کیش مرداں نہ کہ مذہب گوسفنداں - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

کیش مرداں نہ کہ مذہب گو سفنداں
مسئلہ سود پر میرے مضامین کو دیکھ کر ایک خیال کا بار بار اظہارکیا گیا ہے کہ ’’موجودہ زمانے میں سرمایہ داری نظام‘ سیاسی طاقت کے ساتھ ہمارے گرد و پیش کی پوری معاشی دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ معیشت کی گاڑی اصول سرمایہ داری کے پہیوں پر چل رہی ہے‘ سرمایہ دار ہی اس کو چلا رہے اور وہی قومیں اس کے ذریعے سے منزلِ ترقی کی طرف بڑھ رہی ہیں جن کے لیے پیدایشِ دولت اور صَرفِ دولت کے باب میں کوئی مذہبی یا اخلاقی قیدنہیں ہے۔ دوسری طرف ہماری اجتماعی قوت منتشر ہے۔ دنیا کے نظم معیشت کو بدلنا تو درکنار ہم خود اپنی قوم میں بھی اسلامی نظمِ معیشت کو از سر نو قائم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اب اگر ہماری مذہبی قیود ہم کو زمانے کے چلتے ہوئے نظام معاشی میں پورا پورا حصہ لینے سے روک دیں تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ہماری قوم معاشی ترقی و خوش حالی کے ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائے گی۔ ہم مفلس ہوتے جائیں گے اور ہمسایہ قومیں دولت مند ہوتی چلی جائیں گی۔ پھر ہماری یہ معاشی کمزوری ہم کو سیاسی‘ اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے بھی ذلیل اور پست کرے گی۔ یہ محض وہم اور اندیشہ نہیں ہے بلکہ واقعات کی دنیا میں یہی نتیجہ ہم کونظر آرہا ہے‘ برسوں سے نظر آرہا ہے‘ اور مستقبل میں ہمارا جو کچھ انجام ہونے والا ہے اس کے آثار کچھ ایسے دھندلے نہیں ہیں کہ ان کو نہ دیکھا جاسکتا ہو۔ پس ہم کو محض شریعت کا قانون بتانے سے کیا فائدہ؟ اسلام کے معاشی اصول بیان کرنے سے کیا حاصل؟ ہم کو یہ بتاؤ کہ ان حالات میں اسلامی قانون کی پابندی کے ساتھ ہمارے لیے اپنی معاشی حالت کو سنبھالنے اور ترقی کی منزلیں طے کرنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟ اگر نہیں ہے تو دو صورتوں میں سے ایک صورت یقیناًپیش آئے گی

۱۔ یا تو مسلمان بالکل تباہ ہو جائیں گے۔

۲۔ یا پھر وہ بھی دوسری قوموں کی طرح مجبور ہوں گے کہ ایسے تمام قوانین کی پابندی سے آزاد ہو جائیں جو زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

یہ سوال صرف مسئلہ سود ہی تک محدود نہیں ہے۔ دراصل اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اگر زندگی کے تمام شعبوں میں سے محض معیشت ہی کا شعبہ ایسا ہوتا جس پر ایک غیر اسلامی نظام مسلط ہوگیا ہوتا تو شاید معاملہ نسبتاً بہت ہلکا ہوتا، مگر واقعات کی شہادت کچھ اور ہے۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈالیے۔ خود اپنے حالات کا جائزہ لے کر دیکھیے۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا پایا جاتا ہے جس پر غیر اسلام کا تسلط نہیں ہے؟کیا اعتقادات اور افکار و تخیلات پر الحاد و دہریت یا کم از کم شک و ریب کا غلبہ نہیں؟ کیا تعلیم پر ناخدا شناسی کی حکومت نہیں؟ کیا تمدن و تہذیب پر فرنگیت کا استیلا نہیں؟ کیا معاشرت کی جڑوں تک میں مغربیت اتر نہیں گئی ہے؟ کیا اخلاق اس کے غلبے سے محفوظ ہیں؟ کیا معاملات اس کے تسلط سے آزاد ہیں؟ کیا قانون اور سیاست اور حکومت کے اصول و فروع نظریات اور عملیات میں سے کوئی چیز بھی اس کے اثر سے پاک ہے؟

