضر کے تناظر میں ان کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ کے افکار کی معنویت اور فکر اسلامی کے فروغ میں ان کے کردار پر غور کرنے سے پہلے یہ بات مناسب معلو م ہوتی ہے کہ ہمارے ذہن میں خود فکر کا مفہوم تازہ ہوجائے۔ یعنی فکر سے ہم کیا مراد لیتے ہیں؟

انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے مسلسل عمل کرتا رہتا ہے، البتہ عمل کے ساتھ ساتھ اس کا ذہن سوچتا بھی رہتا ہے۔ ہاتھ پیر کام میں مصروف ہوتے ہیں اور انسان کا ذہن و دماغ غوروفکر میں مصروف ہوتا ہے۔ دنیا میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کے خیالات میں کوئی ترتیب نہیں ہوتی۔ کبھی کوئی خیال ان کے دل میں آتا ہے کبھی اس کے برعکس کوئی دوسرا آجاتا ہے۔ زیادہ تر وہ کسی سوچی سمجھی رائے کے بجائے دنیا کے عام چلن کی پیروی کرتے ہیں۔ دنیا میں جو باتیں ہورہی ہیں وہی ان کے ذہن میں گونجتی رہتی ہیں۔ دنیا میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس سے وہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے خیالات کسی ترتیب اور نظم سے خالی ہوتے ہیں۔ ایسے منتشر خیالات کو ہم فکر نہیں کہہ سکتے۔

فکر اس کا نام ہے کہ خیالات اور افکار، ایک ترتیب اور نظم کے ساتھ انسان کے ذہن میں ہوں، وہ ان کو متعین الفاظ میں بیان کرسکے پھر واضح افکار کی بنیاد پر اس کا عملی رویہ تشکیل پائے۔ اس سلسلے میں جو بات ایک فرد کے لیے صحیح ہے، وہی بات گروہ کے لیے بھی درست ہے۔ ایک اجتماعی گروہ، ایک قوم اور ایک جماعت کے بارے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے۔ ہر جماعت کے اجتماعی عمل کی بنیاد، اس کے خیالات ہوتے ہیں۔ اگر وہ خیالات منظم ہوں ان کے اندر ترتیب اور ربط ہو تو تصورات کے نظام کو فکرکہا جائے گا۔

وہ لوگ جن کے خیالات میں کوئی ترتیب نہ ہو جن کی سوچ کے پیچھے کوئی شعور نہ ہو ان کے کام دنیا پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالتے۔ وہ محض زندگی گزارتے ہیں اور صفحۂ ہستی سے گزرجاتے ہیں۔ دنیا کے احوال پر جن لوگوں نے کوئی اثر ڈالا ہے وہ وہی تھے جن کے پاس فکر موجود تھی، جن کا شعور تازہ تھا، جن کے ذہن میں یہ بات واضح تھی کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور واضح ومربوط فکر کے مطابق وہ عمل کی راہیں تلاش کرتے تھے۔

دینی فکر

فکر کے مفہوم پر غور کے بعد دینی فکر کا مفہوم متعین کرنا چاہیے۔ دنیا میں افکار و خیالات تو بہت سے ہیں۔ ان میں نظریات، فلسفے اور پروگرام شامل ہیں، جو متنوع سماجی اور سیاسی تحریکوں نے پیش کیے ہیں۔ ہر تحریک کے پاس کوئی نہ کوئی فکر ہوتی ہے،جسے وہ پیش کرتی ہے۔ البتہ دینی اور اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ اس کی بنیاد کسی شخص کے خود سوچے ہوئے خیالات و نظریات پر نہیں ہے۔ انسانی استدلال دینی فکر کو سمجھنے میں مددگار توہے۔ لیکن فکر کی بنا، کسی انسان کے ایجاد کردہ استدلال پر نہیں رکھی گئی ہے۔

