ظفر سید
بی بی سی اردو ، اسلام آباد
23 نومبر 2018
لیکن کیا واقعی حضرت عیسیٰ کی زندگی کے بارے کوئی شواہد موجود ہیں؟ اور اگر ہیں تو ان کی حیثیت اور نوعیت کیا ہے؟
ہم نے اس سلسلے میں چند بنیادی ماخذات کا جائزہ لے کر اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے، اور اس دوران خود کو صرف حضرتِ عیسیٰ کے بعد گزرنے والی ایک صدی تک محدود رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے صرف غیر مذہبی (سیکیولر) تاریخی ذرائع پر تکیہ کیا ہے۔
''جسے لوگ مسیحا کہتے ہیں'
سب سے پرانا ماخذ یہودی تاریخ دان جوزیفس فلیویئس کی 20 جلدوں پر مشتمل کتاب 'یہودیوں کے قدیم آثار' میں پایا جاتا ہے، جس میں حضرت آدم سے لے کر اس دور تک کا احوال درج ہے۔ یہ کتاب 93 عیسوی میں لکھی گئی، یعنی حضرت عیسیٰ کے 60 سال بعد۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سال 93 عیسوی بعد کی اختراع ہے، ورنہ اس دور میں رومن کیلنڈر مستعمل تھا۔
جوزیفس اس طولانی تاریخ میں ایک فقرہ لکھتے ہیں جس کی تشریح میں صدیوں میں ہزاروں صفحے کالے کیے جا چکے ہیں اور کالے کیے جا رہے ہیں۔
یروشلم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے جوزیفس ایک یہودی پیشوا انانوس بن انانوس کا ذکر کرتے ہیں جس نے جیمز نامی ایک شخص کو سنگسار کروا ڈالا۔ چونکہ اس زمانے میں جیمز بہت عام نام تھا اس لیے جوزیفس نے وضاحت کے لیے لکھا: 'جیمز، عیسیٰ کا بھائی، جسے لوگ مسیحا کہتے ہیں۔'
بےحد مختصر اور طنزیہ ہی سہی، لیکن یہ تاریخ میں حضرت عیسیٰ کا پہلا ذکر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جوزیفس کے خیال میں حضرت عیسٰی اتنے جانے پہچانے تھے اور ان کے مسیحا ہونے کا تصور اتنا عام تھا کہ اسے توقع تھی کہ اس قدر مختصر ذکر سے بھی اس کے قارئین پر جیمز کی شناخت واضح ہو جائے گی۔
اسی جوزیفس نے ایک اور جگہ زیادہ تفصیل سے حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا ہے جس میں ان کے مصلوب ہونے اور دوبارہ اٹھائے جانے کا احوال ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ حصہ تحریف شدہ ہے اور اسے عیسائی راہبوں نے صدیوں بعد اپنی طرف سے شامل کر لیا ہے۔
حضرت عیسیٰ جس جگہ پیدا ہوئے اور پلے بڑھے وہ بت پرست رومیوں کے زیرِ اثر تھی، اور رومیوں ہی نے انھیں مصلوب کیا تھا (اسلامی عقائد کے مطابق ان کی شکل کا ایک شخص مصلوب کیا گیا تھا)۔ اس زمانے میں رومی سپر پاور کا درجہ رکھتے تھے اور وہاں علم و فن نے خاصی ترقی کی تھی، اور تاریخ کی کتابیں لکھی جا رہی تھیں۔ تو کیا انھوں نے پہلی صدی عیسوی میں حضرت عیسیٰ کا ذکر کیا ہے؟
ایک نہیں، کئی بار۔
پہلا ذکر پلِنی خورد کی تحریروں میں ملتا ہے۔ ان کے چچا کو پلِنی بزرگ کہا جاتا ہے اور وہ معروف سائنس دان اور فلسفی ہیں۔ پلِنی خورد رومی دربار سے وابستہ تھے اور انھوں نے اس حیثیت سے 247 خطوط لکھے ہیں جو بہت مشہور ہوئے اور ان سے اس دور کے بہت سے معاملات پر روشنی پڑتی ہے۔
ان میں سے ہمارے مطلب کا جو خط ہے اس کا نمبر دسواں ہے۔ پلنی سنہ 112 (یعنی حضرت عیسیٰ کے تقریباً 79 سال بعد) میں اس علاقے کے گورنر تھے جو آج کل ترکی میں شامل ہے۔ ایک خط میں پلنی رومی شہنشاہ ٹریجن کو خط لکھ کر رہنمائی طلب کرتے ہیں کہ ان کے علاقے میں جو ایک نیا فرقہ عیسائیت کے نام سے آیا ہے، اس کے پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔
وہ پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی عیسائی میرے سامنے آ کر ہمارے بتوں کی پوجا کرے اور حضرت عیسیٰ کو برا بھلا کہے تو کیا اسے معاف کر دیا جائے؟
یہ رومی ماخذات میں حضرت عیسیٰ کا پہلا ذکر ہے جو ہم تک پہنچا ہے۔
