طالبان نے افغانستان میں نئی عبوری حکومت کا اعلان کردیا

 عبوری حکومت اور کابینہ کے افراد

 منگل 7 ستمبر 2021 ، کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ طالبان کی نئی عبوری حکومت کے وزیراعظم محمد حسن اخوند ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر ان کے نائب ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ملا برادر عبدالغنی اور مولانا عبدالسلام دونوں مولانا محمد حسن کے معاون ہوں گے جبکہ ملا عمر کے صاحبزادے محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع ہوں گے۔ افغانستان کی عبوری حکومت میں اہم وزراتیں مندرجہ ذیل افراد کے پاس ہوں گی:

افغانستان میں امارات اسلامی کی عبوری حکومت کا اعلان

  • ملا محمد حسن اخوند وزیراعظم
  • ملا عبدالغنی نائب وزیراعظم
  • ملا یعقوب وزیردفاع سرپرست
  • سراج الدین حقانی وزیرداخلہ سرپرست
  • ملا امیر خان متقی وزیرخارجہ سرپرست
  • شیخ خالد دعوت ارشادات سرپرست
  • عباس ستانکزئی نائب وزیر خارجہ
  • ذبیح اللہ مجاہد وزیر اطلاعات مقرر
  • فصیح الدین بدخشانی افغانستان آرمی چیف
  • ملا ہدایت اللہ وزیر مالیات
  • محمد یعقوب مجاہد عبوری وزیر دفاع
  • اسد الدین حقانی عبوری وزیر داخلہ
  • ملا امیر خان متقی وزیر خارجہ
  • مولوی عبدالسلام حنفی ریاست الوزرا معاون

انہوں نے مزید  بتایا کہ اس کے علاوہ شیخ مولوی نور محمد ثاقب وزیر برائے حج و اوقاف، ملا نور اللہ نوری وزیر سرحد و قبائل، ملا محمد یونس اخوندزادہ وزیر معدنیات، حاجی ملا محمد عیسیٰ وزیر پیٹرولیم اور ملا حمید اللہ اخوندزادہ وزیر ٹرانسپورٹ ہوں گے۔ اور خلیل الرحمٰن حقانی وزارت مہاجرین اور تاج میر جواد ریاستی امور کے وزیر ہوں گے۔ اور  ملا عبدالطیف منصور کو وزارت پانی و بجلی، نجیب اللہ حقانی کو برقی مواصلات، عبدالباقی حقانی کو وزارت تعلیم، عبدالحق وثیق کو وزارت انٹیلی جنس کی ذمے داریاں دی گئی ہیں۔ 

ذبیح اللہ نے کابینہ کے اراکین کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ افغانستان بینک کے سربراہ حاجی ادریس ہوں گے، یونس اخونزادہ وزارت دیہی ترقی، ملا عبدالمنان عمری وزارت عوامی بہبود، ملا محمد عیسٰ اخوند وزارت کان کنی، مولوی نور جلال نائب وزیر خارجہ اور ذبیح اللہ مجاہد نائب وزیر اطلاعات و ثقافت ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جنس کے نائب سربراہ اول کی ذمے داریاں ملا تاج میر جواد نبھائیں گے، ملا رحمت اللہ نجیب نائب سربراہ انٹیلی جنس جبکہ نائب وزیر داخلہ برائے منشیات کا عہدہ ملا عبدالحق سنبھالیں گے۔

انہوں نے کہا کہ جن وزرا کے ناموں کا اعلان کیا گیا ہے وہ عبوری طور پر کام کریں گے اور اس میں بعد میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔دوران پریس کانفرنس جب ڈان نیوز کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ افغانستان کا اب پورا نام کیا ہوگا تو انہوں نے جواب دیا کہ  'ملک کا نام افغانستان اسلامی امارات ہو گا'

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں مرضی صرف افغانیوں کی چلے گی اور آج کے بعد کوئی بھی افغانستان میں دخل اندازی نہیں کرسکے گا۔  ذبیح اللہ نے مزید کہا کہ بیشتر ممالک کے ساتھ روابط ہوئے ہیں اور متعدد ممالک کے محکمہ خارجہ کے نمائندگان نے افغانستان کے دورے کیے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ فی الحال شوریٰ اس حکومت کے امور دیکھے گی اور اس کے بارے میں بعد میں دیکھا جائے گا کہ لوگوں کی اس حکومت میں شرکت و شمولیت کیسے ہوگی۔

اسلامی قوانین اور شریعت کا نفاذ

 قائم مقام وزیر اعظم محمد حسن اخوند نے ایک علیحدہ بیان میں غیرملکی افواج کے انخلا، قبضے کے خاتمے اور ملک کی مکمل آزادی پر عوام کو مبارکباد دی۔

انہوں نے کہا کہ ایک پرعزم کابینہ کا اعلان کیا جا چکا ہے جو جلد از جلد اپنا کام شروع کردے گی اور ملک کی قیادت اسلامی قوانین اور شریعت کے نفاذ، ملک کے مفادات کے تحفظ، افغانستان کی سرحدوں کی حفاظت پائیدار امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے سخت محنت کرے گی۔

