تاریخ جدید میں مسلم ممالک کا سب سے بڑا کارنامہ


عصر جدید میں جبکہ مغربی تہذیب اپنے ارتقا کے آخری نقطہ پر پہونچ گئی ہے، اور مسلم ممالک اپنے مخصوص حالات اور تاریخ کی بنا پر اس میں مساویان حصہ نہیں لے سکتے اور اگر بالفرض ایسا ممکن ہو تو ان کے لئے اپنے عقیدہ، مسلکِ زندگی، مقاصد، اور مخصوص نوعیت کی بنا پر ایسا کرنا ممکن اور جائز بھی نہیں، یہ ان کی ملّی موت اور اجتماعی خود کشی کے مرادف ہے۔ 

اس حالت میں تقلید و پیروی اور انکار و سلبیت کے درمیان ایک محفوظ، بلند و باعزت راہ ہے، یہ نہ صرف ان ممالک کےمنصب ومقام کے شایانِ شان ہے، بلکہ یہ تاریخ جدید کا سب سے بڑا اِنقلاب اَنگیز اِقدام اور وقت کا سب سے اہم اور مقدّس کام ہے، یہ ہے خود تہذیبِ جدید کی رہنمائی، اس میں زندگی کی نئی روح پھونکنا، اس کو صالح مقاصد اور سفر کی صحیح منزل عطاء کرنا، اس کو نبوّت کی عطاء کی ہوئی ایمان و محبت کی دولت سے آشنا کرنا، اور اس کی اِصلاح و تکمیل کی وہ خدمت جو صرف مسلم مُمالک ہی انجام دے سکتے ہیں، اور جس کی اس عہد میں کوئی جُرأت نہیں کر رہا ہے۔

یہ بات کتنی ہی تلخ اور ناخوشگوار ہو، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ موجودہ عالم اسلامی مجموعی طور پر خود شناسی اور خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہے، اس وسیع (اسلامی) دنیا میں جو ملک آزاد ہیں، (خواہ وہ صدیوں سے آزاد چلے آ رہے ہوں یا انہوں نے ماضی قریب میں آزادی حاصل کی ہو) وہ بھی ذہنی اور علمی حیثیت سے مغرب کے اسی طرح سے غلام ہیں، جس طرح ایک ایسا پسماندہ ملک غلام ہوتا ہے جس نے غلامی ہی کے ماحول میں آنکھیں کھولیں اور ہوش سنبھالا ہے۔ بعض اوقات ان ملکوں کے سربراہ سیاسی میدان میں قابل تعریف اور بعض اوقات خطرناک حد تک جرات و ہمت کی بات کرتے ہیں، اور بعض اوقات مہم جوئی اور اپنے ملک کی بازی تک لگا دینے سے باز نہیں آتے، لیکن فکری، تہذیبی اور تعلیمی میدان میں ان سے اتنی بھی خود اعتمادی، انتخاب کی آزادی اور تنقیدی صلاحیت کا اظہار نہیں ہوتا، جتنی کہ کسی ایک عاقل بالغ انسان سے توقع کی جاتی ہے۔ 

حالانکہ فلسفہ تاریخ کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ فکری، تہذیبی اور تعلیمی غلامی، سیاسی غلامی سے زیادی خطرناک، عمیق اور مستحکم ہوتی ہے اور اس کی موجودگی میں ایک حقیقت پسندفاتح قوم کے نزدیک سیاسی غلامی کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس بیسویں صدی عیسوی کی آخری دہائیوں میں جب دنیا دو عظیم عالمگیر جنگوں سے گزر چکی ہے اور تیسری جہاں سوز جنگ کے بادل امنڈ رہے ہیں، اور کسی ملک کا کسی ملک کو غلام بنانا اور اس کی مرضی کے خلاف اس پر قبضہ رکھنا ایک ناقابل فہم اور ناممکن العمل سی بات سمجھی جانے لگی ہو (لیکن ماضی میں  افغانستان پر روس کے فوجی تسلط اور اسی طرح حالیہ عراق افغانستان پر امریکی تسلط نے اس کلیہ کو مجروح و مشکوک بنادیا ہے )، دنیا کی بڑی طاقتیں اب روز بروز سیاسی اقتدار کے بجائے ذہنی و تہذیبی اقتدار اور یکسانی و ہم رنگی پا قانع ہوتی چلی جائیں گی۔

