عالمی کرنسی وار ( حصہ اول )

خالد گورایا 

روزنامہ ایکسپریس ، 6 ستمبر 2018 

نومبر 1999ء سے لے کر جون 2005ء تک کے دوران راقم اپنے طور پر یہ چیلنج قبول کرچکا تھا اگرچہ 4 نومبر سے 6 نومبر 1999ء تک اپنے ساتھ گزرے راولپنڈی کے واقعات کو بھول کر یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ملک پر انگریزی بیورو کریسی، جنرل ایوب، جنرل ضیا الحق نے پاکستان کو صرف اور صرف امریکی مفاد پر قربان کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف بھی وہی کچھ کرنے جا رہا تھا۔ جس کا خطرہ میں بھانپ چکا تھا۔

6 نومبر 1999ء کو میں نے راولپنڈی میں اپنے خدشات کا بھرپور انداز میں اظہار بھی کردیا تھا کہ پاکستان کو مزید تباہی سے دوچار نہ کیا جائے۔ جی ہاں، سب کو یاد ہے کہ نواز شریف جب عمرہ کرنے گئے تھے تو پرویز مشرف بھی وفد میں شامل تھے۔ اس وقت یہ فل جنرل نہیں تھے۔ عمرے سے واپسی کے بعد پرویز مشرف کو دیگر سینئر جنرلوں کو نظرانداز کرکے چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا گیا اور جب پرویز مشرف حکومت پر قابض ہوگیا تو امریکا نے نائن الیون کروا کر الزام جہادیوں پر لگا کر پرویز مشرف جو امریکی آلہ کار تھا اسے استعمال کرکے پاکستانی ہوائی اڈوں سے افغانستان پر حملے شروع کردیے۔

اس کے بعد طالبان نے پاکستان میں پناہ گاہیں بنانی شروع کردیں۔ امریکا کا مفاد وسائل تک رسائی اور سابقہ سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد آزاد ملکوں کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا تھا۔ ان ملکوں کو ڈالرائز کرکے معاشی غلامی میں جکڑنا تھا۔ امریکا کا ساتھ دے کر آج تک پورے ملک کے عوام اور افواج قربانیاں دے رہے ہیں۔ 75 ہزار کے قریب تمام پاکستانی امریکی مفاد کے لیے جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں، امریکا اب بھی بھارت کا ساتھی بنا ہوا ہے۔ بھارتی جارحیت کے باوجود امریکا خاموش کیوں ہے؟ راقم 1973ء سے ملکی معاشی آزادی کی بات اور آواز بلند کرتا آرہا ہے۔


ان تمام واقعات کے بعد راقم کے لیے عملاً معاشی آزدی کے لیے معیشت کے چھپے راز جاننا ضروری ہوگیا۔ لیاقت علی ساہی کے توسط سے میں اسٹیٹ بینک کی لائبریری کا ممبر بنا اور پھر میں نے 1800ء سے 2005ء کے دوران پوری دنیا کے ملکوں کیمعیشتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بڑی مشکل سے برطانوی طرز کی مالیاتی لوٹ مار کو امریکی مالیاتی لوٹ مار کے طریقوں میں فرق و طریقے کی سازش کو ڈھونڈ نکالا۔ اس کے بعد مرکزی بجٹ آنے کے بعد اسلام آباد میں 12 جون 2005ء کو میں نےحکومت کے سامنے اصل حقائق رکھے کہ حکومت مزید عوام کو عذاب میں مبتلا نہ کرے۔

میری کانفرنس کے جواب میں وزیر اعظم شوکت عزیز نے مجھے چیلنج کیا کہ میرے دیے گئے بجٹ کو کوئی غلط ثابت نہیں کرسکتا۔ اس کے جواب میں راقم نے دوسری پریس کانفرنس 17 جون 2005ء کو کرتے ہوئے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ وہاصلاح احوال کریں جو ملک و عوام کے حق میں ہے۔ راقم نے صرف پریس کانفرنس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ راقم نے روپے کی قیمت کو ڈالر کے مقابلے میں گرنے سے روکنے کے لیے سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کو روپے کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کرنے کے بعد پیدا ہونے والے منفی معاشی عوامل کی تفصیلی رپورٹ بھی بھیج دی اور صدر کے آفس سے مجھے عبدالمجید نے کنفرم کردیا کہ رپورٹ مل گئی ہے۔

یاد رہے کہ اس دوران شوکت عزیز بضد تھا کہ ایک سو روپے تک ڈالرکیا جائے گا، لیکن صدر کی مداخلت سے شوکت عزیز ایسا نہ کرسکے۔ پھر ڈالر کی قیمت 60 روپے تک محدود رہی تھی۔ اس دور میں آٹے کی قیمت 20 روپے کلو گرام تھی جو آج 45روپے سے 50 روپے کلو گرام مل رہا ہے لیکن میں جان چکا تھا کہ امریکا نے تمام پسماندہ ملکوں کی معیشت کو ’’کاغذی ڈالر کاقیدی‘‘ بنا رکھا ہے۔

اس لیے میں نے پوری دنیا کی معیشتوں کا نہایت ہی گہرائی سے تجزیہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اب کتابی شکل میں دنیا کے غربت زدہ ملکوں کو ’’امریکی مالیاتی غلامی‘‘ کی زنجیروں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے حقائق منظر عام پر لانا ضروری ہے، کیونکہ ان حقائق سے دنیا لاعلم تھی۔ راقم نے 2005ء کے بعد کتاب ’’عالمی عوامی معاشی آزدی ازم‘‘ کی تیاری میں لگ گیا۔اپریل 2013ء (8 سال میں) میں کتاب شایع کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد میرے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ کتاب کو عالمی سطح پرکیسے متعارف کرواؤں؟

