معاشی مقاطعہ کی شرعی حیثیت

از مفکراسلام مولانازاہدالراشدی صاحب 

حوالہ: 

روزنامہ اوصاف، اسلام آباد

تاریخ اشاعت: 

۱۳ نومبر ۲۰۲۳ء

فلسطینی مظلوم بھائیوں کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت و درندگی کے خلاف احتجاج کے طور پر امت مسلمہ کے بہت سے حلقے اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اور شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے بھی اسے ایک بیان میں ایمانی غیرت اور قومی حمیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ یہ معاشی مقاطعہ قوموں کے درمیان جنگ کا ایک حصہ ہوتا ہے اور جہادِ اسلامی کا بھی اہم شعبہ ہے ۔آج کی گفتگو میں دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صورتحال کے حوالے سے ایک دو واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ معاشی کشمکش، بائیکاٹ اور ناکہ بندی وغیرہ قوموں کی باہمی آویزش کا ہمیشہ سے حصہ چلی آ رہی ہے، جناب نبی اکرمؐ نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کے بعد دس سالہ مدنی دور میں ستائیس کے لگ بھگ جنگوں میں خود شرکت فرمائی ہے اور اس دوران معاشی محاصرہ، ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے بہت سے واقعات تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں دو پیش کر رہا ہوں۔


انصار کے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ رسول اکرمؐ کی ہجرت کے بعد اور بدر کے معرکہ سے قبل عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ گئے تو قریش کے سردار ابوجہل نے انہیں دیکھ کر یہ کہہ کر ان سے الجھنے کی کوشش کی کہ تم نے ہمارے دشمنوں کو پناہ دی ہے اور ان کی مسلسل حمایت و نصرت کر رہے ہو، تم اتنے آرام اور اطمینان سے مکہ مکرمہ آکر عمرہ کیسے کر سکتے ہو؟ بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت سعد بن معاذؓ نے ابوجہل کو اس کا سختی سے جواب دیا اور فرمایا کہ اگر تم نے مجھ سے الجھنے کی کوشش کی تو یہ یاد رکھنا کہ تمہارے قریش کے تجارتی قافلے شام جاتے اور آتے ہیں جس کے راستے میں ہم رہتے ہیں، ہم نے اگر راستہ بند کر دیا تو شام کے ساتھ تمہاری تجارت کا ماحول باقی نہیں رہے گا۔ ابوجہل یہ سن کر رک گیا اور اسے مزید کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ جبکہ حضرت سعد بن معاذؓ اطمینان کے ساتھ عمرہ ادا کر کے واپس مدینہ منورہ تشریف لے آئے، ان کی معاشی ناکہ بندی کی دھمکی کام کر گئی اور اس نے ابوجہل کے قدم روک لیے۔

دوسرا واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ہے کہ یمامہ کے علاقہ سے بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثالؓ قبول اسلام سے پہلے عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ جا رہے تھے کہ راستہ میں مسلمان مجاہدین کے ایک گروپ کے قابو آگئے اور گرفتار کر کے قیدی کے طور پر مدینہ منورہ لائے گئے۔ اس دور کے معمول کے مطابق انہیں مسجد نبویؐ کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ گرفتار ہونے والے کافر قیدیوں کو اس طرح مسجد نبویؐ کے ماحول میں ایک دو روز رکھا جاتا تھا تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے اسلام اور مسلمانوں کا دینی ماحول دیکھ لیں، جس کے بعد اکثر یہ قیدی مسلمان ہو جایا کرتے تھے۔ ثمامہ بن اثالؓ ایک بڑے قبیلہ کے سردار تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قید کے دوران پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ کا قیدی ہوں، قتل کریں گے تو بدلہ لینے والے موجود ہیں وہ اپنا کام کر لیں گے، اور اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو ناشکری نہیں کروں گا۔ جناب نبی اکرمؐ نے انہیں آزاد کر دیا۔ وہ مسجد نبویؐ کے ماحول میں دو تین روز گزار چکے تھے، آزاد ہونے کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور حضورؐ سے دریافت کر کے عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ چلے گئے جہاں ان کے اسلام قبول کرنے کی خبر پہنچ چکی تھی اور قریش کے کچھ لوگوں کو ان پر غصہ تھا۔ مگر جب بعض حضرات نے اس غصہ میں ان سے چھیڑ چھاڑ کرنا چاہی تو انہوں نے کہا کہ دیکھو تمہارے ہاں مکہ مکرمہ میں گندم ہمارے علاقے یمامہ سے آتی ہے، اگر میرے ساتھ کوئی گڑبڑ کی تو یمامہ کے علاقہ سے گندم کا ایک دانہ تمہارے پاس نہیں پہنچ پائے گا۔ انہوں نے صرف دھمکی نہیں دی بلکہ یمامہ واپس پہنچ کر اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ انہوں نے وہاں کے زمینداروں اور کسانوں کو مکہ مکرمہ گندم بھیجنے سے منع کر دیا جس پر قریش کو بہت پریشانی ہوئی، انہوں نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد بھیجا کہ آپ کے ساتھ ہمارا جنگ نہ کرنے کا معاہدہ (صلح حدیبیہ) چل رہا ہے مگر آپ کے ایک ساتھی نے یمامہ سے مکہ مکرمہ گندم کی سپلائی روک دی ہے۔ آپؐ نے حضرت ثمامہ بن اثالؓ کو خط لکھ کر سپلائی بحال کرنے کا کہا اور انہوں نے ناکہ بندی ختم کر دی۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک کے واقعات میں سے یہ دو میں نے یہ بتانے کے لیے عرض کیے ہیں کہ معاشی بائیکاٹ، محاصرہ اور ناکہ بندی قوموں کے درمیان جنگ کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی جہاد کا بھی ایک اہم شعبہ ہے اور سنتِ نبویؐ اور اسوۂ صحابہ کرامؓ کے مطابق ہے۔ اس لیے بیت المقدس کی آزادی اور فلسطینی مظلوموں کی حمایت کے لیے ان کی دشمن ممالک کے خلاف معاشی بائیکاٹ ملی غیرت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایمانی تقاضہ بھی ہے جسے منظم و مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے لیے اپنے اپنے حصہ کی محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