جب حال یہ ہے تو آپ اپنے سوال کو معیشت اور اس کے بھی صرف ایک پہلو تک کیوں محدود رکھتے ہیں؟ اس کو وسیع کیجیے، پوری زندگی پر پھیلا دیجیے۔ یوں کہیے کہ زندگی کے دریا نے اپنا رخ بدل دیا ہے۔ پہلے وہ اس راستے پر بہہ رہا تھا جو اسلام کا راستہ تھا، اب وہ اس راستے پر بہہ رہا ہے جو غیر اسلام کا راستہ ہے۔ ہم اس کے رخ کو بدلنے کی قوت نہیں رکھتے۔ ہم میں اتنی قوت بھی نہیں کہ اس کی رو کے خلاف تیر سکیں۔ ہم کو ٹھہرنے میں بھی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ اب ہمیں کوئی ایسی صورت بتاؤ کہ ہم مسلمان بھی رہیں اور اس دریا کے بہاؤ پر اپنی کشتی کو چھوڑ بھی دیں‘ عازمِ کعبہ بھی رہیں اور اس قافلے کا ساتھ بھی نہ چھوڑیں جو ترکستان کی طرف جا رہا ہے۔ ہم اپنے خیالات‘ نظریات‘ مقاصدِ اصول حیات اور مناہج عمل میں نا مسلمان بھی ہوں اور پھر مسلمان بھی ہوں۔ اگر ان اضداد کو جمع کرنے کی کوئی صورت تم نے نہ نکالی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تم ہم اسی دریا کے ساحل پر مر رہیں گے‘ یا پھر یہ اسلام کا لیبل جو ہماری کشتی پرلگا ہوا ہے ایک دن کھرچ ڈالا جائے گا اور یہ کشتی بھی دوسری کشتیوں کے ساتھ دریا کے دھارے پر بہتی نظر آئے گی۔

ہمارے روشن خیال اور ’تجدد پسند‘ حضرات جب کسی مسئلے پر گفتگو فرماتے ہیں تو ان کی آخری حجت‘ جو اِن کے نزدیک سب سے قوی حجت ہے‘ یہ ہوتی ہے کہ زمانے کا رنگ یہی ہے‘ ہوا کا رخ اسی طرف ہے‘ دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ پھر ہم اس کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں اور مخالفت کرکے زندہ کیسے رہ سکتے ہیں۔اخلاق کا سوال ہو، وہ کہیں گے کہ دنیا کا معیارِ اخلاق بدل چکا ہے۔ مطلب یہ نکلا کہ مسلمان اس پرانے معیارِ اخلاق پر کیسے قائم رہیں؟ پردے پر بحث ہو، ارشاد ہوگا کہ دنیا سے پردہ اٹھ چکا ہے۔ مراد یہ ہوئی کہ جو چیز دنیا سے اٹھ چکی ہے اس کو مسلمان کیسے نہ اٹھائیں۔ تعلیم پر گفتگو ہو، ان کی آخری دلیل یہ ہوگی کہ دنیا میں اسلامی تعلیم کی مانگ ہی نہیں۔ مدّعا یہ کھلا کہ مسلمان بچے وہ جنس بن کر کیسے نکلیں جس کی مانگ نہیں ہے اور وہ مال کیوں نہ بنیں جس کی مانگ ہے۔ سود پر تقریر ہو، ٹیپ کا بند یہ ہو گا کہ اب دنیا کاکام اس کے بغیر نہیں چل سکتا۔ گویا مسلمان کسی ایسی چیز سے احتراز کیسے کرسکتے ہیں جو اب دنیا کاکام چلانے کے لیے ضروری ہوگئی ہے۔ غرض یہ کہ تمدن‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ معیشت‘ قانون‘ سیاست اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں سے جس شعبے میں بھی وہ اصولِ اسلام سے ہٹ کر فرنگیت کا اتباع کرنا چاہتے ہیں‘ اس کے لیے زمانے کا رنگ اور ہوا کا رخ اور دنیا کی رفتار وہ آخری حجت ہوتی ہے جو اس تقلیدِ مغربی یادرحقیقت اس جزوی ارتداد کے جواز پر برہان قاطع سمجھ کر پیش کی جاتی ہے‘ اور خیال کیا جاتا ہے کہ عمارتِ اسلامی کے اجزا میں سے ہر اس جز کو ساقط کر دینا فرض ہے جس پر اس دلیل سے حملہ کیا جائے۔

