1- اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا، پھر وصیت پوری کی جائے گی، اور اس کے بعد وراثت تقسیم ہوگی۔ اگر میت اپنی وصیت میں کوئی ناجائز کرے، یا اپنے اختیار کو غلط طور پر اس طرح استعمال کرے جس سے وارثین میں سے کسی کے جائز حقوق متاثر ہوتے ہوں تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ خاندان کے لوگ باہمی رضامندی سے اس کی اصلاح کرلیں یا قاضی شرعی سے مداخلت کی درخواست کی جائے اور وہ وصیت کو درست کردے۔
2- میراث کے معاملہ میں یہ اولین اصولی ہدایت ہے کہ مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے۔
3- اگر میت کا کوئی بیٹا نہ ہو بلکہ صرف بیٹیاں ہوں ، خواہ دو بیٹیاں ہوں یا دو سے زیادہ ، تو میت کے کل ترکہ کے دو تہائی 2/3حصہ ان لڑکیوں میں تقسیم ہوگا، باقی ایک تہائی 1/3 حصہ دوسرے وارثوں میں۔اگر میت کی صرف ایک بیٹی ہو تو اس کو کل میراث کا آدھا حصہ ملے گا۔ لیکن اگر میت کا صرف ایک بیٹا ہو تو اس پر اجماع ہے کہ دوسرے وارثوں کی غیر موجودگی میں وہ کل مال کا وارث ہوگا، اور دوسرے وارث موجود ہوں تو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی سب مال اسے ملے گا۔
4- میت کے والدین میں سے ہر ایک کو کل میراث کا چھٹا 1/6 حصہ ملے گا اگر میت کی کوئی اولاد ہو ۔ خواہ میت کی وارث صرف بیٹیاں ہوں، یا صرف بیٹے ہوں، یا بیٹے اور بیٹیاں ہوں، یا ایک بیٹا ہو، یا ایک بیٹی۔اور اگر اس کی کوئی اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو ایک تہائی 1/3 حصہ ملے گا اور باقی 2/3 حصہ والد کو ملے گا ۔ ہاں اگر اس کے کئی بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کو چھٹا 1/6 حصہ ملے گا۔ ( بھائی بہن ہونے کی صورت میں ماں کا حصہ 1/3 کے بجائے 1/6 کردیا گیا ہے۔ اس طرح ماں کے حصہ میں سے جو حصہ لیا گیا ہے وہ باپ کو ملے گا۔ کیونکہ اس صورت میں باپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ یہ واضح رہے کہ میت کے والدین اگر زندہ ہوں تو اس کے بہن بھائیوں کو حصہ نہیں پہنچتا۔)
5- اگر بیوی فوت ہوجائے خواہ ایک ہو یا ایک سے زیادہ ، اگر اس کی یا ان کی کوئی اولاد نہ ہو تو شوہر کو آدھا حصہ ملے گا ۔ اگر بیوی کی کوئی اولاد ہو تو شوہر کو میراث کا چوتھا 1/4 حصہ ملے گا ۔ اور اسی طرح اگر شوہر فوت ہوجائے تو چوتھا 1/4 حصہ بیوی کو ملے گا اگر شوہر کی کوئی اولاد نہ ہو۔ اگر اولاد ہو تو بیوی کو آٹھواں 1/8حصہ ملے گا ۔ اگر بیوی ایک سے زیادہ ہوں تو یہ 1/4 یا 1/8 حصہ سب بیویوں میں برابری کے ساتھ تقسیم ہوگا۔
6- اگر میت خواہ مرد ہو یا عورت ایسا ہو کہ نہ اس کے والدین زندہ ہوں اور نہ کوئی اولاد (جس کو کلالہ کہتے ہیں) اگر اس کا ماں شریک بھائی یا بہن ہو تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا 1/6حصہ ملے گا۔ باقی 5/6 یا 2/3جو بچتے ہیں ان میں اگر کوئی وارث موجود ہو تو اس کو حصہ ملے گا۔ اگر سگے بھائی بہن، یا وہ سوتیلے بھائی بہن جو باپ کی طرف سے ہوں، تو جیسے پہلے ذکر ہوا ہے کہ اس طرح کے بھائی کو بہن کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملے گا ۔