انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیلی بندرگاہ کا سودا اتنے مہنگے داموں کیوں کیا؟

کرتی دوبے ، نامہ نگار، بی بی سی اردو 1 فروری 2023

انڈیا کی سب سے مشہور کاروباری شخصیت گوتم اڈانی نے اسرائیل کی دوسری بڑی بندرگاہ خرید لی ہے اوراسرائیلی وزیر اعظم نے اس سودے کو اسرائیل و انڈیا کے لیے ایک ’سنگ میل‘ قرار دیا جبکہ گوتم اڈانی کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل میں مزید سرمایہ کاری کریں گے۔

یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اڈانی گروپ کو مشکلات کا سامنا ہے اور دنیا میں سرمایہ کاری پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی ’ہنڈن برگ‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایشیا کی امیر ترین شخصیات کی فہرست میں اڈانی گروپ کا نام نیچے آ گیا ہے۔

اسی لیے اڈانی گروپ کی جانب سے اسرائیل کے سب سے بڑے تفریحی مقام اور دوسری بڑی تجارتی بندرگاہ کی خریداری پر خاصی لے دے ہو رہی ہے۔

یاد رہے کہ اڈانی گروپ اور اسرائیل کے درمیان یہ معاہدہ گزشتہ عشرے میں اسرائیل میں کسی بھی غیر ملکی کمپنی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔
اڈانی گروپ دنیا میں بندرگاہیں بنانے اور ان کا نظم و نسق چلانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ اسرائیل کی اس بڑی بندرگاہ کو پٹّے پر دینے کے لیے ٹینڈر گذشتہ برس جولائی میں کھلے تھے اور اس مقابلے میں اڈانی گروپ اور سپیشل اکنامک زون لمیٹڈ اوّل قرار پائے تھے۔

اس لیز یا پٹّے کی معیاد سنہ 2054 تک ہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیلی بندرگاہ کی آمدن میں 70 فیصد حصہ اڈانی گروپ کا ہوگا جبکہ اس کی 30 فیصد ملکیت اسرائیلی کمپنی، گودات کے پاس ہو گی۔

حالیہ معاہدے کے حوالے سے اسرائیلی اخبار ہاریٹز میں گذشتہ جولائی میں ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹینڈر جیتنے کے لیے اڈانی گروپ نے جو پیشکش کی تھی، کوئی بھی دوسری کمپنی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
اس مضمون کے مطابق ’حائفہ کی بندرگاہ کو پٹًے پر لینے کے لیے اڈانی گروپ دو سال سے کوشش کر رہا تھا اور جب اس گروپ نے بولی لگائی تو یہ دوسرے نمبر پر آنے والی بولی سے 55 فیصد زیادہ تھی۔ اسرائیل کا اندازہ تھا کہ یہ سودا 870 ملین ڈالر تک کا ہوگا، لیکن اڈانی گروپ نے ایک اعشاریہ 18 ارب ڈالر کی پیشکش کر دی جو کہ اسرائیلی حکومت کے اندازوں سے کہیں زیادہ تھی۔‘

جب اسرائیلی کمپنیوں کو معلوم ہوا کہ اڈانی گروپ نے اتنی بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کر دی ہے تو انھوں نے اپنے ٹینڈر واپس لے لیے۔

اخبار کا مزید کہنا تھا کہ اڈانی گروپ کی جانب سے اتنی غیر متوقع پیشکش سے واضح ہو گیا تھا کہ گوتم اڈانی کی نظر میں یہ محض ایک تجارتی معاہدہ نہیں تھا بلکہ وہ اس سرمایہ کاری کو اسرائیل اور انڈیا کے درمیان تعلقات کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بندرگاہ کی فوجی اہمیت کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔

اسرائیل میں مقیم انڈین صحافی ہریندر مشرا کے مطابق ’ یہ کوئی معمولی (کاروباری) معاہدہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک سٹریٹیجِک فیصلہ ہے۔ مسٹر اڈانی کی پیشکش اتنی بڑی تھی کہ اسرائیلی کمپنیاں اور خود اسرائیلی حکومت حیران ہو گئی تھی کیونکہ اس بندرگاہ کی حالت بہت خراب ہے۔ نہ صرف سہولیات اور یہاں پر موجود تعمیراتی ڈھانچہ بلکہ انتظامی اعتبار سے بھی اس بندرگاہ کی حالت غیر ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھیں تو (آپ کو لگتا ہے کہ) اڈانی گروپ کی طرف سے اتنی بڑی پیشکش کے پیچھے کوئی بڑی وجہ موجود ہے۔ بندرگاہ پر ابھی تک کام ہو رہا ہے۔‘

