اسلام اور اس سے صحیح فائدہ اُٹھانے کا راستہ
’’اسلام‘‘حق تعالیٰ کی وہ آخری نعمت ہے جس سے دنیا کو سرفراز کیا گیا ہے۔ اس نعمتِ اسلام سے صحیح اور کامل فائدہ اسی وقت نصیب ہوتا ہے جب صحیح اسلامی حکومت دنیا میں قائم ہو اور اسلام کے احکام وقوانین جاری کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی سرپرستی حاصل ہو۔ عہدِنبوت میں بھی جب مدینہ طیبہ اسلامی مرکز بن گیا اور دارالاسلام وجود میں آگیا تب جا کر دینِ اسلام کی برکات کا ظہور ہونا شروع ہوا۔ غرض اسلام اور حکومتِ اسلام کا تعلق چولی دامن کا سا تعلق ہے، ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتا۔ حکومتِ اسلامی ہی وہ عظیم الشان سر چشمۂ برکات ہے جس کی بدولت اسلام پر صحیح عمل کی توفیق میسر آتی ہے۔ حکومتِ اسلامی کے قیام کے بعد مسلمانوں کی جان ومال وآبرو کی حفاظت ہوجاتی ہے اور قلب کو سکون حاصل ہوجاتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے اسلامی حدودو تعزیرات کے نافذ ہوجانے کے بعد پرسکون ماحول میسر آجاتا ہے۔ اسلامی حکومت کا حقیقی بیت المال قائم ہوجاتا ہے، جس کی بدولت کوئی یتیم‘ لاوارث، کوئی بیوہ، کوئی مسکین، کوئی فقیر‘ پریشان حال نہیں رہ سکتا، ان کی ہر قسم کی پریشانیوں اور تہی دستی وافلاس کا علاج ہوجاتا ہے۔ صحیح زکاۃ، صحیح عشرو خراج ادا کرنے کے بعد زمین کی پیداوار میں فوق العادۃ برکت ہونے لگتی ہے اور اس کے نتیجہ میں حقیقی اسلامی ہمدردی سے جمع شدہ اموال خرچ کرنے کی بنا پر مزید برکت نازل ہوتی ہے۔
اسلامی فتوحات کے بعد اسلامی مملکتوں کی تفصیلات تاریخوں میں پڑھ لیجئے، مصر وشام وعراق کی تاریخوں کی ورق گردانی سے یہ تمام حیرت افزا واقعات آپ کے سامنے آجائیں گے۔ کسی بھی شوہر وبیوی کا قضیہ نامر ضیہ باقی نہیں رہ سکتا، اسلامی عدالت سے صحیح چارہ جوئی ہوتی ہے، اگر زوجین کے یا ان کے حکمین (ثالثوں کے) ذریعہ تصفیہ نہیں ہوسکتا تو پھر اسلامی حکومت مسلمان قاضی کے ذریعہ عدل وانصاف پر مبنی تصفیہ کرادیتی ہے اور نزاع ختم ہوجاتا ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے۔ اسی طرح ہر مجرم کو قرار واقعی سزا مل جاتی ہے۔ اس عدالتی نظام کے زیر سایہ خدا تعالیٰ کی مخلوق اطمینان کا سانس لیتی ہے، کسی مظلوم کی دادرسی میں نہ دیر لگتی ہے نہ غیر اسلامی عدالتی گورکھ دھندوں میں پریشان ہونا پڑتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح ہوجاتی ہے، نہ کوئی شراب پیتا ہے، نہ شراب پینے کے بُرے نتائج پیش آتے ہیں، نہ زنا ہوتا ہے اور نہ اس کے نتیجہ میں قتل وغارت ہوتی ہے، نہ کوئی نائٹ کلب یعنی بدمعاشی کا اڈایا چکلہ باقی رہتا ہے۔ چوری کی شرعی سزا، ہاتھ کاٹنے کے دو چارواقعات ہی امن وامان کی فضا پیدا کردیتے ہیں، نہ حفاظت کے لیے پہرہ داروں کی ضرورت باقی رہتی ہے، نہ جان و مال کی حفاظت کے لیے پولیس کی حاجت باقی رہتی ہے۔ حکومت کے خزانے پر جو حکومتی افسران وملازمین کی بے تحاشا تنخواہوں اور غیر سرکاری مصارف کاناقابل برداشت بوجھ پڑتا ہے، سب ختم ہوجاتا ہے۔
