اجتماعی فساد - مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی


قرآن مجید میں ایک قاعدہ کلیہ یہ بیان کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ظالم نہیں ہے کہ کسی قوم کو خواہ مخواہ برباد کردے، دراں حالیکہ وہ نیکوکار ہو:

وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ۔ (ہود۱۱ ۱۱۷) 

[اور تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ظلم سے تباہ کر دے حالانکہ اس کے باشندے نیک عمل کرنے والے ہوں۔]

ہلاک و برباد کر دینے سے مراد صرف یہی نہیں کہ بستیوں کے طبقے الٹ دیے جائیں‘ اور آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے بلکہ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ قوموں کا شیرازہ بکھیر دیا جائے‘ ان کی اجتماعی قوت توڑ دی جائے‘ ان کو محکوم و مغلوب اور ذلیل و خوار کر دیا جائے۔ قائدہ مذکور کی بنا پر بربادی اور ہلاکت کی جملہ اقسام میں سے کوئی قسم بھی کسی قوم پر نازل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ خیر و صلاح کے راستے کو چھوڑ کر شر و فساد اور سرکشی و نافرمانی کے طریقوں پر نہ چلنے لگے اور اس طرح خود اپنے اوپر ظلم نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قاعدے کو ملحوظ رکھ کر جہاں کہیں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کا ذکر فرمایا ہے‘ وہاں اس کا جرم بھی ساتھ ساتھ بیان کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ وہ ان کی اپنی ہی شامتِ اعمال ہے جو اُن کی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کرتی ہے

فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ م ج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْآ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ۔ (العنکبوت۲۹ ۴۰)

[ہر ایک کو ہم نے اس کے قصور ہی پر پکڑا۔۔۔۔۔۔ اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہیں تھا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔]

دوسری بات جو اس قاعدے سے نکلتی ہے‘ یہ ہے کہ ہلاکت و بربادی کا سبب انفرادی شروفساد نہیں ہے بلکہ اجتماعی اور قومی شر و فساد ہے۔ یعنی اعتقاد اور عمل کی خرابیاں اگر متفرق طور پر افراد میں پائی جاتی ہوں لیکن مجموعی طور پر قوم کا دینی و اخلاقی معیار اتنا بلند ہو کہ افراد کی برائیاں اس کے اثر سے دبی رہیں تو خواہ افراد علیحدہ علیحدہ کتنے ہی خراب ہوں‘ قوم بحیثیت مجموعی سنبھلی رہتی ہے اور کوئی فتنہ عام برپا نہیں ہوتا جو پوری قوم کی بربادی کا موجب ہو، مگر جب اعتقاد اور عمل کی خرابیاں افراد سے گزر کر پوری قوم میں پھیل جاتی ہیں اور قوم کا دینی احساس اور اخلاقی شعور اس درجہ ماؤف ہو جاتا ہے کہ اس میں خیر و صلاح کے بجائے شر و فساد کوپھلنے اور پھولنے کا موقع ملنے لگے‘ تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ایسی قوم سے پھر جاتی ہے اور وہ عزت کے مقام سے ذلت کی طرف گرنے لگتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اللہ کا غضب اس پر بھڑک اٹھتا ہے‘ اور اس کو بالکل تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے۔ قرآن حکیم میں اس کی بکثرت مثالیں بیان کی گئی ہیں۔

قوم نوح کو اس وقت برباد کیا گیا جب اعتقاد و عمل کی خرابیاں اُن کے اندر جڑ پکڑ گئیں اور زمین میں پھیلنے لگیں‘ اور یہ امید ہی باقی نہ رہی کہ اس شجرِ خبیث سے کبھی کوئی اچھا پھل بھی پیدا ہوگا۔ آخر کار مجبور ہو کر حضرت نوح نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا کہ

رَبِّ لَا تَذَرْعَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا یَلِدُوْٓا اِلاَّ فَاجِرًا کَفَارًا۔ (نوح۷۱ ۲۶۲۷)

[میرے پروردگار! زمین پر ان کافروں میں سے ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑ۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے جو پیدا ہوگا بدکار اور سخت کافر پیدا ہوگا۔]