مغرب کے اس ذہنی و تہذیبی اقتدار اور اصولی و نظریاتی وحدت کو دنیا میں اگر کوئی طاقت و دعوت چیلنج کر سکتی تھی اور اس کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی تھی، تو صرف عالم اسلام کی جداگانہ شخصیت، اس کی دینی و اخلاقی دعوت اور اس کا فلسفہ زندگی تھا، لیکن ایک طرف ان تاریخی عوامل کی بناء پر جن کی ہم نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب "انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر" میں تشریح کی ہے، عالم اسلام مغرب کی ابھرتی اور پھیلتی ہوئی طاقت سے آنکھیں ملانے کے قابل نہیں رہا تھا، اور جو طبقہ اس دور انقلاب میں اس کی قسمت کا مالک بنا ہوا تھا، وہ جیسا کہ ہم نے ایک پچھلے باب میں بیان کیا ہے، تمام تر مغرب کا نہ صرف خوشہ چیں بلکہ دایہ مغرب کا شیر خوار بچہ تھا، جس کا (ذہنی) گوشت پوست اسی کے دودھ اور اسی کے خون جگر سے تیار ہوا تھا، دوسری طرف ان اسلامی ملکوں کے عوام و جمہور میں ایمان و عقیدہ کا جو اثر، اخلاقی رکھ رکھاؤ، معاشرتی روایات کا احترام اور نفس کی ترغیبات کا مقابلہ کرنے کی جو بچی کھچی طاقت تھی (جس سے مغرب عرصہ ہوا محروم ہو چکا ہے) اس کو مغرب نے ان مختلف ذرائع سے، جن میں سے بعض بظاہر نہایت معصوم اور فیاضانہ ہیں، اور بعض نہایت مسموم اور مجرمانہ ہیں، ڈائینامیٹ کرنا شروع کردیا ہے، تعلیمی میدان میں یونیسکو کی اعانت و سرپرستی، اور ماہرین فن کی منصوبہ بندی کے ذریعہ کبھی مغربی اساتذہ اور ماہرین تعلیم کے ذریعہ کبھی اس تشکیکی انتشار پسند اور ہیجان انگیز لٹریچر کے ذریعہ جو ایک سیلاب کی طرح عالم اسلام میں پھیلتا جارہا ہے، کبھی معیار زندگی بلند کرنے، اور زندگی کو خوشگوار اور پر مسرت بنانے کے بہانے ٹیلی ویژن کو گھر گھر عام کرنے کے ذریعہ، اس طاقت کو برابر مفلوج کیا جارہا ہے، کبھی ان پسماندہ ملکوں کو جو فیاضانہ امدادیں دی جاتی ہیں، ان کی شرائط کے طور پر ان ملکوں کی حکومتوں سے ایسی تبدیلیوں اور اصلاحات کا مطالبہ کیا جاتا ہے، جو ان مسلم عوام کا مزاج، اور ان کانظامِ معاشرت بدل دینے کے لئے ایک کارگر حربہ ثابت ہوتی ہیں، غرض مغرب نے دور رہتے ہوئے بھی ان ملکوں کے گرد ایسا گھیرا ڈال دیا ہے، اور ایسےحالات پیدا کردیئے ہیں کہ غلامی کے کہنہ اور فرسودہ طریقوں سے کہیں زیادہ یہ آزاد ملک مغربی طاقتوں کے پنجہ اقتدار میں گرفتار ہیں، اور اکبر مرحوم کے اس پرانے شعر کی ایک ایسی وسیع اور پر از حقیقت تشریح سامنے آرہی ہے کہ شاید خود شاعر کے وہم و گمان میں نہ تھی؎