بالفاظِ دیگر دینی فکر کی بنیاد انسانوں کی پیش کی ہوئی کوئی بات اور اس کے حق میں اُن کی فراہم کردہ دلیل نہیں ہے۔ بلکہ اللہ کی نازل کردہ ہدایت دینی فکر کی بنیاد ہے۔ اس کے بالمقابل فلسفیانہ اور نظریاتی فکر کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ نظریاتی اور فلسفیانہ فکر وہ ہے جو کسی انسان نے خود غوروخوض کرکے پیش کی، اس کے حق میں دلائل فراہم کیے اور اپنی فکر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے کچھ شہادتیں پیش کیں۔ دینی فکر کسی انسان کی تصنیف کردہ نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت پر مبنی ہے۔ اس کے بنیادی دلائل وہ ہیں جو اللہ کی نازل کردہ تعلیم کے اندر پیش کیے گئے ہیں۔ اس کی تشریح کی سعی میں علم رکھنے والوں نے حصہ لیا ہے۔ مخلص اصحابِ علم اور ایمان لانے والوں نے اپنی زبان میں اور اپنے حالات کے سیاق میں اس فکر کی تشریح کی ہے۔ لیکن دینی فکر کی بنیاد بہرحال ہدایتِ الٰہی ہے۔

اس مرحلے پر ہمارے سامنے ایک اہم سوال آتا ہے۔ اللہ کی ہدایات کتاب الٰہی کی شکل میں موجود ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کی جو تشریح کی وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ آپؐ کی سیرت، آپ کے اقوال اور صحابہ کا مجموعی اسوہ بھی ہمارے علم میں ہے۔ پھر اس کے بعد کیا ضرورت ہے کہ قرآن، حدیث، سیرت پاک اور سیرتِ صحابہ کے موجود ہونے کے باوجود فکر اسلامی کی از سر نو تشریح کی جائے اور اہلِ ایمان کی ہر نسل اس کام پر توجہ دے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس ضرورت کے تین پہلو ہیں۔ ایک ضرورت دعوت کے بنیادی فریضہ سے متعلق ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام کے نظام کی بنیاد ایمان پر ہے۔ اسلام دعوت دیتا ہے کہ آدمی اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں اور حساب کے دن پر ایمان لائے۔ گویا توحید، رسالت و آخرت کو مانے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جہاں ایمان لانے کی دعوت دی ہے وہیں ایمانیات کے حق میں استدلال بھی پیش فرمایا ہے۔

اس موضوع کے اہم سوالات یہ ہیں آدمی توحید پر کیوں ایمان لائے؟ اللہ کو کیوں مانے؟ تنہا اسی کی عبادت کیوں کرے؟ شرک سے کیوں بچے؟ ان سوالات پر کتابِ الٰہی میں مفصل کلام کیا گیاہے۔ اسی طرح معاملہ رسالت کا ہے۔ کیسے جانچا جائے کہ نبوت کا اعلان کرنے والے شخص کا دعویٰ نبوت صحیح ہے؟ کس بنیاد پر ہم اس کی رسالت پر ایمان لے آئیں؟ اسی طرح یہ سوال سامنے آتا ہے کہ آخرت کا امکان کیا ہے؟ آخرت کی ضرورت و حکمت کیا ہے؟ یہ سارے موضوعات قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور مذکورہ بالا سوالات کا تشفی بخش جواب دیا گیا ہے۔

