پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے رزلٹ کا نیا نظام کیسے کام کرے گا؟

پاکستان میں میٹرک اورانٹر میڈیٹ کے
 رزلٹ کا نیا نظام کیا ہے؟
عمر دراز ننگیانہ
بی بی سی اردو ۲۲ نومبر ۲۰۲۳

پاکستان میں میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے نتیجے تیار کرنے کے طریقہ کار کو بدلا جا رہا ہے۔ نئے طریقہ کار کے مطابق امتحانات کے بعد نتیجہ اب نمبروں میں نہیں بلکہ گریڈز میں آیا کرے گا اور یہ گریڈز حتمی گریڈنگ پوائنٹس یعنی جی پی اے کا تعین بھی کریں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2025 کے بعد جب نیا نظام تین مراحل سے گزرنے کے بعد مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے طلبہ کے رزلٹ کارڈز پر نمبرز نہیں ہوں گے۔

ان کی جگہ ہر مضمون میں الگ الگ اور مجموعی طور پر حاصل کیے گئے گریڈز اور گریڈنگ پوائنٹس درج ہوں گے۔ آخر میں مجموعی طور پر حاصل کیا گیا کمیولیٹو یعنی سی جی پی اے بھی درج کیا جائے گا۔

نئے نطام میں ایک اور پیشرفت یہ بھی کی گئی ہے کہ ’ایف‘ گریڈ یعنی ’فیل‘ کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی جگہ ’یو‘ گریڈ لے گا جس کا مطلب ہو گا ’ان سیٹیسفیکٹری‘ یعنی یہ گریڈ لینے والے طالب علم کی کارکردگی ’تسلی بخش نہیں‘۔

پرانے نظام میں جب کسی طالب علم کو کوئی مضمون پاس کرنا ہوتا تھا تو اسے کم از کم 33 یا 33 فیصد نمبر درکار ہوتے تھے۔ نئے نظام میں پاس کے اس پیمانے کو تبدیل کر کے 33 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کر دیا جائے گا۔

اس نئے نظام کا نفاذ پورے ملک میں یکساں ہو گا اور اس کا آغاز رواں تعلیمی سال یعنی 2023 سے کر دیا گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سنہ 2024 کے امتحانات کے بعد آنے والے رزلٹ کارڈز پر نئے نظام کے گریڈ موجود ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان میں مختلف پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ’میرٹ‘ کا نظام بھی بدل جائے گا۔ مثال کے طور پر اس سے پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلوں کے لیے دوڑ میں امیدواروں کو معلوم ہوتا تھا کہ انھیں داخلے کیے لیے کم از کم کتنے نمبر درکار ہوں گے۔

نئے نظام کے مطابق یہ مقابلہ اب سی جی پی اے پر منتقل ہو جائے گا۔ تو یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس تبدیلی سے پاکستان میں تعلیم کے معیار میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی آئے گی بھی یا نہیں؟

یہ نظام کام کیسے کرے گا اور پرانا نظام بدلنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس حوالے سے وضاحت کے لیے بی بی سی نے متعلقہ ادارے انٹر بورڈز کوآرڈینیشن کمیشن یعنی آئی بی بی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح سے بات کی۔

نیا گریڈنگ نظام ہے کیا؟


آئی بی سی سی کے ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ امتحانات کے نتائج دینے کا نیا نظام باقی دنیا میں رائج جدید طریقہ کار سے مطابقت رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انھوں نے پرانے نظام کا متبادل تلاش کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو دو قسم کے بین الاقوامی طریقوں کا جائزہ لیا گیا۔

ان میں ایک پوائنٹس سسٹم تھا یعنی 9 سے لے کر ایک تک پوائنٹس دیے جاتے ہیں یا پھر دوسرا انگریزی حروف یعنی ایلفابیٹس کا 7 نکاتی نظام ہے۔

ان کے مطابق ’ہم نے اس نظام کو اپنانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ پہلے سے بھی ہمارے ہاں کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے اور لوگ اس سے واقف ہیں‘ تاہم پاکستان میں رائج کیا جانا والا نیا نظام 7 نکاتی کے بجائے دس نکاتی ہو گا۔‘

اس نئے نظام کے دس پوائنٹس کے مطابق اے پلس پلس سب سے اول گریڈ ہو گا۔ یہ 95 فیصد سے 100 فیصد تک کارکردگی دکھانے والے طلبہ کو ملے گا۔ اس کا مطلب ’ایکسیپشنل‘ ہو گا اور اس کے گریڈنگ پوائنٹس 5 ہوں گے جو کہ جی پی کی سب سے زیادہ حد ہے۔

اسی طرح اے پلس کا جی پی 4.7 ہو گا اور کارکردگی 90 سے 95 فیصد کے درمیان ہو گی۔ یوں دسواں اور سب سے آخری گریڈ ’یو‘ یعنی ’ان سیٹیسفیکٹری‘ ہو گا جو 40 فیصد سے کم کارکردگی پر دیا جائے گا اور اس کا جی پی اے صفر ہو گا۔

ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ ’اس کا مطلب یہ ہو گا طالب علم کی کارکردگی تسلی بخش نہیں اور اس کو دوبارہ تیاری کر کے امتحان دینے کی ضرورت ہے۔‘ یو گریڈ بنیادی طور پر ایف گریڈ کو ختم کرے گا اور کوئی بھی مضموں یا مجموعی طور پر سیشن پاس کرنے کی حد 40 فیصد کارکردگی ہو گی۔

یہ نظام پرانے نظام سے کیسے مختلف ہے؟


پرانے نظام میں امحانات کے نتائج میں بنیادی طور پر نمبرز مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جن کی بنیاد پر گریڈز کا تعین کیا جاتا ہے تاہم اس میں جی پی یا سی جی پی اے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ یہ نظام بنیادی طور پر انگریزی حروفِ تہجی کے 6 نکات پر مشتمل ہوتا ہے۔

اس میں سب سے بڑا گریڈ اے اور سب سے بُرا گریڈ ایف ہے، جس کا مطلب فیل ہے۔ لفظ ’فیل‘ اس کے سامنے درج کیا جاتا ہے جو رزلٹ کارڈ کا حصہ ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ تعلیمی معیار پرکھنے کے لیے امتحانات کے جدید بین الاقوامی نظام ’فیل‘ کے لفظ کو منظر پر آنے نہیں دیتے۔

ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پرانے نظام کے مطابق طالب علموں کو نمبرز دیے جاتے تھے اور صرف اسی پر ان کی کارکردگی کو جانچا جاتا تھا۔ ضروری نہیں کہ یہ ان کی حقیقی کارکردگی کی صحیح عکاسی کرتے ہوں۔‘

اسی طرح وہ مزید کہتے ہیں کہ پرانے نظام کے مطابق رزلٹ کارڈز پر طالب علم کو اس کی کارکردگی کے حوالے سے فیڈبیک دینے کا کوئی طریقہ بھی نہیں تھا جو نئے نظام میں شامل کیا گیا ہے۔

ان کے مطابق ’اب جو نئے رزلٹ کارڈز آئیں گے ان پر پہلے مرحلے میں نمبرز بھی ہوں گے اور ساتھ جی پی اور گریڈز بھی ہوں کے جیسا کہ جی پی 5 اور گریڈ اے پلس پلس لیکن جب یہ مکمل طور پر رائج ہو جائے گا تو نمبرز مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔‘

یہ نظم کب اور کیسے لاگو ہو گا؟


آئی بی سی سی کے سربراہ ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ میٹرک اور انٹرمیڈییٹ کے امتحانات کے لیے یہ نظام تمام صوبوں اور پورے ملک میں یکساں طور پر ایک ہی وقت میں نافذ کیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے بتدریج نفاذ کے لیے اس کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے تاکہ طالب علم، اساتذہ اور تعلیمی ادارے اس کے لیے تیاری کر پائیں اور انھیں جو تبدیلیاں لانی ہیں اس کے لیے انھیں موزوں وقت دیا جائے۔

پہلے مرحلے کا آغاز سنہ 2023 کے تعلیمی سال سے ہو گا۔ ’سنہ 2023 میں ہی جی پی اے رزلٹ کارڈز پر آ جائے گا لیکن ساتھ نمبرز بھی رہیں گے۔ سنہ 2024 میں دوسرے مرحلے میں گریڈز کا بھی شامل کیا جائے اور سنہ 2025 میں گریڈز اور جی پی اے ہو گا نمبرز نہیں ہوں گے۔‘

نمبرز نہ ہونے کا مطلب ہے کہ کسی بھی مضمون کے یا مجموعی طور پر کل نمبرز اور حاصل کردہ نمبرز دونوں نہیں ہوں گے۔ رزلٹ کارڈ پر ہر ایک مضمون کے سامنے اس میں حاصل کردہ جی پی اے اور گریڈز ہوں گے اور آخر میں مجموعی گریڈ اور سی جی پی اے دیا گیا ہو گا۔

اسی طرح جی پے اے کے بعد ایک خانہ ’ریمارکس‘ کے لیے چھوڑا جائے گا، جس میں طالب علم کو انفرادی طور پر فیڈ بیک بھی دی جا سکے گی۔

’امتحانات بھی سال میں دو ہوں گے‘


ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ جب ’فیل‘ کا گریڈ ختم کر دیا گیا ہے اور پاس ہونے کی حد کو بڑھا کر 40 فیصد کر دیا گیا ہے تو اس کے ساتھ ایک تبدیلی یہ بھی کی گئی ہے کہ امتحانات بھی سال میں دو ہوں گے۔

’پہلے بھی ہمارے ہاں سال میں دو امتحانات ہوتے تھے لیکن اس میں دوسرا امتحان سپلیمینٹری ہوا کرتا تھا یعنی وہ مضموں جو پاس نہیں ہو پائے ان کے لیے دوبارہ امتحان دیا جاتا تھا لیکن اب دو سالانہ امتحان ہوں گے اور طالب علم دونوں میں بیٹھ سکے گا۔‘

