لُطُف اللہ خان صاحب کا آواز خزانہ اور ان کے بارے میں سید ابوالحسن علی ندوی ؒ کی مختضر گفتگو

پاکستان میں مختلف آوازوں کا ذخیرہ رکھنے کے ضمن میں معروف شخصیت لطف اللہ خان  نے آوازوں کو ذخیرہ کرنے کا کام اس قدر محنت اور لگن سے انجام دیا تھا کہ وہ ایک خزانے کی شکل اختیار کرگیا تھا۔
 لطف اللہ خان 

ان کے ذخیرے میں برصغیر کی مختلف اہم شخصیات کی پانچ ہزار آوازیں تھیں۔

آوازوں کے اس ذخیرے میں قائدِاعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو جیسے سیاستدانوں اور فیض احمد فیض، جوش ملیح آبادی اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری جیسے شعراء کی آوازیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے فیض احمد فیض کا مکمل کلام ان کی آواز میں ریکارڈ کیا ہوا تھا۔

ان کے پاس برصغیر کے نامور شعراء ، موسیقاروں کے علاوہ مذہبی شخصیات کی آوازوں کا بھی ذخیرہ تھا جس میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی آواز میں قرآن کی مکمل تفسیر سب سے اہم ہے۔


لطف اللہ خان نے زیادہ تر افراد کی آوازیں انہیں اپنے گھر بلاکر ریکارڈ کیں تاہم جن شخصیات کو وہ نہیں بلا سکے ان کی آوازیں انہوں نے ریڈیو پاکستان اور آل انڈیا ریڈیو سے حاصل کیں۔

انہوں نے چار کتابیں بھی تصنیف کیں جن میں انہوں نے ان شخصیات اور اپنے کام کے بارے میں لکھا۔

آخری ایام میں وہ ان آوازوں کو ڈیجیٹائزڈ کررہے تھے اور ٹیپ سے ڈی وی ڈی میں منتقلی کا سارا کام وہ خود ہی انجام دیتے تھے۔

آخری اطلاعات تک وہ صرف سات سو کے قریب شخصیات کی آوازیں ہیں ڈی وی ڈی پر منتقل کر پائے تھے۔

معروف  شاعر سحر انصاری ان کے بارے لکھتے ہیں : 

" شیخ سعدیؒ کے ایک مصرعے کا مطلب یہ ہے کہ خالق نے ہر کسی کو کسی خاص کام کے لیے تخلیق کیا ہے(ہر کسے کا بہرِکارے ساختند) ایک ایسی ہی مخصوص، مختلف اور منفرد شخصیت لطف اللہ خان صاحب کی تھی۔ وہ ایک اشتہار ساز ادارے کے بانی و سربراہ تھے۔ مدراس جس کا نام اب چنئی ہے، ان کی جائے پیدائش تھی۔

 لطف اللہ خان صاحب کو ادب، فنون لطیفہ، موسیقی، شاعری اور شخصیات کے مطالعے کا گہرا شغف تھا۔ وہ اشتہار سازی کے سلسلے میں جب ٹیپ ریکارڈر سے پہلی بار متعارف ہوئے توانھیں اپنی والدہ محترمہ کی گفتگو کو محفوظ کرنے کا خیال ہوا۔ اس کے بعد وہ کلاسیکی موسیقی مشاعرے، تقاریر، شخصیات کے انٹرویو وغیرہ کی ریکارڈنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ ایک ایسا بے مثال خزانہ فراہم ہوگیا جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ خدا نے انھیں ایک طویل عمر دی اور وہ ساری زندگی نہایت مستقل مزاجی سے کسی صلے کی پرواہ کیے بغیر آنے والی نسلوں کے لیے یہ بے مثل آواز خزانہ جمع کرتے رہے۔ وہ اس فن میں ذاتی محنت، جاں کاہی اور تکمیلیت کا اعلیٰ معیار قائم رکھتے تھے۔ لطف اللہ خان صاحب نے کتابیں بھی تصنیف کی ہیں جن میں موسیقی، یادداشتیں، سفرنامے اور بعض اہم شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔

لطف اللہ خاں کا یہ آواز خزانہ اس قدر منفرد اور غیر معمولی ہے کہ وقتاً فوقتاً افراد اور ادارے اس فکر میں رہے اور اب بھی ہیں کہ یہ ذخیرہ کسی طرح ان کی تحویل میں آجائے تاہم خان صاحب کی اہلیہ محترمہ ‘‘بیگم زاہدہ لطف اللہ’’ جو ہمہ وقت ان کے اس کارنامے میں ان کی شریک رہی ہیں۔اس خزانے کو اس طرح جدا کرنا نہیں چاہتیں۔ تاہم انہیں اس کا بھی احساس تھاکہ اس کا کوئی مصرف سامنے نہیں آرہا ہے۔

اب ‘‘مردے از غیب بدوں آید وکارے بکند’’ ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ کو اس خزانے سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب غیر معمولی صفات کے حامل ہیں اور آغا خاں یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں ایک ذمے دار عہدے پر فائز ہیں۔ اس کے ساتھ ہی کتب بینی، تہذیب شناسی اور جدید و قدیم دانش کے سرچشموں سے سیرابی کا بھی غیر معمولی شغف ہے۔ عربی، فارسی، اردو اور انگریزی سے غائت درجے کی دلچسپی رکھتے ہیں۔

پڑھنے کا بہت شوق ہے لکھنے کا بہت ہی کم، کیوں ان کا خیال یہ ہے کہ ‘‘سبھی لکھنے لگے تو پڑھے گا کون۔’’ کتابوں کی فراہمی اور مطالعے کی ایک منفرد مثال ہیں۔ ایسی شخصیت عموماً یک رخی ہوجاتی ہے لیکن ڈاکٹر خورشید عبداللہ زندہ دلی، بزلہ سنجی اور دوست نوازی میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔

قصہ مختصر کہ ڈاکٹر خورشید عبداللہ کو لطف اللہ خاں صاحب کے خزانے تک رسائی حاصل ہو گئی اور بیگم زاہدہ لطف اللہ کا مکمل اعتماد بھی حاصل ہو گیا۔ ڈاکٹر خورشید گزشتہ ڈیڑھ سال سے  اس خزانے کو اہل ذوق حضرات تک جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے پہنچا رہے ہیں ، ایک طرف یوٹیوب پر یہ نادر آوازیں محفوظ ہو رہی ہیں تو دوسری طرف فیس بک پر ان کی ‘‘دیوار’’ اہلِ ذوق کے لیے ایک نعمت بن چکی ہے۔ اگرچہ خورشید صاحب کو یہ شکایت ہے کہ نئی نسل اس سے اتنا استفادہ نہیں کر رہی ہے جتنا اسے کرنا چاہیے۔ پھر بھی وہ معتبر خواتین و حضرات جو سخن فہم ہیں پوری اردو دنیا سے خورشید صاحب کے اس بے لوث کارنامے کو سراہتے ہیں۔

یہ بات شاید کم لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ آواز خزانہ ‘‘سپول ٹیپس’’ کی شکل میں موجود ہے اور انھیں جدید شکل میں محفوظ کرنے اور اہل ذوق تک پہنچانے کے لیے انہیں جو محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کئی کئی گھنٹے غیر مساعد ماحول میں ان آوازوں کی بازیابی کے لیے مصروف رہتے ہیں ۔ دامے، درمے، سخنے، قدمے۔ وہ طبی پیشے کے لحاظ سے تو مسیحا ہی ہیں لیکن ان نوادر کو شائقین فنون لطیفہ تک پہنچانا بھی مسیحائی سے کم نہیں۔ 

 ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر محمد خورشید عبداللہ صحت و سلامتی کے ساتھ اس معاشرے میں خیر وبرکت کے چراغ اسی طرح روشن کرتے رہیں۔

----------------

مختلف آوزوں کا ذخیرہ

آواز خزانہ ، لطف اللہ خان