سود کا کاروبار ختم ہونے کی وجہ سے قومی معیشت سے سرمایہ داری کی جڑکٹ جاتی ہے۔ بیمہ، قمار اور تمام سودی معاملات کے بند ہونے سے غیر معمولی اور غیر فطری طبقاتی تفاوت ختم ہوجاتا ہے۔ اگر دس پندرہ سال میں کسی مرحلہ پر دولت کی فراوانی پیدا ہوجاتی ہے تو بہت جلد شرعی وراثت کے قانون کے ذریعہ تقسیم دولت ہوکر خاندان کے افراد میں دولت منقسم ہوجاتی ہے اور معاشرے کے تمام افراد میں ایک گونہ مساوات قائم ہوجاتی ہے۔ سوشلزم اور اشتراکیت کے لیے راستہ بند ہوجاتا ہے اور جب اسلامی احکام کی پابندی کی برکت سے بندگانِ خدا کے قلوب کا تزکیہ اور اصلاح ہوجاتی ہے تو انفاق فی سبیل اللہ کے دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ دلوں میں رقت وہمدردی اور ترحّم ورأفت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں، حتیٰ کہ کوئی صاحبِ ثروت کسی کو غریب ومحتاج دیکھ نہیں سکتا۔ الغرض اسی طرح غریبوں کے ساتھ ہمدردی واعانت کے جذبات‘ امیر وغریب کے درمیان محبت ومودّت کا ایک محکم رابطہ پیدا کردیتے ہیں۔
اسلامی حکومت کا سربراہ و حکمران
یہ تو اس صالح نظام کی وہ برکات ہیں جن سے تمام باشندگانِ مملکت بہرہ یاب ہوتے ہیں، لیکن اسی صالح نظام کو بدل وجان تسلیم کرنے کے بعد جو شخصیت اس خداوندی نظام کو ملک میں نافذ کراتی ہے وہی اسلامی حکمران ہے اور وہی ایسی اسلامی مملکت کا سربراہ ہوتا ہے۔ اسلامی اُصول پر انتخاب کے بعد تاحیات وہ سربراہ رہتا ہے، پانچ دس سال کا عرصہ نہیں، بلکہ جب تک وہ زندہ رہتا ہے اور صریح کفر کا صدوراس سے جب تک نہ ہو وہ معزول نہیں ہوسکتا۔ ایسا شخص صحیح معنی میں ’’ظل اللّٰہ‘‘ (اللہ تعالیٰ کا سایۂ رحمت) ہوتا ہے۔ اس کا منصب‘ اسلام میں اتنا جلیل وعظیم ہوتا ہے کہ اللہ ورسول(a) کی اطاعت کے بعد اس کی اطاعت کا حکم ہوتا ہے، اس کی مخالفت ونافرمانی اللہ اور رسول(a) کی نافرمانی ہوتی ہے، گویا جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول برحق a کے احکام کو نہ صرف تسلیم کرتا، بلکہ اس کی تعمیل بھی کرتا ہے اور ملک میں اس کی تنفیذ بھی کرتا ہے، اس کو اتنا عظیم المرتبت بنایا گیا ہے کہ تمام اُمت ورعیت پر اس کی اطاعت واجب ہوتی ہے، اس کو بڑے بڑے اختیارات دیئے جاتے ہیں۔ درحقیقت اسلامی قانون اور اسلامی آئین کا تصور بلا اسلامی حکمران کے ناتمام رہتا ہے، اس لیے کہ اگر کسی وقت معاشرے کے افراد میں صحیح جذبۂ ہمدردی باقی نہیں رہتا اور معاشی نظام میں توازن قائم نہیں رہتا تو اسلامی حکمران ہی کی شخصیت ایسی ہوتی ہے کہ اس کو حق حاصل ہے کہ مداخلت کر کے توازن قائم کرے۔ اسلامی حکمران کے عادلانہ نظام کی یہ برکات ہوتی ہیں۔
اسلامی ممالک کی امتیازی خصوصیت
