وہ تین خوبیاں جن کی بدولت لوگوں نے نوکری چھوڑ کر اپنے کاروبار میں کامیابی پائی

 ایون ڈیویز
عہدہ,بی بی سی نیوز
7 جون 2024

کیا آپ مزدوری سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور اپنا کاروبار چلانا چاہتے ہیں؟ ترجیحی طور پر ایک ایسا کاروبار جو آپ کے لیے محض لائف سٹائل سے بڑھ کر کچھ ہو یعنی ایسا کاروبار جسے آپ پائیدار بنا کر فروخت کر سکتے ہوں اور جس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر آپ باقی زندگی گزار سکیں۔

بی بی سی نے ایک سریز ’ایسے فیصلے جن سے میں لیڈر بن گیا‘ کے لیے چھ کامیاب کاروباری شخصیات سے بات کی ہے۔ اگرچہ یہ کسی بھی سروے کے لیے بہت ہی مختصر نمونہ ہے مگر ان انٹرویوز سے ہمیں کچھ دلچسپ معلومات ضرور حاصل ہوتی ہیں۔

مجھے ایسے تین طریقوں کے بارے میں پتا چلا جو عام طور پر کاروبار میں کامیابی کے ضامن نہیں سمجھے جاتے مگر وہ ایسے طریقے ہیں کہ جو اس حوالے سے مددگار ہو سکتے ہیں۔

1۔ بغاوت


میں نے یہ نوٹس کیا کہ ان میں سے ایک آپ میں باغیانہ روش کا ہونا شامل ہے۔ ایسے لوگ جو سکول، یونیورسٹی یا پہلے ملنے والی ملازمتوں سے خوش نہ ہوں یا ان کے لیے اپنے آپ کو زیادہ موزوں نہ پاتے ہوں۔

ڈنکن بینیٹائن کی وجہ شہرت ڈریگنز ڈین ٹی سریز ہے۔ ایک افسر سے لڑائی کے بعد انھیں نیوی سے کورٹ مارشل کے ذریعے بڑی بے توقیری سے نکال دیا گیا تھا۔

ڈنکن کا کہنا ہے کہ ’وہ (افسر) میرے معاملات میں مداخلت کرتا تھا اور مجھ پر چیختا تھا تو میں نے سوچا اب یہ اس کام کے لیے موزوں وقت ہے۔‘

ڈنکن نے مجھے بتایا انھوں نے یہ ٹھان لی کہ ’اب کسی کی حکمرانی نہیں تسلیم کرنی۔‘

آن لائن مارکیٹ ڈیپوپ کے بانی سمن بیکرمین نے بھی اپنے بارے میں یہی نتیجہ اخذ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں اپنے تیئں ایک نافرمان قسم کا شخص ہوں۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں ملازمت کا اہل نہیں ہوں۔‘

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب آپ کسی کے لیے کام نہیں کر سکتے تو پھر اپنی راہ پر آزادی سے چلنے والا راستہ ہی باقی بچ جاتا ہے۔

چائے کی کمپنی ’برڈ اینڈ بلینڈ ٹی کو‘ کی بانی کریسی سمتھ نے چائے کی کمپنی قائم کرنے سے قبل کئی ملازمتوں سے سبق سیکھا۔ اس میں ایسی بھی ملازمتیں تھیں جن سے انھیں الرجی تھی مگر پھر بھی انھوں نے ایک وقت پر یہ سب کیا۔ جیسے انھیں بلی سے الرجی ہے مگر وہ بلیوں کی نگہداشت پر بھی مامور رہیں۔ وہ کلب میں بھی ملازمت کر چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ میں ہمیشہ یہ سمجھنے کے لیے سوالات کرتی تھی کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں اور تجاویز کیوں دے رہے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس سے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

انھوں نے اپنے مالکان کی طرف سے عملے اور گاہکوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے ہتک آمیز رویے کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنا کاروبار شروع کریں گی جسے وہ اخلاقیات کے ساتھ چلائیں گی۔

2۔ بے صبری کا عنصر


میں نے جو دوسری خصوصیت نوٹ کی ہے وہ لوگوں میں بے صبری کا پایا جانا ہے۔ ان میں ایک تڑپ سی رہتی ہے اور وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کاروبار میں بڑی منصوبہ بندی کرنے کے بعد کامیاب ہوئے ہیں تو پھر آپ مکمل تصویر کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ ان کاروباری حضرات نے خاص مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور انھوں نے اپنے لیے مواقع پیدا کیے ہیں۔