ایمانیات کے دلائل

یہ دینی فکر کا پہلا پہلو ہے جہاں بیان و تشریح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یعنی ایمانیات کے لیے جو استدلال قرآن مجید میں پیش ہوا ہے اور جس کی تشریح نبیؐ نے فرمائی ہے، اس کو ہر دور کے اہلِ علم اپنی زبان میں پیش کریں، اور ہر نسل کے سامنے از سر نو بیان کریں۔ قرآن و حدیث میں جو دلائل موجود ہیں، اپنے حالات کے سیاق میں ان پر مبنی استدلال کو دوبارہ پیش کریں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایمانیات (رسالت، آخرت اور توحید) کے دلائل محض کارِ دعوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی شخص سے (جو دائرۂ اسلام میں نہیں ہے) گفتگو ہورہی ہو، تب ضروری ہے کہ توحید و رسالت کے دلائل بیان کیے جائیں، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دلائل کے بیان کرنے کے دو مقاصد ہیں: ایک یہ کہ دعوت سننے والا جان لے کہ یہ پیغام صحیح اور برحق ہے۔ لیکن دلائل کا دوسرا مقصد بھی ہے وہ یہ ہے کہ ایمان لانے والوں کا ایمان تازہ ہو۔ دلائل کی ضرورت محض ان لوگوں کو نہیں ہے جو دین سے ناواقف ہیں بلکہ جو ایمان لاچکے وہ بھی ضروت مند ہیں کہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل ان کے سامنے بار بار آئیں، تاکہ ان کا ایمان تازہ ہوتا رہے اور وہ شعور کے ساتھ پیغامِ حق کو انسانیت تک پہنچاسکیں۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ ایمانیات کے لیے قرآن مجیدنے بصیرت افروز استدلال پیش کیا ہے۔ دلائل کی ندرت کی طرح اس کا طرزِ استدلال بھی منفرد ہے۔ قرآن کے طرزِ استدلال میں گفتگو کا آغاز ان امور و حقائق سے ہوتا ہے جن کو انسان دیکھتا اور جانتا ہے۔ جو کچھ انسان مشاہدہ کرتا ہے اس کا تذکرہ کرکے قرآن انسان کو ان حقائق کی طرف متوجہ کرتا ہے جن کا براہِ راست مشاہدہ انسان نہیں کرتا۔ جو کچھ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں، زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے اور انسان، ان سب میں اللہ کی قدرت اور حکمت کی نشانیاں موجود ہیں۔ نشانیاں تو ہم دیکھتے ہیں مگر جن حقائق کی طرف نشانیاں اشارہ کررہی ہیں وہ حقائق غیب میں ہیں، وہ ہمیں آنکھوں سے نظر نہیں آتے۔

قرآن کا طرزِ استدلال یہ ہے کہ زمین و آسمان کا جو مشاہدہ تم کرتے ہو وہ تو بدیہی ہے۔ اس کا انکار آدمی نہیں کرسکتا۔ جو کچھ نظر آتا ہے ہم سب اسے مانتے ہیں۔ ان مشاہدات پر توجہ دلاکر قرآن ان حقائق کا تذکرہ کرتا ہے جو چھپے ہوئے ہیں اور غیب میں ہیں۔ اس طرح کلمہ طیبہ کے حق میں قرآن دلیل پیش کرتا ہے۔ اس طرزِ استدلال کا وصف یہ ہے کہ قرآن انسان کی فطرت کو بیدار کرتا ہے۔ انسان کی فطرت حقائق کو جانتی ہے۔ اس لیے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے صحیح فطرت پر پیدا کیا ہے۔ قرآن فطرت کو جگاکر بتاتا ہے کہ جو بات تم جانتے ہو، اسی کو مان لو۔ تم یہ جانتے ہو کہ تم غیر ذمہ دار نہیں ہو۔ اس لیے مان لو کہ آخرت آئے گی۔ تم یہ جانتے ہو کہ تنہا تمہاری عقل رہنمائی و ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے اس لیے نبیوں پر ایمان لاؤ۔ تم یہ جانتے ہو کہ تمہارا خالق اور مالک ایک ہی ہے تو شکر اسی کا ادا کرو، اس کے ساتھ عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرو۔

اس ربانی طرزِ استدلال کے برعکس دنیا کے جو فلسفے اور نظریے ہیں ان کا طرزِ استدلال دوسری نوعیت کا ہے۔ مثال کے طور پر آج کی دنیا کا مقبول طرز وہ ہے جسے ہم سائنسی طرزِ استدلال کہتے ہیں۔ اس میں اور قرآنی استدلال میں بعض باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً مشاہدے کو ذریعہ علم تسلیم کرنا۔ مگر بعض امور مختلف بھی ہیں۔ چنانچہ ہم دینی طرز کو سائنسی طرز استدلال پر قیاس نہیں کرسکتے۔ انسان بہرحال دنیا کے مقبول چلن سے متاثر ہوتا ہے، اس لیے دینی فکر کی تشریح میں اس پہلو کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایمان کے دلائل، قرآن کی پیروی کرتے ہوئے بیان کیے جائیں۔ اس اعتبار سے سائنسی طرزِاستدلال مسلمانوں کے لیے علمی چیلنج ہے۔ یعنی اس کی خامیوں کا شعور، مسلمانوں کو حاصل ہونا چاہیے۔