ہم کہتے ہیں کہ شکست و ریخت کی یہ تجویزیں جن کو متفرق طور پر پیش کرتے ہو‘ ان سب کو ملا کر ایک جامع تجویز کیوں نہیں بنا لیتے؟ مکان کی ایک ایک دیوار، ایک ایک کمرے اور ایک ایک دالان کو گرانے کی علیحدہ علیحدہ تجویزیں پیش کرنے‘ اور ہر ایک پر فردًافردًابحث کرنے میں فضول وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیوں نہیں کہتے کہ یہ پورا مکان گرا دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا رنگ زمانے کے رنگ سے مختلف ہے‘ اس کا رخ ہوا کے رخ سے پھرا ہوا ہے اور اس کی وضع اُن مکانوں سے کسی طرح نہیں ملتی جو اَب دنیا میں بن رہے ہیں۔

جن لوگوں کے حقیقی خیالات یہی ہیں اُن سے تو بحث کرنا فضول ہے۔ ان کے لیے تو صاف اور سیدھا سا جواب یہی ہے کہ اس مکان کو گرانے اور اس کی جگہ دوسرا مکان بنانے کی زحمت آپ کیوں اٹھاتے ہیں؟ جو دوسرا خوش وضع‘ خوش نما‘ خوش رنگ مکان آپ کو پسند آئے اس میں تشریف لے جائیے۔ اگر دریا کے دھارے پر بہنے کا شوق ہے تو اس کشتی کا لیبل کھرچنے کی تکلیف بھی کیوں اٹھائیے؟ جو کشتیاں پہلے سے بہہ رہی ہیں انھی میں سے کسی میں نقل مقام فرما لیجیے۔ جو لوگ اپنے خیالات‘ اپنے اخلاق‘ اپنی معاشرت‘ اپنی معیشت‘ اپنی تعلیم‘ غرض اپنی کسی چیز میں بھی مسلمان نہیں ہیں اور مسلمان رہنا نہیں چاہتے اُن کے برائے نام مسلمان رہنے سے اسلام کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے۔ وہ خدا پرست نہیں‘ ہوا پرست ہیں۔اگر دنیا میں بت پرستی کا غلبہ ہو جائے تو یقیناًوہ بتوں کو پوجیں گے۔ اگر دنیا میں برہنگی کا رواج عام ہو جائے تو یقیناًوہ اپنے کپڑے اتار پھینکیں گے۔ اگر دنیا نجاستیں کھانے لگے تو یقیناًوہ کہیں گے کہ نجاست ہی پاکیزگی ہے اور پاکیزگی تو سراسر نجاست ہے۔ ان کے دل اور دماغ غلام ہیں اور غلامی ہی کے لیے گھڑے گئے ہیں۔ آج فرنگیت کا غلبہ ہے‘ اس لیے اپنے باطن سے لے کر ظاہر کے ایک ایک گوشے تک وہ فرنگی بننا چاہتے ہیں۔ کل اگر حبشیوں کا غلبہ ہو جائے تو یقیناًوہ حبشی بنیں گے۔ اپنے چہروں پر سیاہیاں پھیریں گے‘ اپنے ہونٹ موٹے کریں گے‘ اپنے بالوں میں حبشیوں کے سے گھونگھر پیدا کریں گے‘ ہر اس شے کی پوجا کرنے لگیں گے جو حبش سے ان کو پہنچے گی۔ ایسے غلاموں کی اسلام کو قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ بخدا اگر کروڑوں کی مردم شماری میں سے ان سب منافقوں اور غلام فطرت لوگوں کے نام کٹ جائیں اور دنیا میں صرف چند ہزار وہ مسلمان رہ جائیں جن کی تعریف یہ ہو کہ

یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہ‘ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاءِمٍ۔ (المائدہ۵۵۴)

[وہ اللہ کے محبوب ہوں اور اللہ ان کا محبوب ہو‘ مسلمانوں کے لیے نرم اور کافروں پر سخت ہوں‘ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہوں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا انھیں خوف نہ ہو۔]

تو اسلام اب سے بدرجہا زیادہ طاقت وَر ہوگا اور ان کروڑوں کا نکل جانا اس کے حق میں ایسا ہوگا جیسے کسی مریض کے جسم سے پیپ اور کچ لہو نکل جائے۔

نَخْشٰی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآءِرَۃٌ۔ (المائدہ۵۵۲

[ہم کو خوف ہے کہ ہم پر مصیبت آجائے گی۔]

یہ آج کوئی نئی آواز نہیں ہے۔ بہت پرانی آواز ہے جو منافقوں کی زبان سے بلند ہوتی رہی ہے۔ یہی آواز نفاق کی اس بیماری کا پتہ دیتی ہے جو دلوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی آواز کو بلند کرنے والے ہمیشہ مخالفین اسلام کے کیمپ کی طرف لپکتے رہے ہیں۔ ہمیشہ سے انھوں نے اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کو پاؤں کی بیڑیاں اور گلے کا طوق ہی سمجھا ہے۔ ہمیشہ سے ان کو احکام خدا و رسولؐ کا اتباع گراں ہی گزرتا رہا ہے۔ اطاعت میں جان و مال کا زیاں اور نافرمانی میں حیاتِ دنیا کی ساری کامرانیاں ہمیشہ سے ان کو نظر آتی رہی ہیں۔ پس ان کی خاطر خدا کی شریعت کو نہ ابتدا میں بدلا گیا تھا‘ نہ اب بدلا جاسکتا ہے‘اور نہ کبھی بدلاجائے گا۔ یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لیے نہیں اتری ہے، نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے‘ ہوا کے رخ پر اڑنے والے خس و خاشاک‘ اور پانی کے بہاؤ پر پہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ اُن بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھتے ہوں‘ جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں‘ جو صبغۃ اللّٰہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہاؤ پر بہنے کے لیے پیدا ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی آفرینش کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست ہے‘ صراط مستقیم ہے۔ اگر دریا نے اپنا رخ اس راستے سے پھیر دیا ہے تو اسلام کے دعوے میں وہ شخص جھوٹا ہے جو اس بدلے ہوئے رخ پر بہنے کے لیے راضی ہو جائے۔ حقیقت میں جو سچا مسلمان ہے‘ وہ اس غلط رو دریا کی رفتار سے لڑے گا‘ اس کا رخ پھیرنے کی کوشش میں اپنی پوری قوت صَرف کر دے گا‘ کامیابی اور ناکامی کی اس کو قطعاً پروا نہ ہوگی‘ وہ ہر اس نقصان کو گوارا کرلے گا جو اس لڑائی میں پہنچے یا پہنچ سکتا ہو‘ حتیٰ کہ اگر دریا کی روانی سے لڑتے لڑتے اس کے بازو ٹوٹ جائیں، اس کے جوڑ بند ڈھیلے ہو جائیں‘ اور پانی کی موجیں اس کو نیم جاں کرکے کسی کنارے پر پھینک دیں‘ تب بھی اس کی روح ہرگز شکست نہ کھائے گی‘ ایک لمحے کے لیے بھی اس کے دل میں اپنی اس ظاہری نامرادی پر افسوس یا دریا کی رو پر بہنے والے کافروں یا منافقوں کی کامرانیوں پر رشک کا جذبہ راہ نہ پائے گا۔