قوم عاد کو اس وقت تباہ کیا گیا جب شر اور فساد نے ان کے دلوں میں یہاں تک گھر کرلیا کہ شریر اور مفسد اور ظالم ان کی قوم کے لیڈر اور حاکم بن گئے، اور اہل خیر و صلاح کے لیے نظام اجتماعی میں کوئی گنجائش باقی نہ رہی

وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُوْا باٰیٰتِ رَبِّھِمْ وَعَصَوْا رُسُلَہ‘ وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَکُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ (ہود۱۱ ۵۹)

[اور یہ عاد ہیں جنھوں نے اپنے رب کے حکم سے انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر جبار دشمنِ حق کا اتباع کیا۔]

قومِ لوط کو اس وقت ہلاک کیا گیا جب ان کا اخلاقی شعور اتنا کند ہوگیا اور ان میں بے حیائی یہاں تک بڑھ گئی کہ علانیہ مجلسوں اور بازاروں میں فواحش کا ارتکاب کیا جانے لگا‘ اور فواحش ہونے کا احساس ہی باقی نہ رہا

اَءِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ۵لا وَتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَط (عنکبوت۲۹ ۲۹)

[(لوط ؑ نے کہا کہ) تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس جاتے ہو اور راستوں میں لوگوں کو چھیڑتے اور ستاتے ہو اور اپنی محفلوں میں بدکاریاں کرتے ہو۔]

اہلِ مدین پر اُس وقت عذاب نازل ہوا جب پوری قوم خائن اور بد معاملہ اور بے ایمان ہوگئی۔ کم تولنا اور زیادہ لینا کوئی عیب نہ رہا اور قوم کا اخلاقی احساس یہاں تک فنا ہوگیا کہ جب ان کو اس عیب پر ملامت کی جاتی تو شرم سے سر جھکا لینے کے بجائے وہ الٹا اس ملامت کرنے والے کو ملامت کرتے‘ اور ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ان میں کوئی ایسا عیب بھی ہے جو ملامت کے قابل ہو۔ وہ بدکاریوں کو برا نہ سمجھتے بلکہ جو ان حرکات کو برا کہتا اسی کو برسرِ غلط اور لائقِ سرزنش خیال کرتے:

وَیٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۔۔۔۔۔۔ قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَہُ کَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَاِنَّا لَنَرٰکَ فِیْنَا ضَعِیْغًا ج وَلَوْ لَا رَھْطُکَ لَرَجَمْنٰکَ۔ (ہود ۱۱ ۸۵،۹۱)

[(شعیبؑ نے کہا) اور اے میری قوم کے لوگو! انصاف کے ساتھ ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔ انھوں نے جواب دیا اے شعیب! تو جو باتیں کہتا ہے ان میں سے تو اکثر ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں، اور ہم تو تجھے اپنی قوم میں کمزور پاتے ہیں اور اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے۔]

بنی اسرائیل کو ذلت و مسکنت اور غضب و لعنت الٰہی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ اس وقت صادر ہوا جب انھوں نے بدی اور ظلم اور حرام خوری کی طرف لپکنا شروع کیا‘ ان کی قوم کے پیشوا مصلحت پرستی کے مرض میں مبتلا ہوگئے‘ ان میں گناہوں کے ساتھ رواداری پیدا ہوگئی‘ اور ان میں کوئی گروہ ایسا نہ رہا جو عیب کو عیب کہنے والا اور اس سے روکنے والا ہوتا

۱۔ وَتَرٰی کَثِیْرًا مِّنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَط لَبِءْسَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o لَوْ لَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمُ وَاَکْلِھِمْ السُّحْتَ لَبِءْسَ مَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ۔ (المائدہ۵ ۶۲۔۶۳)

[تو ان میں سے اکثر کو دیکھتا ہے کہ گناہ اور حدودِ الٰہی سے تجاوز اور حرام خوری کی طرف لپکتے ہیں۔ یہ کیسی بری حرکتیں تھیں جو وہ کرتے تھے۔ کیوں نہ ان کے مشائخ اور علما نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام کے مال کھانے سے منع کیا؟ یہ بہت برا تھا جو وہ کرتے ہیں۔]

۲۔ لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاو‘ دَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo کَانُوْا لَا یَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرِ فَعَلُوْہُ ط (المائدہ۵۷۸۔۷۹)

[بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیھم السلام کی زبان سے لعنت کرائی گئی اس لیے کہ انھوں نے سرکشی کی اور وہ حد سے گزر جاتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو برے افعال سے نہ روکتے تھے۔]