انطباق

قرنِ اول کے بعد مسلمانوں کو یونانی فلسفے کے چیلنج سے سابقہ پیش آیا تھا وہ زیادہ بڑا چیلنج تھا، یونانی فلسفے اور اسلام کے طرزِ استدلال میں جو اختلاف ہے وہ زیادہ نمایاں ہے۔ اس چیلنج کا صحیح جواب وہی تھا جو بالآخر مسلمان اہلِ علم نے دریافت کیا۔ یعنی یونان کے طرزِ استدلال کو یکسر رد کیا جائے۔ صرف استدلال کو نہیں بلکہ استدلال کے طریقے کو بھی رد کیا جائے۔ اس کے بجائے استدلال کے قرآنی طریقے کو سمجھا جائے اور اسی کو پیغامِ حق کی ترسیل میں استعمال کیا جائے۔ یہ دینی فکر کا ایک پہلو ہے۔ یعنی ایمانیات کے دلائل کا بیان۔

دینی فکر کا دوسرا پہلو دین کے پورے نظام اور شریعت کی تعلیمات کے بیان سے متعلق ہے۔ اس بیان کے دوران عملی زندگی سے متعلق ان سوالات کا جواب بھی دینا ہوتا ہے جو دورِ نبویؐ میں انسانوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔ اس لحاظ سے یہ موضوع پہلے مبحث سے مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ حالات کے ارتقا کے ساتھ ایمانیات میں تو اضافہ نہیں ہوگا۔ ان کے سلسلے میں جو کچھ بیان کرنا ہے اصولاً وہ موجود ہے۔ صرف مخاطبین کی رعایت سے ان کی زبان میں پیش کرنا ہے۔ لیکن دین کی تعلیمات کا جب حالات پر انطباق کیا جائے گا تو حالات کے فہم کا لحاظ کرنا ہوگا۔ حالات کے اعتبار سے نئے سوالات بھی انسانوں کے سامنے آئیں گے۔ یہ فکر اسلامی کا دوسرا پہلو ہے۔ یعنی دین کی تعلیمات کو بیان کرنا جیسی کچھ وہ ہیں اورجو نئے سوالات پیدا ہوں، ہدایتِ الٰہی کی روشنی میں ان کا جواب تلاش کرنا۔ فکر اسلامی کے اس پہلو میں ارتقا کی ضرورت پیش آتی ہے۔

انسانی علوم

فکر اسلامی کا تیسرا پہلو، دورِ نبویؐ کے بعد انسانی علوم میں ترقی سے متعلق ہے۔ اپنی فطرت کے تقاضے پر لبیک کہتے ہوئے انسان مختلف موضوعات پر غور کرتا اورمعلومات حاصل کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ان علوم نے بڑی ترقی کی ہے۔ موجودہ زمانے میں متنوع علوم موجود ہیں۔ اسلامی دنیا سے باہر پچھلے تین سو برسوں میں انسانی علوم میں قابلِ ذکر اضافے ہوئے ہیں۔ سائنس، سماجی موضوعات، قانون اور نفسیات پر علمی و تحقیقی کام کیا گیا ہے۔ ان سارے علمی شعبوں میں مسلمانوں کاحصہ بہت کم رہا ہے۔ اس لیے عصرِ حاضر کی علمی کاوشوں کے اندازِ تحقیق پر اسلامی فکر نے کم اثر ڈالا ہے۔ چنانچہ اسلامی فکر کا تیسرا پہلو ان علوم سے متعلق ہے جو انسانوں کی ضرورت ہیں۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مجبور ہے کہ علم کے میدان میں ترقی کرے، علمی دریافتیں سامنے لائے اور تحقیق و جستجو کرے۔ سوال یہ ہے کہ ان سارے علوم میں اسلام کی عطا کردہ فکری بنیادیں کیا ہیں؟ قرآن، حدیث اور سیرت میں وہ کیا بنیادی تصورات ملتے ہیں جو ان علوم کے فروغ کے لیے اساس فراہم کرتے ہیں؟ سوال پہلے بھی اہم تھا البتہ اپنے دورِ عروج میں مسلمان خود علم کے میدان میں ترقی کررہے تھے اور تحقیق و جستجو کی رہ نمائی کررہے تھے تو اس سوال کا جواب واضح تھا۔ زمانہ بھی نسبتاً سادہ تھا۔ مگر اب زمانہ پیچیدہ ہے اور اب مسلمانوں نے علم و تحقیق کے شعبے کو تقریباً چھوڑ رکھا ہے، اس لیے اب ضرورت ہے کہ علوم کی واضح اسلامی اساس فراہم کی جائے۔ یہ فکر اسلامی کے تین موضوعات ہیں جن پر ہر نسل کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایمانیات کے دلائل، اسلام کی تعلیم اور اس کا انطباق اور علوم کے لیے اسلامی اساس۔