قرآن تمھارے سامنے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرتیں تمھارے سامنے ہیں۔ ابتدا سے لے کر آج تک کے علم بردار ان اسلام کی زندگیاں تمھارے سامنے ہیں۔ کیا ان سب سے تم کو یہی تعلیم ملتی ہے کہ ہوا جدھر اڑائے ادھر اڑ جاؤ؟ پانی جدھر بہائے ادھر بہہ جاؤ؟ زمانہ جو رنگ اختیار کرے اسی رنگ میں رنگ جاؤ؟ اگر مدعا یہی ہوتا تو کسی کتاب کے نزول اور کسی نبی ؑ کی بعثت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ ہوا کی موجیں تمھاری ہدایت کے لیے اور حیاتِ دنیا کا بہاؤ تمھاری رہنمائی کے لیے اور زمانے کی نیرنگیاں تمھیں گرگٹ کی روش سکھانے کے لیے کافی تھیں۔ خدا نے کوئی کتاب ایسی ناپاک تعلیم دینے کے لیے نہیں بھیجی اور نہ اس غرض کے لیے کوئی نبی مبعوث کیا۔ اس ذات حق کی طرف سے تو جو پیغام بھی آیا ہے اس لیے آیا ہے کہ دنیا جن غلط راستوں پر چل رہی ہے ان سب کو چھوڑ کر ایک سیدھا راستہ مقرر کرے‘ اس کے خلاف جتنے راستے ہوں ان کو مٹائے‘ اوردنیا کو ان سے ہٹانے کی کوشش کرے‘ ایمان داروں کی ایک جماعت بنائے جو نہ صرف خود اس سیدھے راستے پر چلیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کریں۔ انبیاء علیہم السلام اور ان کے متبعین نے ہمیشہ اسی غرض کے لیے جہاد کیا ہے۔ اس جہاد میں اذیتیں اٹھائی ہیں۔ نقصان برداشت کیے ہیں اور جانیں دی ہیں۔ ان میں سے کسی نے مصائب کے خوف یا منافع کے لالچ سے رفتار زمانہ کو کبھی اپنا مقتدا نہیں بنایا۔ اب اگر کوئی شخص یا کوئی گروہ ہدایتِ آسمانی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے میں نقصان اورمشکلات اور خطرات دیکھتا ہے اور ان سے خوف زدہ ہو کر کسی ایسے راستے پر جانا چاہتا ہے جس پر چلنے والے اس کو خوشحال‘ کامیاب اور سربلند نظر آتے ہیں‘ تو وہ شوق سے اپنے پسندیدہ راستے پر جائے، مگر وہ بزدل اور حریص انسان اپنے نفس کو اور دنیا کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب اور اس کے نبی کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کربھی اس کا پیرو ہے؟ نافرمانی خود ایک بڑا جرم ہے۔ اس پر جھوٹ اور فریب اور منافقت کا اضافہ کرکے آخر کیا فائدہ اٹھانا مقصود ہے؟

یہ خیال کہ زندگی کا دریا جس رخ بہہ گیا ہے اس سے وہ پھیرا نہیں جاسکتا عقلاً بھی غلط ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ دنیا میں ایک نہیں سیکڑوں انقلاب ہوئے ہیں اور ہر انقلاب نے اس دریا کے رخ کو بدلا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال خود اسلام ہی میں موجود ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو زندگی کا یہ دریا کس رخ پر بہہ رہا تھا؟ کیا تمام دنیا پر کفر و شرکت کا غلبہ نہ تھا؟ کیا استبداد اور ظلم کی حکومت نہ تھی؟ کیا انسانیت کو طبقات کی ظالمانہ تقسیم نے داغ دار نہ بنا رکھا تھا؟ کیا اخلاق پر فواحش‘ معاشرت پر نفس پرستی‘ معیشت پر ظالمانہ جاگیرداری و سرمایہ داری‘ اور قانون پر بے اعتدالی کا تسلط نہ تھا؟ مگر ایک تنِ واحد نے اٹھ کر تمام دنیا کو چیلنج دے دیا۔ تمام اُن غلط خیالات اور غلط طریقوں کو رد کر دیاجو اس وقت دنیا میں رائج تھے۔ ان سب کے مقابلے میں اپنا ایک عقیدہ اور اپنا ایک طریقہ پیش کیا‘ اور چند سال کی مختصر مدت میں اپنی تبلیغ اور جہاد سے دنیا کے رخ کو پھیر کر اور زمانے کے رنگ کو بدل کر چھوڑا۔