اس آخری آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو احادیث منقول ہیں وہ قرآن کریم کے مقصد کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ سب روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:

بنی اسرائیل میں جب بدکاری پھیلنی شروع ہوئی تو حال یہ تھا کہ ایک شخص اپنے بھائی یا دوست یا ہمسایہ کو برا کام کرتے دیکھتا تو اس کو منع کرتا اور کہتا کہ اے شخص خدا کاخوف کر، مگر اس کے بعد وہ اسی شخص کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتا اور یہ بدی کا مشاہدہ اس کو اس بدکار شخص کے ساتھ میل جول اور کھانے پینے میں شرکت کرنے سے نہ روکتا۔ جب ان کا یہ حال ہوگیا تو ان کے دلوں پر ایک دوسرے کا اثر پڑ گیا اور اللہ نے سب کو ایک رنگ میں رنگ دیا اور ان کے نبی داؤد اور عیسیٰ بن مریم علیم السلام کی زبان سے اُن پر لعنت کی۔

راوی کہتا ہے کہ جب حضورؐ سلسلہ تقریر میں اس مقام پر پہنچے تو جوش میں آکر اٹھ بیٹھے اور فرمایا:

قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم پرلازم ہے کہ نیکی کا حکم کرو اور بدی سے روکو اور جس کو برا فعل کرتے دیکھو اس کا ہاتھ پکڑ لو اور اسے راہ راست کی طرف موڑ دو اور اس معاملے میں ہرگز رواداری نہ برتو ورنہ اللہ تمھارے دلوں پر بھی ایک دوسرے کا اثر ڈال دے گا اور تم پر بھی اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح بنی اسرائیل پر کی۔

اعتقاد اور عمل کے فساد کا حال وبائی امراض کا سا ہے۔ ایک وبائی مرض ابتدا میں چند کمزور افراد پر حملہ کرتا ہے۔ اگر آب و ہوا اچھی ہو‘ حفظانِ صحت کی تدابیر درست ہوں‘ نجاستوں اور کثافتوں کو دور کرنے کا کافی انتظام ہو‘ اور مرض سے متاثر ہونے والے مریضوں کا بروقت علاج کر دیا جائے تو مرض وبائے عام کی صورت اختیار کرنے نہیں پاتا اور عام لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، لیکن اگر طبیب غافل ہو‘ حفظانِ صحت کا محکمہ بے پروا ہو۔ صفائی کے منتظم نجاستوں اور کثافتوں کے روا دار ہو جائیں‘ تو رفتہ رفتہ مرض کے جراثیم فضا میں پھیلنے لگتے ہیں اور آب و ہوا میں سرایت کرکے اس کو اتنا خراب کر دیتے ہیں کہ وہ صحت کے بجائے مرض کے لیے سازگار ہو جاتی ہے۔ آخر کار جب بستی کے عام افراد کو ہوا‘ پانی غذا‘ لباس‘ مکان غرض کوئی چیز بھی گندگی اور سُمِیَّت سے پاک نہیں ملتی تو ان کی قوت حیات جواب دینے لگتی ہے اور ساری کی ساری آبادی وبائے عام میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر قوی سے قوی افراد کے لیے بھی اپنے آپ کو مرض سے بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ خود طبیب اور صفائی کے منتظم اورصحت عامہ کے محافظ تک بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہلاکت سے محفوظ نہیں رہتے جو اپنی حد تک حفظان صحت کی جملہ تدبیریں اختیار کرتے اور دوائیں استعمال کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہوا کی سُمِیَّت‘ پانی کی گندگی‘ وسائل غذا کی خرابی‘ اور زمین کی کثافت کا ان کے پاس کیا علاج ہوسکتا ہے۔

