افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی ؟

یماں بریز
طالبان کمانڈر بریگیڈؑ یئرحضرت محمود  اور
سابق افغان پولیس آفیسر ناصر خان سلیمان زئی
بی بی سی  افغانستان
10 جولائی 2024

’ہم اب بھائیوں کی طرح ہیں‘: افغان پولیس افسر اور طالبان کمانڈر کی دشمنی دوستی میں کیسے بدلی

20 سال تک یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، ہر وقت مسلح اور قتل کرنے کو تیار۔

لیکن اب 50 سالہ طالبان کمانڈر حضرت محمد محمود اور ناصر خان سلیمان زئی، جو افغان پولیس میں اعلی عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے، کابل کی پولیس اکیڈمی میں اکھٹے کام کرتے ہیں۔

چمکتے دمکتے یونیفارم میں ملبوس بریگیڈیئر محمود نے اپنے ساتھی کے ہمراہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم بھائیوں کی طرح ہیں۔‘

یہ دو ایسے افراد کے درمیان حیران کن حد تک قربت کا تعلق بن چکا ہے جو کبھی ایک دوسرے کے دشمن ہوا کرتے تھے۔افغانستان میں دو دہائیوں کی خون ریزی کے بعد وہ ایک ہی یونیفارم پہنتے ہیں، ایک دفتر میں بیٹھتے ہیں، پولیس کے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہیں اور روزانہ چائے کے وقفے میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر خوش گوار لمحات کا لطف اٹھاتے ہیں۔

حضرت محمد محمود اکیڈمی کے چیف ٹرینر ہیں جبکہ ناصر خان سلیمان زئی اکیڈمی کے انتظامی امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔

’ایک مختلف زمانہ‘

طالبان کے عسکری کیمپوں میں تربیت پانے والے حضرت محمود ماضی میں افغانستان کی فوج اور مغربی اتحادیوں کے خلاف عسکریت پسندوں کی ایک یونٹ کی قیادت کر چکے ہیں۔ اس جنگ میں انھوں نے دو بھائی بھی کھوئے ہیں۔

اس دوران طالبان جنگجو زیادہ تر پیچیدہ حملوں میں ملوث رہے جن میں خود کش دھماکے، گاڑیوں کے ذریعے دھماکے کیے جاتے اور مختف شہروں میں اہداف کو نشانہ بنایا جاتا۔

ان کے مخالف امریکی تربیت یافتہ افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں میں پولیس کے تقریبا ڈیڑھ لاکھ اہلکار بھی شامل تھے۔

اسی احاطے میں جہاں اب محمود اور سلیمان زئی مل کر طالبان جنگجوؤں کو تربیت دیتے ہیں، طالبان کے خود کش بمباروں نے حملہ بھی کیا اور اکیڈمی میں تربیت پانے والے نوجوان کیڈٹ مسلسل نشانہ رہتے تھے۔

مفاہمت

جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا اور فوجی افسران کو حکم دیا کہ وہ واپس کام پر آئیں تو ناصر خان سلیمان زئی کابل میں ہی رہے اور پھر محمود کے ساتھ کام کرنے لگے۔

اب محمود اور ناصر کا تعلق دفتر تک محدود نہیں رہا اور وہ ایک دوسرے کے خاندان کی شادیوں میں بھی شریک ہوتے ہیں اور عید پر ایک دوسرے کو مدعو بھی کرتے ہیں۔

اپنے دو بھائی کھو دینے کے باوجود محمود کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ نے ایمنسٹی کی جو سکیم متعارف کروائی اس کی اطاعت نے دونوں اطراف کو کامیابی سے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔

محمود کہتے ہیں کہ ’اس زمانے میں ہم جہاد کر رہے تھے، اب ہم تعمیر نو کر رہے ہیں اور ہم یہ کام اکیلے نہیں کر سکتے۔‘

’ہم ماضی کو مکمل طور پر بھول چکے ہیں۔‘

کابل کی اس پولیس اکیڈمی میں شاید مفاہمت کا حیران کن عمل مکمل ہو چکا ہے لیکن افغان سکیورٹی فورسز کے بہت سے سابق اراکین کا ماننا ہے کہ ان کی زندگیاں اب بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ایک بہت بڑی تعداد ملک سے فرار ہو چکی ہے اور طالبان کے زیر انتظام افغانستان واپس نہیں لوٹنا چاہتی۔

شبیر (فرضی نام) بھی افغانستان کی پولیس میں کام کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ طالبان اور ان کی ایمنسٹی سکیم پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔

طالبان نے جب افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو ان کے کمانڈر کو گرفتار کر لیا گیا اور خود شبیر 20 دن تک چھپے رہنے کے بعد ہرات کے راستے ایران فرار ہو گئے۔