 اپنےمنقاروں سےحلقہ کس رہے یں جال کا
طائروں پر سحر ہے، صیاد کے اقبال کا

ان تبدیلیوں یا"اصلاحات" کے نفاذ میں ان ملکوں کے سربراہ جن میں سے بعض اسلام کا دم بھی بھرتے ہیں، بعض ایک عالمگیر اسلامی طاقت، اور اسلامی بلاک کی باتیں بھی کرتے ہیں، اس طرح سرگرم اور مستعد نظر آتے ہیں، جس سے زیادہ خود مغرب کے تجدد پسندنہیں ہوسکتے، جس طرح بے چون و چرا امریکہ و روس کے اصلاحی اور تعلیمی منصوبوں کو قبول کیا جارہا ہے، جس طرح ان کے ماہرین فن کو ان ملکوں کے ذہن و مزاج کی تبدیلی کا نقشہ بنانےکی اجازت دی جارہی ہے، جس جوش و خروش اور عزم و فیصلہ کے ساتھ ٹیلی ویژن کو ( بغیر کسی تبدیلی و اصلاح کے) گھر گھر پونچانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور مختلف ذرائع سے اس کو زیادہ سے زیادہ قابل حصول بنایا جا رہا ہے، جس طرح مستشرقین کے بعض سعادت مند شاگردوں کو اسلامی معاشرہ میں تشکیک و انتشار پیدا کرنے کے وسائل اور مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں، جس طرح مختلف ذرائع سے تفریح و تعیّش کا رحجان پیدا کیا جا رہا ہے، عورتوں کی غیر محدود آزادی و بے پردگی، مخلوط تعلیم، فلم سازی کی صنعت کی ہمت افزائی اور سرپرستی کی جا رہی ہے، اس سے شبہ ہوتا ہےکہ یہ سربراہ ان مغربی طاقتوں کے (دانستہ یا نادانستہ) آلہ کار، اور ان کے تخریبی مقاصد میں ہم نوا تو نہیں بن گئے، اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وہ ان عوام کو اس دینی غیرت، اخلاقی شعور، خیرو شر کی تمیز، اور حیا و بےحیائی کے مفہوم ہی سے ناآشنا بنا دینا چاہتے ہیں، جو بعض اوقات ان کی انفرادی بے راہ روی، اور تجدد و مغرب پرستی کی راہ میں رکاوٹ بنتا رہتا ہے، اور جو کسی وقت بھی ایک دینی انقلاب، اور نشاۃ ثانیہ بن کر ان کے اقتدار کے لئے خطرہ بن سکتا ہے، یہ صاف نظر آرہا ہے کہ اگر تبدیلی یا "اصلاحات" کا یہ عمل چند برس اور جاری رہا، اور اخلاقی تخریب و انتشار کے ان وسائل کو کچھ عرصہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے کاموقعہ ملا، تو ان ملکوں کی وہ نسل جس میں نئے اثرات قبول کرنے کی پوری صلاحیت ہے اتنی متاثر ہو جائیگی کہوہ اس تحدد و مغربیت کی راہ میں کوئی قابل ذکر مزاحمت نہ کر سکے گی، جہاں تک اس نئی نسل کا تعلق ہے جو اس ماحول میں پروان چڑھے گی تو اس کے یہاں کسی مخالف یا اختلاف رائے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہے گا، اس کابھی قوی خطرہ ہے ( اوراس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں) کہ ان ممالک کا ایک بڑا طبقہ، بالخصوص مرفّہ الحال، اور بااختیار طبقہ اس اخلاقی جذام میں مبتلا ہو جائے گا جس کا مغرب پوری طرح شکار ہو چکا ہے، اور پھر شاید پوری دنیا میں کوئی ایسا صحت مند معاشرہ ہی باقی نہیں رہے گا جس پر دنیا کی دوبارہ روحانی اور اخلاقی تطہیر کے کام میں اعتماد کیا جاسکے۔