ٹمو آرمونے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کمپنی ’فین بائٹس‘ کی بنیاد رکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنا پہلا کاروباری سلسلہ سکول سے شروع کیا جب انھوں نے سکول میں دوسرے بچوں سے ریاضی کے سوالات کے حل میں مدد دیتے تھے اور ان سے پیسے لیتے تھے۔

اس کے بعد 17 سال کی عمر میں وہ بزنس مین سمٹ کے منتظمین کو ای میل کی اور اس سمٹ میں پریس پاس کے بدلے کرسیاں لگانے کی آفر کی۔ یوں انھوں نے سر رچرڈ برانسن، لارڈ شوگر اور جیمز کین سے انٹرویوز کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔

ٹمو آرمو کا کہنا ہے کہ ’میں نے (منتظمین کو) یہ ای میل بھیج دی اور 20 منٹ کے اندر مجھے جوابی ای میل موصول ہوئی، جس میں کہا گیا تھا کہ آپ بہت ہی سرپھرے ہیں مگر چلیں ایسا کر لیتے ہیں۔‘

اس بے صبری والے عنصر کو ان کاروباری حضرات میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے قائم کیے ہوئے کاروبار سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔

ایسے کاروبار شروع کرنے والے اپنی خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہوتے ہیں اور انھیں اس بات کا بھی ادراک ہوتا ہے کب کوئی کاروبار کامیابی کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ ایسے میں پھر اس طرح کے کاروبار کو پائیدار ترقی کی منزل تک پہنچانے کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے۔ اس میں تخلیقی صلاحتیں اور دریافت والی خوبیوں کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی۔

اس مرحلے پر بے صبری کو کامیابی کا ضامن نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تاہم ہم نے جن کاروباری شخصیات سے بات کی ان میں بے صبری والی صفت تھی وہ جب کاروبار کامیاب ہو جائے تو پھر وہ آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں اور پھر اس کاروبار کو فروخت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔

آپ 1990 کی دہائی میں ڈاٹ کام کے عروج کے زمانے میں لاسٹ منٹ ڈاٹ کام کے شریک بانی مارتھا لین فاکس کو لیں۔

وہ اس وقت اس ابھرتے ہوئے کاروبار میں نوجوانوں کے لیے کاروباری ثقافت میں ’پوسٹر چائلڈ‘ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اس شعبے میں بچوں نے بڑوں کو وہ سب کر دکھایا جو انٹرنیٹ میں صلاحیت تھی۔ مگر 31 برس کی عمر میں انھوں نے اس کمپنی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک پاپ اپ بینڈ میں ہونے کی طرح تھا جہاں آپ ایک میگا ہٹ کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ نہیں چاہتیں کہ صرف یہی کاروبار ان کا تعارف بن کر رہ جائے۔

3۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ


کامیاب کاروبار کے لیے تیسری صفت یہ ہے کہ بجائے سوچ بچار کے کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہے۔ میرے خیال میں یہی وہ خاصیت ہے جو ان لوگوں کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی سے ہمکنار کراتی ہے، چاہے بات خیراتی ادارہ چلانے کی ہو یا ٹیکنالوجی۔

یہ لوگ ہر شعبے میں کچھ کر گزرتے ہیں۔ ان میں بہت امید ہوتی ہے۔ انھیں یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ خود اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے وہ ہم میں سے اکثر کے مقابلے میں بہتر راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔

یہی وہ جذبہ ہے جس سے وہ صبح سویرے اٹھ جاتے ہیں۔

رچرڈ واکر ایک کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اپنے والد کے کاروبار مارکیٹ چین آئس لینڈ کے ایگزیکٹو چیئرمین ہیں۔ مگر اس کے باوجود رچرڈ میں یہ تڑپ تھی کہ نوجوان چارٹرڈ سروئیر کے طور پر خود کچھ کاروبار شروع کروں۔

انھیں لینجنڈری پراپرٹی ڈیلپر ٹونی گلاگہر نے یہ مشورہ دیا کہ وہ پولینڈ چلے جائیں۔

ان کے مطابق انھوں نے اس مشورے پر عمل کیا کیونکہ پولینڈ نے ابھی ابھی یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی۔

پولینڈ جرمنی جتنا ہی ہے۔ اس کی 40 ملین آبادی ہے جو بہت تعلیم یافتہ ہیں۔

’وہاں کوئی برطانوی نہیں تھے جو کل وقتی نجی پراپرٹی کی کمپنی چلا رہے ہوں۔ لہٰذا میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں ایسا کروں گا۔‘