محمد حسن اخوند نے کہا کہ ملک میں زندگی اسلامی قوانین کے مطابق گزاری جائے گی، ہم ایک پرامن، خوشحال اور خودمختار افغانستان چاہتے ہیں جس کے لیے ہم ایسے تمام عوامل کا خاتمہ کریں گے جو جنگ کے خاتمے کا سبب بنیں اور ہمارے ملک کے عوام مکمل سیکیورٹی اور تحفظ کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ نئی عبوری افغان حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اور مؤثر اقدامات کرے گی جبکہ اسلام کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اقلیتوں اور محروم طبقات کے حقوق کا خیال بھی رکھا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام افغان بغیر کسی امتیاز کے اپنے ملک میں عزت اور امن کے ساتھ رہنے کا حق حاصل کریں گے اور ان کی زندگیوں کے ساتھ ساتھ جان و مال کی حفاظت بھی کی جائے گی۔

ملکی تعمیر و ترقی

عبوری وزیر اعظم نے تعلیم کو اہم بنیادی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ تمام شہریوں کو مذہب اور جدید علوم کی تعلیم کے لیے صحت مند اور محفوظ ماحول فراہم کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم تعلیم کے میدان میں ملکی ترقی کی راہ ہموار کریں گے اور اپنے ملک کو علم کی روشنی سے تعمیر کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک گزشتہ چار دہائیوں سے جنگ اور معاشی بحرانوں سے دوچار ہے اور یقین دہانی کرائی کہ اسلامی امارت افغانستان اپنے تمام وسائل کو معاشی طاقت کے حصول، خوشحالی اور ملکی ترقی کے لیے استعمال کرے گی۔

محمد حسن اخوند نے اپنی حکومت کے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم ملکی ریونیو کو صحیح اور شفاف طریقے سے منظم کرنے کی کوشش کریں گے، بین الاقوامی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تجارت کے مختلف شعبوں کو خصوصی مواقع فراہم کریں گے اور مؤثر طریقے سے بے روزگاری سے لڑنے کی کوشش کریں گے، ہمارا حتمی ہدف اپنے ملک کو جلد از جلد اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہو گا تاکہ ہم جنگ زدہ ملک میں تعمیر نو اور بحالی کا کام موثر انداز میں انجام دے سکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ عبوری حکومت ملک سے غربت کے خاتمے اور معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے افغان تاجروں، سرمایہ کاروں اور سمجھدار شہریوں سے مدد مانگے گی۔

میڈیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت آزاد میڈیا، اس کے کام کے طریقہ کار اور معیار میں بہتری کے لیے کام کرے گی، ہم اسلام کے مقدس اصولوں، ملک کے قومی مفاد اور اپنی نشریات میں غیرجانبداری کو مدنظر رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

محمد حسن اخوند نے اس بات پر زور دیا کہ کسی کو بھی مستقبل کے بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے، ملک کو اپنے لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہے اور ہنر مند افراد بشمول ڈاکٹرز، انجینئرز، اسکالرز، پروفیسرز اور سائنسدانوں کو یقین دلایا کہ ان کی قدر کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی سرکاری گاڑیوں، ہتھیاروں، گولہ بارود، سرکاری عمارتوں اور قومی املاک سمیت سرکاری خزانے کو تباہ، ضائع یا قبضے میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 خواتین کی عدم شمولیت پر طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ کابینہ کی یہ فہرست حتمی نہیں ہے۔ ملک چھوڑنے والی خواتین کو طالبان نے کہا کہ وہ واپس آئیں اور 'اسلامی طرز زندگی گزاریں۔'

بین الاقوامی تعلقات

اس کے علاوہ طالبان باہمی احترام کی بنیاد پر تمام ممالک کے ساتھ مضبوط اور صحت مند تعلقات چاہتے ہیں۔

عبوری وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم ان تمام بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں، قراردادوں اور وعدوں کے پابند ہیں، جو اسلامی قانون اور ملک کی قومی اقدار سے متصادم نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ افغانستان کے پڑوسیوں، خطے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں موجود تمام غیر ملکی سفارت کاروں، سفارت خانوں، قونصل خانوں، انسان دوست تنظیموں اور سرمایہ کاروں کو یقین دلاتے ہیں کہ انہیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، امارت اسلامیہ ان کی مکمل حفاظت اور تحفظ کی کوشش کر رہی ہے، ان کی موجودگی ہمارے ملک کی ضرورت ہے لہٰذا انہیں ذہنی سکون کے ساتھ اپنا کام کرنا چاہیے۔

یہ بھى ٻڑھيں!

افغان طالبان کون ہیں: طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی داستان

افغانستان میں دو دہائیوں تک لڑی جانے والی جنگ سے متعلق 10 اہم سوالوں کے جوابات