جہاں تک مغرب کا تعلق ہے، وہ عالم اسلام کے بارےمیں کبھی مخلص اور نیک نیت نہیں ہوسکتا، یہ اس پچھلی تاریخ کا بھی تقاضا ہے، جس پر صلیبی جنگوں کے گھنے سائے پھیلے ہوئے ہیں، اور سلطنت عثمانیہ، اور مغربی ممالک کی طویل اور خوں ریز آویزش کی گہری چھاپ پڑی ہوئی ہے، یہ حقیقت پسندی، اور عقل عملی کا بھی تقاضا ہے، کہ صرف عالم اسلام ہی میں مغرب کے عالمگیر اقتدار کو چیلج کرنے، اور ایک ایسا نیا بلاک بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے جس کی بنیاد جداگانہ فلسفہ زندگی، اور عالمگیر دعوت پر ہو، یہ ان قدرتی وسائل اور ذخائر کی قدر و قیمت کے احساس کا بھی نتیجہ ہے، جو عالم اسلام کے مختلف گوشوں میں بڑی افراط، اور فروانی کے ساتھ پائے جاتے ہیں، اور مغرب کے صنعتی و تجارتی، نیز سیاسی اقتدار کے لئے بڑی اہمیت اور بعض اوقات فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں، اور آخر میں یہ انسانی فطرت کی ایک کمزوری کا تقاضا بھی ہے کہ اکثر انسان جب ایک لاعلاج مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کو اس سے تسکین ہوتی ہے کہ دوسرے بھی اس کے شریک حال ہیں، اور تندرست و بیمار کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں ہے، انسانی فطرت  کی اس کمزوری سے وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں یا اس پر غالب آ جاتے ہیں، جن کے اندر پیغمبروں کی تعلیم کے اثر سے سچی خدا ترسی اور صحیح انسانیت دوستی پیدا ہو جاتی ہے اور بدقسمتی سے مغرب صدیوں سے اس دولت سے محروم ہو چکا ہے، مغربی اقتدار اور فتوحات کی تاریخ صاف بتاتی ہے کہ جن ملکوں کو اس کے زیر سایہ آنے کا موقعہ ملا، ان کو وہ اخلاقی چھوت ضرور لگ گیا، جو مغرب کے نقیبوں کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور جیسا کہ بعض جری اور منصف مزاج مغربی مصنفین و ناقدین کا بیان ہے، مغرب کی سامراجی طاقتوں نے مشرقی ممالک میں اخلاقی انتشار پھیلانے اور تشکیک پیدا کرنے کی منظم کوششیں کیں، مسیحیت کا حلقہ بگوش مغرب مسیحیت کے بارے میں خواہ کتنا ہی متشکک و ارتیابی (AGNOSTIC) واقع ہوا ہو، مسیحی عقائد کے بارے میں اس کی روشن خیالی و وسیع النظری خواہ الحاد و زندقہ کے حد تک پہونچی ہوئی ہو، لیکن مسلم اقوام اور عالم اسلام کے معاملہ میں وہ کٹر مسیحی واقع ہوا ہے، وہ اس کے معاملہ میں اپنے جنم دشمن اور خون کے پیاسے یہودیوں تک سے مصالحت کر سکتا ہے، اور ان کو مسلمانوں پر کھلی ترجیح دے سکتا ہے۔