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جس طرح برطانیہ میں کیمبرج کے امتحان کے لیے طالب علم اپنی مرضی کے سالانہ امتحان میں حصہ لے سکتا ہے اسی طرح نئے نظام کے تحت طالب علم میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے دونوں سالانہ امتحانوں میں سے مخلتف مضامین کا انتخاب کر پائے گا۔

’یعنی اگر وہ چاہے تو تین مضمون پہلے سالانہ امتحان میں اور باقی تین مضمون دوسرے سالانہ امتحان میں دے سکتا ہے۔ جن مضامین کی اس کی تیاری جس وقت ہو گی وہ اس کے مطابق امتحان کا انتخاب کر پائے گا۔‘

نیا نظام لانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟


ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ادارے اور دیگر کئی تعلیمی اداروں کی سطح پر اس کے لیے کوشش کافی عرصہ پہلے شروع کی گئی تھی تاہم پہلا قدم نہیں اٹھایا جا رہا تھا۔

ان کے مطابق ’ہمارے ہاں مسئلہ یہی ہے کہ کون کرے گا یعنی پہل کون کرے گا۔ بہت سے تکنیکی مسائل حائل ہو جاتے تھے لیکن اب ہم نے مجموعی طور پر سب کی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس نظام کو بدل دیں۔‘

ڈاکٹر غلام علی ملاح کے مطابق نمبروں پر منحصر پرانا نظام غیر ضروری طور پر بچوں کو ایک دوڑ میں ڈال دیتا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اسی طرح سکول اور کالجوں کے درمیان بھی ایک غیر ضروری مقابلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اسی کی بنیاد پر بہت سے کالج اپنی تشہیری مہمات چلاتے تھے۔‘

ان کے مطابق اس تمام کا اثر طالب علم کی تعلیمی کارکردگی پر اس طرح پڑتا تھا کہ وہ حقیقی طور پر سمجھ بوجھ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے کسی بھی طریقے سے محض نمبرز حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کر لیتا تھا۔ اس طرح اس کی حقیقی تعلیمی کارکردگی سامنے نہیں آتی۔

انھوں نے کہا کہ ’دنیا بھر میں کافی عرصے سے یہ نظام ختم ہو چکا ہے اور تعلیمی اداروں میں امتحانات کا اصل مقصد کسی طالب علم کی حقیقی تعلیمی قابلیت کو جانچنا ہوتا ہے نا کہ محض نمبروں کے لیے پڑھے گئے علم کو جانچنا۔‘

ڈاکٹر غلام علی ملاح کے مطابق تمام صوبوں کے تمام بورڈز آئی بی سی سی کے ممبران میں شامل ہیں اور ان کی متفقہ رائے کے بعد یہ نظام یکساں طور پر پورے ملک میں رائج کیا جا رہا ہے۔

نئے نظام میں ’میرٹ‘ پر کیا اثر پڑے گا؟


اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام علی ملاح نے بتایا کہ وہ تمام تعلیمی ادارے جو انٹرمیڈیٹ یا میٹرک کے بعد ’میرٹ‘ کے اعتبار سے داخلے دیتے ہیں وہ اپنا طریقہ کار نئے گریڈز کے نظام پر منتقل کر لیں گے۔

جیسا کہ میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے اگر پہلے میرٹ حاصل کردہ نمبروں کی ایک شرح ہوتی تھی تو اب وہ سی جی پی اے سے بدل جائے گی ’اور اس کے بعد میڈیکل کالجز یا یہ تعلیمی ادارے جو اپنے انفرادی داخلہ امتحانات لیتے ہیں ان کی کارکردگی میرٹ کا تعین کرے گی۔‘

ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ اس گریڈز کے نظام کی طرف تبدیلی سے پہلے اور بعد میں بھی یہ بحث بھی شروع ہوئی کہ صرف امتحانات کے طریقہ کار کو کیوں بدلا جا رہا ہے اور اس سے کیا فرق پڑے گا اگر تعلیمی اداروں میں پڑھانے کا طریقہ کار وہی پرانا رہے گا۔

ان کے مطابق ’ہم نے بھی اس بحث کو سنا لیکن پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پہلے امتحانات کے طریقہ کار کو بدلتے ہیں، باقی طریقہ کار خود بخود اس کے مطابق ڈھل جائے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ نظام میں تبدیلی لانے کا یہ زیادہ واضح طریقہ کار ہو سکتا تھا۔

’جب امتحانات کا طریقہ کار بدل جائے گا تو پھر استاد بھی خود کو اس کے مطابق کرنے کے لیے اپنا پڑھانے کا طریقہ بدل لے گا۔ اس طرح جب تک یہ نیا نظام مکمل طور پر لاگو ہو گا اس وقت تک پڑھائی کا طریقہ کار خود بخود بدل چکا ہو گا۔‘

ڈاکٹر غلام علی ملاح کہتے ہیں کہ بتدریج امتحانات میں پرچوں میں کانسیپچوئیل نوعیت کے سوال شامل کیے جائیں گے اور ’رٹے‘ کے نظام کو ختم کیا جائے۔ اسی طریقے سے یہ نظام نیچے تک سکولوں اور کالجوں کے پڑھانے کے طریقوں میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