اسی پر اخلاق و اعمال کے فساد اور اعتقاد کی گمراہیوں کو بھی قیاس کر لیجیے۔ علما قوم کے طبیب ہیں۔ حکام اور اہلِ دولت‘ صفائی اور حفظان صحت کے ذمہ دار ہیں۔ قوم کی غیرت ایمانی اور جماعت کا حاسّہ اخلاقی بمنزلہ قوتِ حیات (Vitality) ہے۔ اجتماعی ماحول کی حیثیت وہی ہے جو ہوا‘ پانی‘ غذا اور لباس و مکان کی ہے، اور حیات قومی میں دین و اخلاق کے اعتبار سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کاوہی مقام ہے جو صحت جسمانی کے اعتبار سے صفائی و حفظانِ صحت کی تدابیر کا ہے۔ جب علما اور اولی الامر اپنے اصلی فرض یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دیتے ہیں اور شر و فساد کے ساتھ رواداری برتنے لگتے ہیں تو گمراہی اور بداخلاقی قوم کے افراد میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور قوم کی غیرتِ ایمانی ضعیف ہوتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ سارا اجتماعی ماحول فاسد ہو جاتا ہے‘ قومی زندگی کی فضا خیر و صلاح کے لیے نامساعد اور شر و فساد کے لیے سازگار ہو جاتی ہے‘ لوگ نیکی سے بھاگتے ہیں اور بدی سے نفرت کرنے کے بجائے اس کی طرفکھنچنے لگتے ہیں‘ اخلاقی قدریں الٹ جاتی ہیں، عیب ہنر بن جاتے ہیں اور ہنر عیب۔ اس وقت گمراہیاں اور بداخلاقیاں خوب پھلتی پھولتی ہیں اور بھلائی کا کوئی بیج برگ و بار لانے کے قابل نہیں رہتا۔ زمین‘ ہوا اور پانی سب اس کو پرورش کرنے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کی ساری قوتیں اشجار خبیثہ کو نشوونما دینے کی طرف مائل ہو جاتی ہیں۔ جب کسی قوم کا یہ حال ہو جاتا ہے تو پھر وہ عذاب الٰہی کی مستحق ہو جاتی ہے اور اس پر ایسی عام تباہی نازل ہوتی ہے جس سے کوئی نہیں بچتا خواہ وہ خانقاہوں میں بیٹھا ہوا رات دن عبادت کررہا ہو۔

اس کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج (الانفال ۲۵)

[بچو اس فتنے سے جو صرف انھی لوگوں کو مبتلائے مصیبت نہ کرے گا جنھوں نے تم میں سے ظلم کیا ہے۔]

ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ بدی کو اپنے سامنے نہ ٹھہرنے دو‘ کیونکہ اگر تم بدی سے رواداری برتو گے اور اس کو پھیلنے دو گے تو اللہ کی طرف سے عذاب عام نازل ہوگا اور اس کی لپیٹ میں اچھے اور برے سب آجائیں گے۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح اس طرح فرمائی ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُعَذِّبُ الْعَامَّۃَ بِعَمَلِ الْخَاصَّۃِ حَتّٰی یَرَوُ الْمُنْکَرَ بَیْنَ ظَھْرَا نِیْھِمْ وَھُمْ قَادِرُوْنَ عَلٰی اَنْ یُّنْکِرُوْہُ فَلاَ یُنْکِرُوْہُ فَاِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ عَذَّبَ اللّٰہُ الْخَاصَّۃَ وَالْعَامَّۃَ۔

[سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ، تفہیم الاحادیث، ج ۶، ص ۴۰۴]

اللہ خاص لوگوں کے عمل پر عام لوگوں کو عذاب نہیں دیتا، مگر جب وہ اپنے سامنے بدی کو دیکھیں اور اس کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کو نہ روکیں تو اللہ خاص اور عام سب کو مبتلائے عذاب کر دیتا ہے۔

قوم کی اخلاقی اور دینی صحت کو برقرار رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہے کہ اس کے ہر فرد میں غیرت ایمانی اور حاسّہ اخلاقی موجود ہو جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جامع لفظ ’حیا‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حیا دراصل ایمان کا ایک جز ہے، جیسا کہ حضورؐ نے فرمایا ہے اَلْحَیَاءُ مِنَ الْاِیْمَانِ (مشکوۃ، ۴۸۴۷) بلکہ ایک موقع پر جب حضورؐ سے عرض کیا گیا کہ حیا دین کا ایک جز ہے۔ تو آپ نے فرمایا بَلْ ھُوَ الذِّیْنُ کُلَّہ‘ یعنی وہ پورا ایمان ہے۔

