سائنس دانوں نے ایک نئے ارضیاتی دور کا تعین کیا ہے جو ایک تحقیق کے مطابق 1610ء میں شروع ہوا۔ اس دور کو ’انسانی دور‘ یا اینتھروپوسین کا نام دیا گیا ہے۔
سائنس دانوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ براعظم امریکہ میں یورپی باشندوں کی آمد سے تمام سیارے پر بےمثال اثر مرتب ہوا، جس سے ایک نئے ارضیاتی دور کا آغاز ہو گیا۔
یہ تحقیق سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے۔
بعض دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ دور دراصل یورپ میں 18ویں صدی میں آنے والے صنعتی انقلاب سے شروع ہوا تھا۔
ماہرینِ ارضیات زمین کے تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتے ہیں جن کے دوران سیارے پر نمایاں تبدیلیاں ہوئیں۔ ان تبدیلیوں میں براعظموں کی حرکت، کسی شہابیے کا زمین سے ٹکراؤ یا موسم میں بڑی تبدیلی شامل ہیں۔
ہم اب بھی رسمی طور پر ’ہیلوسین‘ نامی دور میں جی رہے ہیں جو 11500 سال قبل برفانی دور کے خاتمے کے بعد شروع ہوا تھا۔
لیکن اب سائنس دان کہتے ہیں کہ انسانوں نے بھی زمین کو ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ ماہرینِ ارضیات کرۂ زمین پر انسانوں کے اثر کے واضح اثرات کی نشاندہی کی کسی واضح علامت کے متلاشی ہیں، جسے ’سنہری اشاریہ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے اثرات چٹانوں، برف اور گاد وغیرہ میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔
تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی کالج لنڈن کے پروفیسر مارک میسلن کہتے ہیں: ’ہم ان اشاریوں کی تلاش کرتے ہیں جو اس وقت رونما ہوتے ہیں جب آپ بتا سکیں کہ اس دوران تمام زمین تبدیل ہوئی۔
کولمبس کی براعظم امریکہ آمد کے ساتھ پودوں، جانوروں اور بیماریوں کا بین البراعظمی تبادلہ شروع ہو گیا
’اگر آپ تمام ارضیاتی ادوار کو دیکھیں تو ہم نے اس دور کی سرحدیں بھی انھی اصولوں پر مرتب کی ہیں۔‘
اس تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی دور کے آغاز پر 1610 میں ایسا ہی ایک سنہری اشاریہ وقوع پذیر ہوا۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ براعظم امریکہ میں یورپی باشندوں کی آمد عالمی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
تحقیق کے ایک اور مصنف ڈاکٹر سائمن لیوس کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد بین الاقوامی تجارت شروع ہو گئی جس کے باعث جانوروں اور پودوں کی نسلیں دنیا بھر میں ادھر سے ادھر منتقل کرنا شروع ہو گئیں۔
’وسطی امریکہ سے گندم آئی جو یورپ، افریقہ اور چین میں اگائی جانے لگی۔ جنوبی امریکہ کے آلو برطانیہ، یورپ اور چین میں اگنے لگے۔ اجناس دوسری طرف بھی گئیں: گندم شمالی امریکہ اور گنا جنوبی امریکہ پہنچ گیا۔ دنیا بھر میں انواع کا آمیزہ بن گیا۔
’ہم نے دیکھا کہ جانداروں کی انواع نے براعظم پھلانگنا شروع کر دیے ہیں، یہ کام اس سے قبل کبھی نہیں ہوا تھا، اس سے زمین کا ایک نئی سمت میں ارتقا شروع ہو گیا۔‘
گاد میں پائے جانے والے قدیم زردانوں سے اس تبدیلی کا ریکارڈ ملتا ہے، لیکن سائنس دانوں کی ٹیم نے ایک اور اشاریہ ڈھونڈ نکالا، اور وہ تھا ان بیماریوں کی شکل میں جو یورپ سے امریکہ گئیں۔
ڈاکٹر لیوس نے بی بی سی کو بتایا: ’براعظم امریکہ میں پانچ کروڑ کے قریب لوگ ہلاک ہوئے، جن کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی۔ (ان کے مرنے کے بعد) کھیت دوبارہ جنگل بن گئے، استوائی جنگل، خشک جنگل یا گھاس کے میدان۔ کسی درخت کا آدھا خشک وزن کاربن پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے ان تمام درختوں نے کرۂ فضائی سے اس قدر کاربن ہٹا دی کہ اس سے عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں نمایاں کمی واقع ہو گئی۔ اور یہ چیز برف کی تہوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا: ’یہ بات ہمیں انسانی دور کے بالکل صحیح آغاز کا پتہ دیتی ہے، یعنی 1610۔ یہ اس دور کی برفانی تہوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کم ترین مقدار ہے۔‘
اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی آف لیسٹر کے ڈاکٹر جان زالاسائیوچ نے کہا کہ اس تحقیق میں خاصے دلچسپ خیالات پیش کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’اس سے انسانی دور پر ہونے والی بحث میں اضافہ ہوتا ہے۔ 1610 کی تجویز تاریخی اعتبار سے ایک اہم واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے، تاہم اس سلسلے میں مزید شواہد کی ضرورت ہے۔‘
------------------------------------
بی بی سی اردو ، 12 مارچ 2015