چین کا خوف اور امریکی دباؤ


انڈیا کی مختلف بندرگاہوں پر 13 ٹرمینل کا نظم و نسق اڈانی گروپ کے پاس ہے اور ملک کی کل تجارتی آمدن میں اس گروپ کا حصہ 24 فیصد ہے۔

مغربی ممالک میں اڈانی پورٹ کی کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔

اس تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی حائفہ بندرگاہ میں اڈانی گروپ کی سرمایہ کاری سے ایشیا اور یورپ کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا اور اڈانی گروپ بحیرہ روم کے ممالک میں تجارتی اعتبار سے ایک بڑا ایشیائی کھلاڑی بن جائے گا۔


گذشتہ برس جب یہ معاہدہ طے پایا تھا تو گوتم اڈانی نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’یہ معاہدہ سفارتی اور تجارتی اہمیت کا حامل ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں حائفہ میں موجود ہوں، اس مقام پر جہاں سنہ 1918 میں انڈیا کی گھڑ سوار فوجوں نے عسکری تاریخ کی سب سے بڑی مہم کی سربراہی کی تھی۔‘


14 جولائی کو جب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل کے دورے پر تھے تو اس وقت ایک غیر متوقع سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تھی جو سفارتی دنیا میں ایک بہت بڑا قدم تھا۔
اس سربراہی کانفرنس میں جو بائیڈن ، اسرائیلی وزیر اعظم ، نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے حکمران محمد بن زائد نے شرکت کی تھی۔


اس کانفرنس کا مقصد امریکہ، اسرائیل، انڈیا اور متحدہ عرب امارات کے مابین تجارت کو فروغ دینا تھا۔ اس کانفرنس کو چین، ایران اور پاکستان کے درمیان قائم ہونے والے اتحاد کے مقابل اتحاد کے طور پر بھی دیکھا گیا۔


کانفرنس کے نتائج بھی جلد ہی سامنے آنا شروع ہو گئے اور جس دن یہ کانفرنس منعقد ہوئی اسی روز گوتم اڈانی نے حائفہ بندرگاہ کی نجکاری کی پیشکش قبول کر لی تھی۔


ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ ’ اس بندرگاہ کی نجکاری کا سودا مسٹر اڈانی نے اسی روز کر لیا تھا جس روز ان چار ممالک نے یہ کانفرنس منعقد کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس معاہدے کے لیے امریکہ کی جانب سے بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا تھا کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی چینی کمپنی اس بندرگاہ کا سودا کر لے۔‘


جولائی سنہ 2019 میں حائفہ کے نزدیک واقع ایک اور بندرگاہ چین نے 25 سال کے پٹّے پر حاصل کر لی تھی۔ چونکہ امریکہ اسرائیل کا بہت بڑا اتحادی ہے، اسی لیے چین کی اس سرمایہ کاری پر امریکی انتظامیہ میں کھلبلی مچ گئی تھی۔


امریکہ کو خوف تھا کہ افریقہ اور مشرقی ایشا کے ممالک کے بعد چین اسرائیل میں بھی اپنی موجودگی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔


یاد رہے کہ قومی سلامتی کے امور میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایران کے خلاف امریکہ کو اسرائیل کی طرف سے ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔
ہریندر مشرا کہتے ہیں کہ حائفہ کی بندرگاہ کے ’معاہدے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے کیونکہ امریکہ چین کو (اسرائیل میں سرمایہ کاری) کا کوئی موقع نہیں دینا چاہتا۔ امریکہ اسرائیل پر مسلسل دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ چین کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے۔ لیکن اس کے جواب میں اسرائیل کا کہنا تھا کہ اگر ٹینڈر طلب کیے جانے کے وقت کوئی اور کمپنی آگے نہیں آتی تو سودا اس (چینی) کمپنی کے ساتھ ہو جائے گا جس نے ٹینڈر جمع کر دیا ہے۔ اس صورت حال میں امریکہ نے یہ یقینی بنایا کہ جو بھی ہو جائے یہ بندرگاہ چین کے ہاتھ میں نہیں جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ انڈیا اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اس لیے اسرائیل میں چین کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ انڈیا کے لیے بھی پریشانی کا باعث تھا۔