 اس مذہبی تعصب کے علاوہ جو اس کی گھٹی میں پڑا ہوا ہے، اور جو تقریباً اس کا مزاج بن چکا ہے، اس کو اپنا مفاد بہرحال ہر چیز سے عزیزی ہے، یہ بارہا کا تجربہ ہے کہ کسی اسلامی طاقت کی جب کسی غیر اسلامی طاقت سے ٹکر ہوئی تو اس نے ہمیشہ غیر اسلامی طاقت کا کھل کر ساتھ دیا، یا اس کی درپردہ مدد کی۔ جون 1948ء کے عرب و یہود تصادم نے اس بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کی کسی ملت یا جماعت کو کسی مغربی یا مشرقی بلاک سے کسی مخلصانہ مدد اور مکمل رفاقت کی امید نہیں رکھنی چاہیے، اس کو ہر اقدام اور فیصلہ کے وقت خدا کے بعد اپنے ہی دست و بازو اور اپنے ہی وسائل پر اعتماد کرنا چاہئے۔

جہاں تک اسلامی ملکوں کےسربراہوں، اور رہنماوں کا تعلق ہے، ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس اندھا دھند تجدد و مغرببیت، اور تشکیک و انتشار سے خواہ وقتی طور پران کو اور ان کے جانشینوں کو فائدہ پہونچے، مجموعی طور پر ملت کو ایسا نقصان پہونچے گا، اور اس کی جڑیں اس طرح ہل جاہیں گی کہ صدیوں تک اس کی تلافی نہ ہوسکے گی، ان قوموں میں اپنی ساری کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود وہ طاقتور ایمانی جذبہ، اللہ کے نام پر ایثار و قربانی کی صلاحیت، اطاعت اور انقیاد کا ولولہ اور خلوص و محبت کی گرم جوشی پائی جاتی ہے، جن سے تقریباََ دنیا کی تمام مادہ پرست قومیں محروم ہوچکی ہیں، اسلامی ملکوں کے یہ عوام اپنی قابل افسوس جہالت اور پسماندگی کے باوجود وہ بہترین مواد خام ہیں جن سے بہترین انسانی نمونےاور موڈل تیار کئے جاسکتے ہیں، ان کی سب سے بڑی طاقت، ان کا ایمان و خلوص، اور ان کی سادگی و گرم جوشی ہے، اس طاقت نے بارہا محیرالعقول کارنامے انجام دیئے ہیں، اور بعض اوقات ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے، اور جب کبھی ان ملکوں پر کوئی نازک وقت آیا ہے، تو مسلم عوام کا یہی ایمانی جذبہ اور خلوص و سادگی کام آئی ہے، خالص حقیقت پسندی، اور واقعیت کی بنیاد پر بھی اس طاقت کی قدر کرنی چاہئے، اور اس کو اپنے ملکوں کی حفاظت و استحکام، اور دنیا میں کوئی بڑا رول ادا کرنے کے لئے اپنا سب سے بڑا سہارا اور ذخیرہ سمجھنا چاہئے، لیکن اس تجدد و مغربیت کےاثر سے ان عوام کی اس طاقت کو وہ گھن لگتا جا رہا ہے، اور ان کے اندر ایک ایسا اخلاقی کینسر پیدا ہو رہا ہے، جو ناقابل علاج ہے۔

