اخوان الصفاء

اخوان الصفاء دسویں صدی عیسوی ، عباسی دور  میں مسلم اہل فکر و  فلسفہ کی ایک خفیہ جماعت تھی ۔  جن کے افکار و نطریات بنیادی طور پر نوفلاطونیت پر مبنی تھے ۔ یہ اس لیے خفیہ تھی کہ اس زمانے میں بعض سیاسی مصلحتوں کی بنا پر فلسفیوں اور سائنسدانوں کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا تھا کہ علومِ عقلیہ یعنی فلسفہ، سائنس، ریاضی وغیرہ کا فروغ ملک و قوم کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔ چنانچہ فلسفی اور سائنس دان اپنے علمی مشاغل خفیہ طور پر جاری رکھنے پر مجبور ہوئے . یہ نہایت راز داری سے ایک دوسرے سے ملا کرتے اور خالص علمی و فکری مسائل پر سوچ بچار کرتے، اس کے بعد تمام گفتگو ایک مفصل مکتوب کی شکل میں لکھ لیا کرتے پھر یہ تحریر خفیہ طور پر ان لوگوں تک پہچتی جو ان مجالس میں حاضر نہیں  ہو سکتے تھے ۔ اس طرح  چراغ سے چراغ جلتا جاتا ۔

یہ جماعت  خفیہ ہونے کی وجہ سے اس کے متعلق بہت سی باتیں مختلف الرائی ہیں ۔ اس کے بارے چند اہم معلومات درج ذیل ہیں ۔ 

اخوان الصفاء کا پورا نام "اخوان الصفاء و خلان الوفاء و اھل العدل و ابناء الحمد و ارباب الحقائق و اصحاب المعانی " تھا۔ اس کا مختصر نام "اخوان الصفاء " تھا  ، اس جماعت نے دار الخلافہ بغداد سے دور بصرے کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا. اس کے ارکان کی مکمل فہرست کہیں نہیں ملتی۔ ارکان کے نام پوشیدہ رکھے جاتے . ابو حیان التوحیدی نے 973ء میں ان میں سے چند کے نام ظاہر کر دیے . ابو حیان اس دور کا ایک ممتاز فاضل تھا اور اخوان الصفا کے بعض ارکان کا دوست تھا۔ ابو حیان نے جو نام بتائے ان میں ابو سلیمان محمد بن معشر البستی المقدسی، ابو الحسن علی بن ہارون الزنجانی ، ابو احمد المہر جانی ، ابوالحسن العوفی  اور زید بن رفاعہ شامل ہیں .

عمر کے لحاظ سے  جماعت کے ارکان چار طبقات پر مشتمل تھے ۔ پہلا طبقہ پندرہ سے تیس سال ۔ دوسرے طبقے میں تیس سے چالیس سال . تیسرے طبقے میں چالیس سے پچاس سال  اور چوتھے طبقہ میں  پچاس سے زائد عمر کے لوگ شامل تھے۔

 اخوان کی مجلسیں عموما بارہ روز بعد منعقد ہوتی تھیں . علمی مذاکرے ہوتے اور مختلف طبقوں کے افراد کو ان کی عمر اور استعداد کے لحاظ سے مطالعے اور تحقیق کا کام تفویض کیا جاتا تھا۔ اخوان الصفا کی خواہش تھی کہ مسلمان علوم عقلیہ کی طرف متوجہ ہوں اور عقلی علوم کی اس روایت سے روگردانی نہ کریں جسے قرآن نے قائم کیا تھا اور جسے الکندی، فارابی اور ابن سینا نے پروان چڑھایا تھا۔

اخوان الصفا کی مفصل تعلمیات ان 52رسائل میں محفوظ ہیں جو ابوسلیمان محمد اور ابوالحسن علی بن ہارون وغیرہ نے تحریر کیے تھے۔ ان رسائل کو دنیا کی سب سے پہلی انسائیکلو پیڈیا ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان رسائل میں اس دور کے بیشتر علوم اور ان کے اہم نظریات کا ذکر ہے۔ عوام کی سہولت کے لیے ارکانِ اخوان الصفا نے ان کا خلاصہ ایک جلد میں کیا اور اس کا نام الجامعہ رکھا۔ پھر اس جلد کا مزید خلاصہ ایک مختصر رسالے کی شکل میں کیا اور اس کا نام جامعۃ الجامعہ رکھا۔ انسائیکلو پیڈیا کے زسائل میں اس دور تک کے تقریباً تمام علوم اور ان کے اہم نظریات کا ذکر ہے اور بعض مقامات پر طویل بحثیں ہیں۔

جن علوم اور موضوعات پر رسائلِ کے اہم معلومات اور مباحثے پیش کیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں : ریاضی (علم الاعداد)، جیومیٹری، فلکیات، جغرافیہ، موسیقی، نظری اور عملی فنون، اخلاقیات، طبیعیات، حقیقتِ مادہ، شکل، حرکت، زمان و مکان، آسمان، معدنیات، حقیقتِ فطرت، نباتات، حیوانات، جسمِ انسانی، حواس، زندگی اور موت، لذت اور اذیت، لسانیات، مابعدالطبیعات، نفسیاتی عقلیت، دینیات، نفس، محبت، حیات بعد ممات، علت و معلول، ایمان، قانونِ ایزدی، نبوت، تشکیلِ کائنات اور جادو وغیرہ۔

ان رسائلِ میں علم کو  تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک وہ علم ہے جو حواسِ خمسہ سے حاصل ہوتاہے۔ یہ علم ضروری ہے کیونکہ ہمیں اپنے گردوپیش کا علم اسی ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جو عقل اور غور و فکر سے حاصل ہوتا ہے، لیکن اس کے لیے بھی ہمیں حواسِ خمسہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیسرا وہ علم ہے جو کسی عالم، بزرگ یا امام سے حاصل ہوتا ہے۔

اخوان الصفا نے  نظریہ ارتقا حیات  بھی پیش کیا۔ یعنی یہ کہ جمادات، نباتات، حیوانات اور انسان ارتقا کے تدریجی منازل ہیں۔ یہ نظریہ نیا نہیں تھا لیکن اخوان الصفا کے اس نظریے کی ایک جہت حیرت انگیز حد تک جدید ہے۔ وہ یہ کہ انہوں نے لکھا کہ ارتقا میں حیوانات کی آخری منزل اور انسان کی پہلی منزل ’’قرد‘‘ یعنی بندر ہے جو صورت اور عمل کے اعتبار سے انسان سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ اخوان الصفا کے زمانے میں اور اس سے قبل عام طور پر یہی تصور تھا کہ جسمِ انسانی کا سب سے اہم حصہ دل ہے، لیکن اخوان الصفا نے نظریہ پیش کیا کہ سب سے اہم حصہ دماغ ہے کیونکہ احساسات، خیالات اور جذبات اور دیگر عوامل دراصل دماغ ہی سے ظہور میں آتے ہیں۔

ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات کا مبدا ذات باری تعالٰی ہے۔ بعینٰہ تجلی "روشنی" کا مبدا سورج ہے۔ ذات باری کے بعد عقل، پھر روح اور روح کے بعد مادہ وجود میں آیا۔ جس سے کائنات، معدنیات، حیوانات اور انسان نے جنم لیا۔ اور اس طرح یہ عالم کون و مکاں ارتقائی عمل سے گزرا۔