اسرائیل میں عشرے کی سب سے بڑی سرمایہ کاری


اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اڈانی گروپ کے ساتھ معاہدہ اسرائیل میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی سب سے بڑی مثال ہے۔


حائفہ کی بندرگاہ کا محل وقوع عسکری اعتبار سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ بندرگاہ بحیرہ روم میں ایشیا اور یورپ کے مشترکہ مفادات کا ایک بڑا مرکز ثابت ہو سکتی ہے۔


کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حائفہ کی بندرگاہ کے فعال ہو جانے کے بعد سوئز کینال کی اہمیت بھی کم ہو جائے گی۔


ہریندر مشرا کے مطابق اس بندرگاہ پر ’انڈیا کی آمد اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اگر اس بندرگاہ کو اس خطے کا مرکز بننا ہے تو اسرائیل کا اپنے پڑوسی ممالک (لبنان، اردن اور شام) کے ساتھ تعاون میں بھی اضافہ ہو گا۔ ان ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات زیادہ اچھے نہیں ہیں، لیکن اگر انڈیا اس بندرگاہ کے منصوبے میں شامل ہو جاتا ہے تو اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کو قریب لانا زیادہ آسان ہو جائے گا۔‘


کہا جا رہا ہے کہ آنے والے برسوں میں اڈانی گروپ یہاں ریل کی پٹری بھی بچھائے گا جس کے بعد اردن کے راستے حائفہ اور سعودی عرب بھی ریلوے کے ذریعے آپس میں منسلک ہو جائیں گے۔
حائفہ کی تاریخ اور انڈیا


منگل کو معاہدے کے اعلان کے موقع پر گوتم اڈانی کی موجودگی میں اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ اس مقام پر اس معاہدے کا طے پانا ایک سنگ میل ہے۔


’انڈیا نے آج سے سو برس پہلے اس شہر کو آزاد کرایا تھا اور انڈیا آج پھر اس بندرگاہ کے راستے اسرائیل کو معاشی طور پر مضبوط کر رہا ہے۔‘


اسرائیل میں 23 ستمبر کے دن کو ’یوم حائفہ‘ کے طور پر منایا جاتا ہے کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے دوران سنہ 1918 میں اسی روز برطانوی راج کی جانب سے لڑتے ہوئے انڈیا کے گھڑ سوار فوجیوں نےحائفہ کو ترک اور جرمن فوجوں سے آزاد کرایا تھا۔

انڈیا، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کا نیا اتحاد ’آئی ٹو یو ٹو‘ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  ، 16 جون 2022

 چار ممالک کے اس نئے اتحاد کا نام I2U2 (آئی ٹو یو ٹو) ہوگا۔

اس گروپ میں 'آئی ٹو' انڈیا اور اسرائیل کے لیے اور ’یو ٹو‘ امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے لیے ہے۔

ان چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ اکتوبر 2021 میں ہوئی تھی۔ انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر اس میٹنگ میں شرکت کے لیے اسرائیل گئے تھے۔

اس وقت چار ممالک کے اس گروپ کا نام ’انٹرنیشنل فورم فار اکنامک کوآپریشن‘ تھا۔

اب چاروں ممالک کے سربراہ اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔

امریکہ نے کیا کہا؟

صدر بننے کے بعد سے جو بائیڈن کے سعودی عرب اور اسرائیل کے پہلے دورے کے اعلان کے بعد امریکی عہدیدار نے کہا کہ 'کچھ شراکت دار مشرقِ وسطیٰ سے باہر بھی ہیں۔ صدر آئی ٹو یو ٹو ممالک کے سربراہان کے ساتھ ایک ورچوئل کانفرنس میں شریک ہوں گے۔'عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'اس دوران ہم غذائی تحفظ کو لاحق خطرات اور دیگر شعبوں میں تعاون پر بات کریں گے۔ صدر اسرائیل کے وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ، انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور متحدہ عرب امارات کے صدر محمد بن زاید کے ساتھ ان مذاکرات کے منتظر ہیں۔'


صدر بائیڈن اسرائیل کے دورے کے بعد مقبوضہ غربِ اردن جائیں گے جہاں وہ فلسطینی حکام کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔ اس کے بعد وہ سعودی عرب جائیں گے۔ یہاں بائیڈن خلیجی تعاون کونسل کی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ مصر، عراق اور اردن سمیت نو ممالک کے سربراہان اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔


اس سب میں انڈیا کی اہمیت کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ 'انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ یہ صارفین کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ جدید ٹیکنالوجی اور انتہائی مطلوب پراڈکٹس کا تیار کنندہ بھی ہے۔ کئی شعبے ہیں جہاں یہ ممالک مل کر کام کر سکتے ہیں چاہے وہ ٹیکنالوجی ہو، کاروبار، ماحولیات، کووڈ 19 اور سکیورٹی۔'


جب نیڈ پرائس سے پوچھا گیا کہ اس گروپ کا مقصد کیا ہے تو اُنھوں نے کہا کہ وہ اتحاد اور شراکت دار جو پہلے موجود تھے اُن کی صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔

کیا یہ اتحاد مغربی ایشیا کا کواڈ اتحاد ہے؟


اکتوبر 2021 میں جب پہلی مرتبہ انڈیا، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات پر مبنی اس گروپ کے وزرائے خارجہ اجلاس ہوا تھا تو بحری سلامتی، انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی اور ٹرانسپورٹ جیسے اہم معاملات پر بات کی گئی تھی۔


اس وقت اجلاس کا ایک اہم نکتہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کا قیام تھا۔ انڈیا میں عرب امارات کے اس وقت کے سفیر نے اس اتحاد کو 'مغربی ایشیا کا کواڈ' قرار دیا تھا۔


بائیڈن انتظامیہ نے جنوری 2021 میں حکومت میں آنے کے بعد سے کئی گروپس کے قیام کا اعلان کیا ہے جن میں آسٹریلیا امریکہ اور برطانیہ (آکس)، اور افغانستان، پاکستان اور ازبکستان کے ساتھ چار فریقی مذاکرات شامل ہیں۔

اس سے قبل امریکی صدر بائیڈن نے گذشتہ ماہ جاپان کے دورے میں انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک (آئی پیف) کا بھی اعلان کیا تھا جس میں انڈیا سمیت 13 ممالک شامل ہیں۔


بائیڈن نے سب سے پہلے اکتوبر 2021 میں آئی پیف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس انڈو پیسفک اکنامک فریم ورک کی تشکیل کی کوشش کرے گا۔ اس کے ذریعے ہم تجارت میں آسانی، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی سٹینڈرڈائزیشن، اور سپلائی چین کے معاملات میں بہتری لائیں گے۔'


اُنھوں نے کہا کہ 'ہم امریکہ کی مضبوطی، کاربن کے اخراج میں کمی، اور صاف توانائی سے متعلق کاروبار کے فروغ کے اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کریں گے جن میں انفراسٹرکچر، لیبر اور قانون سازی بھی شامل ہیں۔'

آئی پیف آزادانہ تجارت کے روایتی معاہدوں سے مختلف ہو گا کیونکہ ایسے معاہدے کافی وقت لے لیتے ہیں اور ان پر شریک ممالک کے دستخط چاہے ہوتے ہیں۔


آئی پیف میں شامل 13 ممالک میں امریکہ، آسٹریلیا، برونائی، انڈیا، انڈونیشیا، جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں۔‘


صدر جو بائیڈن اس دورے سے ایک اور تاریخ رقم کریں گے۔ وہ پہلی مرتبہ اسرائیل سے براہِ راست ریاض جائیں گے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔


سعودی عرب نے حال ہی میں متحدہ عرب امارات جانے والی اسرائیلی پروازوں کو اپنی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔


بائیڈن اب سے 50 برس قبل پہلی مرتبہ اسرائیل گئے تھے جب وہ سینیٹر تھے۔


انڈیا اور امریکہ کواڈ گروپ کے بھی رکن ہیں۔


امریکہ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈریلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ یا کواڈ نامی اس گروپ کی تجویز سنہ 2007 میں جاپانی وزیرِ اعظم شنزو آبے نے دی تھی جس کی حمایت باقی ممالک نے کی۔ اسی برس جاپان میں ان ممالک کا اجلاس ہوا۔


اس گروپ کے بنیادی مقاصد میں سے ایک انڈو پیسفک خطے میں چین کے مقابلے کے لیے آزادانہ تجارت کو فروغ دینا ہے۔


اس کے علاوہ انڈیا متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی ایک آزدانہ تجارت کا معاہدہ کرنے والا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ وزیرِ اعظم مودی بھی متحدہ عرب امارات کا دورہ کر سکتے ہیں۔