عصرِ حاضر کی غالب فکر کی تردید

مولانا مودودیؒ کا فکری کارنامہ صرف ان کی تحریروں تک محدود نہیں ہے۔ وہ باعمل شخصیت تھے۔ اس لیے ان کو ’’پریکٹیکل آئڈیلسٹ‘‘ کہا گیا ہے۔ ایسا مثالیت پسند شخص جو عملاً انتہائی سرگرم بھی ہو۔ مولانامودودیؒ نے افکار پیش کیے اور عملاً تعمیری کام کیا۔ معنویت کے ادراک کے لیے دونوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔جو کچھ لکھا اسے اور جو کچھ کیا اسے بھی۔ اس لحاظ سے جائزہ لیں تو مولانا مودودیؒ کے افکار میں بعض نکات نمایاں ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے موجودہ دور کی غالب فکر کو رد کیا۔ اس فکر کو ہدایت ناشناس کہہ سکتے ہیں۔ یعنی وہ فکر جو ہدایتِ الٰہی سے بے نیاز ہے، مولانا مودودیؒ نے اس فکر کے غلبے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

مولانا مودودیؒ نے محسوس کیا کہ امت مسلمہ ایک یلغار اور طوفان کی زد میں ہے۔ یہ یلغار اور طوفان فکری بھی تھا اور عملی بھی۔ مولانانے دعوتِ حق کی ابتدا کی تو ہمارا ملک (غیر منقسم ہندوستان) اس وقت غلام تھا اور عالم اسلام کا بڑا حصہ انگلینڈ اور فرانس کا غلام تھا۔ مغرب کی یلغار سیاسی اور فوجی بھی تھی اور علمی و فکری بھی۔ اس کی زد میں امتِ مسلمہ تھی۔ مسلمانوں کااعتماد اور یقین اسلامی فکر پر متزلزل ہورہا تھا۔

مولانامودودیؒ کی تحریروں اور عملی کاوشوں کا مطالعہ کریں تو شروع سے آخر تک یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ نے امت مسلمہ کو دوبارہ دین پر قائم کرنے کی اور انحراف سے اسے بچانے کی کوشش کی۔ تنقیحات اور تفہیمات جیسی مولانا کی تصنیفات اس کی مثالیں ہیں۔ اصلاح امت کو مولانا مودودیؒ کے کام میں کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ گویا انھوں نے امتِ مسلمہ کے تحفظ اور دفاع کی فکر کی اور اس کو حملوں سے بچانے کی تدبیریں سوچیں۔