کیونکہ امریکا نے جب بھی فوجی جارحیت کی اس کا اصل ٹارگٹ اس ملک کے وسائل یعنی مجموعی معیشت رہی ہے۔ اگر کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے شایع کرتا تو کافی عرصہ لگ جاتا پہلے کتاب کو ملکی مخصوص حلقوں میں متعارف کرایا گیا۔ امریکا نے سابقہ سوویت یونین میں مزدوروں کے انقلاب کو ناکام کرنے کے لیے ایسے شیطانی حربے استعمال کیے کہ خود روسی حکمرانوں کو بروقت پتہ نہ چل سکا تھا۔

امریکا نے عالمی سطح پر جب عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ذریعے تمام دنیا کی کرنسیوں کو کاغذی ڈالر کا قیدی 27 دسمبر 1945ء کو بناکر تمام ملکوں کی معیشتوں کو سامراجی غلامی میں جکڑنے کے لیے پسماندہ ملکوں کے حکمرانوں کے ذریعے امریکی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کو نافذ کرایا۔ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ امریکی مفاد میں استعمال کرایا۔ ملک غلام محمد وزیر خزانہ پھر اس کے بعد 16 اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی کے قتل کے بعد گورنر جنرل بنادیا گیا۔

جنرل ایوب خان، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، فیروز خان نون، سر ظفر اللہ خان، میجر جنرل اسکندر مرزا اور اس کے بعد جولائی 2018ء تک تمام سابقہ حکمران امریکا پرست تھے۔ ان تمام نے ملکی اداروں، ملکی معیشت کو غیر ملکی امریکی حکمرانوں کے حکم پر تباہ کیا۔ عوام اور پاکستان کو 71 سال سے امریکا کا معاشی غلام بنانے کا کردار ادا کیا۔ امریکی مالیاتی سازش کیا ہے؟

یہ دیکھیے جب پاکستان کے وزیر اعظم شہید لیاقت علی پر امریکی ادارے نے 1949ء کو دباؤ بڑھایا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی (قدر) قیمت میں کمی کردی جائے مگر لیاقت علی خان نے سختی سے منع کردیا تھا۔ جب گورنر جنرل ملک غلام محمد شدید بیماری کی وجہ سے دو ماہ کی رخصت پر جون 1955ء کو گئے تو سول و فوجی بیورو کریسی نے میجر جنرل اسکندر مرزا کو قائم مقام گورنر جنرل بنالیا۔ اس نے امریکی حکم پر ملکی آزاد معیشت کو امریکی ’’غلام معیشت‘‘ میں بدل دیا۔ اس نے جولائی 1955ء میں 3.308 روپے سے 4.762 روپے کا ڈالرکردیا۔

روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد ہوجانے کے بعد ملکی ایکسپورٹرز نے عالمی منڈی مقابلے میں کم سے کم ڈالر ریٹ پر زیادہ سے زیادہ اشیا ایکسپورٹ کرکے اپنی ’’ذاتی تجارت‘‘ کو 45 کروڑ86 لاکھ روپے سے مالی سال اپریل 1955ء سے مارچ 1956ء کے دوران سرپلس کرلیا تھا۔ یاد رہے مالی سال 1954-55ء میں ایکسپورٹرز کی ذاتی تجارت 11 کروڑ97 لاکھ روپے سے سرپلس تھی اور یہ کہ 1950-51ء سے 1955-56ء کے دوران صرف مالی سال 1951-52ء میں تجارتی خسارہ تھا۔ لیکن باقی تمام سالوں میں ان کی ذاتی تجارت سرپلس تھی۔ اس کا فائدہ ایکسپورٹرز نے نفع تاجری کی شکل میں حاصل کیا۔

مالی سال 1956-57ء کے دوران درآمدی تاجروں (امپورٹرز) نے غیر ملکی منڈیوں سے جو اشیا خریدیں جیسے پٹرولیم مصنوعات، مشینری پرزہ جات، کیمیکل اشیا، ادویات ودیگر ضروریات زندگی کی اشیا کھانے کا تیل، خوراک کی اشیا وغیرہ تو ان تاجروں کو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قیمت میں کمی کی نسبت سے ایک ڈالر کے 3.308 روپے کی بجائے 4.762 روپے فی ڈالر زیادہ ادا کرنے پڑے۔ اس طرح ملکی صنعتی کلچر کی لاگتیں 44 فیصد بڑھ گئیں۔

پرائیویٹ پیداواری ادارے، فیکٹریوں، ملوں (کارخانوں ) کی پیداواری لاگتوں کے بڑھنے سے ان میں تیار ہونے والی اشیا مہنگی ہوگئیں اور پھر ملکی تمام حکومتی، پرائیویٹ ادارے خساروں میں چلے گئے، جس کے نتیجے میں مالی سال 1956-57ء کو عالمی منڈی مقابلے میں ایکسپورٹرز نے پچھلے سال 1955-56ء کی نسبت کم اشیا ایک ارب 60 کروڑ76 لاکھ روپے ایکسپورٹ کیں یعنی ایکسپورٹ کم ہوگئی اور درآمدی تاجر (امپورٹرز) نے 2 ارب 33 کروڑ46 لاکھ روپے کی اشیا باہر سے خریدیں۔ (جاری ہے)