مغرب کے ناقابل انکار علمی و صنعتی تفوق کو سامنے رکھ کر جس سے آنکھیں بند کر لینا نہ عقل کا تقاضا ہے، نہ مذہب کی تعلیم، اور نہ عملاََ ممکن، عالم اسلام کے سامنے صرف دوراستےرہ جاتےہیں،ایک تویہ کہ اس سےمسحورہوکراس کےپورےفلسفئہ زندگی،اس کےتصورکائنات، اس کےمابعدالطبیعاتی عقائدوتصورات،اس کےعمرانی واجتماعی نظریات اس کےاخلاقی نقطئہ نظر،اوراس کےمسلکِ زندگی کوجوں کاتوں قبول کرلیاجائے،اوراپنی ہستی کواس کےسانچہ میں یکسرڈھال دینےکی کوشش کی جائے،اس حقیقت سےقطع نظرکہ یہ ایک مکمل اورہمہ گیرارتداداورروحانی وذہنی خودکشی کےمرادف ہوگا،اوراس انسانیت کےساتھ غدّاری اور بےوفائی جس کی آخری آس نبی خاتم کی اسی امت سےلگی ہوئی تھی،یہ ایک ایسی غیرضروری محنت اورسعی لاحاصل ہے،جس کانتیجہ طویل وخوں ریزذہنی کشمکش،روحانی بےچینی،انسانی طاقتوں کےضیاع،اوراضاعتِ وقت کےسواکچھ نہیں، یہ ایک ایسی بنی بنائی مستحکم عمارت کی تخریب ہے،جس کےملبہ پردوسری عمارت تعمیرکرنےکےلئےنہ موادخام موجود ہے، نہ تعمیری صلاحیتیں،نہ آب وہوااورماحول سےمناسبت،نہ ماضی سےارتباط،عالم اسلام کےجن جن گوشوں،اورجن اسلامی ملکوں میں یہ کوشش کی گئی،ناکام رہی،اورجب بھی اس مصنوعی اورغیرطبعی اقتدارکی گرفت ڈھیلی ہوئی،اورعوام کو اپنی پسنداورناپسندکااظہارکاموقعہ ملا،انھوں نےفوراََاس جھول کواتارپھینکا،جو نہ ان کےجسم پرقطع ہوئی تھی،اورنہ ان کےمزاج کےمطابق تھی،آج ترکی میں یہی نظرآرہاہے،اور مصروشام میں بھی عنقریب یہی پیش آنےوالاہے۔

دوسراراستہ یہ ہےکہ مغرب سےعلم وصنعت،ٹکنالوجی اورسائنس،اوران علوم وتحقیقات میں جن کا تعلق تجربہ،حقائق وواقعات،اورانسانی محنت و کاوش سےہے،فراخ دلی کے ساتھ استفادہ کیاجائے، پھر ان کو ان مقاصدکےلئےاپنی خدادادذہانت اوراجتہاد کے ساتھ ان کا اعلٰی مقاصدکاتابع اورخادم بنایاجائے،جوآخری نبوت،اورآخری صحیفہ نےان کوعطاکئے  اور جن کی وجہ سے ان کو خیر امت اور آخری امت کا لقب ملا ہے، وسائل اور مقاصد کا یہ خوشگوار امتزاج جس سے سردست مغرب بھی محروم ہے، اور مشرق بھی کہ مغرب تنہا قاہر وسائل کا سرمایہ دار ہے اور صالح مقاصد میں محض تہی دامن اور مشرق (اسلامی) صالح مقاصد کا واحد اجارہ دار ہے اور مؤثر وسائل سے یکسر محروم۔ مغرب کر سب کچھ سکتا ہے لیکن کرنا نہیں چاہتا اور صحیح الفاظ میں کرنا نہیں جانتا۔ اسلامی مشرق کرنا سب کچھ چاہتا ہے لیکن کر کچھ نہیں سکتا۔ یہ صحت مند صالح امتزاج دنیا کی قسمت بدل سکتا ہے اور اس کو خودکشی و خود سوزی کے راستہ سے ہٹا کر فلاح دارین اور سعادت ابدی کے راستہ پر ڈال سکتا ہے۔ یہ ایسا کارنامہ ہوگا جو تاریخ کے دھارے اور دنیا کی قسمت کو بدل کر رکھدے گا۔ یہ کارنامہ وہی امت انجام دے سکتی ہے جو آخری پیغمبر کی جانشین اور اس کی تعلیمات کی حامل و امین ہے۔ اس بناء پر عالم اسلام کا حقیقی نعرہ جس سے اس کے دشت و جبل گونجنے چاہییں، یہ ہے کہ:

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزی افرنگ
معمار حرم باز بہ تعمیر جہاں خیز