مولانا مودودیؒ نے اس بڑے خطرے کا نوٹس لیا جو باہر سے (یعنی مغربی دنیا سے) نمودار ہوا تھا۔ سیاسی و فوجی یلغار اور اجنبی فکر کے تسلط کی شکل میں یہ خطرہ سامنے آیا تھا۔ اجنبی فکر دین کا، خدا کا اور خدا کی ہدایت کا انکار کرتی تھی۔ تاہم ایسا نہیں تھا کہ امتِ مسلمہ کو صرف بیرونی چیلنج پیش آئے، بلکہ امت کو وہ چیلنج بھی پیش آئے جن کی حیثیت اندرونی خطرات کی تھی۔ مولانا مودودیؒ نے بڑے خطرے کے ساتھ اندرونی خطرات کا بھی نوٹس لیا۔ مثال کے طور پر مسلمانوں میں حدیث کے انکار کا رجحان پیدا ہوا۔ حدیث کے انکار کے رجحان کا کچھ نہ کچھ تعلق (بالواسطہ طور پر) مغربی فکر کے تسلط سے ہے۔ لیکن اس رجحان کاسبب محض مغربی فکر کو نہیں قرار دیا جاسکتا۔ انکارِ حدیث مسلمانوں کی خود اپنی کمزوری ہے۔ جو تاریخ کے مختلف ادوار میں سامنے آتی رہی ہے۔ مولانا مودودیؒ نے منکرینِ حدیث کی باتوں کا مدلل جواب دیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں میں دیگر فتنے اٹھے۔ کسی نادان نے قربانی کا انکار کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قربانی کا حکم اسلام میں نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس کی مدلل تردید کی۔ کسی شخص نے ذبیحہ کے احکام کی غلط تاویل کرنے کی کوشش کی۔ مولانا مودودیؒ نے اس کی اصلاح کی۔ عالم اسلام میں قادیانیت کا بڑا مسئلہ ابھرا۔ پاکستان اور عالمِ اسلام میں بہت سارے لوگوں نے قادیانیت کے فتنے کا مقابلہ کیا۔ مولانا مودودیؒ کا اس سلسلے میں جو نمایاں کردار ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ (پاکستان میں بالآخر قانون کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔ اس کے بعد پورے عالم اسلام میں متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کرلیا گیا۔ اس نتیجے کے حصول میں مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی کا بڑا رول رہا ہے)۔

مولانا مودودیؒ کے فکری و عملی کام میں واضح مقاصد ان کے سامنے رہے ہیں۔ یعنی امت مسلمہ کا تحفظ اور دفاع۔ فکری یلغار کا مقا بلہ اور ان سارے انحرافات اور گم راہیوں کا مقابلہ جو امت میں ابھر رہی تھیں۔ بیرونی اثرات اور اندر کی کم زوریوں کی وجہ سے جو بے راہ روی سامنے آرہی تھی، اس کا مقابلہ سید مودودیؒ نے کیا اور ہر مظہر کا نوٹس لیا جو امت کو غلط راستے پر لے جاسکتا تھا۔

آج اسلامی تحریک کے نام سے متعارف، بہت سے تنظیمیں دنیا کے مختلف حصوں میں کام کررہی ہیں، ان کے سامنے بڑا وسیع کام ہے جو ان کے منصوبوں کا حصہ ہے۔ منصوبوں میں متعین امور درج ہوتے ہیں۔ مثلاً جماعت اسلامی ہند کے منصوبے میں دعوت، اسلامی معاشرہ کی تعمیر، مسائل کے حل اور خدمت خلق کا ذکر ہے۔ اس طرح کے متعین کام ہر منصوبے کا جز ہوتے ہیں۔ منصوبہ سازی کا تقاضا ہے کہ عمل کی واضح راہیں تجویز کی جائیں۔ تاہم اسلامی مزاج کا تقاضا یہ بھی ہے کہ منصوبہ کے ساتھ ساتھ امت کے مجموعی احوال پر اور اس کی کیفیت پر نظر رکھی جائے اور امت کو انحراف، گمراہی، مغلو بیت اور مرعوبیت سے بچایا جائے۔ کیفیت کے ہر پہلو پر نگاہ ہو، فکری، ذہنی اور عملی۔

مولانا مودودیؒ کی کاوش اس باخبری کی مثال پیش کرتی ہے۔ جو احباب مولانا کے افکار کے قدرداں ہیں ان کو بھی اپنی سعی میں اس امر کاخیال رکھنا چاہیے کہ امت مسلمہ کے احوال پر نگاہ رکھنا اور اسے درست خطوط پر قائم رکھنا، مصلحین کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے۔

