الفت بے اثر کو کیا کہئے - کلامِ شاعر بزبانِ شاعر مرزا حامد لکھنوی


اُلفتِ بے اثر کو کیا کہیے
شجرِ بے ثمر کو کیا کہیے

غفلتِ چارہ گر کو کیا کہیے
اور دردِ جگر کو کیا کہیے

خوب بیٹھے بٹھائے مول لیا
مفت کے دردِ سَر کو کیا کہیے

دل جگر ہو گئے تہ و بالا
اُن کی نیچی نظر کو کیا کہے

کعبہ کس سمت ہے، یہ ہوش کہاں
جا رہے ہیں کِدھر کو کیا کہیے

ارے پتھر کہیں پسیجا ہے
نالۂ بے اثر کو کیا کہیے

بات بھی اب تو کی نہیں جاتی
ہائے دردِ جگر کو کیا کہیے

بن گئی ہے نشان منزل کا
گردِ راہِ سفر کو کیا کہیے

ذرّے ذرّے میں اُس کے دنیا ہے
آپ کی رہ گزر کو کیا کہیے

ہو گئے خاک تکتے تکتے راہ
آہ اُس بے خبر کو کیا کہیے 

شبِ فرقت کی تیرگی توبہ
قبر ہے اپنے گھر کو کیا کہیے

ہے عدم پر گمان ہستی کا
اِس فریبِ نظر کو کیا کہیے

کس پہ الزامِ عشق ہے حامد
دل کو کہیے نظر کو کیا کہیے

مرزا حامد لکھنوی