حیا سے مراد یہ ہے کہ بدی اور معصیت سے نفس میں طبیعی طور پر انقباض پیدا ہو، اور دل اس سے نفرت کرے۔ جس شخص میں یہ صفت موجود ہوگی وہ نہ صرف قبائح سے اجتناب کرے گا بلکہ دوسروں میں بھی اس کو برداشت نہ کرسکے گا۔ وہ برائیوں کو دیکھنے کا روادار نہ ہوگا۔ ظلم اور معصیت سے مصالحت کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ جب اس کے سامنے قبائح کا ارتکاب کیا جائے گا تو اس کی غیرتِ ایمانی جوش میں آجائے گی اور وہ اس کو ہاتھ سے یا زبان سے مٹانے کی کوشش کرے گا، یاکم از کم اس کا دل اس خواہش سے بے چین ہو جائے گا کہ اس برائی کو مٹا دے:

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذَالِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ۔

[تفہیم الاحادیث، ج۶، ص ۴۴]

تم میں سے جو کوئی بدی کو دیکھے وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے اور اگر ایسا نہ کرسکتا ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو دل سے اور یہ ضعیف ترین ایمان ہے۔

جس قوم کے افراد میں عام طور پر یہ صفت موجود ہوگی اس کا دین محفوظ رہے گا اور اس کا اخلاقی معیار کبھی نہ گر سکے گا‘ کیونکہ اس کا ہر فرد دوسرے کے لیے محتسب اور نگراں ہوگا اور عقیدہ و عمل کے فساد کو اس میں داخل ہونے کے لیے کوئی راہ نہ مل سکے گی۔

قرآن مجید کا مقصد دراصل ایسی ہی ایک آئیڈیل سوسائٹی بنانا ہے جس کا ہر فرد اپنے قلبی رجحان اور اپنی فطری غیرت و حیا اور خالص اپنے ضمیر کی تحریک پر احتساب اور نگرانی کا فرض انجام دے اور کسی اجرت کے بغیر خدائی فوج دار بن کر رہے

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًاط (البقرہ۲ ۱۴۳)

اور اسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک ’امتِ وسط‘ ۱؂ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو، اور رسولؐ تم پر گواہ ہو۔

اسی لیے بار بار مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا تمھارا قومی خاصہ ہے جو ہر مومن مرد اور عورت میں متحقق ہونا چاہیے

۱۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (آل عمران۳ ۱۱۰)

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم کرتے ہو، بدی سے روکتے ہو ،اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

۲۔ وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (التوبہ۹۷۱)

مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں۔ نیکی کا حکم کرتے اور بدی سے روکتے ہیں۔

۳۔ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ۔ (التوبہ۹۱۱۲)

وہ نیکی کا حکم کرنے والے اور بدی سے روکنے والے اور حدود الٰہی کی حفاظت کرنے والے ہیں۔

۴۔ اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرضِ اَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط (الحج۲۲۴۱)

یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں حکومت بخشیں گے تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور بدی سے روکیں گے۔

اگر مسلمانوں کا یہ حال ہو تو ان کی مثال اس بستی کی سی ہوگی جس کے ہر باشندے میں صفائی اور حفظانِ صحت کا احساس ہو۔ وہ نہ صرف اپنے جسم اور اپنے گھر کو پاک صاف رکھے‘ بلکہ بستی میں جہاں کہیں غلاظت اور نجاست دیکھے اس کو دور کر دے‘ اور کسی جگہ گندگی و کثافت کے رہنے کا روادار نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی بستی کی آب و ہوا پاک صاف رہے گی۔ اس میں امراض کے جراثیم پرورش نہ پا سکیں گے اور اگر شاذ و نادر کوئی شخص کمزور اور مریض الطبع ہوگا بھی تو اس کا بروقت علاج ہو جائے گا‘ یا کم از کم اس کی بیماری محض شخصی بیماری ہوگی‘ دوسروں تک متعدی ہو کر وبائے عام کی صورت نہ اختیار کرسکے گی،لیکن اگر مسلمانوں کی قوم اس بلند درجے پر نہ رہ سکے تو سوسائٹی کی دینی و اخلاقی صحت کوبرقرار رکھنے کے لیے، کم از کم ایک ایسا گروہ تو ان میں ضرور موجود رہنا چاہیے جو ہروقت اس خدمت پر مستعد رہے اور اعتقاد کی گندگیوں اور اخلاق و اعمال کی نجاستوں کو دور کرتا رہے۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط (آل عمران۳۱۰۴)