تازہ ترین مثال اشتراکی تحریک کی ہے۔ انیسویں صدی میں سرمایہ داری کا تسلط اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ کوئی بزدل مرغ بادنمااُس وقت یہ تصور بھی نہ کرسکتا تھا کہ جو نظام ایسی ہولناک سیاسی اور جنگی قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے اُس کو الٹ دینا بھی ممکن ہے، مگر انھی حالات میں ایک شخص کارل مارکس نامی اٹھا اور اس نے اشتراکیت کی تبلیغ شروع کی۔ حکومت نے اس کی مخالفت کی۔ وطن سے نکالا گیا۔ ملک ملک کی خاک چھانتا پھرا۔ تنگ دستی اور مصیبت سے دوچار ہوا، مگر مرنے سے پہلے اشتراکیوں کی ایک طاقت وَر جماعت پیدا کرگیا۔ جس نے چالیس سال کے اندر نہ صرف روس کی سب سے زیادہ خوفناک طاقت کو الٹ کر رکھ دیا بلکہ تمام دنیا میں سرمایہ داری کی جڑیں ہلا دیں اور اپنا ایک معاشی اور تمدنی نظریہ اس قوت کے ساتھ پیش کیا کہ آج دنیا میں اس کے متبعین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی ہے، اور ان ممالک کے قوانین بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں جن پر سرمایہ داری کی حکومت گہری جڑوں کے ساتھ جمی ہوئی ہے، مگر انقلاب یا ارتقا ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے‘ اورقوت ڈھل جانے کا نام نہیں ڈھال دینے کا نام ہے‘ مڑجانے کو قوت نہیں کہتے‘ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔ دنیا میں کبھی نامردوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا‘ جو لوگ اپنا کوئی اصول‘ کوئی مقصد حیات‘ کوئی نصب العین نہ رکھتے ہوں‘ جو بلند مقصد کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ نہ رکھتے ہوں‘ جو خطرات و مشکلات کے مقابلے کی ہمت نہ رکھتے ہوں‘ جن کو دنیا میں محض آسائش اور سہولت ہی مطلوب ہو‘ جو ہر سانچے میں ڈھل جانے اور ہر دباؤ سے دب جانے والے ہوں‘ ایسے لوگوں کا کوئی قابل ذکر کارنامہ انسانی تاریخ میں نہیں پایا جاتا۔ تاریخ بنانا صرف بہادر مردوں کاکام ہے۔ انھی نے اپنے جہاد اور اپنی قربانیوں سے زندگی کے دریا کارخ پھیرا ہے، دنیا کے خیالات بدلے ہیں، مناہجِ عمل میں انقلاب برپا کیا ہے، زمانے کے رنگ میں رنگ جانے کے بجائے زمانے کو خود اپنے رنگ میں رنگ کر چھوڑا ہے۔

پس یہ نہ کہو کہ دنیا جس راستے پر جارہی ہے اس سے وہ پھیری نہیں جاسکتی اور زمانے کی جو روش ہے اس کا اتباع کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مجبوری کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے بجائے تم کو خود اپنی کمزوری کا سچا اعتراف کرنا چاہیے، اور جب تم اس کا اعتراف کرلو گے تو تم کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کمزور کے لیے دنیا میں نہ کوئی مذہب ہوسکتا ہے‘ نہ کوئی اصول اور نہ کوئی ضابطہ۔ اس کو تو ہرزور آور سے دبنا پڑے گا۔ ہر طاقت وَر کے آگے جھکنا پڑے گا۔ وہ کبھی اپنے کسی اصول اور کسی ضابطے کا پابند نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی مذہب اس کے لیے اپنے اصول بدلتا چلا جائے تو وہ سرے سے کوئی مذہب ہی نہ رہے گا۔