مشرق کے ایک باہمت اور حوصلہ مند ملک جاپان نے اس اقدام کا ایک نہایت محدود اور اسلامی نقطہ نظر سے بہت پست معیار کا تجربہ کیا۔ اس نے مغرب سے علم و صنعت میں ایسا استفادہ کیا کہ استاد شاگرد میں فرق کرنا مشکل ہوگیا۔ اسی کے ساتھ اس نے اپنے معتقدات اور اپنے تہذیبی خصائص و روایات قائم رکھے لیکن بدقسمتی سے اس کے مذہبی معتقدات اور اس کی تہذیب نہ زمانہ حال سے کوئی مطابقت رکھتی ہے، نہ اس کے اندر افادیت اور انسانی خدمت کا کوئی پہلو ہے۔ نہ اس میں عالمگیر پیام بننے کی صلاحیت ہے۔ یہ چند کہنہ اور فرسودہ معتقدات و روایات کا ایک مجموعہ ہے جس کو جدید جاپان اپنے سینہ سے لگائےہوئے ہے، اور یہ اس کی قوت ارادی اور اپنے ماضی سے وابستگی کا کرشمہ ہے کہ اس نے اس کو ابھی تک ترک نہیں کیا ہے، لیکن اسلامی ممالک کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے پاس ایسا دین، ایسی شریعت اور ایسا قانون ہے جس کے لئے قدیم و جدید کی اصطلاح بے معنی ہے، ایسی تہذیب جس کی اساس حقائق ابدی پر ہے، یہ ایک سدا بہار درخت ہے۔ جو کسی وقت بھی نمو کی طاقت اور برگ و بار لانے کی صلاحیت سے محروم نہیں ہوتا، اس بناء پر ان ممالک کے لئے جدید علم و صنعت اور اپنے ابدی عقائد و حقائق کے درمیان اتحاد و تعاون پیدا کرنے میں قطعاً کوئی زحمت پیش نہیں آ سکتی، اور اس کے نتائج اس سے کہیں زیادہ انقلاب انگیز اور عالمگیر اثرات رکھنے والے نکل سکتے ہیں، جتنے کہ جاپان کے اس تجربہ سے برآمد ہوئے۔ جاپان اور ہر روایت پرست ملک میں یہ کوشش شیشہ و آہن اور پنبہ و آتش کی بہم آمیزی کی کوشش کے مرادف ہے، لیکن ایک مسلمان کے نزدیک اس میں کوئی تضاد و تناقض نہیں ہے، اس کے نزدیک دین صحیح اور علم صحیح کا ٹکراؤ ممکن نہیں اور اس کے نزدیک ہر طاقت، ہر تحقیق، ہر علم، ہر موثر ذریعہ اسی لئے ہے کہ وہ خدا کے دین کے لئے استعمال ہو، اور مخلوق کے فائدے کے کام آئے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس کو غلط محل سے نکال کر صحیح محل میں استعمال کرے اور اس کو تخریب کے بجائے تعمیر کا ذریعہ بنائے، لیکن اس کام کے لئے وہ ذہانت "جرات اندیشہ" اور وہ ایمان و خلوص درکار ہے جو ہر تقلیدی رجحان، ہر چلے ہوئے نعرے اور فیشن اور ہر شخصی و جماعتی مفاد کا مقابلہ کرسکے، جس کی خاطر ہمارے اسلامی ملکوں کے سربراہ اس سب ایثار و قربانی پر آمادہ ہوں جو اس کے لئے مطلوب ہے، اور جس کے نتیجہ یا انعام کے طور پر اولاً ان کو اپنے ملکوں میں محبوبیت کا وہ مقام حاصل ہوگا، جو اور کسی ذریعہ سے ان کو حاصل نہیں ہوسکتا، پھر ان کو اور ان کے ذریعہ ان کے ملکوں کو ہدایت و امامت کا وہ منصب رفیع میسر آئے گا، جس کا وہ ابھی خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، مغربی تہذیب کو پورے طور پر گھن لگ چکا ہے، وہ اب محض اپنی صلاحیت اور زندگی کے استحقاق کی بناء پر نہیں جی رہی ہے، بلکہ اس لئے کہ بدقسمتی سے کوئی دوسری تہذیب اس کی جگہ لینے کے لئے تیار نہیں، اس وقت جتنی تہذیبیں یا قیادتیں ہیں، یا مغربی تہذیب کی لکیر کی فقیر اور اس کی ایک روکھی پھیکی تصویر ہیں، یا اتنی کمزور اور شکست خوردہ ہیں کہ اس سے آنکھیں نہیں ملا سکتیں، اب اگر اسلامی ممالک اور عالم اسلام مجموعی طور پر اس خلا کو پر کرنے کی صلاحیت پیدا کر سکے جو مغربی تہذیب کے خاتمہ سے عالم انسانی میں پیدا ہو گا تو اس کو دنیا کی امامت کا دوبارہ منصب تفویض کیا جا سکتا ہے۔ جو سنۃ اللہ کے مطابق ایک جری و قوی اور تازہ دم ملت یا قیادت کے سپرد کیا جاتا رہا ہے، اب ان قائدین کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا مغرب کی دائمی خاشیہ برداری اور کشکول گدائی مناسب ہے، یا دنیا کی رہنمائی کا منصب عالی، اور عالم انسانی کی ہدایت کی مسند رفیع، جس سے (نبوت کے بعد) بڑھ کر کوئی سرفرازی اور سربلندی نہیں، کیا اس کے لئے ظاہری نام و نمود، عہدہ و منصب، لذت و راحت، اور مادی و جسمانی ترغیبات کی قربانی کوئی حقیقت رکھتی ہےَ؟ اگر اس کے لئے سو جانیں بھی قربان کی جائیں تو در حقیقت یہ گھاٹے کا سودا اور زیان و نقصان کا معاملہ نہیں۔ 