انسانیتِ عامہ
مولانا مودودیؒ کے افکار میں ایک دوسرا وصف بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے بجاطور پر اس امر کا ادراک کیا کہ امتِ مسلمہ کے علاوہ آج کے دور کا عام انسان بھی ایک بڑی گمراہی کی زد میں ہے۔ وہ گمراہی ایسی ہے جس نے انسان کی ساری انفرادی اور اجتماعی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ مختصر لفظوں میں اس کو ہدایتِ الٰہی سے بے نیاز ی کہہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو صریح الفاظ میں خدا کا انکار کرتے ہیں لیکن جو خدا کا انکار نہیں کرتے وہ بھی خدا کی ہدایت کا انکار کرتے ہیں یا کم از کم اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خدا کی ہدایت سے وہ بے نیاز ہیں۔ یہ عصر حاضر کی اصل گمراہی ہے۔

امتِ مسلمہ سے آگے بڑھ کر دنیائے انسانیت پر مولانا مودودیؒ نے ایک حساس انسان کی حیثیت سے نظر ڈالی۔ انھوں نے محسوس کیا کہ ہدایت ربانی کی ناقدری موجودہ دور کی بنیادی گمراہی ہے۔ یہ ہدایتِ الٰہی سے بے نیازی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ انھوں نے اس گمراہی کے مقابلے کے لیے اپنے مدلل افکار پیش کیے۔ گمراہ کن افکار کے مقابلے میں انھوں نے اسلام کو پیش کیا۔ انھوں نے استدلال کا آغاز ان امور سے کیا جن کو موجودہ دور کا آدمی تسلیم کرتا ہے۔ مقبول رجحانات کا نوٹس لیا، ان کے دلائل سے تعرض کیا، متعین فلسفوں اور خیالات پر تنقید کی۔ ان کی کمزوریاں واضح کیں اور ہدایتِ الٰہی کی اتباع کی ضرورت کو واضح کیا۔

افکارِ مودودیؒ کا جامع بیان
مولانا مودودیؒ نے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ جب میں نے اپنا علمی کام شروع کیا تو سوچا تھا کہ قرآن مجید کی تفسیر لکھوں گا، پھر احادیث کا مجموعہ ترتیب دوں گا۔ پھر سیرت پر کتاب لکھوں گا۔ لیکن تفسیر لکھنے میں ہی ایک لمبا وقت لگ گیا، تو اب باقی دو کاموں کا موقع نہیں ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر کو ۱۹۴۲ء میں لکھنا شروع کیا تھا جو ۱۹۷۲ء میں مکمل ہوئی۔ گویا تیس سال کے عرصے میں۔ (بہرحال مولانا مودودیؒ کے احباب نے آپ ہی کی تحریروں سے انتخاب کرکے سیرت کی کتاب بھی مرتب کی اور احادیث کا مجموعہ بھی مرتب کرلیا)۔

مولانا مودودیؒ کے افکار کو واضح اور مفصل شکل میں تفہیم القرآن میں پیش کیا گیا ہے، دوسری کتابوں میں یہ جامعیت نہیں ہے، وہ تو کسی متعین موضوع پر ہیں، لیکن تفہیم القرآن کی چھ جلدیں ایسی ہیں جو مولانا کے افکار کو بہت واضح اور آسان اسلوب میں پیش کرتی ہیں۔ آج بہت سے احباب ایسے ہیں جنھوں نے مولانا مودودیؒ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ان کے افکار کے بارے میں ایک رائے قائم کی ہے۔ ایسی رائے کچھ زیادہ صحیح نہیں ہوتی۔ اگر تفہیم القرآن کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ مولانا کا پورا پیغام کیا ہے۔ اپنی مختصر کتابوں میں وہ ہر پہلو کو بیان کرنے کا موقع شاید نہیں پاسکے۔ ظاہر ہے کہ انسان، انسانی زبان ہی میں کلام کرتا ہے۔ انسانی کلام میں محدودیت ہوتی ہے۔ یہ تو صرف خدا کی زبان ہے جو مکمل ہوتی ہے۔ کلامِ الٰہی کی ایک آیت بھی پڑھیں تو ہدایت ملتی ہے۔ لیکن انسانی کلام جامع نہیں ہوتا۔ بہرحال افکارِ مودودیؒ تفہیم القرآن میں نسبتاً زیادہ جامع شکل میں سامنے آتے ہیں۔۔۔ جاری ہے!

(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگیٔ نو‘‘ نئی دہلی۔ مئی ۲۰۱۸ء)