یہ بھی ایک دھوکا ہے کہ اسلام کی قیود تمھاری خوش حالی اورترقی میں مانع ہیں۔ آخر تم اسلام کی کس قید کی پابندی کر رہے ہو؟ کون سی قید ہے جس سے تم آزاد نہیں ہوئے؟ اورکون سی حد ہے جس کو تم نے نہیں توڑا؟ تم کو جوچیزیں تباہ کر رہی ہیں ان میں سے کس کی اجازت اسلام نے تم کو دی تھی؟ تم تباہ ہو رہے ہو اپنی فضول خرچیوں سے جن کے لیے کروڑوں روپے کی جایدادیں تمھارے قبضے سے نکلتی جا رہی ہیں۔ کیا اسلام نے تم کو اس کی اجازت دی تھی؟ تم کو خود تمھاری بری عادتیں تباہ کر رہی ہیں۔ اس مفلسی کی حالت میں بھی سینما اور کھیل تماشے تمھاری آبادی سے بھرے رہتے ہیں۔ ہر شخص لباس اور زینت و آرائش کے سامانوں پر اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ تمھاری جیبوں سے ہر مہینے لکھو کھا روپیہ بے ہودہ رسموں اور نمائشی افعال اور جاہلانہ اشغال میں صَرف ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کس کو اسلام نے تمھارے لیے حلال کیا تھا؟ سب سے بڑی چیز جس نے تم کو تباہ کر دیا ہے وہ ادائے زکوٰۃ میں غفلت اور آپس کی معاونت سے بے پروائی ہے۔ کیا اسلام نے یہ چیز تم پر فرض نہ کی تھی؟ پس حقیقت یہ ہے کہتمھاری معیشت کی بربادی اسلامی قیود کی پابندی کا نتیجہ نہیں بلکہ ان سے آزادی کا نتیجہ ہے۔ رہی ایک سود کی پابندی تو وہ بھی کہاں قائم ہے؟ کم ازکم ۹۵ فی صدی مسلمان بغیر کسی حقیقی مجبوری کے سود پر قرض لیتے ہیں۔ کیا اسلامی احکام کی پابندی اسی کا نام ہے؟ مال دار مسلمانوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ کسی نہ کسی شکل میں سود کھا ہی رہا ہے۔ باقاعدہ ساہوکاری نہ کی تو کیا ہوا‘ بینک اور بیمہ اور سرکاری بانڈس اور پراویڈنٹ فنڈس کا سود تو اکثر و بیش تر ما ل دار مسلمان کھاتے ہیں۔ پھر وہ حرمتِ سود کی قید کہاں ہے جس پر تم اپنی معاشی خستہ حالی کا الزام رکھتے ہو؟

عجیب پر لطف استدلال ہے کہ مسلمانوں کی عزت اور قومی طاقت کا مدار دولت مندی پر ہے‘ اور دولت کا مدار سود کے جواز پر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو ابھی تک یہی خبر نہیں کہ عزت اور طاقت کا مدار دراصل ہے کس چیز پر۔ محض دولت ہرگز وہ چیز نہیں ہے جو کسی قوم کو معزز اور طاقت وَر بناتی ہو۔ تمھارا ایک ایک شخص اگر لکھ پتی اور کروڑ پتی بن جائے مگر تم میں کیریکٹر کی طاقت نہ ہو تو یقین رکھو کہ دنیا میں تمھاری کوئی عزت نہ ہوگی۔ بخلاف اس کے اگر تم میں درحقیقت اسلامی سیرت موجود ہو‘ تم صادق اور امین ہو‘ لالچ اور خوف سے پاک ہو‘ اپنے اصول میں سخت اور اپنے معاملات میں کھرے ہو‘ حق کو حق اور فرض کو فرض سمجھنے والے ہو‘ حرام و حلال کی تمیز کو ہر حال میں ملحوظ رکھنے والے ہو‘ اور تم میں اتنی اخلاقی قوت موجود ہو کہ کسی نقصان کا خوف اور کسی فائدے کی طمع تم کو راستی سے نہ ہٹا سکے اور کسی قیمت پر تمھارا ایمان نہ خریدا جاسکے‘ تو دنیا میں تمھاری ساکھ قائم ہو جائے گی‘ دلوں میں تمھاری عزت بیٹھ جائے گی۔ تمھاری بات کا وزن لکھ پتی کی پوری دولت سے زیادہ ہوگا‘ تم جھونپڑیوں میں رہ کر اور پیوند لگے کپڑے پہن کر بھی دولت سراؤں میں رہنے والوں سے زیادہ احترام کی نظر سے دیکھے جاؤ گے اور تمھاری قوم کو ایسی طاقت حاصل ہوگی جس کو کبھی نیچا نہیں دکھایا جاسکتا۔ عہد صحابہؓ کے مسلمان کس قدر مفلس تھے۔ جھونپڑیوں اورکمبل کے خیموں میں رہنے والے‘ تمدن کی شان و شوکت سے ناآشنا‘ نہ ان کے لباس درست‘ نہ غذا درست‘ نہ ہتھیار درست‘ نہ سواریاں شان دار، مگر ان کی جو دھاک اور ساکھ دنیا میں تھی وہ نہ اموی عہدمیں مسلمانوں کو نصیب ہوئی‘ نہ عباسی عہدمیں اور نہ بعد کے کسی عہد میں۔ ان کے پاس دولت نہ تھی مگر کریکٹر کی طاقت تھی جس نے دنیا میں اپنی عزت اورعظمت کا سکہ بٹھا دیا تھا۔ بعد والوں کے پاس دولت آئی‘ حکومت آئی، تمدن کی شان و شوکت آئی، مگر کوئی چیز بھی کریکٹر کی کمزوری کا بدل فراہم نہ کرسکی۔