بہر حال اسلامی مملکت کی سب سے بڑی ممتاز خصوصیت ملک میں محاکمِ عدلیہ شرعیہ کا قیام اور اسلامی قانون کا اجراء ہے۔ کوئی مملکت بھی مسلمانوں کی اسلامی مملکت نہیں بن سکتی جب تک کہ اس کے دستور وقانون کا تانا بانا اسلامی احکام شرعیہ سے نہ بُنا جائے۔ میں صاف لفظوں میں کہتا ہوں کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلامی قوانین کا نفاذ اور اسلامی مملکت کے قیام کا خیال ہی حقیقی اسلامی سربراہ کے بغیر بے معنی ہے، گویا شرعی نظام کا سنگِ بنیاد ہی سچے مسلمان اور عادل حکمران کی ذات ہے، کوئی بھی اصلاحی قدم بغیر اس کے نہیں اُٹھایا جاسکتا، نہ ہی کسی اور قسم کے حکمران کو رعایا کے جان ومال پروہ اختیارات حاصل ہیں جو ایک صحیح معنی میں اسلامی حاکم کو حاصل ہیں۔
پاکستان کی سرزمین جب اللہ تعالیٰ نے عطافرمائی ہے اور ایک ایسی خود مختار مملکت وجود میں آگئی ہے، جس کے باشندے اسّی فیصد آج بھی صحیح نظامِ اسلام کے آرزومند ہیں اور اُسے بے چون وچرا تسلیم کرنے کے لیے آمادہ ہیں تو آخر کس بات کا انتظار ہے؟ کیوں اسلامی قانون جاری نہیں کیا جاتا؟ اور آخر اس اسلامی دستور کا کیا نتیجہ ہوگا جس کا اول دن عہد کیا گیا تھا؟ خصوصاً اس ملک میں جب غیر اسلامی نظام کے تمام تجربے ناکام ہوچکے اور تمام دنیوی نظام جاری کرنے کے بعد بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیںنکلا، بلکہ دن بدن قوم قعرِمذلت میں گرتی جارہی ہے، دین بھی تباہ، دنیا بھی تباہ، اخلاق بھی برباد، ملک کا امن وامان بھی برباد، تو آخر ایک مرتبہ اسلامی قوانین جاری کر کے اسلامی نظام کو کیوں نہیں آزمایا جاتا؟ یاد رکھئے! اس ملک کا مزاج دینی ہے، عوام سچے اور پکے مسلمان ہیں، تمام باشندے حنفی ہیں، مختصر سی ایک جماعت اہل حدیث حضرات کی ہوگی اور دو چار فیصد شیعہ حضرات ہوں گے، عبادات میں ہر شخص کو اپنے مسلک کی پیروی کرنے کی آزادی ہے۔ اسی طرح شخصی معاملات وشخصی قوانین بھی تمام مذاہب کے مرتب موجود ہیں۔ بنیادی عقائد اور عبادات ومعاملات میں تمام اُمتِ اسلامیہ متفق ہے۔ اسلامی قانون بنابنایاموجود ہے، صرف محاکم عدلیہ کے چلانے والے جج اور قاضی کو ان کا علم ہونا ضروری ہے۔ اگر اسلامی قانون کو جدید قانون سازی کی طرح مرتب کرنا ہی ضروری ہے تو چند ماہ سے زیادہ عرصہ اس کے لیے درکارنہیں، ایک بڑی راحت یہ ہے کہ اگر یہ اسلامی نظام نافذ کیا جائے تو روز بروز مارشل لاء نافذ کرنے کی کوئی ضرورت نہ ہوگی۔ قوم کی آسودہ حالی اور خوش حالی نیز سکونِ قلب اور معاشرے کی پائیدار اصلاح بغیر اس کے ناممکن ہے۔ ہزار تدبیریں کی جائیں، اگر دلوں کی اصلاح نہیں ہوتی تو سب بے کار اور بے معنی ہے اور دلوں کی اصلاح کتاب وسنت کی ہدایات اور اسلامی عدلیہ کے بغیر ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ ان واشگاف حقائق کو سمجھیں اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہو۔
---------------------
یہ بھی پڑھیں !
---------------------
یہ بھی پڑھیں !