شبیر نے مجھے بتایا کہ ’ہم میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں تھا۔ وہ ہمیں گرفتار کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ جو سابق پولیس افسر ملک میں رہے، وہ یا تو ملک سے باہر جانے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے یا پھر طالبان کے ساتھ کام کرنے میں انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔

نئی پولیس

کیپشنطالبان نے باغی جنگجوؤں کو ایک نئی پولیس فورس میں تبدیل کرنے میں مدد کے لیے سابق پولیس ٹرینرز کی مدد لی ہے
ہمیں پولیس اکیڈمی کا دورہ کروایا گیا۔ یہ ایک بہت وسیع وعریض اور سہولیات سے آراستہ کمپاؤنڈ تھا جس میں ایک پولیس کالج، شوٹنگ رینج، کھیلوں کی سہولیات، وسیع میدان اور مسجد بھی ہے۔

طالبان جو کبھی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کرتے تھے اب صاف ستھری یونیفارم پہنتے ہیں اور پولیس فورس بننے کی تربیت لے رہے ہیں جس کے بعد وہ ملک کی سڑکوں پر سکیورٹی برقرار رکھنے کی ذمہ داری ادا کری گے۔

عام افغان لوگوں کو یہ منظر زیادہ ترغیر حقیقی لگے گا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک دن وہ طالبان کو افغان پولیس کی وردیوں میں دیکھیں گے۔

طالبان نے پولیس فورس میں اپنے جوانوں کو بڑی تعداد میں بھرتی کیا ہے تاہم انھوں نے باغی جنگجوؤں کو ایک نئی پولیس فورس میں تبدیل کرنے کے لیے بہت سے سابق پولیس ٹرینرز سے مدد لی ہے۔

طالبان اب اپنی پولیس فورس کو بڑھانے پر توجہ دے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے تین لاکھ اہلکار فعال ہیں، جو سابقہ ​​حکومت سے دوگنا ہیں، جبکہ سابق افغان نیشنل پولیس کے 70ہزار اہلکار بھی موجود ہیں۔

بی بی سی موجودہ پولیس فورس کی اصل تعداد کی تصدیق نہیں کر سکا۔ امریکی حکومت کے اندازے کے مطابق فوج اور پولیس دونوں میں طالبان کے تقریبا 80 ہزار سرگرم جنگجو موجود ہیں۔

بی بی سی کو نئی ​​پولیس اکیڈمی میں تربیتی عمل تک خصوصی رسائی دی گئی۔ حکام نے پورے دن کی سرگرمیوں کا منصوبہ بنایا تاکہ نئی فورس کے ’پیشہ ورانہ پہلووں‘ کو اجاگر کیا جا سکے۔

پولیس کی جانب سے مشقوں میں ڈرل بھی کروائی گئی جس میں اکیڈمی کے احاطے کے اندر مشتعل مظاہرین کے ہجوم کو کنٹرول کرنا آسان تھا۔

تاہم افغانستان کے کچھ اہم شہروں میں حالیہ مظاہروں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان فورسز کی طرف سے تشدد اور لائیو راؤنڈز کا استعمال اب بھی جاری ہے جس میں اکثر لوگ ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔

کابل پولیس اکیڈمی میں کام کرنے والے 800 سے زائد عملے میں سے 650 سابقہ ​​دور حکومت سے ہیں اور بظاہر ناصر جیسے افسران کے ساتھ اچھا سلوک کیا جا رہا ہے۔

ناصر نے کہا کہ وہ کرنل تھے تاہم انھیں امارت اسلامیہ نے جنرل کے عہدے پر ترقی دی۔ ’میں نے اکیڈمی کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔‘

لیکن ہر کوئی ناصر کی طرح خوش قسمت نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بہت سے پولیس افسران کو طالبان نے ہراساں کیا ہے اور دھمکیاں دی ہیں یہاں تک کے بعض کو قتل بھی کیا ہے۔

لیکن طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ ذاتی انتقامی کارروائیاں تھیں اور سابق پولیس یا سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانا ان کی مجموعی پالیسی نہیں ہے۔

ناصر کے لیے یہ عمل سیاسی نہیں ہے۔ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے مختلف حکومتوں کے تحت افغان پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

انھوں نے کبھی اپنا ملک نہیں چھوڑا اور ان کے دو بڑے بیٹے بھی پولیس میں کام کرتے ہیں۔ ’ہم ایک ہی لوگ ہیں، ہمارا ایک مذہب، ایک ثقافت اور ایک زبان ہے، ہم کیوں دشمن بنیں۔‘

یہ بھی پڑھیں !