تم نے تاریخ اسلام کا سبق تو فراموش ہی کر دیا ہے‘ مگر دنیا کی جس قوم کی تاریخ چاہو اٹھا کر دیکھ لو‘ تم کو ایک مثال بھی ایسی نہ ملے گی کہ کسی قوم نے محض سہولت پسندی اور آرام طلبی اور منفعت پرستی سے عزت اور طاقت حاصل کی ہو۔ تم کسی ایسی قوم کو معزز اور سربلند نہ پاؤں گے جو کسی اصول اورکسی ڈسپلن کی پابند نہ ہو‘ کسی بڑے مقصد کے لیے تنگی اور مشقت اور سختی برداشت نہ کرسکتی ہو‘ اور اپنے اصول و مقاصد کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو اور خود اپنے نفس کو بھی قربان کر دینے کا جذبہ نہ رکھتی ہو۔ یہ ڈسپلن اور اصول کی پابندی اوربڑے مقاصد کے لیے راحت و آسائش اور منافع کی قربانی کسی نہ کسی رنگ میں تم کو ہرجگہ نظر آئے گی۔ اسلام میں اس کا رنگ کچھ اور ہے اور دوسری ترقی یافتہ قوموں میں کچھ اور۔ یہاں سے نکل کر تم کسی اور نظام تمدن میں جاؤ گے تو وہاں بھی تم کو اس رنگ میں نہ سہی، کسی دوسرے رنگ میں ایک نہ ایک ضابطے کا پابند ہونا پڑے گا‘ ایک نہ ایک ڈسپلن کی گرفت برداشت کرنی ہوگی۔ چند مخصوص اصولوں کے شکنجے میں بہرحال تم جکڑے جاؤ گے‘ اور تم سے کسی مقصداور کسی اصول کی خاطر قربانی کا مطالبہ ضرور کیا جائے گا۔ اگر اس کا حوصلہ تم میں نہیں ہے‘ اگر تم صرف نرمی اور کشادگی اور مٹھاس ہی کے متوالے ہو اورکسی سختی‘ کسی کڑواہٹ کو گوارا کرنے کی طاقت تم میں نہیں ہے تو اسلام کی قید و بند سے نکل کر جہاں چاہو جاکر دیکھ لو۔ کہیں تم کو عزت کا مقام نہ ملے گا، اور کسی جگہ طاقت کا خزانہ تم نہ پاسکو گے۔ قرآن نے اس قاعدے کلیے کو صرف چار لفظوں میں بیان کیا ہے اور وہ چار لفظ ایسے ہیں جن کی صداقت پر پوری تاریخ عالم گواہ ہے

اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (الم نشرح ۹۴۶)

یُسر کا دامن ہر حال میں عُسر کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس میں عُسر کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں وہ کبھی یُسر سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔

(ترجمان القرآن، صفر ۱۳۵۵ھ۔ مئی ۱۹۳۶ء)