تم میں ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلانے والی ہو‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔

یہ جماعت علما اور اولوالامر کی جماعت ہے جس کا امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں منہمک رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا شہر کے محکمہ صفائی و حفظانِ صحت کا اپنے فرائض میں مستعد رہنا ضروری ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے فرض سے غافل ہو جائیں اور قوم میں ایک جماعت بھی ایسی باقی نہ رہے جو خیر و صلاح کی طرف دعوت دینے والی اور منکرات سے روکنے والی ہو تو دین و اخلاق کے اعتبار سے قوم کی تباہی اسی طرح یقینی ہے جس طرح جسم و جان کے اعتبار سے اس بستی کی ہلاکت یقینی ہے جس میں صفائی و حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہ ہو۔ اگلی قوموں پر جو تباہیاں نازل ہوئی ہیں وہ اسی لیے ہوئی ہیں کہ ان میں کوئی گروہ بھی ایسا باقی نہ رہا تھا جو اُن کو برائیوں سے روکتا اور خیر و صلاح پر قائم رکھنے کی کوشش کرتا

۱۔ فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ اَنْجَیْنَا مِنْھُمْ ج (ہود ۱۱ ۱۱۶)

پھر کیوں نہ اُن قوموں میں جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں ایسے اہلِ خیر موجود رہے جو لوگوں کو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ نکلے بھی تو بہت کم، جن کو ہم نے ان قوموں میں سے بچا لیا۔

۲۔ لَوْلَا یَنْھٰھُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِھِمُ السُّحْتَ۔ (المائدہ۵۶۳)

کیوں نہ ان کے علما اور مشائخ نے ان کو بری باتیں کہنے اور حرام خوری کرنے سے باز رکھا؟

پس قوم کے علما و مشائخ اور اولوالامر کی ذمہ داری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ وہ صرف اپنے ہی اعمال کے جواب دہ نہیں بلکہ پوری قوم کے اعمال کی جواب دہی بھی ایک بڑی حد تک ان پر عائد ہوتی ہے۔ ظالم‘جفا کار اور عیش پسند امرا اور ایسے امرا کی خوشامدیں کرنے والے علما و مشائخ کا تو خیر کہنا ہی کیا ہے‘ ان کا جو کچھ حشر خدا کے ہاں ہوگا اس کے ذکر کی حاجت نہیں، لیکن جو امرا، اور علما و مشائخ اپنے محلوں اور اپنے گھروں اور اپنی خانقاہوں میں بیٹھے ہوئے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کی داد دے رہے ہیں وہ بھی خدا کے ہاں جواب دہی سے بچ نہیں سکتے کیونکہ جب ان کی قوم پر ہر طرف سے گمراہی اور بداخلاقی کے طوفان امڈے چلے آرہے ہوں تو ان کا کام یہ نہیں ہے کہ گوشوں میں سر جھکائے بیٹھے رہیں‘ بلکہ ان کاکام یہ ہے کہ مرد میدان بن کر نکلیں اور جو کچھ زور اور اثر اللہ نے ان کو عطا کیا ہے اس کو کام میں لا کر اس طوفان کا مقابلہ کریں۔ طوفان کو دور کرنے کی ذمہ داری بلاشبہہ ان پر نہیں‘ مگر اس کے مقابلے میں اپنی پوری امکانی قوت صَرف کر دینے کی ذمہ داری تو یقیناًان پرہے۔ اگر وہ اس میں دریغ کریں گے تو ان کی عبادت و ریاضت اور شخصی پرہیز گاری ان کو یوم الفصل کی جواب دہی سے بری نہ کر دے گی۔ آپ محکمہ صفائی کے اس افسر کو کبھی بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے جس کا حال یہ ہو کہ شہر میں وبا پھیل رہی ہو‘ اور ہزاروں آدمی ہلاک ہو رہے ہوں‘ مگر وہ اپنے گھر میں بیٹھا خود اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان بچانے کی تدبیر کر رہا ہو۔ عام شہری اگر ایسا کریں تو چنداں قابلِ اعتراض نہیں لیکن محکمہ صفائی کا افسر ایسا کرے تو اس کے مجرم ہونے میں شک نہیں کیا جاسکتا۔

(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۳ھ۔ مارچ ۱۹۳۵ء)