یہودیوں کی روم بدری
اس کے بعد ہم ایک اور رومی تاریخ دان سوئی ٹونیئس کی کتاب 'سیزر کی سوانح' کا جائزہ لیتے ہیں جو سنہ 115 میں لکھی گئی تھی۔
اس کتاب میں مذکور ہے کہ رومی بادشاہ کلاڈیئس کے دور (سنہ 41 تا 54) میں تمام یہودیوں کو روم سے نکال دیا گیا تھا کیوں کہ وہ 'کریستوس' کے اکسانے پر شہر میں بلوہ کر رہے تھے۔
ماہرین کے مطابق یہاں کریستوس سے مراد کرائسٹ، یعنی حضرت عیسیٰ ہیں۔ تاہم سوئی ٹونیئس نے حضرت عیسیٰ کا نام یونانی زبان میں غلط لکھا ہے، یعنی Christus کی بجائے Chrestus۔
'خطرناک توہم پرستی'
ٹیسی ٹس مشہور رومی مورخ گزرا ہے جس کی کتاب 'شاہی روم کی تاریخ' آج بھی پڑھی جاتی ہے۔ اس نے اس کتاب میں سنہ 14 تا 68 کی تاریخ بیان کی ہے۔
آپ نے سنا ہو گا کہ شہنشاہ نیرو نے روم کو آگ لگوا دی تھی اور خود پہاڑ کے اوپر سے بانسری بجاتے ہوئے شہر کے جلنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔
یہ واقعہ تو غلط ہے، یعنی بانسری بجانے کا، لیکن بہت سے تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ خود شہر کو آگ لگوانے والی بات میں خاصا وزن ہے کیوں کہ نیرو پرانے روم کو جلا کر اس کی جگہ نیا شہر آباد کرنا چاہتا تھا۔
تاہم کسی نہ کسی طرح یہ بات افشا ہو گئی کہ شہنشاہ مکرم نے خود اپنے دارالحکومت کو راکھ کر دیا ہے۔ جن لوگوں کے گھر بار جل گئے تھے ان کے اندر بےچینی پھیل گئی اور شہنشاہ کو خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں یہ چنگاری بھڑک کر ان کے اقتدار کو بھی روم کی طرح خاکستر نہ کر دے۔
چنانچہ نیرو نے بھی وہی کیا جو اس وقت سے لے کر آج تک ہوتا چلا آیا ہے، یعنی کسی کمزور کو قربانی کا بکرا بنا دینا۔
ٹیسی ٹس نے لکھا ہے کہ نیرو نے الزام لگا دیا کہ یہ کام مسیحیوں نے کیا ہے۔ ٹیسی ٹس کے مطابق رومی شہری ویسے ہی اس نئے فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف تھے اس لیے انھوں نے کانوں کے کچے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بادشاہ کی بات تسلیم کر لی۔
ٹیسی ٹس نے لکھا ہے کہ نیرو نے چن چن کر مسیحی اکٹھے کیے اور انھیں تڑپا تڑپا کر مروا ڈالا۔
آگے چل کر ٹیسی ٹس وضاحت کرتا ہے:
'نیرو نے غلط طور پر ان لوگوں پر الزام دھر دیا جنھیں لوگ مسیحی کہتے ہیں، جسے صوبائی خزانچی پونٹیئس پائلٹ نے بادشاہ ٹائبیرئیس کے دور میں قتل کروا دیا تھا۔ لیکن یہ خطرناک توہم پرستی وقتی طور پر کچلے جانے کے باوجود نہ صرف یہودا کے علاقے (موجود فلسطین) بلکہ شہر (یعنی روم) تک بھی پھیل گئی ہے۔'
آپ نے دیکھا کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بارے میں کہیں زیادہ تفصیل موجود ہے، تاہم ٹیسی ٹس نے بھی ایک غلطی کی ہے۔ اس نے پونٹیئس پائلٹ کو خزانچی بتایا ہے حالانکہ جدید تاریخ دانوں کے مطابق وہ یہودا صوبے کا گورنر تھا۔
تو ان صلیب کے ان ٹکڑوں کی کیا حقیقت ہے جو دنیا بھر کے مختلف کلیساؤں میں پائی جاتی ہیں اور جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسی اصلی صلیب کے حصے ہیں جس پر حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا تھا؟
اطالوی ادیب امبرتو ایکو کے ناول 'نیم آف دا روز' میں ایک طالب علم اپنے استاد سے یہی سوال پوچھتا ہے تو استاد جواب دیتا ہے کہ اگر وہ تمام 'اصل' صلیبیں اکٹھی کی جائیں تو ان سے ایک چھوٹا موٹا جنگل تیار ہو جائے گا۔
صلیبیں ایک طرف، لیکن اوپر کی گئی بحث سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کا ذکر تاریخ میں مختلف ادوار میں مختلف ذرائع اور ماخذات کی شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