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں
اک جان کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں

اب دیکھنا یہ ہے کہ کون سا اسلامی ملک اس کار عظیم کی ہمت کرتا ہے جس سے زیادہ انقلاب انگیز، عہد آفریں اور حیات بخش کوئی کام اس دور میں نہیں ہوسکتا اور جس کے سامنے یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک (RENAISSANCE) انقلاب فرانس اور روس کا فلسفہ اشتمالیت اور مارکسی دعوت ذکر کرنے کے قابل بھی نہیں، اس میں ذہانت و جرات کا جو عنصر اور حیات آفرینی و انقلاب انگیزی کی جو صلاحیت مضمر ہے اور اس سے نہ صرف ان ممالک کو جن میں یہ تجربہ کیا جائے گا، بلکہ پورے عالم انسانی کو فکر و عمل کا جو نیا میدان ہاتھ آئے گا، اور راستی و سلامتی کی جو راہ ملے گی، اس کو سامنے رکھتے ہوئے وہ پچھلے انقلابات جن کا ہم نے نام لیا ہے، ایک جرآت رندانہ اور ایک حرکت طفلانہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔ یہ کار عظیم صرف وہی اقوام و ملک اور وہی جماعتیں و افراد انجام دے سکتے ہیں، جو ملت ابراہیمی کے حلقہ بگوش ہیں، اور جو تکمیل دین اور ختم نبوت کے انعام و مژدہ سے سرفراز ہوچکے ہیں، آج عالم اسلام کے تمام قائدین کے لئے وہی "سرود ازلی" ہے جس سے قرن اول کے مسلمانوں کے کان آشنا ہوئے۔

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ  ﴿وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ﴾ (الحج:78)

اور خدا (کی راہ) میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے، اور تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اسی نے پہلے (یعنی پہلی کتابوں میں) تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد  ہوں اور تم لوگوں کے مقابلہ میں شاہد ہو اور نماز پڑھو اور زکوۃ دو۔  اور خدا (کے دین کی رسی) کو پکڑے رہو، وہی تمہارا دوست ہے، اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے۔ (1)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1- (مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کش مکش:  ص 302 تا 316 ، سید ابوالحسن علی ندوی ؒ  )